مجلس ۱۴۔اکتوبر ۲۰۱۴ء تکبر سببِ بُعَد ہے اور  شکر سببِ قُرب ہے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مجلس کے آغاز میں جناب تائب صاحب دامت برکاتہم نے اپنے اصلاحی اشعار پیش فرمائے  ۔اشعار حضرت والا نے بہت پسند فرمائے، تقریباً ۲۰ منٹ یہی سلسلہ رہا۔ بعد ازیں حضرت اقدس دامت برکاتہم نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب’’ ارشاداتِ دردِ دل ‘‘  سے ملفوظات پڑھ کر سنائے،آخر تک یہی معمول رہا ۔

ملفوظات:  ’’ارشاداتِ دردِ دل‘‘

نشۂ کبر کا علاج: عصر کے بعد حضرت مرشدی دام ظلہم العالی نے احقر کو طلب فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ بعد مغرب دارالعلوم میں میرا وعظ قافلۂ جنت کی علامت پڑھ کر سنا دینا۔ احقر نے عرض کیا کہ بہت اچھا اور احقر واپس دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ تھوری دیر کے بعد پھر طلب فرمایا اور احقر کی اصلاح کے لیے یہ ملفوظ ارشاد فرمایا کہ مقرر جب دیکھتا ہے کہ اتنا بڑا مجمع میری بات سن رہا ہے تو اس میں ایک نشہ آتا ہے۔ اس نشہ سے بچنا ضروری ہے۔ اس کا کیا طریقہ ہے؟ اپنا کوئی واقعہ یاد کرلے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کی ستاری نہ ہو اور اﷲ تعالیٰ میرے اس عیب کو ظاہر کردے تو آج میں منہ دِکھانے کے قابل نہیں ہوں، کہیں دعوت کھانے کے قابل نہیں ہوں، یہ جو میری آؤ بھگت ہورہی ہے اﷲ تعالیٰ کے پردۂ ستاریت کی وجہ سے ہے،بس نشہ اتر جائے گا۔یہ نہ سمجھے کہ ہم سب جانتے ہیں، جاننے کے باجود نفس نشۂ کبر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ دوسری بات سوچے کہ ہمارا یہ سنانا معلوم نہیں قبول بھی ہے یا نہیں۔ ایساتو نہیں کہ ہم سنارہے ہیں، دوسرے لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں اور ہم عمل نہ کرنے سے محروم رہ رہے ہوںجیسے وہ باورچی جو دوسروں کو سوپ پلائے اور خود نہ پیئے تو دوسرے تو قوی ہوجائیں گے لیکن یہ سوکھا رہے گا۔ پس ممکن ہے کہ ہماری باتیں پڑھ اور سن کر لوگ تگڑے ہورہے ہوں اور ہم عمل نہ کرنے کی وجہ سے کمزور ہورہے ہوں۔ ان دو باتوں کا تصور کرو۔

تشکر علاج تکبر ہے: ارشاد فرمایا کہ مقرر جب اپنے سامنے ایک لاکھ کا مجمع دیکھتا ہے تو دل میں ایک نشہ آجاتا ہے تکبر اور عجب کا غیر شعوری طور پر، غیرارادی طور پر۔ اولیاء صدیقین کے آخری درجہ میں جو ہوتا ہے وہی عجب و کبر سے مکمل طور پر بچتا ہے اور اس سے بچنے کا کیا طریقہ ہے؟ مجمع دیکھ کر یہ سوچے کہ معلوم نہیں میرا یہ عمل قبول بھی ہے یا نہیں، قبولیت کی کوئی ضمانت اور گارنٹی نہیں آئی۔ مرنے کے بعد جب تک اللہ تعالیٰ یہ نہ فرمادیں کہ تمھاری تقریروں سے، تمہاری تحریروں سے، تمہارے اعمال سے ہم خوش اور راضی ہیں تب تک کسی عمل کی قبولیت کا اعتبار نہیں۔ اگر اللہ راضی نہیں ہے تو اس کا چوگنا اور آٹھ گنا مجمع واہ واہ کرے تو کچھ فائدہ نہیں ہے۔

اپنے اعمال کے بارے میں صوفیاء اور بزرگانِ دین یہ تصور کرتے ہیں کہ قیامت کے دن معلوم نہیں یہ قبول ہیں یا نہیں۔ ابھی قبولیت کی قطعی طور پر آپ کو کیسے امید ہوگئی؟

اللہ والے اُس دن سے ڈرتے ہیں جس دن قلب اور آنکھیں لوٹ پوٹ ہوجائیں گی۔ بھائی! اکڑے تو وہ جس کو اپنے اعمال کی قبولیت کا یقین ہو۔ ابھی جب مرے نہیں تو اللہ کے فیصلہ کا علم کیسے ہو گیا ؟اپنے منہ میاں مٹھو بن رہے ہو، اپنے منہ سے خود ہی تعریف کر رہے ہو ، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا فیصلہ ہو اس کا خوف کرو کہ نا معلوم عمل قبول بھی ہے یا نہیں ؟اگر قبول ہے تو سبحان اللہ اگر قبول نہیں تو لاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲِ اللہ کی لعنت ہے ایسے عمل پر، لہٰذ اس وقت جو لوگ کتاب پڑھیں یا تقریر کریں وہ اس کا مراقبہ کریں کہ معلوم نہیںکہ میر ا عمل قبول بھی ہے یا نہیں؟ ورنہ چند بندے چند بندوں کی تعریف کر رہے ہیں، چاہے ایک بندہ تعریف کرے یا ایک لاکھ بندے تعریف کریں تو میزانیہ بندہ ہی آئے گا کیونکہ بندوں کا مجموعہ بندہ ہی ہوتا ہے۔ بندہ کی قیمت مالک لگا تا ہے اس لیے یہ سوچو کہ ہماری تقریر کی قیمت کیا ہوگی یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ اس لیے نہ اپنے منہ سے میاں مٹھو بنو نہ لوگو ں کی تعریف میں آؤ کیونکہ لوگوں کی تعریف میں آنا اور اپنے کو تعریف کا مستحق سمجھنا حماقت اور بے وقوفی ہے ۔ ہمار اجن سے پالا پڑے گا یعنی اللہ تعالیٰ جب پاس کردیں اور اللہ راضی ہو جائے تب سمجھو کہ اب پاس ہو گئے۔

تکبر اللہ سے دور کرتا ہے ، اور شکر اللہ سے قریب کرتا ہے اور دونوں بیک وقت جمع نہیں ہوسکتے۔

کیونکہ جب شکر کرنے لگا تو اِس کا دھیا ن اللہ کی طرف ہوگیا اور تکبر میں اُس کا دھیان اپنی طرف ہوگیا کہ میں ایسا ہوں ۔ اورتکبر میں سارے کمالات کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے،اور تشکر میں اپنے کمالات کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سبب سمجھتا ہے، کیونکہ                             ؎

کچھ ہونا مرا ذلت و خواری کا سبب ہے
یہ ہے مرا اعزاز کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں
یہ دل کی ہے آواز کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں
اس پر ہے مجھے ناز کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں اپنے کو تمام مسلمانوں سے کمتر سمجھتا ہوں فی الحال یعنی موجودہ حالت میں اپنے کو تمام مسلمانانِ عالم سے کمتر سمجھتا ہوں،کیا وجہ ہے؟وجہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ اس کا کوئی فعل قبول ہوگیا ہو اور میرا کوئی فعل نامقبول ہو،کیونکہ اس کا اِمکان ہے،اس لیے تما م مسلمانوں سے کمتر ہو ں فی الحال،روزانہ دعا میں اس جملہ کو بار بار کہو۔اور دوسرا جملہ کہو کہ کافروں اور جانوروں سے،کتے اور سور سے کمتر ہوں فی المآل یعنی باعتبار انجام کے ۔ کیونکہ اپنا انجام ابھی مجھے نہیں معلوم، اگرخاتمہ ایمان پرہوگیاتب تومیںاچھا ہوں لیکن اگر خاتمہ خراب ہوگیا، نعوذ باللہ خاتمہ کفر پر ہو ا تب تو کتے اور سور بھی مجھ سے افضل ہیں۔

اس کا فائدہ کیا ہے کہ اگر کسی مسلمان کا عیب نظر آگیا تو یہ سوچے گاکہ ممکن ہے کہ یہ اس سے توبہ کرلے، اور ممکن ہے کہ کوئی اس کا عمل ایسا ہو جس سے اس کی مغفرت ہوجائے اور مجھے اپنے خبر نہیں کہ میرا عمل قبول ہے! یہ کیسا اچھا مراقبہ ہے کیونکہ جس کو اللہ تعالیٰ ایک دفعہ قبول فرمالیتے ہیں پھر  وہ مردود نہیں ہوتا، اور حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ کم ازکم دن میں تین بار یہ جملہ کہہ لیا کرو!

دنیا میں ہر طرح کی تعریف صرف اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف  ہے۔  تعریف کی چار قسمیں ہیں نمبر۱۔ بندہ بندے کی تعریف کرے، نمبر۲۔ بندہ اللہ کی تعریف کرے، نمبر۳۔اللہ بندے کی تعریف کرے، نمبر۴۔اللہ خود اپنی تعریف کرے اور یہ چاروں تعریفیں اﷲ ہی کے لیے خاص ہیں، ان چار کے علاوہ کوئی پانچویں قسم نہیں ہے۔

مومن کے لیے مصیبت کے نافع ہو نے کا منطقی استدلال بیان فرمائی ۔مومن کو جو مصیبت پہنچتی ہے اُ س میں مومن ہی کا فائدہ  ہے!!

 اس میں صرف چار صورتیں ہیں، چیلنج کرتا ہوں کہ پانچویں کوئی صورت نہیں ہے۔ (۱) مومن کو تکلیف دے کر اللہ سو فیصد فائدہ اُٹھا لیں یہ ناممکن ہے کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نعوذباللہ بندوں کا محتاج ہے۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ سارے عالم سے بے نیاز ہے لہٰذا یہ صور ت محال ہے۔ (۲) دوسر ی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سو فیصد نفع نہ لے،پچاس فیصد لے، یعنی ففٹی ففٹی کر لے کہ پچا س فیصد بندے کو دے دے،پچاس فیصد خود لے لے، یہ بھی ناممکن ہے۔ اس میں بھی اللہ کا محتاج ہونا لازم آتا ہے اور اللہ کسی کا  محتاج نہیں ہے نہ کم نہ زیادہ ۔ ساری مخلوق اس کی محتاج ہے۔ (۳) تیسری شکل یہ ہے کہ نہ بندہ کا فائدہ ہو نہ اللہ کا ، جس کو چاہا کھانسی دے دی ، جس کو چاہا بخار دے دیا،کسی کو صدمہ و غم دے دیا اور کسی کا ایکسیڈنٹ کرا دیا، جس میں کوئی فائدہ اور مقصد نہیں تو بے فائدہ کام کرنا،بے مقصد کام کرنا، فضول اور لغو کام کرنا،یہ اللہ کی عظمت کے خلاف ہے۔ اللہ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ (۴) اب صرف چوتھی شکل باقی ہے کہ ہر مصیبت اور تکلیف میں سوفیصد مومن ہی کا فائدہ ہے۔ 

تو میںیہ کہتا ہوں کہ ہر نعمت کو اللہ کی طرف منسوب کرو،ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرو، تَشَکُّر کی کیفیت غالب رہے تو تَکَبُّر پاس نہیں آئے گا۔ تکبر سے وہی شخص بچ سکتا ہے جس پر تشکر غالب ہو،کیونکہ تشکر سبب ِقرب ہے،شکر کرنے سے قُربِ اِلٰہی بڑھتا ہے اور تکبر سے بُعد اور دوری ہوتی ہے اور دوری اور حضوری میں تضاد ہے اور اجتماعِ ضدین محال ہے۔

باوجود صدہا ہنراورخوبیوں کے اپنے کو بے قدر سمجھتا ہے۔ بے قدر کا خود کو بے قدر سمجھنا کچھ کمال نہیں،کمال یہ ہے صدہا ہنر ہوتے ہوئے اللہ کے خوف سے خود کو بے قدر سمجھے، یہ خود کو بے قدر سمجھے گا لیکن لوگ اس کو بے قدر نہیں سمجھیں گے، لوگ اور قدر کریں گے۔ 

مَنْ تَوَاضَعَ ِﷲِ رَفَعَہُ اﷲُ تواضع کے بعد ِﷲِ لگا ہوا ہے جو اللہ کے لیے تواضع کرے گا،جو اس لئے تواضع کرتا ہے کہ لوگ مجھے بہت متواضع سمجھے ، یہ تواضع  ِﷲِ نہیں ہے  لِلنَّفْسِ ہے۔ ایسی توا ضع پر رفعت و بلند ی کا وعدہ نہیں ہے۔ جو اللہ کے لیے تواضع کرے گا اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اللہ اس کو بلندی دے گا۔

مجلس  کے اختتام پر فرمایا : نیک دوستوں کا مل جانا نعمتِ عظمیٰ ہے۔

 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries