مجلس ۱۰جولائی ۲۰۱۴ء ۔حقیقی زندگی اطاعتِ حق اور اطاعتِ رسول کا نام ہے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

خلاصۂ مجلس: محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم آج ناسازیٔ طبع کی وجہ سے مجلس میں تشریف نہیں لاسکے،مجلس کے شروع میں جناب اثر صاحب دامت برکاتہم  نے اپنے اشعار سنانے شروع کئے۔  اشعار کے اختتام پر  جناب ممتاز صاحب نے حضرت والا کے حکم پر   خزائنِ شریعت و طریقت  سے ملفوظات پڑھ کر سنانا شروع کئے ۔یوں یہ پرنور مجلس  جو تقریباً ۳۷ منٹ پر مشتمل تھی اختتام کو پہنچی ۔

ملفوظات خزائن شریعت و طریقت

حقیقی زندگی اطاعتِ حق اور اطاعتِ رسول کا نام ہے:

﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ وَاَ نَّہٗ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ﴾
(سورۃُ الانفال، آیت:۲۴)

ترجمہ: اے ایمان والو! اﷲ اور رسول علیہ السلام کا حکم مانو جب وہ تمہیں زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں اور جان لو کہ اﷲ تعالیٰ رو ک لیتا ہے اس کے دل کو اور اسی کے پاس تم جمع ہو گے۔ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ اطاعتِ حق اور اطاعتِ رسول کے بدون زندگی صورۃً زندگی ہو تی ہے، حقیقۃًزندگی، زندگی سے محروم رہتی ہے اور دوسری تعلیم یہ ہے کہ حکم ماننے میں دیر نہ کیاکرو کہ شاید تھوڑی دیر میں دل ایسا نہ رہے۔ اپنے دل پر آدمی کا قبضہ نہیں بلکہ دل خدا کے تابع ہے جدھر چاہے پھیر دے بے شک وہ کسی کے دل کو اپنی رحمت سے ابتداء نہیں روکتا نہ اس پر مہر کرتا ہے ہاں جب بندہ امتثالِ احکام میں سستی اور کاہلی کرتا ہے تو اس کی جزاء میں روک دیتا ہے یا حق پرستی چھوڑ کر ضد و عناد کو شیوہ بنا لے تو مہر کر دیتا ہے کَذَا فِیْ مَوْضِحِ الْقُرْآنِ اور بعض نے یہاں قرب کے معنیٰ لیے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِہٖ یعنی وہ بندہ کے اس قدر قریب ہیں کہ اس کا دل بھی اتنا قریب نہیں:

﴿وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾(سورۂ ق، آیت:۱۶)

تو خدا کی حکم بر داری کو سچے دل سے کرو، خدا تم سے بڑھ کر تمہارے دلوں کے احوال و اسرار پر مطلع ہے، خیانت اس کے آگے نہ چلے گی۔ اسی کے پاس سب کو جمع ہونا ہے وہاں سارے اسرار کھول کر رکھ دئیے جائیں گے۔

بدنظری کے علاج کا ایک خاص عنوان:  سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب حق تعالیٰ کے امر سے اپنے بیٹے کو ذبح کرنا ہوا تو بیٹے سے فرمایا کہ منہ زمین کی طرف کرلو یعنی اس کروٹ پر لٹایا کہ منہ زمین کی طرف رہے تاکہ چہرہ اور آنکھوں سے آنکھیں مل کر کہیں محبت و شفقت کا غلبہ مانع تعمیلِ امر الٰہی نہ ہو۔ اسی طرح اس زمانہ میں نفس کی خواہش کو امر الٰہی کی تلوار سے جب ذبح کرنا ہو یعنی بدنظری کے موقع پر نظر کو بچانا ہو تو نگاہوں کی سختی سے حفاظت کرے کہ آنکھوں سے آنکھیں نہ ملنے پائیں ورنہ محبت پیدا ہوجائے گی اور نفس سے مغلوب ہونے لگے گا۔ اس لیے جب کوئی حسین سامنے آئے تو پہلا کام یہ کرے کہ اس سے نظر کو بچالے پھر قلب کے رُخ کو بھی ادھر سے تبدیل کرنا آسان ہوگا۔ جب اولوالعزم پیغمبر خلیل اﷲ علیہ السلام نے طبعی امور میں احتیاط فرمائی تو ہم لوگ کس شمار میں ہیں۔ حق تعالیٰ نے ہماری اس طبعی اور بشری کمزوری اور مغلوبیت کی رعایت سے غضِ بصر کا حکم نازل فرمایا۔

دنیا میں جنت کا مزہ دلوانے والے تین اعمال: ارشاد فرمایا کہ جو شخص چاہے کہ دنیا ہی میں جنت کا مزہ آنے لگے وہ تین اعمال کرے:
(۱)……اہل اﷲ کی صحبت اختیار کرے۔اﷲ والو ں کے لیے حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

﴿ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ﴾(سورۃ الفجر، آیت:۲۹)

معلوم ہوا کہ یہ خاص بندے ہیں جن کو یاء نسبتی سے اپنا فرمارہے ہیں کہ یہ میرے ہیں اور دخولِ جنت کی نعمت سے مقدم فرما رہے ہیں۔ معلوم ہوا اہل اﷲ یعنی صالحین کی معیت جنت سے افضل ہے کیونکہ ان کے دل میں اﷲ ہے جو خالقِ جنت اور خالقِ نعماء ِجنت ہے اور جنتی یعنی صالحین بندے دنیا ہی سے تو جنت میں جاتے ہیں اس لیے جو ان کی صحبت پا گیا وہ گویا جنت میں داخل ہوگیا بلکہ جنت سے افضل نعمت پاگیا اور اس کی جنت شروع ہوگئی اس لیے دنیا میں جس کو اﷲ والے مل جائیں اس کو دنیا ہی میں جنت کا مزہ آنے لگتا ہے کیونکہ جنت مکان ہے اور اہل اﷲ اس کے مکین ہیں اور مکین افضل ہوتا ہے مکان سے اور مکان کتنا بھی اچھا ہو مکین سے اچھا نہیں ہوسکتا اچھے مکین کی صحبت تو اچھے مکان سے بھی افضل ہے بلکہ مکان میں حسن تو حسنِ مکین ہی سے آتا ہے۔ میرا  فارسی شعر ہے ؎

مُیسّر چوں مرا صحبت بجانِ عاشقاں آید
ہمیں بینم کہ جنت بر زمیں از آسماں آید

جب مجھے اﷲ تعالیٰ کے عاشقوں کی صحبت نصیب ہوجاتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ جنت آسمان سے زمین پر آگئی ہے۔

اور جو لوگ جنت میں جانے والے ہیں یہاں ان کے ساتھ رہنے والا بھی جنت میں جائے گا۔ وہاں کا ثمرۂ فَادْخُلِیْ دراصل یہاں کے فَادْخُلِیْ کا ثمرہ ہوگا یعنی جو یہاں اہل اﷲ کے ساتھ رہتا ہے تو یہ رفاقت فی الدنیا رفاقت فی الجنۃ کا ذریعہ ہوگی لیکن صرف ساتھ رہنا کافی نہیں بلکہ ساتھ رہنے کی شر ط اتباع ہے کیونکہ رفاقت بدونِ اتباع صحیح نہیں۔ قربِ حسی مقصود نہیں، اتباع حاصل ہے تو دوری میں بھی قربِ معنوی حاصل ہے۔ جو متبع نہیں وہ قریب رہ کر بھی رفیق نہیں اور جسے اتباع حاصل ہے وہ دور ہو کر بھی قریب ہے پس جو صحیح معنوں میں ان کا رفیق ہوگا دنیا ہی میں اس کو جنت کا مزہ آنے لگے گا کیونکہ یہ اﷲ کے خاص بندے ہیں، اﷲ تعالیٰ نے یا ء نسبتی سے ان کواپنا فرمایا ہے کہ یہ میرے ہیں، جنت میں بھی میرے ہیں اور دنیا میں بھی میرے ہو کے رہے، نہ نفس کے ہوئے، نہ شیطان کے ہوئے، نہ معاشرہ کے ہوئے، ساری زندگی میرے ہوکے رہے ،ساری زندگی میری مانی، نہ نفس کی مانی، نہ شیطان کی مانی، جسم و جان سے مجھ پر قربان رہے، گناہوں کے تقاضوں پر صبر کیا، اگر کبھی غلطی ہوگئی تو خون کے آنسو بہائے، میرے حضور میں کلیجہ رکھ دیا تو پھر ان کے لیے میں یائے تخصیص کیوں نہ لگائوں اور ان کو کیوں نہ کہوں کہ یہ میرے ہیں۔

(۲)……اور دوسرا عمل یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو جو متبع سنت و شریعت ہو اور بزرگانِ دین کا صحبت یافتہ و اجازت یافتہ ہو اپنا مربی اور دینی مشیر بنالیں اور اس کے مشورہ سے خلوت میں کچھ ذکر کرلیا کریں تو ذکر سے جو نور پیدا ہوگا خواہ قلیل و ضعیف ہو بوجہ ہم جنسیت کے شیخ کے نورِ قوی و کثیر کا جاذب و جالب ہوگا کیونکہ بقاعدہ اَلْجِنْسُ یَمِیْلُ اِلَی الْجِنْسِ   نور نور کو جذب کرتا ہے اور نار نار کو جذب کرتی ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں    ؎

نوریاں مر نوریاں را جاذب اند
ناریاں مر ناریاں را طالب اند

نوری لوگ نوریوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور ناری ناریوں کے طالب ہوتے ہیں۔ پس سالک جب ذکر کرتا ہے تو یہ نور ذکرِ شیخ کے باطنی فیضان کا ذریعہ ہوتا ہے۔ پس جو ذکر کا التزام نہیں کرے گا اس کو شیخ سے نفع کامل نہ ہوگا جس طرح قطب نما کی سوئی پر مقناطیس کی ہلکی سی پالش ہوتی ہے جس کی وجہ سے قطب شمالی کا خزانۂ مقناطیس اس سوئی کو اپنی طرف کھینچے رکھتا ہے، اگر سوئی پر مقناطیس کی تھوڑی سی پالش نہ ہو تو قطب شمالی اس سوئی کو شمال کی طرف جذب نہیں کرے گا۔ اسی طرح التزامِ ذکر کو استقامت میں بہت خاص دخل ہے۔ قلب کی سوئی پر ذکر کے نور کی پالش کی برکت سے حق تعالیٰ کا نور ذاکرین کے قلوب کو اپنی طرف کھینچے رکھتا ہے۔ جس طرح قطب نماکی سوئی ہمیشہ قطب شمالی کی طرف مستقیم رہتی ہے اگر قطب شمالی سے ذرّہ برا بر اس کا رُخ پھیر نا چاہو تو تڑپ جاتی ہے اور جب تک اپنا رُخ قطب شمالی کی طرف درست نہیں کر لیتی بے چین رہتی ہے۔ اسی طرح جس قلب پر نور کی پالش ہوتی ہے تو ذرا بھی میلان الیٰ المعیصت ہو اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رُخ پھرنے لگے تو ایسا دل تڑپ جائے گا۔

(۳)…… اور تیسرا عمل یہ ہے کہ خلوت و جلوت میں حقوق العباد کا خاص خیال رکھیں کیونکہ حقوق العباد صاحبِ حق کی معافی کے بغیر معاف نہیں ہوتے اور ہر کام کو شریعت کے مطابق کریں۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries