مجلس۹ نومبر ۲۰۱۴ء۔ حسینوں کا پوسٹ مارٹم اور  فنائیت ِ حسن کا مراقبہ

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مجلس کے آغاز میں  جناب مصطفیٰ  صاحب نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے  اشعار سنائے، ۔ کچھ ہی دیر میں  حضرت والا اپنے کمرۂ مبارک سے رونق افروز ہوئے اور سلام فرمایا ،   ملفوظات ’’ ارشاداتِ دردِ دل ‘‘ پڑھے اور تسہیل فرمائی۔

ارشاداتِ دردِ دل

بس آج سے ارادہ کرلو (حضرت والا نے روتے ہوئے فرمایا) کہ اگر یہ ایک عمل حفاظتِ نظر کا جاری ہوگیا تو میری نجات کے لیے کافی ہے۔ 

 حفاظتِ نظر اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے  قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ اور بخاری شریف کی حدیث زِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ اور مشکوٰۃ  شریف کی روایت  لَعَنَ  اﷲُ النَّاظِرَ وَ الْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بد دعا ہے کہ اﷲ لعنت فرمائے جو بد نظری کرتا ہو یا منظور ہو یعنی خود کو بدنظری کے لیے پیش کرے تو اﷲ و رسول کا حکم توڑ کر کوئی فلاح پاسکتا ہے؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بددعا کیا بیکار جاسکتی ہے؟ چاہے نفلی عبادت کم کرو، چاہے وظیفے کم کرو مگر آنکھ کو خراب مت کرو۔ ایک لمحہ اﷲ کو ناراض کرنا اتنا بد ترین عمل ہے کہ اس سے بدترین عمل کوئی نہیں ہے۔ میرے دوستو! اس کا ارادہ کرلو کہ زندگی کی ہر سانس اﷲ پر فدا کریں گے، زندگی اﷲ نے اس لیے دی ہے کہ ایک سانس بھی ہم اﷲ کو ناراض نہ کریں کیونکہ ان کو ناراض کرنا سب سے بڑی نمک حرامی ، کمینہ پن اور بے حیائی ہے۔

بس سمجھ لو کہ گناہ کی حقیقت ہی بدبو ہے، وہ پست حوصلہ آدمی ہے جو گندی جگہ کا خیال کرتا ہے، بہت ہی ذلیل اور کمینہ ہوتا ہے اور جو اﷲ والا ہوتا ہے وہ پاکیزہ طبیعت اور پاکیزہ خیالات کا حامل ہوتا ہے کیونکہ وہ اﷲ کا نام لیتا ہے اور اﷲ پاک ہے، پاک نام لو گے تو دل میں پاکی پیدا ہو جائے گی۔ اﷲ کا نام پاک ہے، اس کی پاکی بیان کریں گے تو اس کی برکت سے ہم پاک ہوجائیں گے، اﷲ توپاک ہے ہی ہم جو سبحان اﷲکہتے ہیں کہ اﷲ پاک ہے تو اس کی برکت سے ہم پاک ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس معشوقوں اور حسینوں کے پاس کیا ہے، جن کے لیے دنیا پاگل ہو رہی ہے۔ جب کوئی حسین ہگ رہا ہو تو اس کا گو چمچہ میں لے کر اس عاشق صاحب کے منہ میں زبردستی ڈالو تب ان کو معلوم ہوگا کہ ہم کس کے عاشق ہیں، اگر کوئی عاشق کسی حسین کا ایک پلیٹ گو کھالے اور ایک پیالہ پیشاب پی لے تب ہم جانیں کہ تم بڑے عاشق ہو، بڑے بڑے عاشق یہاں فیل ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم پناہ مانگتے ہیں ان گندی چیزوں سے، یہ ہے حسینوں کی حقیقت   ؎

آگے سے مُوت، پیچھے سے گوُ
اے میر جلدی سے کر آخ تھو

اس شعر کو پڑھو اور گو، موت میں اپنی زندگی ضائع مت کرو۔ اﷲ تعالیٰ پوچھیں گے کہ میں نے تم کو کس لیے پیدا کیا تھا؟ کیا گو، موت پر فدا ہونے کے لیے میں نے تمہیں دنیا میں بھیجا تھا ۔ اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے تم کو ولی اﷲ بنانے کے لیے پیدا کیا تھا، اپنا دوست بنانے کے لیے پیدا کیا تھا اِنْ اَوْلِیَائُہٗ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ میرے ولی صرف متقی ہیں۔ تقویٰ نام ہے گناہ سے بچنے کا، گو موت سے بچنے کا، یہ مقامات ایسے ہیں کہ ان کے اندر گھسنے کے تصور ہی سے طبیعت متنفر ہوجاتی ہے اور پھر کچھ دن کے بعد ان حسینوں پر بڑھاپا آئے گا، عورت بھی اسّی برس کی ہوجائے گی، مرد بھی اسّی برس کا ہو جائے گا اور ان کا اِسٹرکچر ہل جائے گا ۔میرے اشعار ہیں   ؎

جب ترا اے دوست اسٹریکچر ہلا
مجھ  پہ  رازِ  حسنِ  ڈسٹمپر  کھلا
حسن جب چہرہ سے زائل  ہو گیا
وہ  نظر  آیا   مجھے  بندر  کھلا

ہاتھ پائوں کانپنے لگیں گے ،گردن ہلنے لگے گی، اب تصور کرو کہ دونوں معانقہ کر رہے ہیں، ایک کی گردن اوپر سے نیچے ہل رہی ہے، دوسرے کی گردن دائیں سے بائیں، دونوں کا معانقہ مشکل ہو جائے گا۔ ایک کی گردن نفی میں ہل رہی ہوگی تو ایک کی اثبات میں، کبھی دو رعشہ کے مریضوں کو معانقہ کرتے دیکھو تو سبق حاصل ہو جائے گا اور اگر لقوہ ہو گیا، منہ ٹیڑھا ہو گیا تو اگر وہ تم کو خود سے بھی بوسہ کی پیشکش کرے تو تم اس کا بوسہ نہیں لو گے حالانکہ ذات وہی ہے، سواریخ وہی ہیں مگر تاریخ اور جغرافیہ بدل گیا۔ حسن کا بگڑا ہوا جغرافیہ عاشقوں کی تاریخ بدل دیتا ہے اور ان کی ساری مستی نکال دیتا ہے۔

اس کے برعکس جو شخص کسی اﷲ والے کا عاشق ہے، اپنے شیخ کا عاشق ہے، وہ شیخ کی محبت سے اﷲ کا عاشق ہوجاتا ہے کیونکہ شیخ سے محبت اﷲ کی محبت حاصل کرنے کے لیے ہی کی جاتی ہے لیکن جو لوگ کسی شیخ سے دین نہیں سیکھتے وہ  رات کی عبادت کے جواہرات تو لوٹ لیتے ہیں مگر دن میں نظر کی حفاظت نہیں کرتے تو رات کاسارا نور دن لے جاتا ہے، اس سے تو بہتر تھا کہ وہ فرض نمازیں جماعت سے پڑھتے اور دن بھر حفاظتِ نظر کا غم اُٹھاتے تو اس غم کے بدلہ میں اﷲ اُن کومل جاتا۔ بڑے بڑے حاجیوں کو، بڑے بڑے عابدوں کو دیکھا ہے کہ جب ائیرہوسٹس آتی ہے مٹکتی، چمکتی، دندناتی اور بھاگتی، دوڑتی تو اس کے چلنے کی آواز سے ان کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔

بس قابلِ مبارک باد ہیں وہ بندے جو اﷲ کے خوف سے ان کی طرف نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتے، جن کے دل اﷲ کی یاد سے جلے بھنے ہوتے ہیں اور جن کی آنکھیں اﷲ کے عشق میں روتی ہیں، اِنہی دو آدمیوں کو مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی مبارک باد پیش کی ہے۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ نے مثنوی لکھی ہے جس میں ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار ہیں، ان ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار میں مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ نے صرف ان دو آدمیوں کو مبارک باد دی ہے کسی اور کو مبارک باد نہیں دی، نہ تہجد گذاروں کو، نہ روزہ داروں کو نہ کسی اور کو، مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ ان کو مبارکباد دیتے ہوئے فرماتے ہیں   ؎

اے ہمایوں دل کہ آں بِریانِ اوست
اے خوشا چشمے کہ آں گِریانِ اوست

وہ دل مبارک ہے، جو اﷲ کے عشق میں جل بھن رہا ہے اور وہ آنکھیں مبارک ہیں جو اﷲ کی یاد میں رو رہی ہیں۔ باقی سب الّو ہیں، جو مرنے والوں پر، مٹی کے ڈھیلوں پر مر رہے ہیں، یہ حسین چاہے کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں مگر ہیں سب مٹی کے ڈھیلے۔ بس اگر مولانا کی مبارک باد لینا ہے تو دو کام کرو، اپنے قلب کو اﷲ کے عشق میں جلا بھنا رکھو اور اﷲ کے عشق میں رونا سیکھ لو تب تمہاری آنکھیں قابلِ مبارک باد ہوں گی اور یہ سب کب ہو گا؟جب نظر کی حفاظت کریں گے۔لاکھ تہجد، لاکھ اشراق، لاکھ اوّابین پڑھ لو لیکن اگر کسی عورت کو یا کسی لڑکے کو بری نظر سے دیکھ لیا تو پھر دیکھو کہ دل کی کیا حالت ہوتی ہے، دل بالکل ویران ہو جائے گا، تاریک معلوم ہوگا۔

یہاں پر میں ایک بات اور کہتا ہوں اور آپ کو یہ بات بتانے والے کم ہی ملیں گے کہ ایئر ہوسٹس کو پیار سے دیکھنا بھی حرام ہے اور غصہ سے دیکھنا بھی حرام ہے، یعنی پیار سے، محبت سے دیکھنا تو حرام ہے ہی مگر غصہ سے دیکھنا بھی حرام ہے کہ غصہ سے ُسرخ آنکھیں نکال کر گھورتے بھی جا رہے ہیں اور اسے دیکھتے ہوئے ڈانٹتے بھی جا رہے ہیں کہ تم نے چائے لانے میں دیر کردی، اس میں شکر کم ڈالی ہے یا مجھے پھیکی چائے دی، شکایت ہو رہی ہے، آنکھیں لال ہیں، مارے غصہ کے چور ہو رہے ہیں لیکن سمجھ لو کہ نفس اپنا کام کرگیا اور غصہ کے رنگ میں مزہ اڑا گیا ۔

بس اﷲ سے دعا مانگا کرو کہ وہ اپنے جذب سے ہم جیسے نالائقوں کو بدونِ استحقاق جذب فرما کر اپنا دوست بنا لے اور اپنی رحمت سے اس میں دیر بھی نہ کرے، یا اﷲ جو لمحہ ہمارا غفلت اور نافرمانی میں گذر رہا ہے اس کو بخش دیجئے۔

    اے اﷲ! غضِ بصر کی ہمت دے دے ، قلب کی حفاظت کی ہمت دے دے، تمام گناہوں سے بچنے کی ہمت دے دے اور اپنی ذاتِ پاک پر اپنی جان فدا کر نے کی مجھے اور میرے دوستوں کو توفیق عطا فرما دے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو جذب فرما لے اور اﷲ والا بنا دے اور بلا استحقاق اپنی رحمت میں ہم کو چھپا لے اور ہمارے عیو ب کو چھپا لے اور اپنی محبت دے دے۔ تمام گناہوں کو چھوڑنے کی خاص کر نظر کی حفاظت کی ہمتِ شیرانہ عطا فرما دے یعنی ہم نفس سے کہہ سکیں کہ اے نفس! اگر تو نے کسی عورت کو دیکھا تو تیرا خون پی لوں گا جیسے شیر ہرن کا خون پی لیتا ہے۔

 یہاں فرمایا ’’ ارشاداتِ دردِ دل ‘‘ کے صفحہ نمبر ۱۷۱ سے ۱۷۷ بعنوان ’’ حسینوں کا پوسٹ مارٹم ‘‘  روزانہ ایک دفعہ پڑھیں اِ س سے حسینوں سے نفرت ہوجائے گی  اور بہت نفع ہوگا۔ لیکن  نظر بچاکر   ہی ہر مراقبہ مفید ہے، کیونکہ اگر بدنظری کرلی تو لعنت میں آگیا پھر کوئی مراقبہ مفید نہیں ،  اس لئے پہلے نظر بچاؤ پھر یہ مراقبہ کرو اور اِن ملفوظات کو روزانہ پڑھو ، اس میں حضرت والا کا دردِ دل ہےان شاء اللہ بہت نفع ہوگا!!

 اوجز المسالک شرح موطاء امام مالک میں لکھا ہے کہ عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مونچھوں کو اس قدر باریک کرتے تھے کہ کھال کی سفیدی دور سے نظر آتی تھی لیکن تھوڑی تھوڑی مونچھیں رکھنا بھی جائز ہے بشرط یہ کہ وہ اوپر والے ہونٹ سے آگے نہ بڑھ جائیں اور ڈاڑھی ایک مٹھی رکھے وہ بھی تینوں طرف سے یعنی دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور سامنے سے ایک مٹھی سے کم نہ ہو، اور ٹخنے سے اوپر پاجامہ رکھنا یہ مسلمان کی شان ہے، مسلمان کی پہچان ہے اور ذریعۂ عرفان ہے کہ یہ آدمی صالح ہے۔ صالح ہونے کی پہچان یہی ہے کہ ڈاڑھی ایک مٹھی سے کم نہ ہو، جیسے ڈاڑھی منڈانا حرام ہے ایسے ہی ایک مٹھی سے کم کترانا بھی حرام ہے۔ جو لوگ کتراتے ہیں وہ دراصل ڈاڑھی رکھنے ہی سے کتراتے ہیں ورنہ ڈاڑھی کو چھوٹی کرنے کی اس کے علاوہ اور کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ کم عمر معلوم ہوں کہ میں ابھی زیادہ بوڑھا نہیں ہوا ہوں اس لیے میری ڈاڑھی ابھی ایک مٹھی نہیں ہے۔ یاد رکھو کہ اﷲ کے نزدیک ایسا شخص نابالغ ہے، اس کی ڈاڑھی توبالغ ہے مگر زبردستی اس کو کم کرکے نابالغ کردیتا ہے۔  اس لیے کوشش کرو، میرے دوستو! میرے مسلمان بھائیو! جنہوں نے ایک مٹھی نہیں رکھی وہ تھوڑی سی کوشش کر کے ایک مٹھی ڈاڑھی رکھ لیں۔ مخلوق سے کیا ڈرنا، اپنی بیویوں سے مت ڈرو کہ ایک مٹھی دیکھ کر گھبراجائے گی۔ ڈاڑھی اﷲ کو دکھانے کے لیے رکھو۔ ایک بزرگ نابینا تھے مگر جمعہ کے دن سرمہ لگاتے تھے۔ ان کی بیوی نے کہا کہ تمہاری آنکھ میں سرمہ بالکل اچھا نہیں لگتا۔ کہنے لگے کہ تمہیں دِکھانے کے لیے ہم نے سرمہ نہیں لگایا، تم کو اچھا لگے یا نہ لگے ہم کو تو اﷲ کو دِکھانا ہے کہ وہ اﷲ خوش ہوجائے گا کہ میرے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت ادا کرکے آیا ہے۔ پس مخلوق پر نظر نہ رکھو، جس کی نظر آسمان پر ہوتی ہے وہ مخلوق سے نہیں ڈرتا، بتائو! اﷲ تعالیٰ سے زیادہ طاقتور ہو؟ پھر مزاحاً فرمایا کہ ڈاڑھی شیرنی کی نہیں ہوتی تو ایسے لوگ جو ڈاڑھی منڈا دیتے ہیں چڑیا گھر نہ جائیں ورنہ شیر سمجھے گا کہ کہیں یہ شیرنی نہ ہو۔

یہاں فرمایاجن لوگوں کو پوری ڈاڑھی رکھنے کی توفیق نہیں ہورہی وہ ’’ ارشاداتِ دردِ دل ‘‘ میںصفحہ نمبر ۱۷۷ تا ۱۷۸ پڑھیں!! ان شاء اللہ توفیق ہوجائے گی۔

یہ تو اﷲ کی ولایت اور دوستی کا اسٹرکچر ہوگیا۔ اب دو کام فنشنگ کے ہیں، ایک آنکھ کی حفاظت کہ اس سے کسی کی بہو، بیٹی اور ماں بہن کو مت دیکھو۔ بتایئے آپ کی بہن، بیٹی، بیوی یا خالہ اور پھوپھی کو کوئی دیکھے تو آپ کو ناگوار ہوگا یا نہیں؟ اسی طرح کسی لڑکے کو بھی بری نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ اگر آپ کو معلوم ہوجائے کہ آپ کے بیٹے کو کوئی بری نظر سے دیکھ رہا ہے تو کتنا غصہ آئے گا، جی چاہے گا کہ اس کو کچا چبا جائوں۔ بس اسی لیے یاد رکھو کہ جب اپنی بیٹی بہو بہن خالہ پھوپھی کو دوسرے کا بری نظر سے دیکھنا تم پسند نہیں کرتے تو تم دوسروں کی بہو بیٹی کو کیوں دیکھتے ہو؟ حفاظتِ نظر کا حکم بھی اﷲ تعالیٰ نے ہماری فطرت کے عین مطابق نازل کیا ہے۔

    اب میں حفاظتِ نظر کے تین دلائل پیش کرتا ہوں۔ پہلے قرآن شریف، پھر بخاری شریف کی حدیث اور پھر ایک حدیث مشکوٰۃ شریف کی

یہ تو اﷲ کی ولایت اور دوستی کا اسٹرکچر ہوگیا۔ اب دو کام فنشنگ کے ہیں، ایک آنکھ کی حفاظت کہ اس سے کسی کی بہو، بیٹی اور ماں بہن کو مت دیکھو۔ بتایئے آپ کی بہن، بیٹی، بیوی یا خالہ اور پھوپھی کو کوئی دیکھے تو آپ کو ناگوار ہوگا یا نہیں؟ اسی طرح کسی لڑکے کو بھی بری نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ اگر آپ کو معلوم ہوجائے کہ آپ کے بیٹے کو کوئی بری نظر سے دیکھ رہا ہے تو کتنا غصہ آئے گا، جی چاہے گا کہ اس کو کچا چبا جائوں۔ بس اسی لیے یاد رکھو کہ جب اپنی بیٹی بہو بہن خالہ پھوپھی کو دوسرے کا بری نظر سے دیکھنا تم پسند نہیں کرتے تو تم دوسروں کی بہو بیٹی کو کیوں دیکھتے ہو؟ حفاظتِ نظر کا حکم بھی اﷲ تعالیٰ نے ہماری فطرت کے عین مطابق نازل کیا ہے۔

بے پردگی بڑا فتنہ ہے، ایک عورت تھی، اس کے شوہر کا بھائی بہت حسین تھا، گھر میں شرعی پردہ نہیں تھا۔ وہ عورت میرے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم سے مرید تھی۔ مکہ شریف میںمیرے شیخ کے پاس اس کا خط آیا کہ میں بہت پریشان ہوں، شوہر کے بھائی کو دیکھتے دیکھتے اس سے عشق ہوگیا، اب میں کیا کروں، پانچوں وقت کی نماز پڑھتی ہوں مگر اس کا عشق دل سے نہیں جاتا۔ حضرت والا نے لکھا کہ حکیم اختر کی ایک کتاب ہے ’’روح کی بیماریاں اور ان کا علاج‘‘ اس کو روزانہ پڑھا کرو۔ اس موقع پر میرے مزہ کو نہ پوچھو کہ مجھے کتنی خوشی ہوئی کہ میری کتاب پڑھنے کا حکم میرا شیخ دے رہا ہے۔ غضِ بصر کی دوسری دلیل کیا ہے؟ یہ دلیل بخاری شریف کی حدیث ہے۔ میں نے پہلے قرآن شریف سے بیان کیا کیونکہ لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ دلیل قرآن میں دکھلائو تو ہم مانیں گے۔ تو میں نے قرآن میں دِکھایا کہ نہیں؟ قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نہیں؟ اگر قرآن شریف میں موجود اﷲ کا حکم نہ مانو گے تو اﷲ تعالیٰ انتقام لے گا، تب ساری قابلیت اور ساری پہلوانی کا پتہ چل جائے گا۔ اگر اﷲ چاہے تو راتوں رات اس کے گردہ میں کینسر پیدا کرسکتا ہے۔ رات کو خیریت سے سویا صبح اٹھا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ تمہارے گردے میں کینسر ہے۔ ایسے قادرِ مطلق کو جو ہر قسم کی بیماری اور ہر قسم کی مصیبت دے سکتا ہے اس کو ناراض کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟

 آنکھوں کا زِنا کرنے والا اﷲ کا ولی ہوسکتا ہے؟ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو ولی بننے کی تمنا رکھتے ہیں اور بد نظری کر کے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہیں۔ ایسے لوگ صرف ولی اﷲ بننے کا خواب دیکھتے ہیں۔ چاہے لاکھ تبلیغی جماعت میں چلّے لگاؤ، خانقاہوں میں رہ پڑو، عمر گذار دو لیکن اگر آنکھوں کی حفاظت نہیں کی تو ولی اﷲ بننے کا بس خواب ہی دیکھتے رہو گے۔ ایسا شخص ولی اﷲ نہیں بن سکتا جب تک وہ سچی توبہ نہ کرلے۔

تین باتیں ہوگئیں۔ ایک قرآن پاک کی آیت اور دو احادیثِ مبارکہ۔ کیا یہ بد نظری کے گناہ سے بچنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟

یہاں پر فرمایا :حضرتؒ کی برکت سے قرآن پاک کی آیت اور دواحادیث مبارک کے مضمون پر شعر ہو گیا جس کو حضرت والا نے بہت پسند فرمایا تھا          ؎

زنا آنکھوں کا  فاسق خدا کا ، نبی نے ہے ملعون جس کا    پکارا
خریدے نظر سے جو لعنت خدا کی وہ کیا کررہا ہے ولایت کی باتیں

اور یہ شعر بھی بہت پسند فرمایا تھا اور مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نے یہ شعر حضرت کو سنایا تھا تو حضرت نے فرمایا تھا یہ شعر مجھے روز سنایا کرو!!

 خود اپنی تمناؤں کا خون کرنا نہیں کام ہرگز یہ ہیجڑوں کا
حسینوں سے نظریں بچا کر تڑپنا یہ ہیں شیر مردوں کی ہمت کی باتیں

سب حضرات اِس کا ارادہ کریں  کہ ایک مٹھی ڈارھی رکھیں ، کیونکہ  کٹانا منڈانا دونوں حرام ہیں اور کھڑے اور چلنے کی حالت میں ٹخنے کھلے رہیں۔

ڈاڑھی رکھنے پر پُردرد نصیحت فرمائی!

جو اللہ کا ہوجاتا ہے سب اُس کے ہوجاتے ہیں 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries