مجلس۹۔اگست ۲۰۱۴ء۔وساوس کا علاج!

مجلس محفوظ کیجئے

ملفوظاتِ حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم

وساوس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔

جن کو وسوسے آتے ہیں وہ اِس بات پر ہی خوش ہوجائیں گے بارگارِ نبوت سے اُن کو سندِ ایمان مل گئی۔

وسوسے آنا عین ایمان کی دلیل ہے۔

ملفوظات: خزائن شریعت و طریقت

وَساوِس کا علاج: (مکہ مکرمہ میں مقیم حضرت والا کے ایک عزیز وساوس میں مبتلا تھے۔مندرجہ ذیل ملفوظ ان کے لیے ارشاد فرمایا۔)

ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے شیطان کو زیادہ طاقت نہیں دی، وہ آپ کو اٹھا کر کسی مندر میں نہیں لے جاسکتا، کسی پنڈت کی پوجا پاٹ میں نہیں لے جاسکتا، سینما ہال میں نہیں لے جاسکتا، اس کو ہمارے اوپر کوئی طاقت نہیں سوائے اس کے کہ ہمارے قلب میں کچھ خیالات ڈال دیتا ہے اور پھر وہ خیالات قلب کے اوپر ہی رہتے ہیں قلب کے اندر داخل نہیں ہوتے، بس یہ وساوس مؤمن کے لیے اﷲ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں، اگر یہ وساوس نہ آتے تو آپ کسی مولوی سے بات بھی نہ کرتے، یہ ان ہی کا صدقہ ہے جو آپ ان کی جوتیاں اٹھاتے ہیں۔ مولانا رومی نے فرمایا کہ ایک شخص کو کسی سے عشق تھا لیکن اس کا پتہ نہیں معلوم تھا، رات دن اس کی یاد میں رویا کرتا تھا، ایک مرتبہ رات کو بارہ بجے پاگلوں کی طرح اپنے معشوق کو تلاش کررہا تھا۔ کوتوالِ شہر نے اسے دیکھ کر سمجھا کہ یہ چور ہے، اسے کیا معلوم کہ یہ بیچارہ عاشق ہے، دیوانہ ہے، پاگل ہے، پہلے زمانہ میں کوتوال گھوڑے پر گشت کرتے تھے تو کوتوال نے اس کو پکڑ کرمارنا شروع کردیا، اس نے پوچھا کہ بھئی ہمیں کیوں مارتے ہو؟ کوتوال نے کہا کہ تم اتنی رات کو کیوں گشت کر رہے ہو؟ اس نے کہا ہم پاگل دیوانے آدمی ہیں، کوتوال نے کہا کہ نہیں تم چور ہو اور دو کوڑے اور لگائے۔ پٹائی سے بچنے کے لیے وہ بھاگا اور بھاگتے بھاگتے ایک باغ کے قریب پہنچ گیا اور دیوار کود کر باغ میں پہنچا تو وہاں اس کا معشوق مل گیا تب اس نے کہا کہ اے خدا! تھانیدار کے ہر کوڑے پر اس کو ثواب عطا فرما، اس مصیبت پر تیرا بے شمار شکر ہے جس نے مجھے میرے محبوب سے ملا دیا۔ اسی طرح ان وساوس کے ڈنڈوں نے آپ کو مولویوں سے ملایا، پیروں سے ملایا ، اﷲ والوں سے ملایا ورنہ دولت میں کھیلنے والا اﷲ والوں کو کہاں یاد کرتا ہے۔ یہ وساوس کے ڈنڈے ہیں جو آپ کو اﷲ تک پہنچاتے ہیں۔

میں خود ان وسوسوں سے پچیس سال تک پریشان رہا یہاں تک کہ میں نے عاجز ہوکر اپنے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کو فارسی میں یہ مصرع لکھا ؎

کجا رویم بفرما ازیں جناب کجا

وساوس ختم ہی نہیں ہوتے، ہر وقت دماغ گرم رہتا ہے، میں لاکھ جھٹکتا ہوں مگر وہ دماغ پر چڑھے رہتے ہیں تو میں آپ کی بارگاہ اور آپ کی چوکھٹ کو چھوڑ کر اب کہاں جائوں؟ حضرت نے لکھا کہ ؎

سر ہما نجا نہہ کہ بادہ خوردئی

جہاں تو نے اﷲ کی شرابِ محبت پی ہے اسی مے کدے کی چوکھٹ پر سر رکھ کر پڑا رہ۔ الحمدﷲ! آج وساوس کا پتہ ہی نہیں، اب بلانے سے بھی نہیں آتے۔ غرض یہ وساوس کے ڈنڈے ہمیں بارگاہ تک لے جائیں گے لیکن جب آپ دربار میں داخل ہوجائیں گے پھر یہ قریب بھی نہیں آئیں گے۔ اس کی مثال میں مشکوٰۃ شریف کی شرح میں ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ وساوس شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور شیطان مثل اس کتے کے ہے جو دنیاوی بڑے آدمیوں کے گیٹ کے باہر کھڑا ہوتا ہے۔ جب آپ ملنے جاتے ہیں تو کتے کے بھونکنے سے پریشان نہیں ہوتے بلکہ بنگلہ والے سے کہتے ہیں کہ اپنے کتے کو خاموش کیجیے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ اسی طرح شیطان سے بحث کرنے اور اس کو جواب دینے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اﷲ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کا حکم دیا گیا کہ تم ہماری پناہ مانگو اور اﷲ تعالیٰ سے کہو اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ اﷲ میاں یہ شیطان آپ کا کتا ہے ذرا اس کو خاموش کردیں۔جس طرح بنگلہ والوں کے پاس خاص کوڈ، خاص الفاظ ہوتے ہیں جب وہ الفاظ کہتے ہیں تو کتا دم ہلاتا ہوا واپس ہوجاتا ہے تو شیطان اﷲ کا کتا ہے لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم کتے سے نہ لڑو بلکہ ہم سے پناہ مانگو، یہ ہمارے کوڈ سمجھے گا اور اعوذ باﷲ وہ خاص کوڈ ہے جس کو سن کر وہ دم دبا کر بھاگ جائے گا لیکن ایک زمانہ ہم اُن سے فریاد کرتے رہیں تب وہ اس کو خاموش کریں گے، اس کی مدت آپ کے ذمہ نہیں ہے اﷲ کے ذمہ ہے، اﷲ جانتے ہیں کہ کب تک اس کتے کو بھونکواتے رہیں گے اور اس میں آپ کی تربیت ہے کہ آپ اپنی عاجزی دیکھیں کہ آپ لاکھ چاہتے ہیں کہ شیطان نہ آئے مگر پھر بھی چلا آرہا ہے۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اﷲ علیہ حضرت حکیم الامت رحمۃ اﷲ علیہ کے خاص خلفاء میں سے تھے، شیطان کے وسوسوں کے بارے میں ان کا ایک شعر ہے ؎

بھلا اُن کا منہ تھا میرے منہ کو آتے
یہ دشمن اُنہی کے اُبھارے ہوئے ہیں

یہ دشمن اﷲ میاں نے پیدا کیا ہے اور اس کے اتنے فوائد ہیں جس کی حد نہیںمثلاً یہ کیا کم ہے کہ انسان اپنی عاجزی دیکھ لیتا ہے کہ دل میں وساوس کا سیلاب چلا آرہا ہے جس کو میں روک نہیں سکتا۔ حضرت حاجی صاحب فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ رَدَّ اَمْرَہٗ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ
(مشکاۃ المصابیح، باب فی الوسوسۃ، ص:۱۹)

شکر ہے اس اﷲ کا جس نے شیطان کی طاقت کو صرف وسوسہ تک محدود کردیا کہ وہ صرف وسوسہ ڈال سکتا ہے زبردستی گناہ نہیں کراسکتا۔ پس حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے توجہ ہٹا کر اﷲ کی طرف متوجہ کردیا لہٰذا جب وسوسے نہ جائیں تو اس کا علاج یہ ہے کہ اﷲ کی طرف رجوع کرو اور یہ کہوکہ واہ رے اﷲ! کیا شان ہے آپ کی کہ چھوٹے سے دل میں خیالات کا سمندر ڈال دیا، ذراسے قلب میں سارا عالم چلا آرہا ہے، سارا سعودیہ، سارا بنگلہ دیش، سارا پاکستان اس میں سمایا جارہا ہے، یہ چھوٹا سا دل آپ کی قدرت کا نمونہ ہے تو شیطان سوچے گا کہ میں نے تو چاہا تھا کہ یہ اﷲ سے دور ہوجائے یہ تو اور معرفت حاصل کر رہا ہے، یہ تو اﷲ سے اور قریب ہورہا ہے پھر شیطان بھاگے گا۔

ان وساوس کا ایک آسان علاج اور بھی ہے اور وہ یہ کہ جس شیخ سے آپ کو مناسبت ہو کچھ دن اس کے پاس رہ پڑو، جب روشنی آتی ہے تو اندھیرے چلے جاتے ہیں۔ اگر آپ بزرگوں کے ساتھ لگے رہے تو پھر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ میں آپ سے کہوں گا ذرا اپنے وسوسوں کو آواز دینا، اپنے ماضی کو آواز دینا؎

غزل اُس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عہدِ رفتہ کو آواز دینا

تو پھر کوئی آواز بھی نہیں آئے گی، آپ یاد کریں گے تو وہ وساوس یاد بھی نہیں آئیں گے مگر وسوسہ اپنے وقت پر جاتا ہے لیکن ہمارے لیے یہ انتظار کرنا بھی مضر ہے کہ یہ کب جائے گا۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ وسوسہ کا علاج عدم التفات ہے، نہ اس میں مشغول ہوں نہ اس کو بھگانے کی کوشش کریں، اس کو بھگانا اور اس کو بلانا دونوں مضر ہیں جیسے بجلی کے ننگے تار کو اگر آپ جھٹکیں گے کہ یہ ہمارے پاس سے بھاگے تو اس سے چپک کر رہ جائیں گے،اگر آپ اس کو پکڑیں گے تو وہ آپ کو پکڑ لے گا یعنی جلباً و سلباً اس سے دور رہو، نہ اس کو حاصل کرو نہ بھگائو، بس یہ سمجھ لو کہ قلب ایک شاہراہ ہے، اس شاہراہ پر صدر بھی چلیں گے، جنرل بھی چلیں گے، بھنگی بھی چلے گا اور سور بھی چلے گا تو قلب کو بھی اﷲ نے ایک شاہراہ بنایا ہے، جس میں مؤمن اﷲ کا ذکر کرتا ہوا بادشاہ کی طرح چل رہا ہے اور ساتھ ساتھ سور، چمار اور کتے بھی چل رہے ہیں، کسی کو کیا حق حاصل ہے کہ شاہراہ پر دخل دے۔ تو اﷲ نے یہ دل ایسا ہی بنایا ہے اور یہ وساوس تربیت کے لیے ہیں، دل کو پختہ کرنے کے لیے ہیں، اگر وساوس نہ آئیں تو ہم خدا کی طرف رجوع بھی نہ کریں، یہ وساوس محبوب کی طرف سے ڈنڈوں کا انتظام ہے، آہستہ آہستہ پیٹھ پر لگاتے لگاتے اﷲ والوں تک پہنچادیتے ہیں اور بندہ اﷲ والا ہو جاتا ہے۔

 وساوس کا ایک علاج اور بھی حدیث میں ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ نے جامع الصغیر میں لکھا ہے کہ جب تم کو گناہ کے یا اعتقادیات مثلاً کفر وغیرہ کے وساوس آئیں تو کہو اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ یہ کلمہ شیاطین کی کھوپڑی پر ڈی ڈی ٹی کا کام کرتا ہے۔ جیسے اگرکھٹمل مچھر پر ڈی ڈی ٹی چھڑک دو تو سب ختم ہوجاتے ہیں اسی طرح اس کلمہ سے شیطانی وساوس ختم ہوجاتے ہیں۔

حکیم الامت نے فرمایا کہ جو شخص اس کی فکر کرے گا کہ وسوسے چلے جائیں وہ مصیبت میں رہے گا اور صحت بھی خراب ہو گی، بس اس کا ایک علاج ہے کہ تم اس کا خیال ہی چھوڑ دو کہ یہ وسوسے کب جائیں گے؟ جیسے ایک جعلی پیر اپنے مرید کے یہاں ٹھہرگیا، مرید نے پہلے دو تین دن تو خوب گوشت، انڈا، مرغی وغیرہ کھلایا، سوچا کہ پیر صاحب دو تین دن رہیں گے، جب ایک مہینہ ہوگیا اور مرید کے پاس سب پیسہ ختم ہوگیا تو وہ رونے لگا اور کہا حضور! اب آپ میرے ہاں کبھی نہیں آئیں گے، جعلی پیر نے کہا کہ کیوں نہیں آئوں گا، ہمیں تم سے اتنی محبت ہے، تم ہم کو اتناکھلا پلا رہے ہو، ہم ضرور آئیں گے، مرید کہنے لگا کہ نہیں، اب آپ کبھی نہیں آئیں گے، جعلی پیر نے کہا کہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ میں اب نہیں آئوں گا؟ مرید نے کہا کہ حضور! جب آپ جائیں گے نہیں تو آئیں گے کیسے؟ تو وَساوِس کے جانے کا انتظار نہ کرو کہ یہ کب جائیں گے ورنہ جعلی پیر کی طرح چپک جائیں گے بلکہ حاجی صاحب کا یہ جملہ دُہرا لیجیے کہ اے اﷲ! کیا شان ہے آپ کی کہ قلب ڈیڑھ چھٹانک کا چھوٹا سا بنایا اور اس میں خیالات و وَساوِس کا سمندر ڈال دیا کہ آنکھ بند کی اور خیالات کا سارا سمندر دل میں آگیا، آسمان و زمین، سورج و چاند اور جس ملک کو چاہے سوچ لیجیے وہ دل میں آجائے گا، کیا شان ہے اﷲ کی! تو جب شیطان دیکھے گا کہ میرا بزنس لاس میں جارہا ہے، میں وساوس ڈال کر اس کو اﷲ سے دور کررہا تھا لیکن اس نے میرے وساوس کو بھی ذریعۂ معرفت بنالیا ؎

آلامِ روزگار کو آساں بنادیا
جو غم ملا اُسے غمِ جاناں بنادیا

 یعنی ہم نے دنیا کے غم کو بھی اﷲ کے غم میں داخل کردیا یہ سمجھ کر کہ یہ اﷲ کی طرف سے ہے، جب تک وہ چاہیں گے غم رہے گا اور جب چاہیں گے ختم ہوجائے گا، میں نے تو اپنا قصہ آپ کو بتادیا ورنہ اپنا حال بتانا ٹھیک نہیں ہے مگر آپ کی اصلاح و تربیت کے لیے اپنا ذاتی حال بتادیا کہ بیس پچیس سال تک وسوسے نہیں گئے، میں جتنا خیالات کو بھگا رہا تھا وہ اتنے زیادہ آرہے تھے، معمولی معمولی کام پہاڑ کی طرح بڑے نظر آتے تھے، لیکن اس کا فائدہ اب محسوس ہوا کہ ایک اﷲ والے حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب سے چپکے رہنے کی توفیق ملی، اگروساوس نہ آتے اور پریشانی نہ ہوتی تو اﷲ والوں کے پاس جانے کو دل ہی نہ چاہتا، یہ وہی کوتوال کے ڈنڈے ہیں جنہوں نے محبوب تک پہنچادیا۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں ؎

بہار من خزاں صورت گل من شکل خار آمد
چوں از ایمائے یار آمد ہمی گیرم بہار آمد

یعنی میری بہار خزاں کی شکل میں آئی اور میرا پھول کانٹوں کی شکل میں آیا لیکن چونکہ یہ اﷲ کے حکم سے آیا لہٰذا میں یہی سمجھتا ہوں کہ میری بہار انہی کانٹوں میںہے۔ تو میری تربیت کے لیے یہ سارا انتظام اﷲ ہی کی طرف سے ہوا، میں نے پچیس سال تک تکلیف اٹھائی لیکن اﷲ کے راستہ میں پڑا رہا۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ وسوسہ آپ کو ذرّہ برابر نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ جن کو زیادہ وسوسے آتے ہیں ان کو حدیث میں ایمان کی بشارت دی جارہی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم کو ایسے وسوسے آتے ہیں کہ ان کو منہ پر لانے سے بہتر یہ پسند کرتے ہیں کہ جل کر کوئلہ ہوجائیں اس پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانِ یہ تو کھلا ہوا ایمان ہے۔ معلوم ہوا کہ جن کو زیادہ وسوسہ آتا ہے ان کا ایمان زیادہ قوی ہوتا ہے۔ اسی لیے ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں وساوس کے بارے میں فرماتے ہیں اَلسَّارِقُ لَا یَدْخُلُ بَیْتًا خَالِیًا چور خالی گھر میں نہیں جاتا جہاں دولت ہوتی ہے وہیں جاتا ہے لہٰذا وساوس کی کثرت دلیل ہے کہ تمہارے دل میں ایمان کی دولت موجود ہے جس کو شیطان چُرانا چاہتا ہے لیکن چُرا نہیں سکتا صرف پریشان کرسکتا ہے اور پھر اس میں مزہ بھی ہے۔ دیکھئے ایک آدمی اپنے محبوب کے پاس جارہا ہے، اب کچھ لوگ اس کو وسوسہ ڈال رہے ہیں کہ کہاں جارہے ہو، تمہارا محبوب تو کچھ نہیں، اس کے اندر کوئی جمال نہیں، دو اِس کان میں کہہ رہے ہیں دو اُس کان میں کہہ رہے ہیں، ایسے میں وہ دندناتا چلا جائے کہ ہم اپنے محبوب کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے تو یہ ہے مکمل محبت۔ اسی طرح محبت کے امتحان کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ایسے شیاطین مقرر کر دئیے جو اس کے کان میں کچھ کہتے ہیں لیکن مومن اس کی پرواہ نہیں کرتا اور ہمارا بن کے رہتا ہے، لہٰذا یہ وساوس ہماری تکمیل محبت کا ذریعہ ہیں اور پھر آپ کو ان وساوس سے جو تکلیف ہوتی ہے اس پر آپ کے درجات کی ترقی ہوتی ہے، آپ کے گناہ معاف ہوتے ہیں یعنی کفّارہ ٔسیئات اور ترقی درجات اور اﷲ والوں کے قرب کا ذریعہ ہے۔

 تم خانقاہ میں چالیس دن لگالو پھر ان شاء اﷲ اس کا اثر دیکھو گے بلکہ اگلے ماہ میں بنگلہ دیش جارہا ہوں تم بنگلہ دیش آجائوتو اور اچھا ہے تاکہ مربی بھی بے وطن ہو اور طالب بھی بے وطن ہو، ہم بھی اﷲ کے راستہ میں اپنے گھر سے دور ہوں اور تم بھی، جب دونوں بے گھر ہوتے ہیں تب زیادہ فضل ہوتا ہے، اﷲ کی رحمت زیادہ برستی ہے۔ اس پر میرا ایک شعر سن لیجیے ؎

مانا کہ بہت کیف ہے حب الوطنی میں
ہوجاتی ہے مے تیز غریب الوطنی میں

جب انسان اﷲ کے لیے اپنے وطن سے دور ہوتا ہے تو اﷲ تیز والی پلاتا ہے چنانچہ اپنے وطن میں نماز روزہ کا مزہ جب آئے گا جب آپ اﷲ کے لیے بے وطن ہوں گے، جب دین سکھانے والا بھی بے وطن ہو، اپنے بچوں سے دور ہو اور سیکھنے والے بھی دور ہوں تو پھر کیا پوچھنا۔ کم سے کم ایک مہینہ بنگلہ دیش ٹھہر جائو جہاں میں ٹھہرتا ہوں۔ وہاں کے میزبان نے ایک میٹرو بس خریدی ہے اور مجھے خبر دی کہ آپ کے لیے خریدی ہے تاکہ آپ جہاں جانا چاہیں ہم میٹرو بس سے آپ کو مع احباب لے جائیں۔ دیکھو ہمارے ایسے محبت کرنے والے وہاں ہیں، اﷲ تعالیٰ بنگلہ دیش میں عظیم الشان کام لے رہا ہے، یہ سب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ جس ملک میں اﷲ تعالیٰ جس سے کام لینا چاہتے ہیں اُس ملک والوں کے دلوں میں اس مربی کے لیے حسنِ ظن اور محبت ڈال دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ایسے بڑے محدثین مجھ سے بیعت ہیں کہ پورے ملک میں ان سے بڑا کوئی عالم نہیں اور وہ لوگ ہند و پاک کے بڑے بڑے علماء میں شمار ہوتے ہیں جیسے مولانا ہدایت اﷲ صاحب بنگلہ دیش کے سب سے بڑے محدث ہیں، کسی بڑے سے بڑے عالم کی طرف رجوع نہیں ہوئے لیکن اﷲ تعالیٰ نے میرے لیے ان کے دل میں حسنِ ظن ڈال دیا۔

اس کے علاوہ میں آپ کو طبی مشورہ دیتا ہوں کہ روزانہ سر پر تیل کی مالش کرائو تاکہ دماغ تر رہے اور دوستوں میں رہو، اکیلے مت رہو، ہر وقت اﷲ والے دوستوں میں رہو، کمزور دل و دماغ والوں کے لیے خلوت مضر ہے، ایسے مریضوں کے لیے چھ ماشہ خمیرہ موتی اصلی یا خمیرہ آبریشم، عرقِ عنبر ایک چمچہ اور چار چمچہ عرقِ گلاب کے ہمراہ صبح شام خالی پیٹ پی لو ان شاء اﷲ قلب میں قوت آجائے گی۔ بزرگوں نے لکھا ہے کہ کبھی دل و دماغ کمزور ہوجانے سے بھی وَساوِس کا غلبہ رہتا ہے جیسے کمزور آدمی کو ہر کوئی تھپڑ مارتا ہے، اسی طرح شیطان بھی تھپڑ لگاتا چلاجاتا ہے، دیکھتا ہے کہ اس کا دل و دماغ کمزور ہے، اس لیے جب دل و دماغ کو قوت پہنچے گی تو پھر ان شاء اﷲ قوتِ مدافعت پیدا ہوجائے گی اور شیر آپ کو بکری لگے گا، ہاتھی مچھر لگیں گے اور جب قلب کمزور ہوجاتا ہے تو بلی بھی کودتی ہے تو لگتا ہے کہ شیر آگیا۔ تو قلب کی قوت کے لیے یہ دو نسخے بتادیئے اور میرا خاص ایک مشورہ بھی ہے وہ یہ کہ تنہا نہ رہیں، ہر وقت دوستوں میں رہیں اور دوست بھی ایسے جن سے آپ کو مناسبت ہو اور وہ آپ کو ہنساتے رہیں تاکہ دماغ اس میں مشغول رہے۔

میں یہ وساوس کا علاج بتا رہا ہوں کیونکہ میں خود مبتلا رہا ہوں۔ اُس زمانہ میں میرا سر وساوس کے بوجھ سے گرم ہوجاتا تھا، میں لاکھ چاہتا تھا کہ وسوسہ نہ آئے مگر وساوس جان نہیں چھوڑتے تھے لیکن اپنے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ اپنے کام میں لگے رہو اور اﷲ والوں سے لگے لپٹے رہو، جب تک بریانی پکتی ہے اس وقت تک دیگ کو آگ پر سے نہیں ہٹایا جاتا ورنہ بریانی کچی رہ جائے۔ بعض لوگوں کو اﷲ نے تہجد، ذکر اور تلاوت سے اپنی ذات تک پہنچایا اور بعضوں کو خالی وساوس سے پہنچایا، پریشانی، ذہنی کوفت اور حزن و غم سے وہ اتنا تیز چلا کہ نفل والے پیچھے رہ گئے، صاحبِ حزن اﷲ کا راستہ اتنا تیز طے کرتا ہے کہ نفل اور وظیفے والے اس تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ حزن و غم سے دل پاش پاش ہوجاتا ہے اور حدیث میں ہے:

 اَ نَا عِنْدَ الْمُنْکَسِرَۃِ قُلُوْبُھُمْ
(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الجنائز، باب فی عیادۃ  المریض)

اﷲ ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتا ہے، جیسے جب گھر بنتا ہو تو اس میں توڑ پھوڑ ہوتی ہے اسی طرح وساوس بھی توڑ پھوڑ کرتے ہیں، خواجہ صاحب کا شعر ہے ؎

نہ گھبرا کوئی دل میں گھر کر رہا ہے
مبارک کسی کی دل آزاریاں ہیں

الحمدﷲ! یہ فقیر اس راستہ سے گذر چکا ہے اس لیے آپ کو تسلی دے رہا ہوں کہ ایک وقت آئے گا کہ ان شاء اﷲ سب وساوِس ختم ہوجائیں گے۔ اﷲ کرے آپ کو ایسے دوست مل جائیں جو خوش دل ہوں، خوش الحان ہوں، خوش ذوق ہوں اور تھوڑا سا مزاح بھی جانتے ہوں۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries