مجلس۱۱ ۔اگست ۲۰۱۴ء ۔عشقِ الٰہی کی عظمتیں! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں خلاصۂ مجلس: ۔محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز تھے، شروع میں جناب مصطفیٰ صاحب نے اپنی پرسوز آواز میں حضرت مرشدی میر صاحب دامت برکاتہم کے اشعار سنائے، یہ عظیم الشان اشعار حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم نے حضرت والا شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجددِ دوراں حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی محبت میں کہے تھے،اشعار کے دوران حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم اشعار کی درد بھری تشریح بھی فرمائی۔ اشعار کے اختتام پرحضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم نے خزائن شریعت و طریقت صفحہ نمبر ۲۲۳ تا ۲۲۹ تک کے ملفوظات خود پڑھ کر سنائے، آخر میں درد بھری دُعا بھی فرمائی جس میں خصوصی طور پر پاکستان کی حفاظت اور شرور و فتن سے اس کی حفاظت کی دعا بھی فرمائی۔ تشریح اشعار جو شیخ کا عاشق ہوتا ہےیعنی شیخ کے عشق الٰہی کے حُسن پر جوعاشق ہوتا ہے تو اُس کا حسن جو ہے وہ لاجواب ہےکوئی مثال نہیں ! اور کیونکہ مرید اپنے شیخ سے محبت کرتا ہے تو یہ بھی لاجواب ہوتا ہے ۔ شاعر ناز میں اپنے شیخ سے یوں کہہ رہا ہے کہ اگر آپ نہ ہوں تو دنیا میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا حسن بھی نہ ہو اور اگر میں نہ رہوں یعنی عاشق نہ رہیں تو گویا عشق ہی ختم ہوگیا۔ ظاہری بناوٹ اور ظاہری آرائش سے اللہ کا عاشق بےنیاز ہوتا ہےگویا اُس کا دامن اللہ تعالیٰ کی محبت میں چاک چاک ہےاور اُس پر اللہ تعالیٰ کے عشق کی عظمتیں ظاہر ہوتی ہیں اللہ کا عشق ایسا ہے کہ ظاہر سے بے نیاز کردیتا ہے۔ہروقت وہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں رہتا ہے اورہر ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ضائع نہیں کرتا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں استغراق رہتا ہے ۔ خزائن شریعت و طریقت بشارتِ منامیہ:ناشتہ کے بعد سب لوگ استراحت کے لیے لیٹ گئے۔ دس بجے کے قریب جب سب بیدار ہوگئے تو حضرت والا نے سب کو طلب فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اوخِس کے اس مدرسہ میں آج مولانا عبدالحمید صاحب کو سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی، اس مقام پر زیارت ہونا اس مدرسہ کی قبولیت کی علامت ہے۔ اور جیسے تین حضرات صحابہ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے معافی کی خوش خبری ملی تھی تو انہوں نے اپنا کرتا اُتار کر خوش خبری لانے والے کو دے دیا تھا۔ تو مولانا عبدالحمید صاحب کے خواب کے ذریعہ ملنے والی خوشخبری پر میں نے اپنا کرتا ان کو عطا کرکے سنتِ صحابہ ادا کی اور یہ کرتا میرے اور کرتوں میں حسین و جمیل تھا جو مولانا کی کالی داڑھی پر ماشاء اﷲزیادہ اچھا لگ رہا ہے ، اﷲ تعالیٰ اس کو ان کے لیے مبارک فرمائے۔ اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ اور لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ کی تفسیر ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ دنیا میں بشارت کی تفسیر یہ ہے کہ کوئی اپنے لئے یا اُس کے احباب اس کے لیے اچھا خواب دیکھیں یعنی یا خود دیکھے یا اُس کے احباب دیکھیں تو یہ لَھُمُ الْبُشْرٰی کی تفسیر ہے۔ پس اس وقت مولانا غلام حسن کے مدرسہ اوخس میں اﷲ تعالیٰ نے مولانا عبدالحمید کے ذریعہ عظیم الشان بشارت عطا فرمائی، ہم اس کے شکر گذار ہیں، اس کے اہل نہیں ہیں، مالک کریم ہے وہ نااہلوں پر بھی مہربانی کرنے والا ہے۔ کریم کی شان ہی یہی ہے کہ جو کسی نعمت کا مستحق نہ ہو وہ اس کو بھی محروم نہ فرمائے، اس کو کریم کہتے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس کی دلیل قرآنِ پاک کی اس آیت سے پیش کی ہے: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ﴾ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ دل اور روح اچھا سودا تھا مگر اﷲ تعالیٰ نے اچھے سودے کا تذکرہ نہیں کیا اور جو خراب چیز تھی یعنی نفس اُس کی خریداری کا ذکر قرآن پاک میں نازل فرمایا، نفس خراب چیز ہے، امارہ بالسوء ہے، اﷲ تعالیٰ نے امارہ بالسوء کو خریدا جو کثیر الامر ہے، خطا کار ہے، نالائق ہے، خطائوں کا تعلق نفس سے ہے جبکہ مؤمن کا دل اور مؤمن کی روح بہت شاندار ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ نے مؤمنین کا گھٹیا اور خراب مال خریدا ہے بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ لَاعَیْبَ فِیْہَا بعوض جنت کے جس میں کوئی نقص، کوئی عیب نہیں ہے یعنی جو چیزمیں خرید رہا ہوں وہ عیب دار ہے مگر میرا ثمن جس کے بدلے میں خرید رہا ہوں اس میں کوئی عیب نہیں ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے کریم ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے کہ عیب دار سودا خرید رہے ہیں اس ثمن کے عوض میں، اس جنت کے بدلے میں جس میں کوئی عیب نہیں وہاں کوئی کالی، لنگڑی، لولی نہیں نہ وہاں کسی قسم کا کوئی غم، کوئی پریشانی ہے، وہاں عیب ہے ہی نہیں، وہاں گنہگار بھی جائیں گے تو وہ بھی بے عیب کردیئے جائیں گے یعنی ان کو گناہ کا وسوسہ بھی نہ آئے گا۔ غِلْمَانٌ لَّہُمْ کَاَنَّہُمْ لُؤْلُؤٌ مَّکْنُوْنٌ وہاں غلمان ہوں گے جو بچے ہوں گے اور ہمیشہ بچے رہیں گے اور ایسے ہوں گے جیسے چمکتے ہوئے موتی مگر کسی کو ان کے متعلق وسوسہ بھی نہیں آئے گا، ایسے ہی حوریں ہیں کہ کسی کی حور دوسرے کے سامنے آجائے تو معاصی تو درکنار معاصی کا خیال بھی نہیں آئے گا۔ تو علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے کریم ہونے کی یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ ایسی جنت جو لَا عَیْبَ فِیْہَاہے عیب داروں کو عطا فرمارہے ہیں، کریم وہی ہے جو نالائقوں پر بھی مہربانی کرے، بندہ کے اندرکوئی کمال نہیں ہے مگر اُس کریم کا کمال ہے کہ بے کمالوں پر بھی مہربانی کرے، یہ اﷲ تعالیٰ کا کرم ہے۔ اب مولانا عبدالحمید صاحب کی زبان سے ان کا خواب سنیے۔ مولانا عبدالحمید صاحب (سائوتھ افریقہ) نے مندرجہ ذیل خواب سنایا: ابھی ناشتہ کرنے کے بعد ہم لیٹے تو بیچ میں آنکھ کھلی پھر آنکھ لگ گئی تو دیکھا کہ حضرت مدظلہم کے ساتھ ہم مدینہ منورہ میں ہیں، تقریباً آٹھ بجے صبح ہم سب حضرت مدظلہم کے ساتھ مسجد نبوی گئے۔ حضرت والا کی مجلس کی جگہ مسجدِ نبوی کے بالکل درمیان میں ہے، حضرت مدظلہم روضۂ مبارک پر صلوٰۃ و سلام کے لئے حاضر ہوئے، مواجہہ شریف اور قدمین شریف کے بیچ کے کونہ پر حضرت مدظلہم تشریف فرما ہوئے اور صلوٰۃ و سلام اور درد و نالہ اور آہ و فغاں شروع کیا، حضرت کافی دیر وہاں رہے۔ پھر مسجدِ نبوی کے بالکل درمیان میں حضرت والا کی مجلس کی جو جگہ ہے وہاں ہم چند ساتھی بیٹھے ہیں، میں وہاں خواب ہی میں سوگیا۔ اور پھر اس خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور حضرت والا بہت خوشی اور وجد کے عالم میں صلوٰۃ و سلام عرض فرما رہے ہیں۔ حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما سے فرمایا کہ دیکھو میرے اختر کو۔ پھر حضرت والا بارہ ایک بجے وہاں مجلس کے لیے تشریف لے آئے اور بہت مختصر مجلس ہوئی۔ پھر ہم سب دوست احباب مکہ شریف روانہ ہوئے تو حضرت والا کے لئے ایک خاص گاڑی لائی گئی جو کومبی سے کچھ بڑی اور بس سے کچھ چھوٹی تھی اور بہت آرام دہ تھی، اس میں حضرت والا بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور خدام پائوں دبا رہے تھے اورمیں اور مولانا یونس پٹیل صاحب پائوں کی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر کچھ احباب کہنے لگے کہ حضرت کا کیسٹ اب سعودیہ میں بکنے لگا ہے اور مارکیٹ میں آگیا ہے تو مجھے تعجب ہوا۔ میں کچھ سمجھا نہیں تھا۔ تو حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ دیکھو میری کیسٹ اب یہاں بھی بکنے لگی ہے۔ میں نے مولانا یونس صاحب سے پوچھا یہ کون سی کیسٹ ہے؟ انہوں نے چپکے سے بتایا کہ ویسے تو حضرت کی کئی کیسٹیں آچکیں مگر یہ خاص مضمون تھا جو بہت ہی نمایاں تھا۔ مولانا یونس صاحب نے بتایا یہ بیان جو حضرت کا ہوا ’’روح البیان‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔ (یہ سن کر حضرت والا نے فرمایا کہ آج فجر کے بعد جو بیان ہوا اﷲ تعالیٰ کا کرم ہی معلوم ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے۔) تو اس کا تأثر جو ہوا وہ یہ تھا کہ اب تصوف ممالکِ عربیہ میں مقبول ہے اور حضرت اس کا ذریعہ ہیں، اس کے فاتح ہیں۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَ الْمِنَّۃُ حضرت والا مدظلہم نے فرمایا کہ سب لوگ کہو اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَ لَکَ الشُّکْرُ تین مرتبہ فرمایا اور فرمایا سب درود شریف پڑھو۔ یَارَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا اَبَدًا عَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّہِم۔ ماشاء اﷲ مولانا عبدالحمید اور مولانا یونس پٹیل سے فی الحال سلسلہ کا کام بھی زیادہ ہورہا ہے یعنی ان کے بھی مرید ہونے شروع ہوگئے اور ان کے بھی، میرے دل میں یہ بات رہتی ہے کہ جنوبی افریقہ میں ان دو عالموں کے ذریعہ میرا کام زیادہ ہورہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ میرے سارے ہی احباب سے کام لے لے۔ میں چاہتا ہوں کہ حق تعالیٰ شانہٗ اختر کو، میرے سارے احباب کو بلااستثناء اپنے دردِ محبت کے لیے قبول فرمالے۔ سارے عالم میں ہر انسان اﷲ پر فدا ہوجائے۔ اس کی کوشش کی جائے کہ ایک انسان بھی ایسا نہ ہو جو اﷲ پر فدا نہ ہو۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے، اﷲ تعالیٰ کا کام قبول کرنا ہے اورہمارے ارادے کو مراد تک پہنچانا ہے۔ ہمارا کام اچھے ارادے کرنا ہے، ہمارے ارادے کو مراد تک پہنچانا مالک کا کام ہے۔ میری جو خواہش ہے کہ ہم سب اور میری اولاد و احباب ایک سانس بھی اﷲ کو ناراض نہ کریں، بتائو میرا یہ جذبہ اور میری یہ خواہش اچھی ہے یا نہیں؟ دردِ دل سے کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری زندگی کی ایک سانس بھی ایسی نہ گذرے جس میں آپ کی ناخوشی کی راہ سے ایک ذرّہ خوشی ہم قلب میں استیراد، درآمد اور امپورٹ کریں، جس سے مالک ناخوش ہو ایسی باتوں سے، ایسے الفاظ سے، ایسے اعمال سے، ایسی حرکات سے، ایسے سکنات سے، ایسے لمحات سے، ایسے اوقات سے، ایسے لحظات سے اﷲ تعالیٰ ہم کو محفوظ فرمائے اور جو باتیں اﷲ تعالیٰ کو خوش کرنے کی ہیں میری اور میری اولاد کی، میرے احباب کی زندگی اﷲ تعالیٰ کی انہی خوشیوں پر فدا ہوجائے اور اس کی ناخوشی کی راہوں سے بچنے کی منفی یاد بھی ہم کو نصیب ہوجائے کیونکہ یاد کامل جب ہوتی ہے کہ اپنے مالک کو ہم خوش کرلیں اور ان کی ناخوشی سے اپنے کو بچالیں۔ اگر خوشی والے اعمال ہم کرتے ہیں اور گناہوں سے نہیں بچتے تو ہم ذکرِ مثبت کرتے ہیں لیکن اگر ہمارا ذکرِ منفی کمزور ہے تو نیک عمل کرنے سے اﷲ تعالیٰ کی محبت کا حق تو ادا ہوگا، مگر گناہوں کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کی عظمت کا حق ادا نہیں ہوگا۔ نیک عمل اور عبادت اﷲ تعالیٰ کی محبت کا حق ہے اور گناہ سے بچنا اﷲ تعالیٰ کی عظمت کا حق ہے، اﷲ تعالیٰ کی بڑائی کا حق ہے۔ بتائو اﷲ تعالیٰ کی خوشی کا کیا ذریعہ ہے؟ خالی محبت کا حق ادا کرتے رہو؟ حج، عمرہ، ملتزم پر چمٹنا، روضۂ مبارک پر صلوٰۃ و سلام پیش کرنا، تسبیح پڑھنا مگر نافرمانی سے نہ بچنا؟ محبت کا بھی حق ادا کرو، عظمت کا بھی حق ادا کرو۔ اﷲ تعالیٰ کی عظمت کا جو حق ادا نہیں کرے گا اس کو اﷲ تعالیٰ کا خاص تعلق نصیب نہیں ہوسکتا گو رائیگاں وہ بھی نہیں ؎ بس ہے اپنا ایک نالہ بھی اگر پہنچے وہاں یہ مطلب نہیں کہ کوئی نالہ، کوئی فریاد رائیگاں جائے گی، ثواب تو سب پر ملے گا بس ایک نالہ ایسا ہوجائے جو مالک کو قبول ہوجائے، اگر زندگی میں ایک حرکت یاسکوت، فعل یا قول قبول ہوجائے تو اﷲ کے یہاں جو مقبول ہوتا ہے تو بِجَمِیْعِ اَجْزَاءِہٖ مقبول ہوتا ہے، ایسا نہیں کہ وقتی طور پر مقبول ہوگیا پھر نامقبول ہوگیا۔ اس کے تمام اعمال و اخلاق کی مقبولیت اﷲ تعالیٰ اپنے ذمہ لے لیتے ہیں، جس کو اپنا بناتے ہیں اس کو بِجَمِیْعِ قُلُوْبِہٖ وَقَوَالِبِہٖ وَ بِجَمِیْعِ اَقْوَالِہٖ وَ اَعْمَالِہٖ وَ اَخْلَاقِہٖ اپنا مقبول بناتے ہیں، اگر وہ گناہ کرنا بھی چاہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو محفوظ فرماتے ہیں جیسے چھوٹا بچہ گندی نالی میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو ماں اس کے ایک ہلکا سا تھپڑ لگاتی ہے اور کھینچ کر نالی سے دور کردیتی ہے۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کی دودھ پیتے بچہ کی طرح گناہوں سے حفاظت فرمائے۔تھ |