مرکزی بیان ۲۱ جنوری۲۰۲۱ : تعلق مع اللہ کا رنگ اورفیضِ صحبت ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں 2:36) سب نیکیاں اللہ کی عطاء ہے۔ 02:58) الحمدللہ رب العالمین حمد کی چار تعریفیں ہوسکتی ہیں...تعریف کی چار قسمیں ہیں۔۔ (۱)بندہ بندے کی تعریف کرے۔ (۲)بندہ اللہ کی تعریف کرے۔ (۳)اللہ بندہ کی تعریف کرے۔ (۴)اللہ خود اپنی تعریف کرے۔ ان چار کے علاوہ کوئی پانچوں قسم نہیں ہے۔ 04:23) ستاریت کی چادراللہ پاک نے اڑا دی لیکن گناہوں کے کینسر نے وہ چادر ہٹادی ہے اللہ پاک مجھے معاف فرمادیں ستاریت کی چادر مرتے دم تک اڑا کے رکھیئے گا۔ 05:15) کبھی مایوس نہیں ہونا ہے۔ 06:36) اتنا ڈر مطلوب ہے کہ جس سے میں گناہ چھوڑ دوں۔ 10:30) بتی کی گل کی مثال جس کو جلنے کے بعد کاٹ لیتے ہیں،گناہ کوبھی توبہ کی کینچی سے کاٹ دو۔ 13:05) بیٹھے گا چین سے اگر کام کے کیا رہیں گے پر گو نہ نکل سکے مگر پنجرے میں پھڑپھڑائے جا کھولیں وہ یا نہ کھولیں در اس پہ ہو کیوں تیری نظر تو تو بس اپنا کام کر یعنی صدا لگائے جا 14:08) مومن کبھی خسارے میں نہیں ہوتا 14:58) شکر و صبر۔۔ 15:24) ناشکری پر عذاب بھی سخت ہے۔ 16:39) روزانہ ماں باپ کو تنگ کرنا۔ 17:02) توبہ کی چار شرائط۔ 17:39) دارالعلوم میں موبائل کے متعلق،حضرت شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا گروپ کے متعلق ارشاد.. کہ جس نے بھی انٹر نیٹ پر گروپ بنایا اُس کا فورا اخراج کردیا جائے گا۔۔ 20:41) شرعی داڑھی رکھنے سے داڑھی رکھنے کے گناہ سے ہم بچ جائیں گے لیکن داڑھی رکھ کر یہ نہیں کہ کہتے ہیں کہ داڑھی رکھنے سے فائدہ کیا میرے کام تو گندے ہیں۔۔ 21:40) بادشاہ عالمگیر کا واقعہ بہروپیا سے متعلق۔۔ عالمگیر بادشاہ کا ایک قصہ عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کسی سے دھوکہ نہیں کھاتے تھے، ایک بہروپیے نے بہت شکلیں بدلیں لیکن انہوں نے اس کی کسی شکل سے دھوکہ نہیں کھایا، ہمیشہ پہچان لیا کہ یہ وہی بہروپیہ ہے جو نئی نئی شکلیں بناکر آتا ہے۔ بہروپیہ کے معنیٰ ہیں بہرِ روپیہ یعنی روپیہ کے لیے شکل بدلنے والے کو بہروپیہ کہتے ہیں۔ تو اس بہروپیہ نے سوچا کہ عالمگیر اللہ والوں کا بڑا معتقد ہے لہٰذا اب اللہ والوں کی شکل بنانی چاہیے لہٰذا جب عالمگیر حیدرآباد دکن فتح کرنے جارہے تھے تو ان کے راستے میں ایک جنگل میں بڑے بڑے دانے کی تسبیح لے کر اور خوب بڑی سی ڈاڑھی رکھ کر اور مصلّیٰ لے کر بیٹھ گیا۔ جب عالمگیر اس طرف سے گذرے تو لوگوں نے بتایا کہ یہاں جنگل میں ایک ولی اللہ رہتے ہیں، کسی سے سوال نہیں کرتے، کسی سے کچھ نہیں مانگتے تو وہ فوراً اس کے پاس گئے اور کہا کہ بابا! میں حیدرآباد دکن فتح کرنے جارہا ہوں، میرے لیے دعا کرنا۔ اب وہ اصلی بابا تو تھے نہیں۔۔۔ 24:04) تو عالمگیر بادشاہ نے دعا کراکے ایک ہزار اشرفی اس کی خدمت میں نذرانہ پیش کیا۔ تو اس نے لات مار کر تھیلی کو دور پھینک دیا، ظالم کی ہمت دیکھیے، اتنی زور سے لات ماری کہ تھیلی بکھرگئی، وہ جانتا تھا کہ بادشاہ مجھے اﷲ والا سمجھ رہا ہے، لات مارنے سے مجھے کچھ نہیں کہے گا، ورنہ اگر بادشاہ ناراض ہوجائے تو پھرسمجھ لو کہ خیر نہیں۔ اب عالمگیر اس کا اور زیادہ معتقد ہوگیا اور سوچنے لگا کہ واقعی یہ اللہ والا معلوم ہوتا ہے، ایک ہزار اشرفیوں پر لات مار کر بکھیردی اور کہا کہ مجھے دنیاداری سکھاتا ہے، اپنی اشرفی لے جا، جس نے مجھے پیدا کیا ہے بس وہ ہی میرے لیے کافی ہے۔ جب عالمگیر معتقد ہوکر جانے لگے تو اس نے آکر کہا کہ حضور السلام علیکم! میں وہی بہروپیہ ہوں جس نے دلّی میں آپ کو بارہا دھوکہ دیا لیکن آپ نے پہچان لیا، مگر اب آپ نے مجھ کو نہیں پہچانا، میں اس دفعہ دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگیا۔ادشاہ کو دھوکہ دینے کے لیے بابا بنے ہوئے تھے، بابا نہیں تھے یابا تھے، عالمگیر بہت ہنساکہ تم نے بہت شکلیں بدلیں لیکن میں نے دھوکہ نہیں کھایا مگر آج میں اللہ والوں کی عزت اور نام پر دھوکہ کھا گیا، مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیںہے کیونکہ میں تجھ کو اللہ والا سمجھ کر دھوکہ کھارہا تھا، دراصل میں نے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا احترام کیا ہے، میں یہی سمجھا کہ اللہ والوں کے لباس میں کوئی اللہ والا ہی ہے لہٰذا مجھے اس پر کوئی پچھتاوا، کوئی حسرت نہیں ہے۔ پھر عالمگیر نے یہ کہا کہ اچھا یہ لو سو اشرفی، میں تمہیں ایک ہزار اشرفیاں نہیں دوں گا، ایک ہزار اشرفیاں تو بابا سمجھ کر دے رہا تھا، اب پتہ چلا کہ تم تو یابیٰ نمبر ون ہو، سرکش ہو لہٰذا یہ لو سو اشرفیاں۔ اس نے بہت شکریہ ادا کیا کہ خدا آپ کو خوش رکھے۔ پھر عالمگیر کو شبہ ہوا اور اس نے ایک سوال کیا کہ یہ بتائو! جب میں نے تم کو ایک ہزار اشرفیاں دی تھیں اس وقت تم نے نہیں لیں، اب سو اشرفیوں پر تم اتنا خوش ہوئے، ہم کو اتنی دُعائیں دیں، یہ کیا راز ہے؟ ہم تو دھوکہ کھاگئے تھے، تم ایک ہزار اشرفی رکھ لیتے تو ہمیں کچھ پتہ نہ چلتا، ہم یہی سمجھتے کہ ہم نے ایک اللہ والے کی خدمت میں اشرفیاں پیش کردیں لیکن تم نے ایک ہزار اشرفیاں ٹھکرا کر اپنا راز ظاہر کردیا اور سو اشرفیوں پر خوش ہوگئے یہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ دیکھیے! میں سو اشرفی جو لے رہا ہوں یہ تو آپ کی طرف سے انعام ہے لیکن اگر میں اللہ والوں کے لباس میں ایک ہزار اشرفی لے لیتا تو اللہ والوں کی عظمتوں کو نقصان پہنچ جاتا۔ میں اس وقت اللہ والوں کا کردار ادا کررہا تھا اس لیے اللہ والوں کی عظمت کو میں نے نقصان نہیں پہنچنے دیا۔ عالمگیر فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی یہ بات اچھی معلوم ہوئی۔ 26:34) نقل پر اصل کا انعام۔۔ 27:23) لطیفہ...داڑھی ہے کوئی بریک تھوڑی ہے۔۔۔ 27:54) لطیفہ...ٹرین کی برتھ پر ایک آدمی سورہا تھا ایک آدمی آیا یہ خالی کردیں تو اُس نے کہا کہ تو جانتا نہیں میں کون ہوں۔ 29:20) پہلوان وہ نہیں ہے کہ جو کسی کو پچھاڑ دے۔ 32:25) حضرت شیخ نے جناب سید ثروت صاحب سے اشعار پڑھنے کا فرمایا ...سید صاحب نے شیخ الحدیث ساوتھ افریقہ حضرت مولانا منصور صاحب دامت برکاتہم کے اشعار پڑھ کر سنائے...عشقِ مولی کا نشہ والے اشعار پڑھے گئے۔۔ 41:28) استاد کا ادب نہیں...شیخ کا ادب نہیں۔۔ 42:43) اللہ نے چمکا دیا تو اپنے استاد اور شیخ کو بھول گئے۔ 43:02) حضرت حکیم الامت حضرت مجدد رحمہ اللہ کا ایک ملفوظ۔۔ حضرت تھانوی فرماتے ہیں: ان بعض المغترین من الصوفیاء والسالکین ینسبون کمالاتھم الی مجاھداتھم فھذا عین الکفران۔ حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ بہت سے صوفیاء جو دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں وہ اپنے کمالات کو اپنے مجاہدات کا ثمرہ سمجھتے ہیں اور عین ناشکری ہے۔ 45:27) شیخ کٹ آوٹ ہے۔ 47:13) کبھی تکبر نہیں کرنا کہ میں دین کا کام کررہا ہوں مجھ سے دین کا کام ہورہا ہے۔ 47:39) شیخ کو مقصود بنائیں گے تو تب بھی ہار جائیں گے۔۔ 47:54) دیتے اللہ ہیں لیکن شیخ کے ذریعے دیتے ہیں شیخ ذریعہ ہے۔ 49:04) دل جاری پر مزاح (حضرت تھانوی رحمہ اللہ)۔ 49:29) آپ اپنے سینے سے کچھ عطاء فرمادیں(حضرت تھانوی رحمہ اللہ)۔ 50:09) تقوی کیا ہے۔ 52:08) اولیاء اللہ کے بارے میں تین باتیں پڑھ کر بیان فرمائیں۔ 54:01) صدمہ و غم میں مرے دل کے تبسم کی مثال جیسے غنچہ گھرے خاروں میں چٹک لیتا ہے.. چاروں طرف کانٹے ہیں لیکن غنچہ ان کانٹوں کے درمیان کھل جاتا ہے یا نہیں؟ نسیم صبح آتی ہے اور کلیوں کو کانٹوں کے درمیان کھلادیتی ہے اور پھول کھل جاتا ہے۔ تو نسیم صبح میں تو یہ اثر ہوا اور اللہ کی رحمت کی جو ہوائیں اللہ کے عاشقوں پر برستی ہیں، ان میں یہ طاقت نہ ہو کہ غموں میں ان کا دل اللہ خوش رکھے۔۔ 54:20) جائز ناجائز کا غم۔۔ غم کیوں؟۔۔ 56:07) اتنا ڈر کہ گھر میں بیٹھ گئے۔ 56:39) تقویٰ کی تعریف.. تقویٰ کے معنی ہی یہ ہیں کہ نافرمانی کا تقاض ہو اور پھر اس کو روکے اور اس کا غم اُٹھائے۔ اس غم سے پھر تقویٰ کا نور پیدا ہوتا ہے۔ اگر مادّئہ فجور نہ ہوتا تو کف’’کَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْہَوٰی‘‘ نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی‘‘ جو نفس کی بُری خواہش کو روکتا ہے وہ متقی اور جتنی ہوتا ہے.. تقویٰ کےتین انعام۔ پہلا انعام: ہر کام میں آسانی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر تم سب تقویٰ سے رہوگے تو ہم تمہارے سب کام آسان کردیں گے۔ ’’وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا‘‘ ہم اپے حکم سے اس کے سب کام آسان کردیں گے۔ کیوں صاحب! یہ نعمت نہیں ہے کہ انسان کے سب کام آسان ہوجائیں؟۔۔ قویٰ کا دوسرا انعام: مصائب سے خروج ’’وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا‘‘ اس کو اللہ تعالیٰ مصیبت سے جلد نکال دیں گے، اس کو مصائب سے مخرج اور ایکزٹ (Exit) جلد ملے گا۔ تیسرا انعام: بے حساب رزق ’’وَیَرْزُقْہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ‘‘ اللہ ایسے راستہ سے اس کو روزی دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوگا۔ 01:00:50) اولیاء اللہ کی تعریف۔ 01:01:47) ہر ایک اللہ والا بن سکتا ہے۔۔اللہ کا ولہ وہ ہے جو فرض واجب سنتِ موکدہ کرے اور ایک سانس اللہ کو ناراض نہ کرے یہ اللہ کا ولی ہے اور چاہے جو بیان کرتا ہو سفید داڑھی ہو چاہے بڑا ڈاکڑ ہو لیکن اللہ کو ناراض کرے گا اللہ کا ولی ہوہی نہیں سکتا۔ 01:04:20) یہ کرکٹ میچ جمعے کو اور رمضان میں کیوں رکھا جاتا ہے۔ 01:08:16) ولایتِ خاصہ کے فائدے بے شمار ہیں۔ 01:10:58) دو وصف ہو تو اللہ کا ولی کہلاتا ہے۔ 01:11:49) آپ ﷺ جیسا نہ کوئی تھا نہ کوئی ہے اور نہ کوئی ہوگا۔ 01:12:23) جو آپ صﷺ سے بغض رکھے گا وہی صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے بغض رکھے گا۔ 01:13:18) دو آدمی لڑرہے تھے ایک کہہ رہا تھا کہ بلبل بولتا ہے اوت ایک کہہ رہا تھا کہ بلبل بولتی ہے لطیفہ۔۔ 01:14:26) اللہ والی محبت پر عرش کا سایہ۔ 01:14:57) حدیث قدسی:۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: {وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمَتَحَابِّیْنَ فِیَّ} ان لوگوں کو محبت دینا مجھ پر احساناً واجب ہوجاتا ہے جو ایک دوسرے سے میری وجہ سے محبت رکھتے ہیں۔ دیکھو! کتنا اطمینان دلایا کہ مجھ پر واجب ہوجاتا ہے کہ میں اس کو اپنی محبت عطا کردوں۔ {وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ وَالْمُتَجَالِسِیْنَ فِیَّ} محبت کے ساتھ بیٹھوگے تو فائدہ ہوگا، اگر محبت نہیں ہوگی تو نفع نہیں ہوگا۔ مُتَحَابِّیْنَ پہلے بنو اور مُتَجَالِسِیْنَ بعد میں بنو۔ تحابب پہلے ہے، تجالس بعد میں ہے۔ پہلے محبت ہو کہ میرا خاص بندہ سمجھ کر تم میری وجہ سے اس سے محبت کرو، جب تحابب ہوگا، تب تجالس مفید ہوگا۔ وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ اور میری وجہ سے ایک دوسرے کی زیارت کرتے رہو اور زیارت کے معنی یہ نہیں کہ شیخ کے پاس ہی بیٹھے رہو اور بیوی بچوں کو بھول جائو۔ اس لیے زیارت کے معنی یہ ہیں کہ آتے جاتے رہو۔ 01:16:11) تعلق مع اللہ کا رنگ۔ 01:16:19) فیضِ صحبت۔ 01:18:09) فنا تو اتنا ہوجاوں اے محبوب ﷺ آپ کے ذاتِ عالی میں..۔ 01:18:37) تیری خلوت میں مولی ہے...تیری جلوت میں مولی ہے.. تیرا چہرہ بتاتا ہے تیرے دل میں مولی ہے۔ 01:20:31) ہر شخص کا حشر اس کے ساتھ ہوگا جس سے دنیا میں محبت ہوگی۔۔ یہ اللہ والوں کی محبت اور ان کی صحبت کتنی قیمتی ہے،اس پرمحدث ِعظیم ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیاکہ جوآدمی کسی قوم سے (یعنی علماء وصلحاء)سے محبت رکھتاہے لیکن اعمال ِنافلہ اورمجاہدات ِشاقہ میں ان کا ساتھ نہ دے سکا،اس کا کیا ہوگا؟تو سرور ِعالم ﷺنے ارشاد فرمایا اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ کہ آدمی اسی کے ساتھ ہوگاجس سے وہ محبت رکھتاہے۔ 01:23:06) اولیاء اللہ کی پہنچان۔۔ 01:25:45) کرامات کا کہاں پتا چلے گا۔۔ 01:34:50) مرکزِ تربیت خواتین کا ذکر اور نصیحت۔ 01:35:02) منافق کی نشانی۔۔ 01:35:28) ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں جس اسکول میں اللہ کی نافرمانی ہو لڑکے لڑکیاں ساتھ ہو مت جاو اُس اسکول میں۔۔ 01:35:55) مرکزِ تربیت خواتین کو نصیحت۔ شرم اور نالائقی کی بات ہے کہ شیخ کی غیبت اور شیخ پر بھتان لگارہی ہو کہ شیخ نے کہا کہ اس نے منع کیا ہے کہ فلانے اسلامی اسکول میں جانے سے منع کیا ہے اور فلانے نے تعلق ختم کردیا...ارے شرم کرو بھتان وہ بھی شیخ پر۔۔ 01:37:11) جہاں بے غیرتی عروج پر ہے ہاں وہاں جانے سے میں منع کرتا ہوں۔ 01:38:21) لطیفہ ....ماں کا جوان ہوجانا اور باپ جھولے میں جھول رہا ہے۔ 01:38:53) جھوٹ کا گناہ۔۔۔ فرمایا مرکز تربیت خواتین میں جن خواتین نے یہ جھوٹ پھیلایا بہت دل دکھا بہت دل دکھا بہت ہی زیادہ دل دکھا۔۔۔ 01:39:37) جاؤ دیکھ لو کہ منافق کی تین نشانیاں کیا ہیں اور یہاں وہ منافق نہیں۔۔۔عمل کا منافق مرادہے۔۔ 01:42:50) معارف القرآن جلد نمبر چھ سورہ انبیاءصحفہ نمبر 80 اذلۃ علی المومنین پر اسماعیلؑ اور ادریسؑ اور ذوالکفلؑ یہ سب صبر والے ہیں(مولوی فرحان صاحب نےرئیس دارالافتاء حضرت مفتی محمد نعیم صاحب دامت برکاتہم کےحوالے سے بتایا بتایا کہ یہاں علیہ السلام نہیں لگاسکتے بس جتنا قرآن پاک نے بیان کیا وہی کافی ہےاور یہ ترجمے کے وقت ہے کہ علیہ السلام نہیں لگایا جائے گا یعنی جب قرآن پاکی کی آیت کا ترجمہ کریں گے تب یہ بات ہے ویسے لگایا جائے گا) تیسرے بزرگ ذوالکفل ہیں اب کثیر میں لکھا ہے کہ نبی اور پیغمبر ہیں...مگر بعض دوسری روایت میں ہے ایک بزرگ صالح تھے یہاں واقعہ بیان ہوا۔ 01:47:57) اللہ والی محبت کا صحیح محل۔۔ 01:48:41) پردے اُٹھے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ہے بڑھ کے مقدر آزما سر بھی ہے سنگ در بھی ہے۔۔ 01:50:01) شیخ سے والہانہ تعلق پر عجیب واقعہ۔ 01:51:42) حضرت تھانوی رحمہ اللہ اور حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمہ اللہ کا ایک واقعہ۔ 01:52:03) مفتی اعظم مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ سے کسی نے کہا کہ آپ تھانہ بھون کیوں جاتے ہیں آپ اپنے کام فتوی میں لگے رہیں یہ بھی تو کتنا عظیم الشان کام ہے تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آپ نےکیا جواب دیا؟۔ 01:54:34) حضرت تھانوی رحمہ اللہ، حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمہ اللہ اور مفتی اعظم مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کے جو واقعات حضرت شیخ نے پڑھ کر سنائے یہ سب البلاغ رسالہ جو دارالعلوم سے چھپتا ہے اُس سے پڑھ کر سنائے۔ 01:55:07) شیخ العرب والعجم حضرت والا رحمہ اللہ کا ایک ملفوظ کہ علماء کو سیاست میں نہیں آنا چاہیے۔ میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے مسلک پر بلا دلیل آنکھ بند کر کے مرنا چاہتا ہوں ہم بھی اپنے اکابر کے مسلک پررہ کر کسی کو سیاست میں جانے کی اجازت نہیں دیتے۔میرے شیخ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے بتایا کہ حکیم الامتh نے فرمایا تھا کہ علماء کو سیاست میں نہیں آنا چاہیے۔میں اپنے اکابر حضرت تھانویh،حضرت گنگوہی رحمہ اللہ،حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے مسلک پر آنکھ بند کر کے،بلا دلیل مرنا چاہتا ہوں،اس لئے کہ یہ حضرات اتباع ِسنت پر جان دیتے تھے،ان کا ایک ایک قدم شریعت اور سنت پر تھا۔ 01:45:28) فرمادیں گے۔ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی ایک عظیم محدث ہیں۔ تو اس دن کی اہمیت کا سلسلہ ہمارے بزرگوں سے چل رہا ہے اِعْتِمَادًا عَلَی الْمَشَایِخِ۔ ایک بہت بڑے عالم شاہ عبدالعزیز صاحب ناظم آباد میں رہتے تھے، ان کی قبر ٹنڈو آدم میں ہے، جب اُن کا انتقال ہونے لگا تو انہوں نے مفتی رشید احمد صاحب کو بلایا اور فرمایا کہ مفتی صاحب! قیامت کے دن گواہی دیجیے گا کہ میں حکیم الامت تھانوی اور مولانا گنگوہی اور مولانا نانوتوی رحمہم اللہ کے مسلک پر مررہا ہوں۔ اس کو کہتے ہیں اپنے مشایخ پر اعتماد، دیکھیں کتنا زیادہ اعتماد ہے، ایک جاہل اگر یہ بات کہتا تو اُس کے اعتماد پر اتنا بھروسہ نہیں ہوتا لیکن وہ خود بہت بڑے عالم اور مشہور واعظ تھے۔ یہ ہے مشایخ سے عشق، کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ یہ حضرات متبع سنت اور متبع شریعت ہیں۔ |