مجلس ۱۵جولائی ۲۰۱۴ء ۔اہل اللہ کو اپنا خلیل بنالو!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

خلاصۂ مجلس: محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم تشریف آوری میں تاخیر تھی،مجلس کے شروع میں جناب اثر صاحب دامت برکاتہم  نے اپنے اشعار سنائے۔  اس کے بعد جناب ممتاز صاحب نےملفوظات پڑھنے شروع کئے  اس  دوران ہی حضر ت والا مجلس میں رونق افروز ہوئے اور ملفوظات جاری رکھنے کو فرمایا۔   کچھ ہی دیر میں خود حضرت والا دامت برکاتہم نے  خزائنِ شریعت و طریقت  سے ملفوظات پڑھ کر سنانا شروع کئے ساتھ ساتھ اُن کی تسہیل بھی فرماتے رہے۔ یوں یہ پرنور مجلس  جو تقریباً ۵۲منٹ پر مشتمل تھی اختتام کو پہنچی ۔

ملفوظات خزائن شریعت و طریقت

نبی علیہ السلام کی خلو ت و جلوت کی وِراثت:  دو سرا مضمون یہ ہے،مخاطب علمائے کرام تھے کہ جلوتِ نبوت کے کار ہائے دینیہ کا نفع مو قوف ہے خلوتِ نبوت کے کار ہائے وِلایت کے اہتمام پر ۔ پس دینی مشاغل و عظ و درس واہتمام کے ساتھ تخلّی مع الحق اور التزامِ ذکر و فکر سے استغناء محض دھو کہ ہے۔ از بس ضروری بلکہ تخلی مع اﷲ کو تقدم اور اوّلیت حاصل ہے جلو ت کی خدمات پر کَمَا صُرِّحَ فِیْ الْبُخَارِیِّ قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُبِّبَ اِلَیَّ الْخَلَاۗءُ، نبوت پر اس کا تقدم بڑے اہم اسرار کی طرف دال ہے نیز بعد ظہورِ نبوت تمام عمر مبارک کے اہتمام خلوۃ ولا یۃ النبوۃ کا ذکر قرآن شریف و احادیث شریفہ میں موجو د ہے۔ بس وراثتِ جلوت نبی علیہ السلام کے ساتھ اہلِ علم کو وراثتِ خلوت نبی علیہ السلام کا بھی اہتمام ضروری ہے ورنہ دینی خدمات محض کماً بہت معلوم ہوں گی لیکن کیفاً بے جان ہوں گی۔ہر چند کہ وراثت سے مراد حدیث شریف میں علم مُصرِّح ہے لیکن علم سے مقصود عمل ہی ہے ، علم تو وسیلۂ عمل ہے۔

(تسھیل از مرتب یعنی محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم): وہ جملہ دینی کا م جو نبی علیہ السلام کی جلو ت سے متعلق ہیں ان کا نفع مو قوف ہے نبی علیہ السلام کی خلو ت کے کارہائے ولایت کی اتبا ع پر۔ پس وعظ و درس وجملہ دینی مشاغل کے اہتمام کے ساتھ خلوت مع اﷲ و مناجات اور ذکر و فکر کے التزام سے لاپرواہی سخت دھو کہ ہے، بلکہ جلوت کی خدمات پر خلوت کے تعلق مع اﷲ و رجوع الیٰ اﷲ کو اوّلیت حاصل ہے جیسا کہ بخاری شریف میں تصریح ہے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ نبوت ملنے سے پہلے مجھے خلوت محبوب کردی گئی۔ نبوت پر اس کا تقدم بڑے اہم اسرار کی طرف دلالت کرتا ہے۔ اور عطا نبوت کے بعد بھی تمام عمر مبارک ولایتِ نبوت کے کاموں کے اہتمام کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ پس نبی علیہ السلام کی جلوت کی وراثت (یعنی وعظ و درس و تبلیغ) کے ساتھ نبی علیہ السلام کی خلوت کی وراثت (ذکر و فکر و نوافل) کا اہتمام بھی ضروری ہے ورنہ دینی خدمات کمیت کے اعتبار سے بہت معلوم ہوں گی لیکن کیفیت کے اعتبار سے بے جان ہوں گی۔) اگر چہ حدیثِ پاک: 

اَلْعُلَمَاۗءُ فَاِنَّھُمْ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاء
(کنزُ العمال،کتابُ العلم،ج:۱۰، ص:۱۵۰)

(یعنی علماء انبیا ء کے وارث ہیں ) میں وراثت سے مراد علم ہے لیکن علم سے مقصود عمل ہی ہے جو موقوف ہے خلوتِ نبی کے کار ہائے ولایت کی اتبا ع پر۔

تقویٰ کی آ گ اور قلوبِ صا دقین:  ﴿وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(سورۃ التوبۃ، آیت:۱۱۹)اس آیت پر ایک مثال حق تعالیٰ شانہٗ نے حضرتِ اقدس کی برکت سے عطا فرمائی جس کے بیان سے اہلِ علم کو وجد آ یا وہ یہ ہے کہ کتابوں میں اگر آ گ لکھی ہو اور آ گ کے خواص پر بہت ہی ضخیم کتابیں بھی ہوں اور کوئی عمر بھر اس کو پڑھتا رہے تو کیا آ گ کی حرارت سے استفادہ کر سکتا ہے تاآنکہ خارج میں آ گ کے پاس جا کر حرارت نہ حاصل کرے۔ بس تمام دینی انعامات صدق و یقین، خشیت و تقویٰ، محبتِ شدید مع اﷲ کی آ گ کتابوں کے نقو ش سے حاصل نہیں ہوسکتی، خارج میں جن کے سینے اس آ گ کے حامل ہیں ان کی صحبت میں رہ کر ان نعمتوںکا استفادہ کرنا ہوگا جیسا کہ حضرت عارف رومی فرما تے ہیں ؎

مہر پاکاں در میانِ جاں نشاں
دل مدہ اِلاَّ بمہر دل خوشاں

حدیثِ پاک میں ہے:  اَلْمَرْءُ عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہٖ (مشکاۃُ المصابیح، کتاب الاٰداب، باب الحب فی اللّٰہ ومن اللّٰہ)یعنی ہر شخص اپنے گہرے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ پس کسی اہل اﷲ کو اپنا خلیل بنانا پڑ ے گا ورنہ تعلقِ ضعیف سے استفادہ بھی ضعیف ہوگا۔

قیمت کا اعتبار نسبت سے ہے : مضاف کی قیمت ہمیشہ مضا ف الیہ کی قیمت کے اعتبار سے ہو تی ہے پس بیت اﷲ کو جو شرف حاصل ہے وہ ’’  بَیْتِیْ ‘‘ کی یا ء سے ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے اس کو فرما دیا کہ یہ میرا گھر ہے ۔ بس اس نسبت سے یہ بیت محرّم تشریفًا وتعظیمًا وتکریمًا ومہابۃً تمام کائنات کے بیو ت اور محلاّتِ شاہی سے اس قدر مافوق ہے جس کا ہم تصور و اِدراک صرف اپنی معرفت کے اعتبار سے تو اجمالاً کچھ کرسکتے ہیں لیکن حقِ عظمت کی معرفت ہمارے لیے محال ہے کیونکہ جس مضاف الیہ سے اس کو شرف ہے اس کی صفات غیر متناہیہ و غیر محدودہ ہیں پس عظمتِ کعبہ اور اس کی تجلیات کا مشاہدہ بھی غیر متناہی ہے۔ ہر شخص کی روح اپنی استعداد کے اعتبار سے اِدراک کرتی ہے جس قدر تعلق والہانہ جس کو حق سبحانہٗ و تعالیٰ سے ہوتا ہے اسی قدر اور اس نسبت سے ان کے گھر پر تجلیاتِ قرب کا مشاہدہ کرتا ہے۔ بیت کا مزہ اس روح سے پوچھنا چاہیے جو  ’’بَیْتِی ‘‘ کے یاء سے عا رف اور مقرب ہے۔ اسی طرح حال اگرچہ محل کا محتاج ہو تا ہے لیکن محل کی قیمت حال سے ہے۔ ایک جھو نپڑا ہے لیکن اگر اس میں خدا کا رسول ساکن و مقیم ہے تو وہ تمام زمین و آسمان اور پوری کائنات سے  وہ  جھو نپڑاقیمتی ہے۔ اسی طرح انسان کے جسم میں ننھا اور چھوٹا سا دل ہے لیکن جس دل میں اﷲ ہے تو یہ دل اپنے مکین کے شرف سے کس قد ر قیمتی ہو جا تا ہے، کَمَا قَالَ الْعَارِفُ  ؎

ہاں دہاں ایں دلق پوشانِ من اند
صد ہزار اندر ہزاراں یک تن اند

اے لوگو!یہ گدڑی پوش میرے خاص بندے ہیں ۔ میری نسبت کے سبب ان کا ایک جسم ہزاروں خاکی اجسام سے فوق تر ہے؎

رُخِ زرّینِ من منگر کہ پائے آہنیں دارم
چہ میدانی کہ در با طن چہ شاہے ہم نشیں دارم

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries