اتوارمجلس۳۱   ۔اگست ۲۰۱۴ء ۔دین تمام تر محبت ہی محبت ہے !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

خلاصۂ مجلس: ۔ حضرت والا  میردامت برکاتہم کی تشریف آوری میں تاخیرتھی ، شروع میں جناب رمضان صاحب حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار سنانے شروع کئے، تقریبا ۱۰ منٹ بعد حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز ہوئے اورحاضرینِ مجلس کو سلام فرمایا  اور جناب رمضان صاحب کو اشعار جاری رکھنے کو فرمایا ، حضرت والا ہر شعر کی تشریح بھی فرماتے جاتے تھے ۔آخر تک یہی سلسلہ رہا۔ آج کی مجلس تقریباً ۵۰ منٹ تک رہی ۔

ملفوظات

فرمایا: جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اُس کا سر اللہ تعالیِ کے قدموں میں ہوتا ہے، حدیث شریف کا مفہوم

اللہ کے عاشق نے اللہ تعالیٰ کی محبت اور شریعت کا بار ِ امانت اُٹھا لیا ۔

حضرت والا فرماتے تھے کہ قرآن پاک میں تمام تر محبت ہی محبت ہے۔اللہ تعالیٰ نے جہنم کی دھمکی اور ڈنڈا دکھاکر بندوں کو جنت کی طرف بلا رہے ہیں ، جیسےشفیق باپ کہتا ہے کہ مٹھائی نہیں کھاؤ گے تو ڈنڈا پڑے گا۔

حضرت والا فرماتے تھے کہ جب سجدہ کرو وتو اِس کا خیال رکھو کہ سجدہ میں جاؤتو تمہارا سر اللہ تعالیٰ کے قدموں میں ہیں اور حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے حضرت والا سے ہی سنا کہ جب قیام میں کھڑےہوں تو سو

نماز کو پرلطف بنانے کے لئے چند مراقبات بیان فرمائے، بار بار دل کو نماز میں حاضر کرتے ، دبا کھڑا ہوں ، دبا جھکا ہوں ، دبا پڑا ہوں۔

خشوع کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جب دل ادھر ادھر چلا جائے تو اُس کو پھر پکڑ کر اللہ کے سامنے حاضر کردو، بس آپ خاشعین میں داخل ہوجاؤ۔ یہ کرتے کرتے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے پھر اس کا استحضار رہتا ہے ۔

اللہ کے راستے کے میں چلنے سے آدمی منزل تک پہنچتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی محبت کی بستی بھی اسی طرح بستی ہے کہ کام کرتا رہے تو کام بن جائے گا۔

اللہ تعالیٰ کے راستے کا غم اُٹھانا ہر ایک کو نصیب نہیں ۔

جس کو یہ غم حاصل ہے ، ہر وقت کا غم اُٹھانا یہ علامت ہے کہ اُ س کو دردِ نسبت حاصل ہے۔

اللہ تعالیٰ آہ فغاں بیکار نہیں جاتا ہے، علامت ِ دردِ نسبت بھی ہے ،  اس کا بقا بھی ہے، اور ترقی کا ذریعہ ہے۔

جب وہ ایک دفعہ اپنا بناتے ہیں پھر اُس کو کبھی مردود نہیں کرتے

بس وہاں آہ و فغاں کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ سے فیصلے کرواتے رہو۔

شیطان مایوسی پیدا کرتا ہے کہ تم تو بہت گناہ گار ہوں لیکن ہمارے گناہ محدود ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا دریاغیر محدود ہے۔

ہر کثرت غیرمحدود کے سامنے اقلیت میں ہوتی ہے۔

گناہوں کا انبار اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور معافی کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔

اگر گر بھی جاؤ تو بھی توبہ کرو، گڑگڑا کر معافی مانگ لو۔۔۔۔ رونے والوں کی شکل ہی بنالو۔۔۔۔دنیا والے ایکٹنگ کو کہتے ہیں مکاری ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نقل ہی کرلو میں معاف کردوں گا یعنی رونے والوں کی شکل ہی بنالو۔

حضرت والا فرماتے تھے کہ آنکھوں پر اللہ تعالیٰ کے پپوٹوں کی چلمن بنادی اور بس جب کوئی حسین سامنے آجائے تو

وسوسے کا علا ج عدم التفات ہے۔

اللہ کے راستے کا غم اٹھا نا مشکل ہے یعنی گناہوں کو چھوڑنے پر جو غم ہو وہ اُٹھانا۔مثبت عبادت کا نور دل میں منفی عبادت یعنی گناہوں کو چھوڑنے  سے داخل ہوتاہے۔

اللہ تعالیٰ کی ولایت کاذریعہ صرف گناہوں کو چھوڑنا ہے۔

اللہ کی رحمت بھی عجیب ہے، تم کام نہ کرو یعنی گناہ کے کام نہ کرو اور میری دوستی حاصل کرلو۔ کیونکہ اللہ کے دوست صرف گناہوں سے بچنے والے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ناراض ہوجانا جہنم سے زیادہ اشد ہے۔ اس لیے کہ ناراضگی ہی جہنم میں لے جائے گی۔عاشقوں کا مزاج یہی ہوتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی رضا جنت پر مقدم ہے

جنت کا ثانوی اور اللہ کی رضا کو اولیت حاصل ہے۔

اللہ کی ناراضگی کا درجہ جہنم سے زیادہ ہے

دوجہان کو پسِ پشت ڈال دیا اور آپ کی رضا کو لے لیا۔

محمود بادشاہ اور ایاز غلام کا قصہ بیان فرمایا ۔۔۔۔ ایاز سے کہا اگر آپ مجھے مل گئے تو سب کچھ مجھے مل گیا۔

جو اللہ کا ہوگیا دونوں جہاں اُس کے ہوگئے۔

جنت سے زیادہ اہم اللہ کی رضا ہے ۔۔۔۔اور اللہ کی ناراضگی جہنم سے اشد ہے

جو اللہ کو راضی کرتا ہے وہ اُس کا ذاتی کمال نہیں یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے۔ جو غیر تربیت یافتہ عباد ت گذار ہیں وہ اپنی عبادبات و کمالات کو اپنے مجاہدات کا ثمرہ سمجھتےہیں ۔۔۔ حضرت تھانوی فرماتے ہیں یہ سخت ناشکری ہے کیونکہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے نعمتیں دیں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اس لئے حضرت والا فرماتے ہیں کہ جو میری جان آپ کی یاد میں مشغول ہے یہ آپ کی رحمت کا صدقہ ہے۔

حضرت والا کی کمال  فنائیت اور کمالِ عبدیت   کی شان کو بیان فرمایا ۔ اور۔ اس پر ایک واقعہ بیان فرمایا۔

حضرت تھانویؒ نے حضرت  سید سلیمان ندویؒ کو نصیحت فرمائی کہ تصوف نام ہے اپنے کو مٹانے کا!!!

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries