مجلس ۲۴ جون ۲۰۱۴ء  اﷲ کا دِین بہت قیمتی ہے !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

خلاصۂ مجلس:  محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم آج ناسازیٔ طبع کی وجہ سے مجلس میں تشریف نہیں لاسکے۔ پہلے جناب تائب صاحب دامت برکاتہم  نے  اپنے اشعار بہت عمدہ انداز میں پڑھ کر سنائے، اس کے بعد حضرت والا دامت برکاتہم کے حکم پر  کل کی مجلس میں ہونے والے حضرت والا دامت برکاتہم کےاہم الہامی ارشادات  کی ریکارڈنگ سنائی گئی، جس میں حضرت والا نےدرد بھرے انداز میں روتے ہوئے آیت يٰٓاَيَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّۃُ ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ ۔۔۔ الخ پر الہامی علوم  و معارف بیان فرمائے تھے ،  ان الہامی ارشادات  کی ریکارڈنگ حضرت والا نے بھی  اپنے کمرۂ مبارک میں سنی اور کمرہ میں موجود خدام نے بتایا کہ حضرت پر گریاں طاری تھا اور عجیب کیفیت تھی۔ حضرت والا کے اِن ارشادات  سے تمام حاضرینِ مجلس کو بہت نفع  ہوا۔ اس  کے بعد جناب ممتاز صاحب نے معارف ربانی سے ملفوظات پڑھ کر سنائے، آج کی مجلس میں الحمدللہ معارف ربانی سفرنامہ ری یونین کے ملفوظات اختتام کو پہنچے۔آج کی مجلس کا دورانیہ ۱ گھنٹہ ۵ منٹ رہا۔

ملفوظات معارفِ ربانی

ایئر پورٹ پر حدیث شریف کا درس:  فرمایا کہ سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

یَقُوْلُ الْعَبْدُ مَالِیْ مَالِیْ وَ اِنَّ مَا لَہٗ مِنْ مَّالِہٖ ثَلَاثٌ مَآ اَکَلَ فَاَفْنٰی اَوْ لَبِسَ فَاَبْلٰی اَوْ اَعْطٰی فَاقْتَنٰی وَ مَا سِوٰی ذٰلِکَ فَھُوَ ذَاھِبٌ وَّ تَارِکُہُ للِنَّاسِ (صحیح مسلم، کتابُ الزھد، ج:۲، ص:۴۶۰)

انسان کا مال تین قسم کا ہے جو کھالے، جو پہن لے اور جو اﷲ کی راہ میں دے دے، باقی سب پیچھے رہ جانے والوں کا ہے۔ جو مال کھا لیا پیٹ میں چلا گیا، رات کو امپورٹ کیا صبح کو لیٹرین میں ایکسپورٹ کر دیا اور وہ فنا ہوگیا اور جو پہن لیا وہ ایک دن پرانا ہوجائے گا البتہ جو تم نے اﷲ کے راستے میں خرچ کردیا آپ کو مرتے ہی وہ مل جائے گا باقی سب چھوٹ جائے گا اور تم اس کو دوسروں کے لیے چھوڑ دو گے، جس وقت جنازہ قبر میں اُترتا ہے تب کاروبار، مکان، ٹیلفون، قالین کچھ کام نہیں آئے گا سوائے نیک اعمال کے۔ اس لیے یہ تین جملے میں پوری دنیا میں نقل کرتا ہوں   ؎

جس جہاں سے ہمیشہ کو جانا
اور کبھی لوٹ کر پھر نہ آنا
ایسی دنیا سے کیا دل لگانا

سمجھ رہے ہیں جناب! جو مرکے گیا کبھی واپس آیا؟ جس دنیا سے ہمیشہ کے لیے جانا اور لوٹ کر پھر کبھی نہ آنا ایسی دنیا سے دل کا کیا لگانا لیکن دنیا میں جلدی جلدی اﷲ کی محبت کمالو، جتنا ہو سکے دین پر اپنی جان، مال خرچ کرو، جس کے پاس جو ہو وہ دین پر لگانے سے دریغ نہ کرے۔ جس دین پر سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا خونِ نبوت بہا ہو اس دین کی خدمت ومحنت کا حق نہ کوئی عالم، نہ کوئی پیر، نہ کوئی مال دار ادا کرسکتا ہے، اﷲ کا یہ دین اتنا معظم ہے کہ اس پر سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا خونِ مبارک بہا ہے، کروڑوں روپیہ بھی خرچ کردیں تو بھی حق ادا نہیں ہوسکتا، ہم اپنی ایک لاکھ جان، ایک کروڑ جان خدا پر فدا کردیں تو بھی اﷲ تعالیٰ کے دین کا حق ادا نہیں ہوسکتا کیونکہ اﷲ کے دین پر سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا خونِ مبارک طائف کے بازار اور احد کے دامن میں بہا ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ خونِ نبوت سے بڑھ کر کوئی قیمتی چیز ہے؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خون سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز ہے؟

مُردوں کو ایصالِ ثواب کی تلقین: ایک صاحب جن کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا ان کی رعایت سے ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اپنے مُردوں کے لیے بدنی عبادت مثلاً نفل نماز یا قرآن شریف وغیرہ پڑھ کر بخشنے کا بھی ثواب پہنچتا ہے لیکن اگر ان کے لیے کچھ مال صدقہ جاریہ وغیرہ میں لگایا جائے تو اس کا ثواب زیادہ ملتا ہے لہٰذا افضل یہی ہے کہ ماں باپ کے لیے کچھ مال اﷲ کے نام پر دیا جائے، ایسا صدقہ جاریہ بدنی عبادت سے افضل ہے، اس کا ان کو زیادہ فائدہ پہنچتا ہے اور حکیم الامت فرماتے ہیں کہ میں روزانہ قل ھو اﷲ شریف پڑھ کر اپنے ماں باپ کو بخشتا ہوں، آپ لوگ بھی کم از کم تین بار قل ھواﷲ پڑھ کر اپنے والدین کو بخش دیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی روزانہ تین بار قل ھو اﷲ شریف پڑھ کر بخشتا ہوں لیکن اس میں کسی کو شریک نہیں کرتا، ماں باپ کو بھی شریک نہیں کرتا کیونکہ بادشاہ کو جو تحفہ دیا جاتا ہے اس میں کسی پبلک کو شریک نہیں کیا جاتا، یہ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کا حق ہے۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایصالِ ثواب کرنے کے بعد پھر تین مرتبہ اپنے ماں باپ کو، تین مرتبہ جملہ امتِ مسلمہ کو پڑھ کر بخشتا ہوں۔

دل کی سختی دور کرنے کا انجکشن :  جس کے دل میں سختی ہو، آخرت کی یاد میں کمی ہو اور نماز میں دل نہ لگتا ہو دنیا کی محبت میں پھنسا ہوا ہو اس کو ایک انجکشن بتارہا ہوں، روزانہ یہ انجکشن لگانا چاہیے اور وہ انجکشن امریکہ سے نہیں آئے گا، نہ کنیڈا سے آئے گا نہ لندن سے آئے گا، وہ انجکشن ہروقت آپ کے پاس ہے، آنکھ بند کی اور یہ مراقبہ کرلیا کہ ایک دن قبر میں اُترنا ہے، جب جنازہ قبر میں اُترے گا تو کتنی دنیا آپ کو سلامی دے گی؟ کتنی تعریف ہوگی؟ کتنا بینک بیلنس جائے گا؟ کتنی بلڈنگ لے جاؤ گے؟ کتنے ٹیلی ویژن، قالین اور ٹیلی فون قبر میں جائیں گے؟ بس اس مراقبہ کا ایک منٹ کا انجکشن کافی ہے پھر ان شاء اﷲ آپ کو سارے عالم میں اﷲ ہی اﷲ یاد آئے گا، دنیا ہاتھ میں ہوگی، جیب میں ہوگی لیکن دل میں خدا ہوگا۔

ہر شر سے بچنے کا وظیفہ: بسم اﷲ شریف کے ساتھ تین مرتبہ قل ھو اﷲ شریف، تین مرتبہ قل اعوذ برب الفلق اور تین مرتبہ قل اعوذ برب الناس صبح فجر کے اور شام مغرب کے بعد پڑھیں تو ان شاء اﷲ کسی جادو کا اثر نہیں ہوگا۔ یہاں سنا ہے عیسائی لوگ جادو کرادیتے ہیں، ہندوؤں سے بھی لوگ جادو کرادیتے ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو تینوں قل تین تین مرتبہ صبح شام پڑھے گا تو یہ وظیفہ تمہارے لیے ہر شے کے لیے کافی ہے تَکْفِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ اس کی شرح محدثین نے کی ہے  اَیْ تَکْفِیْکَ مِنْ کُلِّ شَرِّ وَ تَکْفِیْکَ مِنْ کُلِّ وِرْدٍ یعنی جتنے وظیفے پڑھتے ہو اگر کسی دن کچھ نہ پڑھ سکو تو یہی پڑھ لو، یہ کافی ہوجائے گا اور ہر شر یعنی جادو شیاطین وغیرہ سے ان شاء اﷲ حفاظت رہے گی اور چلتے پھرتے یا اﷲ یا رحمن یارحیم پڑھتے رہیں، کبھی کبھی یا کریم بھی پڑھ لیا کریں ان شاء اﷲ یا کریم کی برکت سے نالائق بھی مہربانی سے محروم نہیں رہے گا۔

کریم کی تعریف: شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اﷲ علیہ انتقال کے وقت یاکریم یاکریم کہتے ہوئے اﷲ کے پاس چلے گئے۔ محدثِ عظیم ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ شرح مشکوۃ میں کریم کی تعریف لکھتے ہیںاَلْکَرِیْمُ ھُوَ الَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا بِدُوْنِ الْاِسْتِحْقَاقِ وَ الْمِنَّۃِ کریم وہ ذات ہے جو ہم پر بغیر صلاحیت و اہلیت و قابلیت کے مہربانی کردے، ہم میں کچھ قابلیت نہیں ہے، نالائق ہیں لیکن پھر بھی اﷲ ہمیں اپنی رحمت سے نوازش کردے۔ کریم کی دوسری تعریف ہےاَلْکَرِیْمُ ھُوَ الَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا بِدُوْنِ الْمَسْئَلَۃِ وَ لاَ وَسِیْلَۃَ جو ہم پر فضل کرے وسیلہ کے بغیر، سوال کے بغیر تو بہت سی نعمتیں آپ کو اﷲ تعالیٰ بغیر مانگے عطا فرماتے ہیں۔ کریم کی تیسری تعریف ہےاَلْکَرِیْمُ ھُوَ الَّذِیْ اَلْکَرِیْمُ ھُوَ الَّذِیْ اَلْکَرِیْمُ ھُوَ الَّذِیْ اَلْکَرِیْمُ ھُوَ الَّذِیْ  اَلْکَرِیْمُ ہُوَ الَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا وَلاَ یَخَافُ نَفَادَ مَاعِنْدَہٗ کریم جتنا بھی دے اس کو اپنا خزانہ ختم ہونے کا خوف نہیں ہوتا کہ میرا خزانہ ختم ہوجائے گا، اﷲ کا سب خزانہ غیر محدود ہے۔ کریم کی چوتھی تعریف ہے اَلْکَرِیْمُ ہُوَ الَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا فَوَقَ مَا نَتَمَنّٰی بِہٖ یعنی کریم وہ ہے جو ہماری تمناؤں سے زیادہ دے، آپ اﷲ سے جتنا مانگیں گے خدا اس سے بھی زیادہ دے گا ۔
الحمدﷲ! اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں خیریت سے آپ لوگوں کے پاس سے اپنے گھر واپس جارہا ہوں۔ یہاں آپ لوگ رو رہے ہیں اور وہاں لوگ واپسی کی خوشی میں ہنس رہے ہیں۔ دنیا اسی کا نام ہے، کوئی ہنس رہا ہے کوئی رورہا ہے، ہنسنارونا دنیا میں ساتھ ساتھ ہے، کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوا وہاں لوگ ہنس رہے ہیں، کسی کے ہاں کسی کا انتقال ہوا وہاں لوگ رو رہے ہیں۔ ایسے ہی جس وقت ہم یہاں آئے تھے آپ لوگ خوش ہوئے اور واپسی کے وقت کہہ رہے ہیں کہ دنوں کا پتہ ہی نہیں چلا اور یہاں مزید پندرہ دن رہنے کے لیے کہہ رہے تھے لیکن اب میرے اندر تحمل نہیں ہے اور کراچی میں بھی انتظار ہورہا ہے۔
الحمدﷲ! اﷲ تعالیٰ نے اس خانقاہ کو بہت ترقی دی، میرے خلیفہ مولانا داؤد اس کو سنبھالے ہوئے ہیں، اﷲ کا شکر ہے کہ ری یونین کے مفتی اعظم اور فاضل دیوبند کے دل میں اﷲ نے نیک گمان ڈالا اور وہ میرے ہاتھ پر داخلِ سلسلہ ہوئے، اسی طرح سے وہاں اور بھی کئی علماء داخلِ سلسلہ ہوئے، اﷲ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ بہرحال جو کام ہوا وہ میری امیدوں سے زیادہ تھا، اس پر میں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں، فخر کی کوئی بات نہیں، فخر کی بات اس لیے نہیں کہ پتہ نہیں یہ قبول بھی ہے کہ نہیں، جب تک قبولیت کا یقینی علم نہ ہو فخر کرنا اور اپنی واہ واہ کرنا احمقانہ حرکت ہے، ہاں جب قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ خوش ہوجائیں گے تب ہم یہ شعر پڑھیں گے   ؎

میری خوشی کی آج کوئی انتہا نہ تھی
جب سے خبر ملی کہ مجھے معاف کردیا

لہٰذا اعمال پر خوشی تو ہے اور شکر بھی ادا کررہا ہوں لیکن اکڑفوں اور واہ نہ آئے بلکہ آہ آہ رہے کہ اے اﷲ! اپنے فضل سے سب کچھ قبول فرمائیے اور کوتاہیوں کو معاف فرمائیے، اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بڑے بڑے علماء داخلِ سلسلہ ہوئے۔ الحمدﷲ! اس سے بہت خوشی ہوئی، عوام کا رجوع بھی بے شک نعمت ہے لیکن علماء کا رجوع تو بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ ان کے ذریعہ سے دین کا مال آگے بڑھتا ہے، جو عالم اﷲ والا بن جائے، صاحبِ نسبت ہوجائے تو اس کی برکت سے سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ بہرحال جزیرہ ری یونین میں الحمد ﷲ ایک مہینہ میں بہت کام ہوا۔ موریشس میں چار دن تک مساجد میں مسلسل بیانات ہوئے، موریشس کا یہ پہلا سفر تھا، لیکن ری یونین میں جو کام ہوا اس پر اﷲ تعالیٰ کی بہت شکر گذاری کی، دل خوش ہوگیا۔ بڑے بڑے علماء جب بیعت ہوئے تو میںنے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اﷲ کا شکر ہے کہ جیسے حاجی امداد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے ہاتھ پر بڑے بڑے علماء بیعت ہوئے تو جب کوئی بڑا عالم مجھ سے بیعت ہوتا ہے تو میں حاجی صاحب کی تاریخ کا کچھ عکس اپنے اندر دیکھتا ہوں اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ یہ سب میرے شیخ شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم، مولانا شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃاﷲ علیہ جیسے بزرگوں کا صدقہ ہے، ان کی نگاہیں اختر پر پڑی ہیں، گو اختر کچھ نہیں لیکن جب ایک ولی اﷲ شاہ عبد القادر صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی نظر دہلی میں ایک کتے پر پڑ گئی تو وہ کتا تمام کتوں کاپیر بن گیا، تمام کتے اس کے سامنے ادب سے بیٹھتے تھے تو اختر پر شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی پندرہ برس تک نظر پڑی اور پھر کتنے برسوں سے حضرت شاہ ابرار الحق صاحب کی نظر پڑ رہی ہے اور جوانی کے آغاز میں مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃا ﷲ علیہ کی نظر پڑتی رہی، ان بزرگوں کی نگاہوں کا فیضان دیکھ رہا ہوں کہ آپ لوگ یہاں جمع ہیں، آپ مجھے یہاں محبت سے جو دیکھ رہے ہیں تو کسی نے ہم کو محبت سے دیکھا ہے اس کی وجہ سے آپ سب محبت سے دیکھ رہے ہیں۔

یہ اﷲ تعالیٰ کا احسان وکرم ہے، بزرگوں کے پاس جانے کی توفیق بھی خداتعالیٰ کاکرم ہے، اﷲ والوں کے پاس جانے کی توفیق اسی وقت ہوتی ہے جب اﷲ کا کرم ہوتا ہے۔ ری یونین میں ایک اور بزرگ عالم جو یہاں کے علماء کے استاد ہیں داخلِ سلسلہ ہوگئے تو علماء اور دوسرے لوگ بہت خوش ہوئے۔ جب کوئی مرید اپنے شیخ کے ہاتھ پر بڑے بڑے علماء کو بیعت ہوتے دیکھتا ہے تو اس لیے خوش ہوتا ہے کہ اب یہ میرا پیر بھائی بن گیا، قیامت کے دن ضرور کچھ ہمارے لیے سوچے گا، میرے شیخ کے ہاتھوں پر جب بڑے بڑے علماء بیعت ہوتے تھے تو مجھے خوشی ہوتی تھی۔ مجھے امید ہے کہ آپ لوگوں کا دل بھی نہایت خوش ہورہا ہوگا۔ یہاں سمندر کے ساحل پر اور پہاڑوں کے دامن میں میں نے زیادہ وقت گذارنے کی کوشش کی، سمندر کے ساحل اور پہاڑوں کا دامن یہاں ساتھ ساتھ ہیں یہ خاص بات ہے، عجیب نظارے ہیں   ؎

پہاڑوں کا دامن سمندر کاساحل
یہی ہیں میری آہِ دل کے منازل

میرے عشق کے منازل، میری آہ کے منازل کا روٹ سمندر کا ساحل اور پہاڑوں کا دامن ہے، دیکھو روٹ کا لفظ استعمال کررہا ہوں، آج کل لوگ کہتے ہیں کہ بس کا روٹ یہ ہے، تو میری آہ کار وٹ انہی علاقوں سے گذرتا ہے اور یہ ذوقِ نبوت ہے۔ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبوت حاصل ہونے سے پہلے غارِ حرا میں جانے کی توفیق ہوئی، جب خلوتوں میں اﷲ کو یاد کرنے کی توفیق ہوجائے تو پھر سمجھ لو کہ کچھ ملنے والا ہے، اب نبوت تو نہیں ملے گی مگر ولایت مل جائے گی ان شاء اﷲ تعالیٰ۔جس طرح آغازِ نبوت خلوت کی عبادت سے ہوئی ایسے ہی اﷲ تعالیٰ جس کو ولی اﷲ بنانا چاہتے ہیں تو تنہائی میں اس کو رونے کا اور اﷲ کو یاد کرنے کا اور مناجات کا مزہ ملنے لگتا ہے کیونکہ مقامِ ولایت نبوت کے راستے کا ایک ادنیٰ غلام ہے، تو غلام اگر آقاومالک کے راستے سے نہیں گذرے گا تو کبھی مقبول نہیں ہوسکے گا۔ تو سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اسی راستے سے نبوت عطا ہوئی کہ پہلے آپ کو پہاڑ کے دامن میں، غارِ حرا میں عبادت کا ذوق پیدا ہوا۔ اسی لیے خواجہ صاحب فرماتے ہیں   ؎

تمنا ہے کہ اب کوئی جگہ ایسی کہیں ہوتی
اکیلے بیٹھے رہتے یاد ان کی دل نشیں ہوتی

یہ ہے اہل اﷲ کی سلطنت   ؎

دامنِ فقر میں مرے پنہاں ہے تاجِ قیصری
ذرّۂ درد و غم تیرا دونوں جہاں سے کم سے نہیں

اگر اﷲ تعالیٰ کا غم کوئی چیز نہ ہوتی تو سلطان ابراھیم ابن ادھم نے سلطنت کیوں لُٹائی؟ کیا وہ پاگل ہوگئے تھے کہ سلطنت چھوڑدی یا کچھ پاگئے تھے   ؎

کچھ پارہے ہیں شوق سے کچھ کھو رہے ہیں ہم

جب آدمی کچھ پاتا ہے تو پہلے کچھ کھوتا بھی ہے اور جو نامناسب چیزوں کو نہیں کھوتا تو وہ کھوتا ہوتا ہے، پنجاب میں گدھے کو کھوتا کہتے ہیں لہٰذا جو نامناسب چیز کو نہیں کھوتا تو معلوم ہوا کہ وہ کھوتا ہے، اس کی عقل صحیح نہیں ہے، یہ کنکر پتھر نہیں پھینک رہا اور اﷲ تعالیٰ کی محبت کے موتی نہیں تلاش کر رہا۔

اور یہاں سمندر کے کنارے جو ذکر ہوا ہے اس کا کیسٹ ضرور میرصاحب سے حاصل کرلیجئے گا، میر صاحب بھی بہت رو رہے تھے، ان کے زور زور سے رونے کی آواز آگئی ہے کیسٹ میں۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کے قلب پر عجیب وغریب کیفیت طاری فرمائی تھی۔
دعا کرتا ہوں کہ اختر کو،میرے پوتوں اور نواسوں کو، آپ سب کو، آپ کے سب گھر والوں کو اور ہمارے گھروالوں کو اﷲ اپنا ولی بنا دے، اے اﷲ! ہمیں جذب فرما کر نسبتِ اولیاء صدیقین عطا فرما، یا اﷲ! نسبتِ اولیاء صدیقین عطا فرمادے، یا اﷲ! نسبتِ اولیائے صدیقین نصیب فرمادے، آمین۔
اس کے بعد جہاز کا وقت ہوگیا اور حضرت والا سلام کرکے لاؤنج میں داخل ہوگئے۔ احقر راقم الحروف اور عبد العزیز سوجی صاحب ساتھ تھے۔

یہاں پر معارف ربانی سفرنامہ ری یونین کا اختتام ہوگیا !  جناب ممتاز صاحب نے حضرت والا کی صحت کے دعا فرمائی اور آج کی مجلس اختتام کو پہنچی۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries