مجلس  ۲۷ دسمبر ۲۰۲۰ عشاء : علم اور علماء کرام کی عظمت !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

  00:39) مفتی انوار صاحب نے اسوۂ رسول ﷺ سے احادیث پڑھ کر سنائی! دنیا میں ہی حق ادا کرلے، قیامت کے دن کچھ نہیں ہوسکے، ۔۔۔ درگذر کرے، معاف کرے، تحمل کرے جس نے اس کو برا کہا ہو۔۔

04:35) ذکر اللہ سے کیا مراد ہے؟ اس پر ڈھائی تین گھنٹے کا بیان ہوچکا ہے! وہ لینا چاہیے!

06:11) خودرائی کو چھوڑ کر شیخ کی بات ماننی چاہیے۔ اس راہ کا پہلا قدم ہے کہ پہلے شیخ کو دیکھ بھال لو، علمائے کرام مفتیان کرام سے پوچھ لو اور اس کے شیخ جو چلے گئے اور جو زندہ ہیں ان کا اعتماد تھا! جب سب ہوگیا تو اس کے بعد عقل نہیں لڑانی چاہیے،

07:17) نفسیاتی مریض آئے آج، انجینئر تھے، نیند کم اور ذکر خوب کرتے تھے، تحمل نہ ہونے کی وجہ سے نفسیاتی ہوگئے۔۔۔ بس اپنی مرضی سے چل رہے ہیں

08:35) ذکر اللہ کی حقیقت یہ ہے کہ ہر وقت اتباع و شریعت کا اہتمام رہے، حضرت مولانا قاری طیب صاحب ؒ نے ثابت کیا ہے کہ سب سے بڑا اور افضل ذکر نماز ہے، اذان کا جواب دینا کیا ذکر نہیں ہے!، سنتوں پر پورا عمل کرنا کیا یہ ذکر نہیں! حج و روزہ سب ذکر ہے۔۔۔ ہر موقع پر سنتوں کا اہتمام بھی ذکر اللہ میں داخل ہے۔

11:35) مفتی نعیم صاحب کا مضمون پڑھ کر سنایا: 13 ربیع الاوّل 1442ھ مطابق یکم نومبر 2020ء بروز اتوار، بوقت بعد از ظہر درسِ قرآن: اولاد کے دنیاوی مستقبل کیساتھ ساتھ اُخروی مستقبل کی بھی فکر رکھیں!: میرے شیخ، شیخ العرب والعجم عارف باللہ حضرت اقدس حضرت مولانا شاہ حکیم محمداختر صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ اولاد کے لئے ترکہ میں حلال کے کروڑوں روپے چھوڑ کر جانے سے کہیں زیادہ بہتر ہے اُن کو دیندار، اللہ والا، متقی بناکر اس دنیا سے چلا جائے۔اگر ساری زندگی پسینہ بھاکر اور مزدروں کی طرح رات دن ایک کرکے پیسہ جمع کیا، جائیدادیں بنائیں، بینک بیلنس بنایا، دنیا سے جانے کے بعد اولاد نکمّی اور نالائق نکلی تو وہ ان سارے پیسوں کو فضول خرچیوں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں اور اپنی خواہشاتِ نفسانی پوری کرنے میں اُڑا دے گی، اس طرح ساری زندگی پسینہ بھانے سے بھی اس کو کچھ حاصل نہ ہوا۔ حضرت سیدنا علی ہجویریؒ کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’کَشْفُ الْمَحْجُوْب‘‘ ہے، اس میں حضرت نے سُوْرَۃُ التَّغَابُنْ کی آیت نمبر ۱۴ کے ذیل میں حضرت علیؓ کا فرمان نقل فرمایا ہے۔ آیت یہ ہے: یٰٓاَیُہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ۝۰ۚ تمہاری بعض بیویاں اور تمہاری بعض اولادیں تمہاری دشمن ہیں، ان سے بچ کر رہنا۔ ضروری نہیں کہ ہر بیوی یا ہر اولاد اُس کی دوست ہو، قرآن نے اعلان فرمایا۔ اور یہ بالکل واضح ہے۔ ہر عقلمند آدمی اور صاحبِ فہم کے لئے سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ جو اولاد اور جو بیوی اس کے لئے اللہ کی رضا کے راستے میں معاون بنیں، اس کی مددگار بنیں، وہ اس کی دوست ہے۔ اور جو اس کو اللہ سے دور کردے، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے غافل کردے اور اس کی آخرت برباد کردے، ایسی اولاد اور بیوی اس کی دشمن ہے، قرآن نے ذکر فرمایا۔ اب قرآن پاک کی اس آیت کو حضرت علیؓ کے فرمان سے سمجھ لیجئے۔

15:25) ذکر شیخ سے پوچھ کر کرنا چاہیے، اور بیان کے دوران ذکر نہیں کرنا چاہیے اس طرح نہ بیان کا فائدہ ہوگا اور نہ ذکر کا۔ دھیان نہیں رہے گا، شیخ جتنا بتائے اتنا ذکر کرو، میں نے بھی حضرت والا ؒ کو لکھ کردیا تھا کہ میں یہ ذکر کرتا ہوں تو حضرت والا نے چند کی اجازت دے کہ تقویٰ کی زیادہ فکر کرو اور مجھے اپنی صحت کا بتاؤ، غصہ کا بتاؤ، اخلاق کا بتاؤ

16:29) میرے بابا جانؒ نے حضرت والا کو اپنے ذکر کا لکھ کر دیا، بابا اتنا ذکر کرتے تھے کہ پوچھو مت، بابا نے اصلی گھی کھایا ہوا تھا، بڑھاپے میں بھی اگر تھپڑ مارتے تو ہمارے دو دانت ٹوٹ جاتے، لیکن حضرت والا نے پوری لسٹ پڑھی اور فرمایا کہ تمہارے ابا مجھ سے بیعت نہیں ہیں اور ان کا برسوں کا ذہن بنا ہوا ہے اگر میں کچھ کہوں گا کہ مجھ سے دور ہوجائیں گے اس لیے تمہارے بابا کو میں کچھ نہیں کہتا! بابا کو کچھ نہیں کہا حضرت نے! اور اس سے تھوڑا پہلے مجھے کہا کہ بس یہ ذکر کرو، یہ ملتوی!

17:58) مفتی نعیم صاحب کے مضمون اولاد کے دنیاوی مستقبل کیساتھ ساتھ اُخروی مستقبل کی بھی فکر رکھیں!: کا سلسلہ دوبار جڑا ۔۔۔ اور آگے سے پڑھ کر سنایا: حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ tنے عام انسانوں کو نصیحت کی کہ اگر اولاد نیک، متقی اور اللہ تعالیٰ کی دوست ہے تو اپنے مرتے وقت میں ان کی زیادہ فکر نہ کرو، کیونکہ اگر اولاد اللہ کی ولی ہوئی تو اللہ اپنے ولی کو کبھی بھی رُسوا اور ضائع نہیں فرماتے۔ اگر اولاد اللہ تعالیٰ کی دشمن ہوئی تو تم اُن کی حفاظت کے جتنے بھی سامان کرلو، اُن کو دنیا و آخرت میں برباد ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ یہ اُن کی بات ہے جن کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔‘‘ آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ کے علم کی تعریف فرمائی۔

19:43) حضرت والا ؒ کا مضمون درمیان میں فرمایا کہ : حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ، یتیم بچوں کے خزانے کی حفاظت میں دیوار بنائی جو گرنے والی تھی، کیونکہ یہ یتیم بچے جو تھے ان کے بارے میں تفسیروں میں لکھا کہ ان کا ساتواں باپ اللہ والا تھا، اور ایک روایت میں ہے کہ دسواں باپ اللہ والا تھا۔۔۔ حضرت والاؒ نے فرمایا تھا کہ ساتواں اور دسواں نمبر ہمارے ہاں ہیں اللہ چاہے تو سو نسل تک فضل فرمادیں۔۔۔ اس لیے اولاد کی دنیا کی زیادہ فکر چھوڑو بس ان کو نیک بنانے کی فکر کرو!

21:15) مفتی نعیم صاحب کے مضمون کا سلسلہ دوبارہ جوڑااور پڑھنا شروع کیا: اولاد کے لئے سب سے بہترین تحفہ کیا ہے؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ والد جو کچھ بھی تحفے اپنی اولاد کو دیتا ہے، ان میں سب سے بہترین تحفہ اور سب سے اعلیٰ تحفہ علمِ دین اور تقویٰ کی دولت ہے۔

21:53) حضرت والا ؒ کا بیان ہم سن رہے تھے اس میں فرمایا کہ :عالم ربانی کی فضیلت کہ جنت کے دروازے پر روک دیا اور کہا جائے کہ جس کو ساتھ لے جانا چاہوں لے جاؤ شفاعت کا حق دیا جائے گا

22:16) شیخ کا ادب اور حسن رفاقت کس کو کہتے ہیں!

23:50) لطیفہ رناڑوریا کس کو کہتے ہیں۔

۔ 24:30) مفتی نعیم صاحب کے مضمون کا سلسلہ دوبارہ جوڑااور پڑھنا شروع کیا: اولاد کے بارے میں حضورﷺ کے اِس فرمان کی روشنی میں اب ہم اپنے عمل کا جائزہ لیں۔ ہم نے اپنی اولاد کے بارے میں کس بات کی فکر سوار کی ہوئی ہے؟ ہماری فکر کا محور صرف اس فانی دنیا کے گرد گھومتا ہے۔ میرے حضرت والاؒ فرمایا کرتے تھے کہ اولاد کے مستقبل کی فکر ہے، اولاد کا کیریئر بن جائے، یہ فکر مذموم اور ناپسندیدہ نہیں ہے۔ اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذمہ داری میں ایک نعمت اور تحفہ ہے، ان کے مستقبل کی فکر کرنا یہ شریعت کا خود اَمر ہے لیکن فرمایا کہ جس طرح تم اس دنیا کے مستقبل کی فکر کرتے ہو، ایک مستقبل آگے آنے والا ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ تم مستقبلِ قریب کی تو فکر کرتے ہو، وہ مستقبلِ بعید جس کی کوئی انتہاء نہیں ہے یعنی آخرت کی زندگی جو ہمیشہ کی زندگی ہے، اس کی بھی فکر کرلو۔ یہ فکر ہے کہ میری اولاد یہاں دنیا میں فاقوں سے نہ رہے، بھوکی نہ رہے، پیاسی نہ رہے، ان کو چھت مل جائے، اس کے ساتھ یہ فکر بھی شامل کرلیں کہ قیامت کی گرمی و دھوپ میں سائے کی چھت نصیب ہوجائے۔ دنیا کی زندگی میں چاہتے ہیں کہ اولاد سیٹ ہوجائے تو وہاں آخرت کی زندگی کے لئے بھی فکر کریں کہ میری اولاد وہاں بھی سیٹ ہوجائے۔ یہاں دنیا کی چھت زیادہ سے زیادہ انہیں ساٹھ ستّر سال تک سایہ دے گی، پھر اس کے بعد کا ٹھکانہ آخرت ہے۔ محل سے نکلنے والی میت کا ٹھکانہ بھی وہی چند گز کی قبر ہے اور جھونپڑی سے نکلنے والی میت کا ٹھکانہ بھی وہی ہے۔ پراڈو اور لینڈ کروزر میں گھومنے والے کو بھی اسی چارپائی پر ڈال کر لے جایا جائے گا اور غریب آدمی جس کے پاس سائیکل بھی نہیں تھی اس کو بھی اسی طرح کندھوں پر اٹھاکر لے جایا جائے گا۔

26:15) حضرت والاؒ فرماتے تھے کہ میت کندھے پر ہے نا،میت بزبانِ حال کہتی ہے ؎ تیرے رحمت کا امیدوار بن کر آیا ہوں منہ ڈھانپے کفن سے، شرمسار آیا ہوں چلنا نہ دیا بار گناہ نے پیدل اوروں کے کندھوں پر بیٹھ کر آیا ہوں

27:45) مفتی نعیم صاحب کے مضمون کا سلسلہ دوبارہ جوڑااور پڑھنا شروع کیا: جس کے پاس دنیا میں تمغے، جائیدادیں اور بے حساب دولت تھی اور جو مسکین تھا، دونوں کی سواری ایک ہی ہے۔ یہ حساب کتاب تو اللہ تعالیٰ یہی دنیا ہی میں دکھادیتے ہیں۔صرف ایک چیز ساتھ جاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو بڑی خوبصورت انداز میں سمجھایا: يَتْبَعُ الْمَيِّتَ ثَلَاثَةٌ تین چیزیں میت کے ساتھ ساتھ جاتی ہیں۔ فَيَرْجِعُ مِنْہُ اِثْنَانِ دو واپس آجاتی ہیں، وَيبْقٰى مَعَہٗ وَاحِدٌ ایک اس کے ساتھ قبر میں باقی رہ جاتی ہے۔ فرمایا کہ اہل و عیال جنازہ پڑھنے اور دفنانے کے لئے قبر تک ساتھ جاتے ہیں، پھر واپس آجاتے ہیں۔ مال بھی قبر تک ساتھ جاتا ہے جیسے اس کی چارپائی یا کوئی چادر ساتھ گئی، مگر وہ بھی سب واپس آجاتے ہیں، نہ چادر چھوڑی، نہ اے سی اور نہ ہیٹر چھوڑا جاتا ہے، قبر میں کسی چیز کا کوئی انتظام نہیں ہوتا، سب چیزیں واپس آجاتی ہیں، ایک چیز ساتھ جائے گی اور وہ عمل ہے۔ ’’عمل‘‘ ساتھ جائے گا۔ جو مسکین جھونپڑی سے نکلا اس کے پاس ایمان، تقویٰ اور عمل کی دولت تھی، وہ اپنے ساتھ قبر میں بھی لے گیا۔اور جو محل سے نکلا اُس نے اپنے پیچھے ہزاروں ایکڑ زمینیں، باغات، دکانیں اور کاریں سب کچھ چھوڑا، مگر اعمال نہیں تھے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ آخرت کے سفر کا امیر وہ مسکین ہے جس کے پاس دنیا میں کچھ مال و دولت نہیں تھا اور آخرت کے لئے اعمال ہیں یا آخرت کے سفر کا امیر وہ امیر ہے جس کے پاس دنیا میں تو بہت جائیدادیں، زمینیں، بنگلے اور کاریں تھیں اور آخرت کے لئے کوئی عمل نہیں ہے۔اب آپ بتائیے کہ کیا یہ کوئی غیرمعقول راستہ ہے یا عقل والوں کا راستہ ہے؟ آپ سب یہ کہتے ہیں کہ یہ عقل کا راستہ ہے اور عقلمندوں کا راستہ ہے۔ ارے عقلمندو! جب سب سمجھتے ہو کہ یہ عقل کا راستہ ہے تو سب سے بڑی عقل یہاں ظاہر ہونی چاہیے کہ اس نے ہمیشہ کے کیریئر اور ہمیشہ کے مستقبل کی فکر کی ہے۔(مضمون مکمل ہوا)

30:43) درس مثنوی ص 107 سے پڑھ کرآج سنانا شروع کیا: مولانا اللہ تعالیٰ کی قدرتِ قاہرہ اور تصرفاتِ عجیبہ کو ایک مثال سے بیان فرمارہے ہیں کہ مثل ہرن کے شکاری کے بعض سالکین حصول نسبت مع اللہ کے لئے سلوک طے کرنا شروع کرتے ہیں لیکن نازوتکبر کے سبب خود نفس کے جنگلی سور کا شکار ہوجاتے ہیں اور عشق مجازی کے عذاب میں مبتلا ہوکر اللہ تک نہیں پہنچ پاتے اس لئے مولانا نصیحت فرماتے ہیں کہ ناز و نخرے مت کرو اپنے کو حقیر وذلیل وکمزور سمجھو اور اللہ تعالی سے ہر وقت پناہ مانگتے رہو کہ اے خدا اپنی رحمت سے ہمیں اپنی حفاظت میں لے لے اور اپنی منزل قرب تک رسائی نصیب فرما۔ دوسرے شعر میں مولانا فرماتے ہیں

31:44) حقوق شیخ ، آدابِ شیخ اور علمائے کرام اور مفتیان کرام کی بے ادبی پر بہت ہی اہم تنبیہ! شیخ سے اور مفتیان کرام سے پوچھنے کے اہم آداب بیان فرمائے کہ حق بات پوچھنے کا بھی انداز ہوتا ہے، بے ادبی سے بہت نقصان ہوتا ہے۔۔

33:00) درس مثنوی سے پڑھنا شروع کیا: اللہ تعالی کے تصرفات اور قدرت قاہرہ کو بندوں کے ناز و تکبر کی شکست وریخت کے لئے مولا نا اس شعر میں دوسری مثال سے بیان کررہے ہیں کہ اے شخص تونے تیر کو داہنی طرف چلایا مگر تونے دیکھا کہ تیرا وہ تیر بائیں طرف اڑاجارہا ہے۔ مطلب یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی قدرت سے استمداد اور دعا اور تضرع نہیں کرتے ہو بلکہ ناز کرتے ہو اپنے کمالات پر۔ پس اے سالک !تجھے اپنی تدبیر پر ناز نہ کرنا چاہئے۔ تدبیر کا مفید نتیجہ اللہ تعالی کے قبضہ میں ہے لہذاتم کو تو اللہ سے دعا کرکے تیر مارنا چاہیئے تھا کہ یا اللہ ! میر اتیر میری منزل تک پہنچادیجئے یعنی میری تدبیرکو اپنی منزل قرب تک رسائی نصیب فرمایئے اور عجب وکبر سے تحفظ فرمایئے کیونکہ عجب وکبر کی نحوست سے جب اللہ کی رحمت اور نصرت ہٹ جاتی ہے تو تدبیر کا اثر الٹا ہوجاتاہے

35:15) علمائے کرام اور مفتیان کرام کی بے ادبی اعتراض اور پوچھنے کے غلط انداز پر بہت ہی اہم تنبیہ! اپنے عیبوں پر نظر کرنی چاہیے، اور پوچھنے کا سلیقہ ہونا چاہیے۔ خود گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور علماء اور مفتیانِ کرام پر اشکالات کرتے ہیں۔

40:35) اگر کسی بات پر اشکال ہو تو اس کے حل کا طریقہ کار ہونا چاہیے اور ہمارا انداز اور طریقۂ عمل کیسا ہونا چاہیے۔ پوچھو! لیکن طریقہ تو صحیح رکھو! بس اپنے آپ کو ایسا سمجھنا کہ مجھ سے زیادہ کوئی تقویٰ والا ہے ہی نہیں! صرف میں ہی شاہراہ اولیاء پر ہوں۔۔۔۔ یہ بھی تو غلطی ہے بھئی!

42:19) اللہ تعالیٰ کے تکوینی انتظامات میں گھسنا اور سوچنا نہیں چاہیے ابھی کل 18 سال کے نوجوان کا اچانک انتقال ہوا ہے، اللہ کی مرضی ہے۔۔۔اور ہم گناہوں میں سانڈ بنے ہوئے ہیں اس لیے سمجھ لیں کہ سب سے بڑا ذکر تقویٰ ہے اور اس تقویٰ میں سب آجاتا ہے، سنت کی اتباع، گناہ کو چھوڑنا، اچھے اخلاق

54:34) والدین کے حقوق پر اہم نصیحت:: بہت غور سے سننے کی بات ہے کہ جوش میں آکر ایک صاحب نے اپنے والد صاحب کا ٹیلی ویژن توڑ دیا، اور نقصان بھی کیے کہ میرے والد فلمیں دیکھتے ہیں وغیرہ ، والد کو حقیر سمجھ رہے ہیں اوربڑی آواز سے نصیحتیں کررہے ہیں، ڈانٹ لگا رہے ہیں، بدتمیزی کررہے ہیں۔۔۔ شرم آتی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کے ادب کے بارے میں کیا حکم دئیے ہیں۔۔۔ حدیث پاک میں ستانے والے کےلیے کیا وعیدیں ہیں۔۔۔ والدین کے حقوق اور ان سے خوب ادب سے بات کرنے پر اہم نصیحت۔۔ اپنی جاہ اور اکڑ تکبر کا علاج کرواؤ۔۔۔ حدیث پاک میں ہے کہ کامل ایمان اس کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔

01:15:17) معافی کا پرچہ آیا فرمایا معاف تو کردیا اللہ تعالیٰ سے بھی معافی مانگو اور صرف اپنی اصلاح کی فکر کرو! مفتیان کرام کا خوب ادب کرنے کی خاص تعلیم۔۔۔۔پھر حضرت والا نے خود بھی سب احباب سے ہاتھ اٹھا کر ارادہ کروایا کہ میں ارادہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد جان دے دوں گا اللہ تعالیٰ کو ایک سانس ناراض نہیں کروں گا( سب احباب نے ہاتھ اٹھا لیے بعض نے دونوں ہاتھ اٹھا لیے) فرمایا کہ ارادہ کرلو کہ ہم سب ہر سنت پر عمل کریں گے، کمزوری سستی ہوجائے تو توبہ کریں گے بھئی! بغیر توبہ کے نہیں رہیں گے! بس ارادہ ہوگیا بھئی! ارادے پر اللہ تعالیٰ مرادآباد تک پہنچادیتے ہیں، بابا کس سے غلطی نہیں ہوتی چاہے جتنے بھی گناہ ہوجائیں سب معاف فرمادیتے ہیں۔۔

01:18:05) واقعہ: بیانات میں آنے والے چار سال کے معصوم بچے کا تذکرہ کہ اس نے چند دن پہلے اپنی ماں سے کچھ بدتمیزی کرلی پھر کچھ دیر بعد آکر ماں کے پاؤں سہلانے لگا اور کہا کہ امی مجھے معاف کردیں ہم نے بیان میں سنا ہے کہ آپ کے پیروں کے نیچے جنت ہے! ماں کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔۔۔ توکیا ہم بچے سے بھی گئے گذرے ہوگئے کہ اللہ سے معافی نہیں مانگتے۔۔۔۔

01:19:05) ایسے طنز اور بدتمیزیوں سے کسی کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔۔۔ میں آپ لوگوں سے لڑتا ہوں حالانکہ ایسے ایسے خط آتے ہیں بڑے بڑے گناہوں کے، بس سمجھادیا اور تھوڑا سا ناراض ہوتا ہوں کہ میری بات نہیں مانتے ہم آپ کو قرآن پاک حدیث پاک سے والدین کے حقوق کا سمجھارہا ہوں۔۔۔ کمی کوہتاہی دوسری جگہ چل جائے گی، ماں باپ کے معاملے میں نہیں چلے گی۔۔

01:21:52) بیان کےآخر میں سعودی عرب سے ایک چھوٹی بچی کا درد بھرا دعا کا پیغام آیا، حضرت شیخ مدظلہ نے روتے ہوئے سنایا کہ ’’جتنے گناہ بیان ہوئے میں سب کرتی ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی ماں کی دعائیں لیتی ہوں، میری پیاری ماں کے صدقے اللہ مجھے معاف فرمادے‘‘ حضرت نے بہت گریہ سے فرمایا: دیکھو اس چھوٹی بچی نے سعودی عرب سے لکھا ہے اور دوسرے تیسرے دن ان کا اصلاحی ای میل ہوتا ہے، یہ ماشاء اللہ والدین کی فرماں بردار بچی ہے لیکن پھر بھی کیسا میسج بھجوایا۔۔۔۔ یہ ہے نیکی اور شرافت!! ان دو تین چھوٹی بچیوں کے آپ اصلاحی خط پڑھے گے نا تو لگے گا کہ یہ تو ابھی سے رابعہ بصریہ بن گئیں ہیں بس اب ماں باپ ان پر محنت کریں تو واقعی رابعہ بصریہ بن جائیں گی، ۔۔۔۔ اس پیغام نے تو رُلا دیا!

01:24:17) دل کے پیالے کو سیدھے کرکے بیان سننے آئیں تو اللہ کی محبت کا مال دل میں بھر جائے گا، ورنہ کوئی بات سمجھ میں ہی نہیں آئے گی اور اگر پیالہ سیدھا ہوگا تو ہر بات سمجھ میں آئے گی کہ یہ تو میرے لیے ہے! اب ہمارے والدین زندہ نہیں ہیں لیکن اخلاق تو سب کےلیے ہیں، بھائی بہن، گھر اور خاندان کے بڑے تو ہیں۔۔ حدیث پاک ہے جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور بڑوں کا ادب نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں! ابّا بڑا نہیں ہے، دادا بڑا نہیں ہے! اپنی بدتمیزیوں کا علاج کرواؤ! بظاہر تو بڑے بزرگ بایزید بنے ہوئے ہیں اور اخلاق ننگِ یزید ہیں کہ باپ سے الجھ رہے ہیں۔۔۔

01:25:17) ہمارے پاس لمبے چوڑے خط دوسروں کی شکایتوں کےلیے آتے ہیں لیکن اپنی اصلاح کے لیے ایک لفظ نہیں لکھا ہوتا۔۔۔۔ اپنی اصلاح کی فکر کرو!

01:26:17) بعض عورتیں اپنے شوہر کو بھی اپنا مرید سمجھتی ہیں۔۔۔ بدتمیزی کرتی ہیں، لیکن نیک بیبیاں بھی ہیں! اور ایسی نیک اولادیں ہیں ، حضرت کے خلیفہ ڈاکٹر خرم صاحب کا تذکرہ کہ پہلے والدہ کی دن رات خدمت آخری سانس تک کی اب والد صاحب بیمار ہیں ان کا خوب خیال رکھ رہے ہیں راتوں کو جاگنا ۔۔ دن میں ہسپتال میں ڈیوٹی دینا لیکن ماشاء اللہ کبھی والد کو جھڑکا بھی نہیں! کبھی بڑی آواز سے بات نہیں کی! ارے بھئی یہ والدین تو ہمارے لیے دعا کے خزانہ ہیں دنیا اور دین دونوں بن جاتے ہیں۔

01:28:17) آخر میں فرمایابھئی ہم لوگوں نے عہد کرلیا ہے کہ آج کے بعد ہم سب شریعت و سنت کی زندگی گذاریں گے۔ HazratFerozMemon.org ۔  

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries