قلبِ میرؔ میں پنہاں بحرِ رازدانی ہے۔ ۔ ۔

 محفوظ کیجئے

قلبِ میر میں پنہاں بحرِ رازدانی ہے
پیر کی کہانی ہے میرؔ کی زبانی ہے

میر ہی نے تو پہلے پیرِ حق کو پہچانا
میرؔ کی شرابِ عشق مدتوں پرانی ہے

پیرِ حق کا دردِ دل میرؔ ہی کو ہے حاصل
قلبِ میرؔ میں کیا کیا دولتِ نہانی ہے

پیر پر شباب اپنا میرؔ نے کیا قرباں
میرؔ کی ضعیفی یوں رشکِ صد جوانی ہے

پیر کی جدائی کا غم تھا جاں گسل لیکن
میرؔ کا وجود اب تک وجہِ زندگانی ہے

کل جو خاص خادم تھا ترجمان و راقم تھا
آج اُس کی ہر خدمت نذرِ بدگمانی ہے

جو فراق میں بیتے  موسمِ خزاں  ہے  وہ
تیرے پاس جو گذرے رُت وہی سہانی ہے

پیر کو نہ دیکھا گر ، میر کی زیارت کر
میرؔ میرے مرشد کی آخری نشانی ہے

عشق ایسا طوفاں  ہے جس کے سامنے ہم دم
علم کا سمندر بھی آج پانی پانی ہے

ہوش کو بڑھاتی ہے اِس شراب کی مستی
آبِ شر نہیں ہے یہ خمرِ آسمانی ہے

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries