اتوارمجلس ۲۴ جنوری۲۰۲۱ : اللہ تعالیٰ کی محبت اپنی جان سے زیادہ ہونی چاہیے ! 

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

  07:26) بیان کے آغاز میں جناب سید ثروت صاحب دامت برکاتہم نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعا(ر رنگ لائیں گی کب میری آہیں )فیضانِ محبت کتاب سے پڑھ کر سنائے۔

13:52) جو بیان کرے یا سنیں تو اللہ سے معافی مانگ کر آئیں۔

14:18) اب دیکھیں کہ ابو جہل مردود کیسے آپ ﷺ کے چہرے کے بارے میں کہتا تھا اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کیا فرماتے تھے۔۔

15:38) آنکھوں سے ہم جب دیکھتے ہیں تو آنکھوں پر تو غفلت کے پردے پڑے ہوئے ہیں دل کی آنکھ سے دیکھیں گے تو پھر سب صحیح لگے گا۔

16:04) بدگمانی کا چشمہ

16:17) ذکر اللہ کا انعام تھانہ بھون میں ایک بزرگ تھے سائیں توکل شاہ۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کہتے تھے کہ حضرت جی! مجھے اللہ کے نام میں اتنا مزہ آوے ہے کہ میرا منہ میٹھا ہوجاوے ہے (یہ تھانہ بھون کی زبان ہے) پھر فرمایا کہ اللہ کی قسم میرا منہ میٹھا ہوجاوے ہے۔

17:11) حضرت مجدد رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا۔

18:20) حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کو عشق تھا یا نہیں؟ ہمارا آپ کا تو زبانی عشق ہے لیکن صحابہ نے تو جان قربان کر دی ، خون بہادیا، اُحد کے دامن میں ایک ہی دن میں ستر صحابہ شہید ہوگئے اور سرورِ عالم صلی تعالیٰ علیہ وسلم نے سب کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ کیا کامیاب زندگی تھی، ایک تو شہادت کا درجہ بلند پھر نمازِ جنازہ پڑھنے والا بھی کیسا! تمام نبیوں کا سردار، ان کے کوچے سے لے چل جنازہ میرا جان دی میں نے جن کی خوشی کے لیے بے خودی چاہیے بندگی کے لیے

19:26) نام لیتے ہی نشہ سا چھا گیا ذکر میں تاثیرِ دورِ جام ہے وعدہ آنے کا شبِ آخر میں ہے صبح سے ہی انتظارِ شام ہے

21:20) عشاق حقیقی اور عشق مجازی کی زندگیوں کا فرق۔۔ صلہ عشق مجازی کا یہ کیسا ہے ارے توبہ کہ عاشق روتے رہتے ہیں صنم خود سوتا رہتا ہے یہ کون سی عاشقی ہے کہ یہ اس کی یاد میں رو رہا ہے اور وہ بے خبر سو رہا ہے۔ کیا ذلت ہے، اس سے بڑی کوئی پستی نہیں جو اللہ کو چھوڑ کر مرنے والوں پر مرتا ہے، یہ قسمت کی محرومی ہے۔ عشقِ مجازی سے خدا کی پناہ مانگو۔۔

21:46) آنسو شہیدوں کے برابر وزن۔ حق تعالیٰ کا ذکر ہی اس روح کی غذا ہے۔۔ عالم ہے کہ بے لاگ پڑا سوتاہے غفلت میں ہر اک شخص پڑا ہوتاہے اے دوست مگر رات کے سناٹے میں لے لے کے تیرا نام کوئی روتاہے

23:50) دماغ میں دوسری لڑکیاں بھری ہوئی ہیں تو اپنی بیوی کہاں اچھی لگے گی۔

24:18) کمر جھک کے جن کا نقشہ

25:28) شروع سے ہی تو ڈاربن کی تھیوری کو ہمارے ذہنوں میں بٹھا دیا کیا کسی کالج اور یونیورسٹی میں ماں باپ کے حقوق بتائے گندی فلموں سے بچنا سکھایا کیا کبھی یہ حدیث بتائی کہ میرا سب سے پیارا اور مجھ سے سب سے زیادہ نزدیک وہ ہوگا جس کے اخلاق اچھے ہونگے۔

27:21) اللہ نے بیویوں کی شفارش فرمائی ہے۔

27:32) سنتِ تحنیک۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ ایک سو بیس صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی زیارت کرنے والے تابعی ہیں۔ قدر راء ی مائۃ وعشرین صحابیاً اتنے بڑے تابعی ہیں۔ ان کی اماں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں نوکرانی تھیں۔ محدثین لکھتے ہیں کہ ان کی اماں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ اور ہماری ماں حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی نوکرانی تھیں۔ جب یہ پیدا ہوئے تو ان کو لے کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا امیر المؤمنین! اس بچہ کی سنت تحنیک ادا کردیجیے۔ یعنی کچھ چباکر اس کے منہ میں ڈال دیجیے۔ یہ سنت ہے کہ بزرگوں سے یہ علمائے دین سے تحنیک کروائی جائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ کھجور چباکر ان کے منہ میں ڈال دی۔ دو دُعائیں دیں:۔ فقہ فی الدین نمبر ایک دُعا تھی اللہم فقہہٗ فی الدین اے اللہ! اس کو دین کا بہت بڑا عالم محدث فقیہ بنادے۔ دین کے ساتھ علم۔ اگر دین کی سمجھ نہیں ہے تو اس کا علم کمزور ہوگا۔ اس لیے دُعا فرمائی کہ اے اللہ! اس کو دین کی سمجھ عطا فرما۔ مخلوق میں محبوبیت۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دو دعُائیں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ کو دیں۔ ایک فقہہ فی الدین کہ ان کو دین کا فقیہ بنادے۔ وحببہ الی الناس اور مخلوق میں اس کو محبوب کردے، پیارا بنادے، کیونکہ اگر مخلوق میں محبوب نہیں ہے، پیارا نہیں ہے، تو ہر آدمی اس سے گھبراتا ہے۔ پھر اس سے فقہ متعدی ہوگا؟ فیض دوسروں کو پہنچے گا؟ تو معلوم ہوا کہ علمائے دین کو چاہیے کہ اپنے اخلاق میں بلندی پیدا کریں ورنہ ان سے نفع نہیں ہوگا۔

28:34) داڑھی پر نصیحت۔

29:05) آپ ﷺ نے کیا فرمایا کہ میرا سب سے زیادہ نزدیک اور جنت میں سب سے زیادہ نزدیک وہ ہوگا جس کے اخلاق اچھے ہیں اور کیا فرمایا کہ سب سے زیادہ برا اور مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ ہوگا جس کے اخلاق برے ہونگے۔

31:08) سوال:۔ گناہ اچھی چیز ہے یا خراب۔

32:41) ایک مولانا جنکو مسجد کی وجہ سے شہید کردیا تھا مسجد کو شہید کرنے آگئے تھے یہ مولانا بیچ میں آئے تو شہید کردیا تو مولانا واقعہ حضرت شیخ نے بیان فرمایا اور انہوں نے ایک شعر پڑھا تھا۔۔

33:09) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمنے جب ان کو یمن روانہ فرمایا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ وسلم ان کو نصیحتیں کرتے ساتھ چلے اور معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی سواری پر سوار چل رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پیدل، جب آپ ﷺ نصائح و ہدایات سے فارغ ہو گئے تو فرمایا معاذ ! اس سال کے بعد شاید تو مجھ سے ملاقات نہ کرسکے اورممکن ہے تو میری اس مسجد اورمیری قبر سے گذر ے یہ سن کرمعاذ رضی اللہ عنہ رو پڑے رسول اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فراق کے غم میں ۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے منہ پھیرا اورمدینہ کی طرف رخ کرکے فرمایا مجھ سے قریب تر وہ لوگ ہیں جو پرہیزگار ہیں خواہ وہ کوئی ہوں یعنی کسی ملک اورکسی قوم کے ہو ں اور کہیں ہوں۔۔

34:05) یہ غصہ اور تکبر بڑی خطرناک چیز ہے جو والدین،استاد،شیخ،شوہر بیوی میں طلاق کروادیتا ہے یہ ایسا مرض ہے کہ اللہ سے بغاوت بھی کرادیتا ہے۔

34:41) جن مولانا کا واقعہ ذکر فرمایا انہوں نے جو شعر پڑھا تھا حضرت شیخ نے سنایا۔

35:29) حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ذکر بہت ہی درد بھرے انداز میں۔۔

36:17) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور بیت المقدس کا فتح ہونا۔

37:31) حضرت مجدد رحمہ اللہ کا واقعہ جب پیوند لگاکر بیان کرنے جارہے تھے تو پیرانی صاحبہ نے کیا فرمایا۔

39:12) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور بیت المقدس کے واقعہ کا بقیہ حصہ بیان فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ۱۴؍ پیوند لگائے ہوئے ملک شام کو فتح کیا ہے ۔ ۱۴؍ پیوند لگے ہوئے تھے غلام اونٹ پر بیٹھا ہوا تھا اور خود نیچے چل رہے تھے عدل و انصاف کا یہ عالم تھا۔راستہ میں اونٹ پر باری باری بیٹھتے تھے ۔ جب شام پہنچے تو غلام کی باری تھی ۔ لہٰذا اس کو اُوپر بٹھایا اور خود اونٹ کی لگام پکڑے ہوئے پیدل چل رہے تھے۔ چونکہ توریت اور انجیل میں یہ لکھا ہوا تھا کہ مسلمانوں کا خلیفہ جب آئے گا تو اس کے لباس میں ۱۴ پیوند لگے ہوں گے اور نیچے چل رہا ہوگا اور غلام اوپر بیٹھا ہوگا یہ دیکھ کر عیسائیوں نے بیت المقدس کا دروازہ کھول دیا کہ آیئے ہم آپ سے جنگ نہیں کریں گے کیونکہ ہماری کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔

41:52) غصے پر نصیحت:۔ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اپنے خاص بندوں کی تین علامتیں بیان کی ہیں: (۱)… جو لوگ کہ غصہ کو پی جاتے ہیں۔ (۲)… ہمارے بندوں کی خطائوں کو معاف کردیتے ہیں اور (۳)… صرف معاف ہی نہیں کرتے بلکہ ان پر کچھ احسان پر بھی کردیتے ہیں تو ایسوں کو اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے انسان کی ایک خطرناک بیماری کا علاج بھی ان آیات میں بیان فرمایا ہے۔ ’’وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ ‘‘ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ بندے جو غصہ کو پی جاتے ہیں۔

42:57) والد کی بے ادبی کا ایک واقعہ پھر فرمایا کہ ہمیں پتا نہیں کہ ہم کتنے خسارے میں ہیں۔

43:21) ایک عجیب واقعہ۔ کہ اللہ تعالی ایک بندے کو دوزخ سے نکالیں گے اور پھر وہ اللہ تعالی سے فرمائش کرے گا اور اس حدیث کو سن کر ہسنا بھی ہے کیوں؟کیونکہ جن صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ روایت سنائی تھی تو وہ بھی ہنسے تھے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نےصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے فرمایا کہ آپ نے پوچھا نہیں کہ میں کیوں ہنسا تو صحابہ نے عرض کی کہ آپ فرمادیں تو فرمایا کہ حضور ﷺ بھی ہنسے تھے اور حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں اس لیے ہسنا کہ اللہ تعالی بھی ہنسے تھے۔

48:20) سوقتل کے مجرم کی معافی کا واقعہ۔ بخاری شریف کی اس حدیث میں ہے کہ وہ شخص جس نے سو قتل کئے تھے اور جو توبہ کے ارادہ سے چلا لیکن راستہ میں اس کا انتقال ہوگیا اور وارثین سے معافی بھی نہیں مانگ سکا۔ روح نکالنے میں رحمت کے فرشتوں میں اور عذاب کے فرشتوں میں اختلاف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین کی پیمائش کرلو۔ اگر گناہ کی زمین قریب ہے تو عذاب کے فرشتے اس کی روح لے جائیں۔۔

54:14) حضرت امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ کے جذب کا مختصر تذکرہ۔

54:23) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جذب کا واقعہ۔ حضرت ابوبکر صدیق شام تشریف لے گئے۔ وہاں جا کر ایک خواب دیکھا اور وہاں کہ ایک راہب سے اپنا وہ خواب بیان کیا ۔راہب نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو۔ فرمایا کہ مکہ شریف سے ۔ پوچھا کہ کیا کام ہے؟ فرمایا تاجر ہوں، تجارت کے لیے آیا ہوں پوچھا کس قبیلے سے ہو؟ فرمایا قریش مکہ ہوں۔ راہب نے کہا اس خواب کی تعبیر سنو۔ اس کی تعبیر یہ ہے کہ عنقریب تمہارے شہر میں ایک پیغمبر آنے والا ہےتمہاری قوم سے ایک پیغمبر مبعوث ہوگا۔ تم اس کے زمانہ حیات میں اس کے وزیر رہوگے اور اس کی وفات کے بعد اس کے پہلے خلیفہ بنوگے۔ حضرت ابو بکر صدیق نے یہ خواب کسی کو نہیں بتایا نہ اپنی بیوی سے نہ بچوں سے نہ اپنے دوستوں سے یہاں تک حضرت ابوبکر صدیق ۳۸؍ سال کے ہوگئے اور سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم چالیس سال کے ہوگئے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم غار حرا میں نبوت سے مشرف ہوئے۔

55:44) ڈاربن کی تھیوری

56:53) اے ماں باپ کی محبت پر ناز کرنے والو:۔ مادراں را مہر من آمو ختم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ماؤں کو محبت کرنا تو میں نے ہی سکھایا ہے۔ یہ ماں جو تمہیں پالتی ہے، تمہارا گو ،موت صاف کرتی ہے، راتوں کو سردیوں میں اپنے بستر پر خشک جگہ پر بچہ کو سلاتی ہے اور جو جگہ بچہ کے پیشاب سے گیلی ہوجاتی ہے، اس جگہ خود سوجاتی ہے۔ بچہ کو دست آرہے ہوں تو دس دفعہ اُٹھ کر اپنی پیاری نیند کو قربان کرتی ہے۔ ذرا بخارا آگیا تو سردی میں کانپتی ہوئی ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہے۔ ماں کی اس محبت کے بارے میں مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ؎ مادراں را مہر من آموختم چوں بود شمعے کہ من افروختم یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے ہی ماؤں کو محبت کرنا سکھایا ہے اور ماؤں کی محبت میری ایک ادنیٰ سی بھیک ہے تواِسی سے اندازہ لگا لو کہ میری محبت کا آفتاب کیسا ہوگا؟ تم ماؤں کی محبت پر ناز کرتے ہو اور ان کی محبت کو یاد کرتے ہو۔ ارے! اماں، ابا سے زیادہ ربا کو یاد کروں کیوں کہ ماؤں کے دل میں محبت اللہ تعالیٰ نے ہی نے تو رکھی ہے۔ جب ماں کے اندر خدائے تعالیٰ کی رحمت کی ادنیٰ بھیک کا یہ اثر ہے تو حق تعالیٰ جو ارحم الراحمین ہیں، ان کی رحمت کی کیا شان ہوگی۔

58:36) سوقتل کے مجرم کی معافی کے واقعے کو مکمل فرمایا۔ ور توبہ کی زمین، نیک بندوں کی بستی قریب ہے تو رحمت کے فرشتے لے جائیں۔ جب فرشتوں نے زمین کی پیمائش کی تو اللہ تعالیٰ نے گناہ کی زمین کو دور کردیا اور اللہ والں کی زمین کو قریب کردیا۔ وہ زمین دراصل قریب نہیں تھی، اللہ نے حکم دے دیا: تَقَرَّبِیْ اے زمین! تو قریب ہوجا۔

59:45) اللہ تعالی کی رحمت اور جذب آج بھی کھلا ہوا ہے۔

59:59) ہاں وہ درمیخانہ تو کھلتا ہے آج بھی پیمانۂ رحمت تو چھلکتا ہے آج بھی وہ درد جو ارواح کی کلیوں کو ملا تھا ہرچاک گریباں سے مہکتا ہے آج بھی جو مست ہوا مرشد کامل کی نظر سے سوبار بھی گر کرکے سنبھلتا ہے آج بھی

01:00:36) خدا فرماچکا قرآں کے اندر مرے محتاج ہیں پیر و پیمبر وہ کیا ہے جو نہیں ہوتا خدا سے جسے تو مانگتا ہے اولیاء سے اور سنت کے خلاف جو پیر چلے اگر وہ ہوا پر اُڑتا ہو تو اس کو شیطان سمجھو ترک سنت جو کرے شیطان گن

01:01:07) سوقتل کے مجرم کی معافی بقیہ حصہ:۔ فضل قانون سے بالاتر ہے: ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح بخاری میں لکھتے ہیں کہ پیمائش کا حکم دینا یہ اللہ تعالیٰ کا عدل تھا اور زمین کو قریب کردینا یہ اس کا فضل تھا۔ اور فضل پابند قانون نہیں ہوتا۔ جیسے آپ دو مزدور لائے اور دونوں کو سو روپے یومیہ پر رکھا۔ شام کو آپ نے دونوں کو حسبِ وعدہ سو سو روے دیئے لیکن ایک مزدور سے چپکے سے کہا کہ قانون سے تم سو روپے کے مستحق تھے جو ہم نے تم کو ادا کردیئے لیکن میں مکہ شریف سے ایک گھڑی لایا تھا وہ مہربانی کے طور پر تم کو دے رہا ہوں۔ مہربانی اور فضل قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فضل سے جنت عطا فرمادیں۔ اگرچہ قانوناً ہم جہنم کے لائق ہوں، سزا کے لائق ہوں لیکن اے خدا! اپنے فضل کے صدقہ میں ہم سب کو بلااستحقاق جنتی ہونا مقدر فرمادے اور بے حساب مغفرت فرمادے۔

01:04:43) چار شرطیں کون سی ہیں جس نے ہم اللہ کے پیارے بن جائیں۔ (۱) اس معصیت سے الگ ہوجائے جس میں مبتلا ہے۔

01:06:25) بیوی عمل نہیں کرتی تو ایسا نہیں جاکر ٹی وی کو جا توڑ دیا اب بیوی میکے چلی گئی پوچھ کر عمل کریں کہ گھر میں کس طرح دین نافذ کرنا ہے۔

01:07:25) اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبّں مَن یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ، اَللّٰہُمَّ اجَُْلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَاَہْلِیْ وَمِنَ الْمَآئِ الْبَارِدِ۔

01:08:42) لیکن احب اور اشد محبت اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت احب اور اشد نہیں ہے تو پھر بندہ پورا فرمانبردار نہیں ہوسکتا۔ دل سے بھی زیادہ، جان سے بھی زیادہ، اہل و عیال سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ ہمیں پیارے ہونے چاہئیں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس محبت کو اس عنوان سے طلب فرمایا ہے: {اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ حُبََّ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ وَاَہْلِیْ وَمِنَ الْمَائِ الْبَارِدِ} یااللہ! اپنی محبت میرے اندر میری جان سے زیادہ عطا فرمادیں اور اہل و عیال سے بھی زیادہ اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ یعنی پیاسے کو جتنا ٹھنڈا پانی عزیز ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ اے اللہ! آپ مجھے محبوب ہوں۔ تو معلوم ہوا یہ خطوط اور حدود ہیں۔ محبت کے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے۔

01:10:33) تو میرے دوستو! اللہ کی محبت کا یہ مقام کیسے حاصل ہو کہ ہمارے قلب میں اللہ تعالیٰ کی محبت اشد ہوجائے اور اگر اشد نہ ہوئی تو یاد رکھئے ہم اللہ تعالیٰ کے پورے فرمانبردار نہیں ہوسکتے۔ کیوں؟ اس لیے کہ جب ہم کو اپنا دل زیادہ پیارا ہوگا تو جہاں ہمارے دل کو تکلیف ہوگی وہاں ہم اللہ کے قانون کو توڑ دیں گے۔ مثلاً کوئی ایسی حسین صورت سامنے آئی کہ دل چاہتا ہے اس کو دیکھیں۔ نہ دیکھیں تو دل کو تکلیف ہوگی تو اگر دل سے خدا پیارا ہے تو دل کو توڑ دیں گے، خدا کو راضی کرلیں گے اور دل زیادہ عزیز ہے، اللہ تعالیٰ سے محبت کم ہے تو گویا دل اَحَبْ ہوگیا، دل کی محبت احب اور اشد ہوگئی۔ پھر آدمی گناہوں سے نہیں بچ سکتا۔ نافرمانی سے بچنے کے لیے قلب میں اللہ تعالیٰ کی محبت اشد ہونا ضروری ہے۔

01:12:00) توبہ کی بقیہ شرائط:۔ (۲) اس گناہ پر قلب میں ندامت پیدا ہوجائے، (۳) تیسری شرط قبولیتِ توبہ پکا ارادہ کرے کہ آئندہ گناہ نہیں کروں گا اور چوتھی شرط کہ جس کا حق مارا ہو اُس کو واپس کرنا۔

01:13:11) یَوْمَ لاَ یَنْفْعُ مَالٌ وَّلاَ بَنُوْنَo اِلاَّ مَنْ اَتَی اﷲَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍo ترجمہ: اس دن میں کہ (نجات کے لیے) نہ مال کام آوے گا نہ اولاد، مگر ہاں ( اس کی نجات ہوگی) جو اﷲ کے پاس( کفر وشرک سے) پاک دل لے کر آوے گا۔مگر جو قلب سلیم اللہ تعالیٰ کے یہاں پیش کرے گا جنت قیامت کے دن بغیر عذاب اسی کو ملے گی، بغیر حساب بخشا جائے گا۔ اب قلب سلیم کیسے ہوگا؟ اس کے پانچ راستے علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمائے اس کو سن کر ہم فیصلہ کر لیں کہ ہمارا قلب سلیم ہے یا نہیں؟

01:13:28) مال و اولاد تری قبر میں جانے کو نہیں تجھ کو دوزخ کی مصیبت سے چھڑانے کو نہیں جز عمل قبر میں کوئی بھی ترا یار نہیں کیا قیامت ہے کہ تو اس سے خبردار نہیں۔

01:16:47) پہلی تفسیر:۔ اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنا (۱)…اَلَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗ فِیْ سَبِیْلِ الْبِرِّ اللہ کے راستے میں مال خرچ کرتا ہے چونکہ اسے یقین ہے کہ وہاں ملے گا، خرچ نہیں ہو رہا بلکہ اللہ کے یہاں جمع ہو رہا ہے۔

01:18:04) کون سا مال کام آئے گا اور کون سا نہیں۔۔

01:18:37) دوسری تفسیر:۔ اولاد کی تربیت (۲)… اَلَّذِیْ یُرْشِدُ بَنِیْہِ اِلَی الْحَقِّ جو اپنی اولاد کو بھی نیک بنائے۔

01:21:25) ناصر بھائی کے انتقال واقعہ جنکو انتقال سے پہلے اللہ تعالی نے جذب کیا۔ پیاسا چاہے جیسے آبِ سرد کو تیری پیاس اس سے بھی بڑھ کر مجھ کو ہو۔۔ بتائیے شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے جو مزہ آتا ہے جب اس سے بڑھ کر مزہ ذکر و تلاوت میں آئے گا تو کوئی چھوڑے گا اﷲ کا نام؟ پھر کوئی کر ے گا گناہ؟

01:23:30) تیسری تفسیر:۔ غلط عقیدوں سے پاکی:۔ (۳)… اَلَّذِیْ یَکُوْنُ قَلْبُہٗ خَالِیًا عَنِ الْعَقَآئِدِ الْبَاطِلَۃِ جس کا دل باطل عقیدوں سے پاک ہو۔ ایسا عقیدہ نہ ہو کہ پیروں سے بیٹا وغیرہ مانگنے لگے۔

01:24:15) چوتھی تفسیر:۔ خواہشات کا غلبہ نہ ہو۔۔ (۴)… اَلَّذِیْ یَکُوْنُ قَلْبُہٗ خَالِیًا عَنْ غَلَبَۃِ الشَّہَوَاتِ جس کا دل شہوتوں کے غلبہ سے پاک ہو، شہوت تو رہے کہ بیوی کا حق ادا کر سکے۔۔

01:25:20) پانچویں تفسیر:۔ غیر اللہ سے دل پاک ہو۔۔ (۵)… اَلَّذِیْ یَکُوْنُ قَلْبُہٗ خَالِیًا عَمَّا سِوَی اللہِ جس کا دل ماسویٰ اللہ سے خالی ہو یعنی بیوی بچوں اور مال و دولت پر اللہ کی محبت غالب آ جائے ۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries