مجلس ۵ نومبر ۲۰۱۴ء۔ اللہ ملتا ہے نظر بچانے سے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مجلس کے آغاز میں   ثروت صاحب نےاشعار سنائے ،  کچھ ہی دیر میں حضرت والا اپنے کمرۂ مبارک سے رونق افروز ہوئے اور سلام فرمایا ،  بعد ازیں حضرت اقدس نے  حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب’’ ارشاداتِ دردِ دل  ‘‘    پڑھ کر سنائی  اور تسہیل فرمائی۔  آج کی مجلس  کا دورانیہ تقریباً  ۵۶ منٹ رہا۔

ارشاداتِ دردِ دل

منہ پر تعریف کے متعلق حدیث کی تشریح:منہ پر تعریف کرنا مطلق منع نہیں ہے ۔اس کا حکم بہت وسیع ہے لیکن لوگ سمجھتے نہیں ۔ تنگ نظر ، تنگ دل، تنگ عقل بے وقوفی کی بات کرتے ہیں حالانکہ بڑے بڑے اکابر نے اپنے چھوٹوں کی تعریف کی ہے ۔ خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کتنے صحابہ کی تعریف فرمائی۔

تقویٰ کے بعض انعام: ارشاد فرمایا کہ ایک بات بتائیے کہ کیا آپ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے سب کام آسان ہوجائیں؟ اور کیا چاہتے ہیں کہ کوئی مشکل نہ پیش آئے اور ہر مشکل سے نکل جائیں اور تیسرے کیا آپ چاہتے ہیں کہ روزی ایسی جگہ سے ملے کہ جہاں آپ کو سان و گمان بھی نہ ہو ؟ مجمع نے عرض کیا کہ ضرور چاہتے ہیں تو فرمایا کہ اگر یہ چاہتے ہیں تو تقویٰ اختیار کیجئے گناہوں کو چھوڑ دیجئے۔

اس لیے جب کوئی مشکل پیش آئے تو سوچو کہ کوئی گناہ تو نہیں ہوگیا خصوصاً اِس زمانہ میں آنکھ کا گناہ جو ہے بڑے بڑے لوگ مقطع صورت، گول ٹوپی رکھتے ہوئے اس گناہ میں مبتلا ہیں اِ لّاماشاء اللہ۔ بہت کم لوگ ہیں جو بدنظری سے بچتے ہیں کیونکہ اس کو معمولی گناہ سمجھتے ہیں۔ اگر یہ معمولی گناہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ کا حکم نازل نہ کرتے اور سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کو آنکھوں کا زِنانہ فرماتے اور ناظر اور منظور کو لعنت کی بددعا نہ دیتے۔ بس آج سے توبہ کرلو اور ارادہ کرلو کہ ایک نظر بھی خراب نہیں کریں گے، کرسچن عورت ہو یا مسلمان عورت کسی کو نہیں دیکھیں گے۔ دانت پیس کر نفس سے کہو کہ اے نفس ظالم ہم تیرا خون پی لیں گے۔ اگر اس کو تکلیف ہوتی ہے تو ہونے دو کیونکہ نفس دشمن ہے۔

نفس روئے تو خوش ہوجاؤ کہ دشمن کا رونا ہی اچھا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا دشمن تمہارے پہلو میں ہے۔ اس کو جتنی بھی تکلیف ہو ہونے دو۔ نفس کی تکلیف کو آپ اپنی تکلیف کیوں سمجھتے ہیں۔ یہ آپ کو تکلیف نہیں ہورہی ہے آپ کے دشمن کو ہورہی ہے۔ جس تکلیف سے اللہ مل جائے وہ مبارک تکلیف ہے، اللہ کے مقابلہ میں کوئی تکلیف کچھ نہیں ہے۔ اللہ ملتا ہے نظر بچانے سے، خوب سمجھ لو اللہ ملتا ہے نظر بچانے سے۔

پھر کہتا ہوں، درد دل سے کہتا ہوں کہ نظر خراب کر کے اللہ کو نہ چھوڑئیے، ان مردہ لاشوں کی خاطر اللہ کو ناراض نہ کیجئے، سوچو کہ مردہ لاش کو دیکھا اور اللہ کو چھوڑا۔ آہ!کیا کھویا اور کیا پایا؟ اللہ کے بدلہ میں مردہ کو لے لیا۔ یہ سب مردہ ہیں یا نہیں ؟ گل سٹر کے ختم ہوجائیں گے۔ جو کل مریں گے آج ہی سمجھ لو کہ مرے ہوئے ہیں۔ ان مردہ لاشوں کی چمک دمک کو مت دیکھو کہ عارضی ہے، اللہ کو دیکھو کہ کتنا حسین ہے، اس کا حسن پائیدار ہے، لازوال ہے، ہمیشہ رہنے والا ہے لیکن اللہ اُسی کو ملتا ہے، اللہ کے حسنِ غیر فانی اور جمالِ لازوال کا اِدراک اُسی دل کو ہوتا ہے جو اللہ کے خوف سے ان حسینوں سے نظر بچاتا ہے مَنْ تَرَکَھَا مَخَافَتِیْ پریَجِدُ حَلاَ وَتَہٗ فِیْ قَلْبِہٖ کا وعدہ ہے۔( نظر بچانے پر حلاوتِ ایمانی کا وعدہ ہے)

یاد رکھو کہ نظر بچانے سے دل کی آرزو ٹوٹ جاتی ہے، شدید غم ہوتا ہے کیونکہ ان حسینوں میں حسن اور کشش اللہ ہی نے رکھی ہے تو اس کو چھوڑنے کے بدلہ میں اپنی ذاتِ پاک کو دے دیا کہ تم ہماری مٹھاس اور شیرینی کو پاجاؤ گے، یجد کا لفظ فرمایا کہ تم واجد ہوگے اور تمہارے دل میں اللہ موجود ہوگا۔ یہ خیالی باتیں نہیں ہیں، یہ ظنّیات نہیں ہیں یقینیات ہیں۔ یہ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ عمل کر کے دیکھو اللہ کو موجود پاؤگے اور اس کی حلاوت کو محسوس کروگے۔ لہٰذا گناہوں سے بچو، اللہ تعالیٰ نے تقویٰ میں ہر کام کی آسانی رکھی ہے اور مشکلات و مصیبت کی دوری رکھی ہے اور رزق بے حساب رکھا ہے۔

اللہ کا اسم اور مسمّٰی لازم و ملزوم ہے : اس کے بعدپارک سے واپسی ہوئی کیونکہ ناشتہ کے بعد اسٹینگر روانگی کا نظم تھا۔ حضرت والا، مولانا یونس پٹیل صاحب کے مدرسہ میں اپنے کمرہ میں تشریف لائے اور احقر راقم الحروف کو طلب فرمایا کہ میر کہاں ہے۔( یہ پڑھتے ہوئے حضرت والا میر صاحب پر گریاں طاری ہوگیا  اور روتے ہوئے یہ ارشادات پڑھے) لوگوں نے عرض کیا کہ دوسرے کمرہ میں ہے۔ فرمایا کہ بلاؤ میر کو کہ تمہارا نام لیا جارہا ہے۔ اسم حاضر مسمّٰی غائب۔ پھر فرمایا کہ اللہ کانام ایسا پیارا ہے کہ جہاں ان کا اسم ہوتا ہے مسمّٰی بھی وہیں ہوتا ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے ضروری نہیں کہ اسم کے ساتھ مسمّٰی لازم ہو۔ ممکن ہے کہ اسم ہو اور مسمّٰی نہ ہو لیکن صرف اللہ کا نام ہے کہ مسمّٰی بھی وہیں ہوتا ہے۔ جہاں بھی اللہ کا نام لو اللہ وہاں موجود ہوتا ہے۔

عشق مجازی عذابِ الٰہیہ ہے:  ارشاد فرمایا کہ حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ جس کو دنیا ہی میں جہنم کا مزہ چکھنا ہو وہ ظالم عشقِ مجازی میں جری ہوجائے اور کسی اَمرَد یا کسی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہوجائے۔ اس لیے فرمایا کہ عشقِ مجازی عذابِ الٰہی ہے اور انسان یہ بھی نہیں سوچتا کہ جو آج لڑکا ہے وہ کل نانا ابو ہونے والا ہے۔ جب وہ نانا ابا بن جائے گا، چھوٹے چھوٹے بچے اس کو نانا کہیں گے کیا تب بھی تم اس سے کہو گے کہ میں تم پر عاشق ہوں؟ افسوس ہے کہ انسان کو مستقبل کا خیال نہیں آتا، بس بل کا خیال ہوتا ہے۔ بل کے لیے بلبلاتا ہے اور تل کے لیے تلملاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی لڑکی خوبصورت ہے تو وہ نانی اماں ہونے والی ہے، پھر کیا منہ اس قابل رہے گا، پھر کیا نانی اماں کو منہ دِکھاسکو گے۔ لڑکا نانا ابا ہونے والا ہے، دادا ابا ہونے والا ہے، لڑکی نانی اماں اور دادی اماں ہونے والی ہے۔ پھر کہاں جاؤگے اپنا کالا منہ لے کر   ؎ 

کمر جھک کے مثلِ کمانی ہوئی
کوئی نانا ہوا کوئی نانی ہوئی
ان کے بالوں پہ غالب سفیدی ہوئی
کوئی دادا ہوا کوئی دادی ہوئی

عاشقِ مجاز کے دل پر ہر وقت عذاب رہتا ہے اور دنیا میں بھی عزت نہیں ملتی۔اللہ کے عاشقوں کے جوتے اٹھائے جاتے ہیں اور مجاز یعنی غیر اللہ کے عاشقوں کے سر پہ جوتے مارے جاتے ہیں، کتنا فرق ہے۔ اللہ کے عاشقوں کے جوتے اٹھانا ہر شخص اپنی سعادت سمجھتا ہے اور غیر اللہ سے دل لگایا کسی لڑکے سے کسی لڑکی سے اور اس کے ماں باپ یا بھائیوں کو پتہ چل گیا تو اس کے سر پر جوتے ماریں گے ۔ یہ کیا کم لعنت ہے ؟

حسنِ مجازی سے نجات دلانے والا شعر: 

عورتیں آدھی عقل کی ہیں مگر پوری عقل والوں کی عقل اُڑا دیتی ہیں اور دیکھنے سے جب عقل ہی سلامت نہیں رہے گی تو جو گناہ کرلے وہ کم ہے تو میں نے کہا کہ اُدھر دیکھو مت اور آنکھ بند کرکے میرا یہ شعر پڑھو، دیکھنے سے شعر کا فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ شعر یاد کرلو، بڑے کام کا ہے۔ میرا شعر کوئی ہنسی مذاق کے لیے نہیں ہے، اِصلاح کے لیے ہے   ؎  

آگے سے موت پیچھے سے گو
اے میر جلدی سے کر آخ تھو

عورتوں کے آگے سے موت نکلتا ہے او رپیچھے سے گو اور یہی حال لڑکوں کا بھی ہے اور عورتیں تو کسی وقت حلال ہوسکتی ہیں مثلاً شوہر مرگیا، آپ نے نکاح کے لیے پیغام دے دیا، اس نے قبول کرلیا، ایجاب و قبول ہوگیا اور کام بن گیا لیکن لڑکا کبھی حلال نہیں ہوسکتا، جتنی زیادہ عمر ہوگی اتنی ہی زیادہ اس کی حرمت سمجھ میں آجائے گی، جیسے جیسے عمر بڑھے گی بابا بنا پھر دا دا بنا پھر پردادا بنا ٰپھر قبر میں ختم ہوگیا پھر اپنے منہ پر جوتے مارنے کو دل چاہے گا کہ ہم نے کہاں اپنی زندگی ضائع کی۔ لیکن اس وقت پچھتانے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ عین شبابِ حسن کے وقت نظر کو بچالو، غم اٹھالو اور اس غم کے بدلہ میں اللہ کو پالو، دونوں جہان بنالو۔

خوبصورت الفاظ، گندے معانی: ارشاد فرمایا کہ ان مجازی شاعروں نے امت کا اور بیڑا غرق کردیا۔ خوبصورت الفاظ کے پیچھے مطلب گندا ہوتا ہے ۔ غالب نے کہا تھا   ؎

ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے 

معشوق نے پوچھا کہ غالب صاحب کیا مدعا ہے؟ کہا کہ مجھے کہتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ کہا کچھ تو کہئے، آپ خود ہی تو کہہ رہے تھے کہ کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے، اس نے کہا کہ آپ کا جو مقامِ نفرت ہے وہی میرا مدعا ہے ۔ اس نے کہا کہ اچھا نالائق تو بدمعاشی کرنا چاہتا ہے۔ جوتا نکال کر دس لگائے گا، پھر عاشق صاحب غزل بغل میں دبا کر سر سہلاتے ہوئے بھاگیں گے۔ میرا شعر ہے   ؎ 

میر نے اس بت کا جب پیچھا کیا
کرب و غم نے میر کا پیچھا کیا
اپنے پیچھے کا جو غم دیکھے ہے میر
اس کے پیچھے کا نہ پھر پیچھا کیا

حفاظتِ نظر حفاظتِ قلب کاذریعہ ہے :  ارشاد فرمایا کہ جو آنکھوں کو بچالے تو دل کا بچانا آسان ہے کیونکہ دل آنکھ کے تابع ہے۔ جب آنکھ سے بدنگاہی کرتا ہے تب دل گندا ہوتا ہے اور گندے خیالات آنے شروع ہوجاتے ہیں، جو آنکھ بچالے گا اس کا دل بھی پاک رہے گا۔ دل اللہ کا گھر ہے اگر تم کسی کو مہمان بنانا چاہتے ہو تو کیا اس کوگندی جگہ ٹھہراتے ہو جہاں بلی کتے کا گو ہو یا مردے لیٹے ہوں؟ جہاں کہیں مردہ لیٹا ہوتا ہے تو تم بھی پسند نہیں کرتے کہ وہاں کھانا کھاؤ۔ یہ دل اللہ کا گھر ہے اور ان ہی کا بنایا ہوا ہے اور تم نے مُردوں کی محبت سے اس کو ناپاک کردیا تو اللہ پاک ہے وہ ناپاک گھرمیں نہیں آتا۔ لہٰذا دل کو پاک رکھو اور سکھ کی نیند سو، گناہوں سے بچو اور چین سے رہو۔ سکھ کی نیند سو، نہ ویلیم فائیو کی ضرورت ہے نہ ویلیم ٹین کی ضرورت ہے، جو اللہ کو راضی رکھتا ہے چین سے رہتا ہے ۔

 

 

 

 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries