مجلس ۳ جولائی ۲۰۱۴ء ۔  اللہ کے  لئے محبت پر عرشِ الٰہی کا سایہ ملے گا!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

خلاصۂ مجلس: شروع میں جناب اثر صاحب دامت برکاتہم نے اپنے اشعار سنائے ، کچھ ہی دیر میں الحمد للہ   حضرت والا  دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز  ہوئے  ،  اور ایک صاحب کو محبت بھری نصیحت فرمائی اس کے بعد اشعار جاری رکھنے کو فرمایا  اورجناب اثر صاحب دامت برکاتہم  کے  اصلاحی اشعار  کو بہت پسند بھی فرمایا ، اشعار کے بعد  حضرت والا نے  خزائنِ شریعت و طریقت  سے ملفوظات پڑھ کر سنائے، ساتھ ساتھ اُن کی تسہیل بھی فرماتے رہے، آخر میں نہایت درد بھرے انداز میں چند ملفوظات ارشاد فرمائے، یوں یہ پرنور مجلس اختتام کو پہنچی جس کا دورانیہ  ۴۲منٹ جاری رہی۔

ملفوظات دورانِ مجلس

ڈارھی منڈانے کا فعل سب سے پہلے قومِ لوط میں شروع ہوا۔

جن کی ڈاڑھی ہے وہ اُس کی آخر دم تک حفاظت کی دُعا کرتا رہے اور جن کی ڈاڑھی نہیں ہے وہ رو رو کر اِس کے لئے  دُعا کریں۔

اللہ والوں کے پاس آنا جانا رائیگاں نہیں جاتا۔ آتا جاتا رہے!۔۔۔۔

اگر  حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ سے نسبت حاصل نہ ہوتی تو ہمیں پوچھتا کون!

اللہ کے  لئے محبت پر عرش الٰہی کا سایہ ملے گا۔۔۔

اہل اللہ کی صحبت کی لذت حُوروں سے بھی زیادہ ہے۔۔۔۔

 

ملفوظات خزائن شریعت و طریقت

تعلّقِ خُلَّتْ (خالص دوستی) کی علامت :

 اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ
(سورۂ ھود، آیت:۷۵)

آیت دال بر علامت تعلقِ خُلَّت ہے۔ جب رو حِ سالک کو یہ مقام خُلَّت عطا ہو تا ہے تو وہ کثرتِ آہ سے مشرف ہو جاتی ہے ۔ اِنابت کی صفت سے قبل اَوَّاہٌ کو بیان فرما کر بتا دیا کہ اِنابتِ کاملہ کی صفت مخفی اور با طنی ہے پس دوسر ے لو گ کیسے پہچانیں گے ہمارے خلیلوں کو۔ اس لیے پہلے ہی اَوَّاہٌ کی صفت بیان فرما دی کہ آتشِ غم کے تحمل کے لیے وہ بکثرت آہ کیا کر تے ہیں  ؎

آہ کو نسبت ہے کچھ عشاق سے
آہ نکلی اور پہچانے گئے

یہ آیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور آپ کی خُلَّت بھی منصوص ہے:

 وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلًا
(سورۃ النساۗء، آیت:۱۲۵)

اور اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خالص دو ست بنایا تھا 

اﷲ تعالیٰ کی شانِ محبوبیت کی دلیل : 

کَلَّآ اِنَّھُمْ عَنْ رَّبِّھِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُوْنَ
(سورۃ المُطفِّفین، آیت:۱۵)

یعنی یہ لو گ ( کفار) اس رو ز اپنے رب کا دیدار دیکھنے سے روک دئیے جائیں گے۔ یہ عنوانِ سزا حق تعالیٰ کی شانِ محبوبیت پر دلالت کر تا ہے۔ بر عکس دنیا کے حُکّام چونکہ حُکّامِ محض ہوتے ہیں محبوب نہیں ہو تے اس لیے جب سے روئے زمین قائم ہے آج تک کسی سلطان یا حاکم نے مجرمین کو یہ سزا نہیں سنائی ہے کہ تم کو اس جرم کے سبب ہم اپنی صور ت کے دیدار سے محجوب اور محروم کر تے ہیں اور اگر کوئی حاکم یہ اعلان کرے بھی تو مجرمین کہیں گے کہ تیری صورت پر جھاڑو پھرے تو ہماری جان بخش دے اور حق تعالیٰ شانہٗ کفارسے فرمائیں گے کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ ہم تمہیں اپنی رویت سے مشرف کریں اور کس انداز سے فرمائیں گیکَلَّاہر گز نہیں اور صفتِ ربوبیت بیان فرمائی جو علت محبوبیت ہے یعنی پالنے والا محبوب ہوتا ہے اور محبوب کے دیدار سے محرومی کتنی بڑی محرومی ہے جو کفار کے لیے باعثِ حسرت ہوگی۔ ذَالِکَ مِمَّا خَصَّنِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی شَانُہٗ بِلُطْفِہٖ۔ 

ہماری آہ کا خریدار اﷲ ہے : اسمِ ذات میں ہماری آہ بھی شامل ہے ۔ اگر ذرا کھینچ کر اﷲ کہا جائے تو اپنی آہ کی آواز بھی محسوس ہو تی ہے۔ خالق تعالیٰ شانہ نے اپنے عباد کو اس فطرت پر خلق فرمایا ہے کہ اگر وہ غم میں مبتلا ہوں اور اضطرار لاحق ہو، اسباب و تدابیر بھی نہ ہوں تو ان کے دل سے آہ نکلے اور یہ ایسی انسانی فطرت ہے جو تقلید یا تمرین یا سماعت کی بھی محتاج نہیں مثلا ً ایک بچہ ابتدا ہی سے ایسی جگہ پرورش کیا جائے جہاں وہ لفظ آہ نہ سن سکے نہ پڑھ سکے اور پھر اسے کسی ایسے غم میں مبتلا کیاجائے جس کے دفعیہ کی تدابیراس کے سامنے نہ ہوں اور اس کے غم کے مقام کو مقامِ اضطرار پر پہنچا یا جائے تو خو د بخوداس کے منہ سے آہ نکلے گی ۔ یہ عجیب راز ہے کہ اس آہ کو جو حالتِ اضطرار میں بندے نکالنے والے تھے میاں نے اپنے نامِ پاک کے اندر داخل فرما رکھا ہے جیسے مادرِ مشفقہ اپنی آغو ش میں طفلِ مضطر کو لے لیتی ہے۔ حق سبحانہ و تعالیٰ نے اس فطرۃ تاوّ ہ یعنی اضطرار میں آہ کرنے پر ہمیں اس لیے پیدا کیا کہ جب وہ آ ہ کریں اور پھر مجھے پکاریں یعنی اﷲ کہیں تو اپنی آہ کو میرے اسمِ ذات سے الگ نہ پائیں اور ہر بار جب اللہ کہیں تو اپنی آہ کی لذت کو میرے نامِ پاک کے اندر بھی محسوس کریں اور یہ بھی محسوس کریں کہ ہماری آہ کو پہلے ہی سے میاں نے اپنے نامِ پاک کے اس قدر قریب کر رکھا ہے کہ گویا گلے سے لگا رکھا ہے اور یہ ذوقاً استدلال ہے حق تعالیٰ شانہٗ کی اُلوہیت پر۔ اس کے برعکس دوسرے باطل معبودوں کے نام ہماری آہ کے خریدار نہیں اور جب ہماری آہ کے خریدار نہیں تو ہمارے معبود بھی نہیں ہو سکتے۔ وہ معبود ہی کیا جو بندوں کے دُکھ درد کا ساتھی نہ ہو۔ ذَالِکَ مِمَّا خَصَّنِیَ اللّٰہُ  تَعَالٰی شَانُہٗ بِلُطْفِہٖ۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries