مجلس۱ستمبر ۲۰۱۴ء ۔توفیق توبہ آسمان سے آتی ہے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

خلاصۂ مجلس: ۔ حضرت والا  میردامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز تھے ، حضرت والا کے حکم پر جناب ثروت صاحب نے پہلے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار سنائے پھر  مُذمتِ عشقِ مجازی پر مشتمل جناب شاہین اقبال اثر صاحب کے اشعار اپنے مخصوص  انداز میں پیش فرمائے۔اس کے بعد مولانا ابراہیم کشمیر ی صاحب نے اشعار پیش فرمائے۔اس کے بعد حضرت والا دا مت برکاتہم نے خزائن شریعت و طریقت سے ملفوظات پڑھ کر سنائے اور اُن کی تسہیل بھی فرمائی۔ آخر تک یہی سلسلہ رہا۔

ملفوظات

فرمایا: عشق مجازی کی ذلت اور رسوائی کا ایک حال ہی کا واقعہ بیان فرمایا۔

پہلی دفعہ کی گناہ پر اللہ تعالیٰ نہیں پکڑتے جب کم از کم تین دفعہ کرتا ہے تب پکڑ ہوتی ہے۔

نفس شیطان سے بھی بڑا دشمن ہے۔

شکل بگڑنے پر عاشق بھاگ جاتے ہیں۔

حسینوں کے چکر میں رہنے والے اپنی عمر ضائع کرتے ہیں ، بعد میں پتہ چلتا ہے کہ زندگی کے ایام میں نے ضائع کردئیے۔

جس وقت بھی تم دل کو اللہ پر فدا کردو وہی وقت قیمتی ہے۔

توفیق توبہ آسمان سے آتی ہے، اگر اللہ توفیق نہ دے تو توبہ بھی نہیں کرتا۔

پورے کے پورے دین میں داخل ہوجائے، چند روزہ زندگی ہے چند دن مجاہدہ کرلو پھر ہمیشہ ہنستے رہو!!!

اللہ یوں ہی نہیں مل جاتے ،ولایتِ خاصہ زخم ِ حسرت اُٹھانے سے ملتی ہے۔ تمام گناہوں سے بچنے میں جو تکلیف ہوتی ہے اُس کو برداشت کرنے سے اللہ ملتا ہے۔

اللہ کا راستہ ایسے تو بہت مشکل ہے لیکن ان مشکلات طے کرنے سے منزل کا سکون راستہ میں ہی نصیب ہونے لگتا ہے۔

تمام مجاہدات ، اور تمام اعمال ِ صالحہ  کرنے اور گناہوں سے بچنے سے خالی کام نہیں بنتا جب تک کہ اللہ کا فضل نہ ہو۔

کرتا رہے اور ڈرتا ہے۔ اور یہ سمجھے کہ میرے اعمال سے کام نہیں بنے گا، فضل سے بنے گا۔

اللہ تعالیٰ کے جذب پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ اور حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا واقعہ بیان فرمایا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان  بیان فرمائی۔

بس اللہ تعالی سے اُن کا فضل مانگتے رہو۔۔۔۔ اپنے اعمال پر نظر نہ کرو!!!

اللہ والوں کے راستے سے ہٹ کرشیخ سے محبت نہ کرو۔

شیخ کو طبعی تکلیف بھی مت دو۔

حضرت والا کی خاموشی سے بھی ہدایت ہوتی تھی۔

جو چیز بھی خدا سے دور کردے وہ شہوت ہے

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: غیراﷲشہوت ہے، جو چیز بھی خدا سے دور کردے وہ شہوت میں داخل ہے اور شہوت کا تعلق دوزخ سے ہے۔ شہوت سے مغلوب ہوکر ہی آدمی گناہ کرتا ہے اورہرگناہ  دوزخ کی برانچ اور شاخ ہے جیسے یہاں بینک کی شاخ میں پیسہ جمع کرو تو وہ خود بخود ہیڈ آفس میں پہنچ جاتا ہے اسی طرح شہوت سے جو مغلوب ہوگیا تو شہوت کی آگ گناہ کراکے چھوڑتی ہے اور اس کی خاصیت ہے کہ یہ گھسیٹ کر جہنم میں لے جائے گی، نہ چاہو گے تب بھی دوزخ میں پہنچا کر دم لے گی کیونکہ جو شاخ میں پہنچ گیا وہ خود بخود ہیڈ آفس میں داخل ہوجائے گا

جنت کے حصول کا اور دوزخ سے حفاظت کا ضامن صرف نورِ خدا ہے

اللہ تعالیٰ کی محبت کی لذت جنت کی لذت سے بھی بڑھ کر ہے جن کو اللہ تعالیٰ کی محبت کی ازلی ابدی شراب مل گئی اُن کو اس سے کم درجے کی منہ کو نہیں لگتی !

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ:  اﷲ تعالیٰ کے عاشقوں کو ا ﷲ کی ذات درجۂ اوّلیں میں اور جنت درجۂ ثانوی میں محبوب ہے۔۔ اور جانِ عاشقِ نبوت صلی اﷲ علیہ وسلم  نے اسی لیے اﷲ تعالیٰ کی رضا کو جنت پر مقدم فرمایا اور اﷲ کی ناراضگی کو دوزخ پر مقدم فرمایا اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِ اے اﷲ! میں آپ کی رضا کا سوال کرتا ہوں درجۂ اولیں میں اور جنت کا سوال کرتا ہوں درجۂ ثانوی میںکیونکہ آپ کا راضی ہوجانا جنت کی بھی جان ہے کیونکہ جس سے آپ راضی ہوں گے اسی کو جنت دیں گے اور آپ کی ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں کیونکہ آپ کا ناراض ہوجانا کس دوزخ سے کم ہے کہ جس سے آپ ناراض ہوں گے اسی کو دوزخ میں ڈالیں گے اور معطوف علیہ معطوف میں مغایرت لازم ہے۔ معلوم ہوا کہ اﷲ کی رضا کی، اﷲ کی ذات کی، اﷲ کے نام کی، اﷲ کی محبت کی لذت کچھ اور ہے اور جنت کی لذت کچھ اور ہے۔ اسی قاعدہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اﷲ کی ناراضگی عذابِ دوزخ سے بڑھ کر ہے۔

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: شہوت کی آگ کو بجھانے کا طریقہ یہ ہے کہ شہوت کے تقاضوں پر عمل نہ کرو، نظر کو بچا کے رکھو، پکا ارادہ کرلو کہ گناہوں کو ترک کرنا ہے، اﷲ کو ناراض نہیں کرنا ہے چاہے جان رہے یا جائے۔ اسی سے نورِ خدا دل میں آئے گا اور یہ نار بجھ جائے گی اور اﷲ تعالیٰ حلاوتِ ایمانی عطا فرمائے گا۔ گناہ نہ کرنے کا نام تقویٰ ہے اور تقویٰ جڑ ہے اﷲ تعالیٰ سے تعلق کی۔ جس کو نورِ تقویٰ حاصل ہوگیا اسے نورِ خدا مل گیا اور نورِ خدا سے آگ ٹھنڈی ہوجائے گی۔

فرمایا : خوب غور سے سن لیں ۔۔۔۔ خالی مجاہدات سے بھی یہ نور حاصل نہیں ہوسکتا۔ پھر کہاں سے ملے گا؟ جن کے دل میں یہ نور ہے، جنہوں نے اﷲ کی راہ میں گناہ سے بچنے کے لیے غم اُٹھائے ہیں، مجاہدے کیے ہیں، دل کا خون کیا ہے ان کے دل سے یہ نور حاصل ہوگا ؎

نور والوں سے نور ملتا ہے

    ان کے پاس رہ کر سیکھنا پڑے گا کہ جیسے وہ اﷲ کی راہ میں غم اُٹھاتے ہیں، نگاہوں کو نامحرموں سے بچا کر دل کا خون کرتے ہیں، اپنا دل توڑ لیتے ہیں لیکن اﷲ کا قانون نہیں توڑتے تو ان اہل اﷲ کی صحبت میں رہ کر یہ مشق کرو تب نورِ خدا حاصل ہوگا جس کی دلیل کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ہے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries