مجلس ۱۴جولائی ۲۰۱۴ء ۔اللہ کی رحمت کا کوئی موسم نہیں ہوتا!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

خلاصۂ مجلس: محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم تشریف آوری میں تاخیر تھی،مجلس کے شروع میں جناب تائب صاحب دامت برکاتہم  نے اپنے اشعار سنائے۔  اشعار کے اختتام پر اُن کے بھائی جناب اثر صاحب دامت برکاتہم نے اپنے اشعار پیش کئے، اثر صاحب کے اشعار کے دوران ہی حضر ت والا مجلس میں رونق افروز ہوئے اور اشعار جاری رکھنے کو فرمایا۔   اشعار کے اختتام پر  حضرت والا دامت برکاتہم نے  خزائنِ شریعت و طریقت  سے ملفوظات پڑھ کر سنانا شروع کئے ساتھ ساتھ اُن کی تسہیل بھی فرماتے رہے۔ یوں یہ پرنور مجلس  جو تقریباً ۵۲منٹ پر مشتمل تھی اختتام کو پہنچی ۔

ملفوظات خزائن شریعت و طریقت

اولاد کی تربیت کا انداز:  ارشاد فرمایا کہ اولاد کے بارے میں بھی محبت کا معاملہ رکھو، ان کی زیادہ پٹائی مت کرو، بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اگر اولاد سے کسی کام کا کہنا ہے تو یہ کہو کہ یہ میرا مشورہ ہے، یہ مت کہو کہ یہ میرا حکم ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ حکم کی خلاف ورزی کردے جس کی وجہ سے وہ گنہگار ہوجائے۔ اس لیے بزرگوں نے اپنی اولاد سے یہی کہا کہ بیٹا میرا مشورہ یہ ہے کہ تم ایسا کرلوتو اگر مشورے کے خلاف ہوگا تو مشورے کی مخالفت جائز ہے کیونکہ حضرت بریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مغیث سے اپنے اوپر طلاق واجب مت کرو کیونکہ وہ تم پر فریفتہ ہے، تمہارے عشق میں رو رہا ہے۔ حضرت بریرہ نے عرض کیا کہ یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ؟ اگرآپ کا حکم ہے تو سرآنکھوں پر، ہم آپ کے حکم پر جان دے دیں گے لیکن اگر مشورہ ہے تو ہمیں اس کا تحمل نہیں ہے، ہماری ان سے مناسبت نہیں ہے لہٰذا باپ کو چاہیے کہ جب اولاد بڑی ہوجائے تو اس سے یہی کہو کہ یہ میرا مشورہ ہے۔

نفع کے لیے مناسبت شرط ہے: ارشاد فرمایا کہ مولانا مسیح اﷲ خان صاحب جلال آبادی رحمۃ اﷲ علیہ جو اکابر علماء و مشایخ میں سے تھے انہوں نے لکھا ہے کہ اگر کسی کے شیخ کا انتقال ہوجائے تو وہ دوسرا شیخ تلاش کرے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ تین دن تک سوگ منالو پھر اس کے بعدکوئی دوسرا شیخ تلاش کرو اور اگر کسی کا شیخ زندہ ہے لیکن اس سے مناسبت نہیں ہے تو شیخ وسیلہ ہے مقصود نہیں ہے، مقصود اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے، وہ فوراً دوسرا شیخ تلاش کرے جس سے مناسبت ہواور پہلے شیخ سے اجازت لینا بھی ضروری نہیں ہے بلکہ اس کو اطلاع بھی نہ کرو، جس طرح اس سے دعائیں لے رہے تھے دعائیں لیتے رہو۔ اس کی مثال  ایسی ہے جیسے کسی نے ایک بوتل خون لے لیا ہو مگر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ خون چڑھانے سے تم مرجاؤ گے کیونکہ یہ تمہارے بلڈ گروپ سے نہیں ملتا اسے فوراً واپس کرو اور اپنے بلڈ گروپ والا خون لو، تو کیا خون واپس کرنے کے فیصلہ سے وہ صاحب ڈاکٹر سے ناراض ہوجائیں گے؟ اسی طرح یہ دیکھو کہ اگر اﷲ نہ ملا تو پیر کس کام کا ہوا؟

میں اعلان کرتا رہتا ہوں کہ جس نے غلطی سے جوشِ محبت میں یا میری تقریر سے متاثر ہو کر مجھے شیخ بنالیا ہو اگر اسے کوئی اور شیخ اپنی مناسبت کا ملتا ہوتو میری طرف سے صرف اجازت نہیں بلکہ حکم ہے کہ تم مجھے چھوڑ دو اور جا کر فوراً اس کو مربی بنا لو جس سے مناسبت ہے کیونکہ میں امت کے ایک فرد کو بھی ضائع کرنا جرمِ عظیم سمجھتا ہوں، امت کے ایک مسلمان کو خدا نہ ملے تو میں ایسی پیر ی کو طلاق دیتا ہوں، میں دعا میں بھی یہ کہتا ہوں کہ اے خدا جن لوگوں کا مجھ سے جڑنا آپ کے علم میں مفید ہے آپ ان کو مجھ سے جوڑ دیجئے اور اگر آپ کے علم میں ان کے لیے خیر نہ ہوتو ان کی مناسبت کا شیخ ان کو عطا فرما دیجیے۔ اب اس سے زیادہ کیا اخلاص پیش کرسکتا ہوں۔

علما ء کا اکرام: ارشاد فرمایا کہ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ علماء کا اکرام علماء کے ذمہ بھی ہے، عام عالم یہ سمجھتے ہیں کہ علماء کا اکرام عوام کے ذمہ ہے اور یہ بھی فرمایا کہ جو علماء جاہ میں مشہور ہوگئے ان کا اکرام کافی نہیں ہے جو علماء مسکین ہیں ان کا اکرام بھی لازم ہے، ورنہ بڑا عالم جو مرسڈیز پر جارہا ہے اس کے پیچھے تو پورا مجمع لگا ہوا ہے اور بے چارے مسکین ملا کو کوئی پوچھتا بھی نہیں، اس کا بھی اکرام کرو، اﷲ نے اس کو بھی علمِ وحی سے نوازا ہے۔

سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نماز میں میرے قریب  اہلِ فہم، اہلِ دین، اہلِ علم کھڑے ہوں۔ اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جب تقریرہو تو علماء حضرات مقرر کے قریب بیٹھیں۔ اس سے مقرر کو فیض ہوتا ہے ، سمجھ دار لوگ سامنے ہوں تو مضامین کی آمد ہوتی ہے۔ جہاں تک ہوسکے اہلِ علم حضرات کو قریب بیٹھنا چاہیے۔

اہل اﷲ کی محبت:  ارشاد فرمایا کہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے کلید ِمثنوی میں یہ شعر لکھا ہے؎

آہِ من گر اثرے داشتے
یار بکویم گذرے داشتے

اگر میری آہ میں کچھ اثر ہے، اگر میری آہ کچھ اثر رکھتی ہے تو میرا دوست ضرور میری گلی میں آئے گا ۔ اﷲ کا شکر ہے کہ میں اہل درد محبت کو خوب پارہا ہوں اور اہل درد بھی مجھے ڈھونڈ رہے ہیں، الفت کا جب مزہ ہے جب دونوں بے قرار ہوں اور دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی۔ مولانا رومی رحمۃا ﷲ علیہ فرماتے ہیں    ؎

تشنگاں گر آب جویند از جہاں
آب ہم جوید بہ عالم تشنگاں

پیاسے لوگ اگر جہان میں پانی کو ڈھونڈ رہے ہیں تو پانی بھی اپنے پیاسوں کوتلاش کررہا ہے۔ دیکھو اﷲ والے اپنے عاشقوں سے اپنے طالبین سے اور اپنے احباب سے محبت کرتے ہیں، یہ ہمارے اسلاف کا ورثہ چلا آرہا ہے۔

مولانا یحییٰ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ وعدہ کرکے گئے تھے کہ غروب سے پہلے آجائیں گے، اب مولانا گنگوہی رحمۃا ﷲ علیہ بے چینی سے اپنے شاگرد اور مرید کا انتظار کررہے ہیں، اتنے میں سورج ڈوب گیا مولانا یحییٰ نہیں آئے تو قطب العالم مولانا گنگوہی نماز پڑھ کر صحن میں بے چینی سے ٹہلنے لگے کہ آہ! اب تک مولانا یحییٰ کیوں نہیں آیااور  یہ شعر پڑھ رہے تھے ؎

او وعدہ فراموش تو مت آئیو اب بھی
جس طرح سے دن گذرا گذر جائے گی شب بھی

یہ تھے ہمارے آبا ، جو یک طرفہ ٹریفک نہیں چلاتے تھے کہ مرید بے چارے مرتے رہیں اور شیخ جی اپنے کام  میں لگے رہیں۔ 

حدیث اَلْخَلْقُ عَیَالُ اللّٰہِالٰخ کی ایک جدید اور نادر تشریح:  ارشاد فرمایا کہحدیث میں آیا ہے کہ:

اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ فَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَی اللّٰہِ مَنْ اَحْسَنَ اِلٰی عِیَالِہٖ
(مشکاۃ المصابیح،کتابُ الاٰداب، بابُ الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق، ص:۴۲۵)

مخلوق اللہ کی عیال ہے۔ اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ ہے۔جو اس کی عیال کے ساتھ بھلائی اوراحسان کرتاہے۔ اور اللہ کی مخلوق میں کسی کو بُری نظر سے دیکھنایا دل میں اس کے لیے بُرے خیال لانا بتائیے!کیا یہ مخلوق کے ساتھ احسان ہے؟ اگر کسی کے اہل و عیال کو کوئی بُری نظر سے دیکھے تو کیا  اس کو اچھا لگتا ہے۔ یا اگر اس کا بس چلے تو اس کو کچا چبا جائے گا۔میرے ایک دوست نے بتایا کہ ایک شخص میری بیٹی کو جو برقعہ میں تھی باربار دیکھ رہاتھا تو میرا جی چاہتا تھا کہ اس کو گولی مار دوں۔ اس لیے کہتا ہوں کہ جو کسی کو بُری نظر سے دیکھتا ہے۔ اللہ کا غضب اس سے زیادہ کسی فعل پر نازل نہیں ہوتا۔ جب ایک باپ اپنی اولاد کو بُری نظر سے دیکھنے والے کو اپنا دوست نہیں بنا سکتاتو اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے ماں باپ سے زیادہ تعلق ہے وہ ایسے شخص کو اپنا دوست کیسے بنائیں گے۔ چنانچہ جس لمحہ، جس سیکنڈ، جس ساعت میں بد نظری ہوتی ہے اسی لمحہ اور اسی سیکنڈمیں دل معذب ہو جاتاہے۔ بد نظری کا نقطۂ آغاز اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نقطۂ آغاز ہے۔ کیونکہ جیسے ہی نظر ناپاک ہوتی ہے ویسے ہی دل پلید ہو جاتا ہے اور مقامِ لیدپر خیال پہنچ جاتاہے، پھر اس کو اللہ کے قرب کی عید کیسے مل سکتی ہے اور اگر توبہ نہیں کرے گا تو ساری زندگی مُعذَّب رہے گا۔ اسی لیے حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ عشقِ مجازی عذابِ الٰہی ہے۔ وہ انتہائی ظالم گدھا اور بیوقوف ہے، جو غیر اللہ کے نمک پر مرتاہے وہ عذابِ الٰہی خریدتا ہے۔ دنیا کی مارکیٹ دو قسم کی ہے۔ اسی دنیا کی مارکیٹ میں لوگ مولیٰ کو یاد کرکے، اشکبار آنکھوں سے گناہوں سے توبہ کرکے ولی اللہ بن رہے ہیں اور جنت خرید رہے ہیں اور اسی دنیا میں بعض لوگ غیر اللہ پر مر کر دوزخ خرید رہے ہیں۔ یہی دنیا ولی اللہ بننے کی مارکیٹ بھی ہے اور دوزخی زندگی خریدنے کی مارکیٹ بھی ہے۔

اہلِ محبت کی قیمت: ارشاد فرمایا کہ ہجرت کو فرض فرما کر اﷲ تعالیٰ نے اپنے عاشقوں کی قیمت بیان کردی کہ کفارِ مکہ ہم سے دور ہیں کیونکہ ہمارے نبی کے ناقد رے ہیں، یہاں کعبہ تو قریب ہے مگر میرا نبی میرے عاشقوں کے پاس نہیں ہے اور کعبہ سے زیادہ قیمتی عاشقین ہیں۔ ان کی صحبت کی برکت ہی سے دنیا پر کعبہ کی عظمت واضح ہوگی ورنہ جب گھر والے ہی سے دوستی نہیں ہے تو گھر میں کیا مزہ آئے گا۔ لہٰذا اے صحابہ میرے نبی کے ساتھ تم سب میرے عاشقوں کے پاس جاؤ، کعبہ چھوٹتا ہے تو چھوٹنے دو، میرا گھر چھوٹتا ہے تو گھبراؤ مت کیونکہ گھر والا تمہارے ساتھ ہے۔ کعبہ تو چھوٹ جائے گا لیکن کعبہ والا تمہیں مل جائے گاورنہ میری نافرمانی سے کعبہ میں رہتے ہوئے تم مجھ سے دور رہو گے،گھر میں رہ کر گھر والے سے دور رہو گے۔ لہٰذا میرا گھر چھوٹنے کی فکر نہ کرو، میری خوشی تمہارے لیے ہزاروں کعبہ سے بہتر ہے۔ اپنے عاشقوںکی خاطرمیں اپنے نبی سے اپنا گھر چھڑا رہا ہوں۔ اس سے میرے عاشقوںکی قیمت پہچانو۔

حضرت والا دَامَتْ بَرَکَاتُہُمْ وَطَالَتْ حَیَاتُھُمْ کی زندگی کا ایک  ورق:حضرت والا فرماتے ہیںکہ میں دن رات شیخ کی خدمت میں رہتا تھا، میرا کوئی ذریعۂ معاش نہیں تھا۔ تین دفعہ دواخانہ کھولا اور تینوں دفعہ بغیر قیمت نیلام کرکے شیخ کے پاس آگیا۔ میرے بعض بزرگوں نے کہا کہ شیخ کے بعد تمہارا کیا حشر ہوگا ،تمہارے بیوی بچے کہاں سے کھائیں گے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں شیخ کو چھوڑ کر دواخانہ کھول کر حکیمی کروں۔ ان کی بھی محبت تھی، ان کے خلوص میں کوئی کمی نہیں تھی ، لیکن میں نے سوچاکہ میں ساری زندگی شیخ کے ساتھ رہا، اب آخر عمر میں ان کو چھوڑ کر چلا جاؤں اور دواخانہ کھولوں تو حضرت کیا سوچیں گے کہ زندگی بھر ساتھ رہا، اب جب میرا یہاں کوئی نہیں ہے اور میں صاحبِ فراش ہوں، بچے ہندوستان میں ہیں، ایسے وقت میں یہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا، بے وفا نکلا۔ میں نے کہاکہ میرا جوحال ہو سو ہو لیکن بے وفائی کا داغ میں اپنے سر نہیں لے سکتا۔ بے وفائی سے مجھے انتہائی بغض ہے اور پھر ایک اللہ والے کے ساتھ بے وفائی ! اور وہ بھی اپنے شیخ کے ساتھ بے وفائی! اللہ کی توفیق سے جب سے شیخ کا دامن پکڑا از اوّل تا آخر شیخ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ سولہ سال تک دن رات شیخ کی خدمت میں رہا اور شیخ کی روح میرے سامنے پرواز ہوئی۔میں مجبورِ محبت تھا، شیخ کی جدائی پر قادر ہی نہیں تھا حالانکہ شیطان نے میرے دل میں بھی وسوسہ ڈالا کہ واقعی بات ہے حضرت کے انتقال کے بعد تم کہاں جاؤگے تو میں نے شیطان کو جواب دیا کہ شیخ کا انتقال ہوجائے گا لیکن جس مولیٰ کے لیے میں اپنے شیخ پر مر رہا ہوں وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا، وہ مجھے سنبھال لے گا۔ پھر شیطان نے کہا کہ مگر دنیا تو دارالاسباب ہے، جب تمہارے پاس کچھ ہوگا ہی نہیں تو کھاؤگے کہاں سے ؟ میں نے کہا کچھ نہیں تو چنے تو مل ہی جائیں گے وہی بھنوا کر چبالوں گا، پھر اس نے کہا کہ کپڑے کہاں سے لاؤگے؟ کیا ننگے پھروگے؟ اور جوتے تک تمہارے پاؤں میں نہیں ہوں گے توکیا کروگے؟ میں نے کہا ناف سے گھٹنے تک ستر ہے۔ ایک تہبند باندھ لوں گا، ستر چُھپ جائے گی اور نماز بھی ہوجائے گی اور جوتے نہ ملے تو کھڑاؤں (لکڑی کے چپل) پہن لوں گا اور کھڑاؤں بھی نہ ملی تو ننگے پیر پھروں گا۔

جو میرے ہمدرد تھے وہ تو ہمدردی میں یہ مشورہ دیتے تھے لیکن جو حاسدین تھے وہ پوری زندگی طعنہ دیتے رہے کہ شیخ کے ساتھ مالٹا چوستا ہے اور مرغی کھاتا ہے، شیخ کے بعد دیکھیں گے کہ اس کا کیا حشر ہوتا ہے۔ آج ان حاسدوں نے حشر دیکھ لیا کہ شیخ کے بعد بھی میں مالٹا چوس رہا ہوں اور مرغی کھا ہی نہیں رہا ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ نے میرے دسترخوان پر برکت نازل فرمائی ہے کہ دوسروں کو مرغی کھلانے کی سعادت نصیب فرمائی ہے۔

اللہ تعالیٰ اللہ والوں کی خدمت کو رائیگاں نہیں فرماتے۔ ہماری ساری عبادات میں اعتراض لگ سکتا ہے لیکن اللہ والوں کی خدمت میں ان شاء اللہ تعالیٰ کوئی اعتراض نہیں لگتا جیسے کسی فیکٹری مالک کا ایک ہی پیارا بیٹا ہو اور کوئی شخص اس بیٹے کی خدمت کررہا ہے تو سب کے کاموں میں وہ مالک اعتراض کرسکتا ہے کہ یہ کیوں کرتے ہو اور وہ کیوں کرتے ہو لیکن اس کے پیارے بیٹے کی جو خدمت کررہا ہے اس پر اعتراض نہیں کرے گا۔ اللہ والوں کی خدمت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی کسی کی اولاد کے ساتھ محبت اور خدمت کررہا ہو۔ ساری مخلوق اللہ کی اہل و عیال ہے اور مخلوق میں جو خاص بندے ہیں وہ اللہ کے اہل و عیال کی سب سے اعلیٰ قسم ہے لہٰذاان کی خدمت اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔

انبیاء علیہم السلام کے علمِ غیب کی نفی کی انوکھی دلیل: آج صبح ناشتہ کے بعد حضرت والا نے سب لوگوں کو جو صبح کی سیر کے لیے حضرت والا کے ساتھ آئے تھے ، اپنے حجرہ میں طلب فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ میں نے آپ لوگوں کو اس لیے بلایا کہ آج کچھ لوگ عرفہ کا روزہ رکھنے والے تھے اس لیے مجھے آپ لوگوں کو وہ حدیث سنانی ہے کہ اگر کھانے کے وقت کوئی روزہ دار سامنے بیٹھا ہو تو کیا دعا پڑھنا سنت ہے۔

مشکوٰۃ شریف کی روایت ہے کہ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ داخل ہوئے اور سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کھاناتناول فرمارہے تھے۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے بلال آؤ! ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ۔ حضرت بلال نے عرض کیا کہ اِنِّیْ صَائِمٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اے اللہ!کے رسول میں تو روزہ سے ہوں۔ اسی سے معلوم ہوا کہ نبی کو علمِ غیب نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو علمِ غیب ہوتا تو آپ کبھی ان کوکھانے کے لیے نہ بلاتے۔بلانادلیل ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم  کوحضرت بلال رضی اللہ عنہ کے روزہ کا علم نہ ہو نے کی اوریہی دلیل ہے نبی کے عالم الغیب نہ ہونے کی۔ اس حدیث سے انبیاء کے علمِ غیب کی نفی کا ثبوت شاید ہی کسی محدث نے بیان کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے شاید مجھے اس علم میں خاص فرمایا۔ بتائیے! علمِ عظیم عطا ہوا ہے یا نہیں ؟ جو محدثین کرام یہاں موجود ہیں ان سے پوچھتا ہوں کہ اس حدیث سے علمِ غیب کی نفی آپ نے کسی سے سنی تھی یا کسی کتاب میں دیکھی تھی یا جن استادوں سے آپ نے پڑھا ہے ان سے کبھی سنی تھی؟ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج سارے عالَم کے بڑے بڑے علماء اس فقیر کی باتوں پر وجد کرتے ہیں اور اس فقیرکی باتیں نوٹ کرتے ہیں۔اس علمِ عظیم سے آج دل مست ہورہا ہے۔ بتائیے انبیاء کو علمِ غیب نہ ہونے کی یہ کتنی بڑی دلیل ہے۔

اور ھُدھُد نے بھی حضرت سلیمان علیہ السلام سے کہا تھا کہ میں آپ کے لیے ایسی خبر لایا ہوں جس کا آپ کو علم نہیں ہے یعنی بلقیس کی حکومت کی میں خبر لایا ہوں اور اس خبر سے آپ بے خبر ہیں ۔ معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے علمِ غیب کی ھُدھُد نفی کررہا ہے ۔ یہ ھُدھُد تو بہت پرانا وہابی نکلا۔

کیا کہیں لوگ قرآن شریف نہیں دیکھتے، جگہ جگہ انبیاء کے علمِ غیب کی نفی ہے:

﴿وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ﴾
(سورۃ الاعراف، آیت:۱۸۸)

حضورصلی اﷲ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ اگر میں علمِ غیب جانتا تو اپنے لیے تمام خیر جمع کرلیتا۔ میںکہتا ہوں کہ نبی کو اللہ کے برابر کیوں کرتے ہو، کیا اللہ میں اور پیغمبر میں فرق نہیں ہونا چاہیے ؟ نبی کو اللہ کے برابر کرنا یہ حماقت واضحہ ظاہرہ کالشمس البازغہ ہے ۔ بتائیے حضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے یا نہیں ؟ تو سجدہ کرنے کی حالت میں آپ ساجد ہوئے یا نہیں اور اللہ تعالیٰ مسجود ہوئے تو ساجد اور مسجود کیسے برابر ہوسکتے ہیں۔ جس کا سر سجدہ میں اللہ کی عظمتوں کے قدموں میں پڑا ہو تو اس ساجد اور مسجود کو بعض حمقاء برابر کرنا چاہتے ہیں اور اس عقیدہ سے خود حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو ناراض کرتے ہیں۔ پیغمبرکو اللہ کے برابر کرنا خود حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم کے ساتھ بے ادبی و گستاخی ہے ۔ نبی نبی ہے اللہ اللہ ہے ۔ ہاں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ؎

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اللہ تعالیٰ کے بعد آپ ہی کا درجہ ہے، نہ کوئی نبی آپ کے برابر ہے، نہ کوئی فرشتہ آپ کے برابر ہے ، نہ عرش و کرسی آپ کے برابر ہیں۔اللہ کے بعد ساری کائنات میں آپ ہی بڑے ہیں لیکن نبی کو اللہ کے برابر کرنا غلو فی الدین اور تجاوز عن الحدود ہے اور خود حضور صلی اﷲ علیہ وسلم  کی ناراضگی کا سبب ہے ۔

تو جب حضرت بلال نے عرض کیا کہ میں روزہ سے ہوں تو آپ نے فرمایا:

 نَأْکُلُ رِزْقَنَا وَفَضْلُ رِزْقِ بِلَالٍ فِی الْجَنَّۃِ
(مشکاۃ المفاتیح، کتاب الصوم، باب فی الافطار من التطوع)

ہم تو اپنا رزق کھا رہے ہیں اور بلال کا رزق جنت میں جمع ہورہا ہے ۔ یہاں آپ نے حضرت بلال کا نام لیا تاکہ ان کو مزہ آجائے کہ سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک پر میرا نام آیا ورنہ آپ ضمیر پر بھی اکتفا فرماسکتے تھے کہ فَضْلُ رِزْقِکَ فِی الْجَنَّۃِ لیکن حضرت بلال کی طیبِ خاطر کے لیے آپ نے ان کا نام لیا اور اس جملہ میں ان کے جنتی ہونے کی بشارت بھی مل گئی۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries