مجلس ۱۶جولائی ۲۰۱۴ء ۔معافی ہی سے کام بنے گا!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

خلاصۂ مجلس: محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم تشریف آوری میں تاخیر تھی،مجلس کے شروع میں جناب رمضان صاحب  نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار سنائے۔  اس کے بعد جناب ممتاز صاحب نےملفوظات پڑھنے شروع کئے  اس  دوران ہی حضر ت والا مجلس میں رونق افروز ہوئے اور خود حضرت والا دامت برکاتہم نے  خزائنِ شریعت و طریقت  سے ملفوظات پڑھ کر سنانا شروع کئے ساتھ ساتھ اُن کی تسہیل بھی فرماتے رہے۔ یوں یہ پرنور مجلس  جو تقریباً ۴۸منٹ پر مشتمل تھی اختتام کو پہنچی ۔

ملفوظات خزائن شریعت و طریقت

اِستغفار کا ایک مضمون:  استغفار کا ایک مضمون دعا میں یہ بھی ہے کہ اے اﷲ مو قعِ سکوت پر میرانطق اور مو قعِ نطق پر میرا سکوت اور موقعِ اظہا ر پر میرا اخفاء اور مو قعِ اخفاء پر میرا اظہار سب معاف فرما دیجئے۔ جملہ اقوال و اعمال و حرکات و سکنات سب عفو فرما دیجئے کہ کسی طرح سے میں ان پر مطمئن نہیں ؎

من نہ گویم کہ طاعتم بپذیر
قلم عفو بر گناہم کش

نفس کیسے مٹتا ہے؟: صرف عبادت اور ذکر سے نفس نہیں مٹتا ورنہ شیطان کی عبادت ایک ہزا ر سال کی اس کے نفس کو ضرور مٹا دیتی اور حال اس کا ظاہر ہے۔ پس نفس کو مٹانے کے لیے صادقین کی معیت و صحبت بہت ضروری ہے اور تعلق بھی غلامی کا ہو محض دوستی کا نہ ہو ۔ یہی بات شیطان کو حاصل نہ تھی ۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرما تے ہیں:

﴿وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَ نَابَ اِلَیَّ﴾
(سورۂ لقمان، آیت:۱۵)

اس آیتِ شریفہ سے معلوم ہوا کہ تعلق اہل اﷲ سے اتباع کا مامور بہ اور نفع کامل کا مدار صرف اتباع پر ہے۔ اگر اتبا ع نہ ہو تو رسمی مریدی بھی مفید نہیں۔ پس شیخ سے محض دوستانہ تعلق بے سود ہے، غلامی کا تعلق ہونا چاہیے۔ نیز اہل اﷲ کی اولاد و اقرباء اور اہل محلہ کے دین سے محروم رہنے کی وجہ عدم اتباع ہے لہٰذا ان کی محرومی پر اِشکال با قی نہ رہا۔ 

تشریح میں فرمایا:  شیخ سے ایسا  تعلق ہو جیسے غلام کا آقا سے ہوتا ہے۔

کبر و عجب کی تحقیق، منطق کی اصطلا ح میں : ایک جید عالم سے کبر و عجب کی حقیقت عرض کر رہا تھا کہ قلب میں یہ مضمون عطا ہوا کہ یہ دونوں ایسی کلی ہیں جن میں عموم و خصوص کی نسبت ہے ۔ کبر اعم ہے اور عجب اخص ہے۔ پس ہر متکبر مبتلائے عجب بھی ہے ( کہ تکبر کی تہہ اور اصل میں عجب مخفی ہو تا ہے یعنی اوّلاً اپنی کسی صفت پر نظرِ استحسان بدونِ خوفِ زوال اور بدونِ استحضارِ نسبتِ عطائِ خداوندی ڈالی جا تی ہے پھر دو سر ے شخص کو جو اس صفت سے خالی ہو تا ہے حقیر سمجھتا ہے پس صورۃ اولیٰ میں عجب کا تحقق اور ثانیہ میں کبر کا تحقق ہو نا بیک وقت پایا گیا ) اور ہر مبتلائے عجب کا مبتلائے کبر ہونا لازم نہیں حَیْثُ اَنَّ اِعْجَابَ الْمَرْءِ صِفَۃٌ مِّنْ صِفَاتِ نَفْسِہٖ لَا یَسْتَلْزِمُ اَنْ یَّرٰی مَنْ یَّخْلُوْ عَنْہُ حَقِیْرًا۔ مخاطب چونکہ معقول سے دلچسپی رکھتے ہیں بہت مسرور ہوئے۔

(تسہیل از مرتب:کبر کے معنی ہیں اپنے کو اچھا سمجھنا اور دوسر ے کو حقیر سمجھنا اور عجب یعنی خود پسندی کے معنی ہیں صرف خود کو اچھا سمجھنا ، پس ہر متکبر عجب اور خود پسندی میں مبتلا ہو تا ہے کیونکہ تکبر کی تہہ میں خود پسندی پو شیدہ ہو تی ہے کہ اپنی کسی خو بی پر نظر کر کے اپنے کو اچھا اور دوسر ے کوحقیر سمجھتا ہے۔ اپنے کو اچھا سمجھنے سے خود پسند ہونا اور دوسر ے کو حقیر سمجھنے سے متکبر ہونا بیک وقت لازم آتا ہے اور جو عجب و خود پسندی میں مبتلا ہے اس کے لیے کبر میں مبتلا ہونا لازم نہیں کیونکہ اپنی کسی خوبی کو اپنا کمال سمجھ کر خود کو اچھا سمجھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو اس صفت سے خالی ہو اس کو حقیر بھی سمجھے۔ لیکن عجب اور تکبردونوں حرام ہیں۔)

کرم اور سخا وت کا فرق: ایک دوسرے عالم نے احقر سے سوال کیا کہ میرے شاگردوں نے مجھ سے آج سوال کیا ہے کہ کرم اور سخا وت میں کیا فر ق ہے انہوں نے فرمایا کہ میں جواب نہ دے سکا اور کہا کہ سوچ کر بتائوں گا۔ احقر نے ان کو جواب دیا کہ کرم اور سخا وت دونوں کی نسبت میں غور کرلیں جواب نکل آئے گا۔ پھر احقر نے خود ہی عرض کیا کہ کرم اور سخا وت میں بھی نسبت عموم خصوص مطلق کی ہے۔ سخاوت صرف مال کے ساتھ خاص ہے کما یدل علیہ ؎

سخیاں ز اموال بر می خورند 

اور کرم عام ہے مال کے ساتھ بھی اور دوسری خدماتِ بدنیہ کو بھی۔ اگر کسی نے چل کر کہیں سفارش کر دی توآپ اس کو سخی نہیں کہہ سکتے لیکن کریم النفس کہیں گے۔ اس فرق سے بہت مسرور ہوئے۔ 

سلیم العقل اور سلیم القلب میں معقول نسبت: ایک اہلِ علم نے دریافت کیا کہ سلیم العقل اور سلیم القلب میں کیا فرق ہے۔ احقر نے جواب دیا کہ ان دونوں کلی میں نسبت تساوی ہے۔ ہر سلیم العقل، سلیم القلب اور ہر سلیم القلب سلیم العقل ہوتا ہے اور اسی طرح اس کا عکس بھی ہے کہ جو سلیم القلب نہ ہو گا وہ سلیم العقل بھی نہ ہو گا اسی طرح جو سلیم العقل نہ ہو گا وہ سلیم القلب بھی نہ ہوگا۔ حضرت اقدس حکیم الا مت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ اسی سبب سلامتی عقل و فہم کو بہت اہمیت دیا کر تے تھے کہ اسی سے سلامتی قلب کا پتہ چلتا ہے نیز سلامتی عقل سلامتی قلب ہی کاثمرہ ہے اور اولیٰ کے لیے ثانیہ بمنزلہ علت ہے اور باعتبار اوّلیت سلامتی قلب کو تقدم حاصل ہے اور قلب میں سلامتی پیدا ہو نے کے اسباب اعمالِ صالحہ کا اختیار اور معاصی سے اجتناب ہیں جو صحبتِ شیخِ کامل ہی کے صدقہ میں میسر ہوتے ہیں۔ اس ناکارہ کی ایسی باتوں سے اہلِ علم مسرور اور محوِ حیرت ہوتے ہیں۔ وَذَالِکَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَکَرَمِہٖ بِبَرَکَۃِ دُعَاۗئِکُمُ الْعَالِیَۃِ ۔

 اِضطرارِ محمود و اِضطرارِ غیر محمود: ایک عالم مہتمم صاحب نے کہا کہ میں طبعاً اور عقلاً و شرعاً اُمراء کے دروازہ پر جانا پسند نہیں کر تا لیکن کیا کروں کہ مضطر ہوں، بہت قرض ہو گیا ہے ۔ احقر نے عرض کیا کہ جو اضطرار کہ مقدماتِ محمودہ صحیحہ پر مرتب ہو وہ اضطرار بھی صحیح اور محمو د ہو تا ہے۔ بر عکس مقدماتِ غیر صحیحہ پر جو اضطرار مرتب ہوتا ہے وہ اضطرار بھی غیر محمود ہوتاہے۔بقدر گنجائش کام کرنا چاہیے۔ اس پر مولانا بہت متأثر ہوئے۔ 

مومن کا ذکر اﷲ وکالۃً تما م کائنات کا ذکر ہے: تمام کائنات کی خدمات انسان کی تربیت میں مصرو ف ہیں۔ پس جب مومن اﷲ کہتا ہے تو تمام کائنات کی طرف سے بھی وکالۃً اﷲ کہتا ہے اور جب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے تو گویاتمام کائنات کی طرف سے کہتا ہے کہ کیونکہ اس کی تربیت میں زمین و آ سمان چاند و سورج پانی اور ہوا سمندر اور پہاڑ غرض پوری کائنات کی خدمات شامل ہیں ؎

آب و باد و مہ و خورشید و فلک در کارند
تا تو نانے بکف آری و بہ غفلت نخوری 

پانی اور ہوا خور شید و قمر زمین و آ سمان سب تیری خدمت میں مصروف ہیں تاکہ روٹی کا لقمہ جب تو ہاتھ میں لے تو اسے غفلت سے نہ کھائے۔ پس جب مومن نے اﷲ کہا تو ارض و فلک نے، شمس و قمر نے، بر و بحر نے ، شجر و حجر نے، چرند و پرند صحرا و سمندر سیارہ و نجوم سب نے اﷲ کہا کیونکہ اس کی پرو ر ش میں من حیث نوع انسانی سب شریک ہیں۔ اس سے صو فیاء کے اس مراقبہ کی حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب اﷲ کہو تو تصور کر و کہ میرے ہر بُنِ مو سے اور کائنات کے ذرّہ ذرّہ سے اﷲ نکلا، انسان نے جب اﷲ کہا تو تمام کائنات نے اﷲ کہا کیونکہ اس کی طاقت میں تمام کائنات کی خدمات شامل ہیں ۔ 

نیز اس حدیث شریف کا مطلب بھی واضح ہو جا تا ہے کہ جب تک روئے زمین پر ایک بھی اﷲ اﷲ کہنے والا ہو گا قیامت نہ آئے گی کیونکہ اس کی وکالت سے تمام کائنات ذاکر ہے اور جب کوئی اﷲ کہنے والا نہ رہا تو اب تمام کائنات گو یا غیر ذاکر ہو گئی اور مقصد کائنات باقی نہ رہا ۔ جب ذکر جان حیات جان کائنات نہ رہا تو کائنات کی مو ت لا زمی ہوگئی اس لیے سب درہم برہم اور فنا کر دی جائے گی۔

 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries