مجلس  ۳   فروری    ۲۰۲۱    عشاء   : درسِ مثنوی معرفت و محبت سلسلہ ۴۴ !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

  00:34) مفتی انوار صاحب نے اسوہ رسول ﷺ نے کتاب سے تعلیم کی:جنازے کے متعلق۔۔

04:35) نمرود نے کتنا ستایا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا۔

04:45) یہ بڑائی اور تکبر ہے کہ مانا نہیں۔

05:12) یہ تکبر ایسا ہے ماں باپ کی بدعا لیتا ہے،استاد کی بدعا دلاتا ہے،یہ تکبر شیخ کی آہ نکلواتا ہے۔

05:40) تکبر کے دو جز ہیں۔

05:56) بڑے بڑے فرعون آئے سب چلے گئے لیکن سبق نہیں لیا۔

06:27) لاہور میں قاری ارشد عبید صاحب کے گھر کا ذکر۔

07:14) جس کو دین پھیلانے کا شوق ہو تو وہ سفر پر تو چلے۔

07:49) ہمیں اللہ نیک بنیں دین پھیلائیں۔

08:07) بہت بڑا کام ہے یہ لیکن اکڑ اور تکبر آڑے آجاتا ہے۔

08:23) انعام یافتہ چار ہیں نبیین،صدیقین شہدا اور صالحین۔

08:49) اور صدیقین کے سروں سے سب سے آخر میں تکبر اور جاہ نکلتا ہے۔

09:42) تکبر کے دو جز۔بطر الحق اور غمط الناس۔ ہر ایک کا تکبر الگ ہوتا ہے۔

11:12) یہ تکبر جھکنے ن ہیں دیتا نہ کسی مفتی صاحب سے مشورہ کرے گا بس میں صحیح ہوں۔

11:40) کسی کو مال کا نشہ،حسن کا نشہ،کسی کو پوسٹ کا نشہ کسی کو کچھ۔۔

12:18) اور جاہ کیا ہے.. دوسروں کو حقیر نہیں سمجھ رہا لیکن۔۔

13:20) ایک بھائی ظالم کا واقعہ جس نے بہن کو بہت مارا۔

14:51) عالم کے ذمے بھی عالم کا اکرام ہے۔

18:05) فرعون کا مختصر واقعہ۔

19:28) بیوی اگر چلی گئی تو پریشان مت ہو مشورہ کرو آپ نے تو کوئی ظلم نہیں کیا بس ہر وقت لیٹے ہوئے ہیں۔

24:10) ہم گھر جوڑتے ہیں توڑتے نہیں لیکن جہاں شرعی اصول ہیں تو ہیں۔

27:48) بیوی اولاد نیک نہیں ہے تو ایک دعا کی تعلیم ان شاء اللہ دعا کی برکت سے اللہ پاک نیک بنادیں گے۔

29:42) مجلس درس مثنوی ۴؍رمضان المبارک ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۳ جنوری ۱۹۹۸؁ء بروزہفتہ وقت ۷بجے صبح در خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گُلشن اقبال بلاک ۲۔ ریڈیو آخرستان۔۔

30:30) آج تبلیغی جماعت آئی واپس جاتے ہوئے ایک بزرگ نے کیا فرمایا ؟

34:20) مجلس درس مثنوی ۴؍رمضان المبارک ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۳ جنوری ۱۹۹۸؁ء بروزہفتہ وقت ۷بجے صبح در خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گُلشن اقبال بلاک ۲۔ کراچی ارشاد فرمایا کہ آج کے اشعار میں معرفت کا عظیم الشان مضمون ہے۔ اگر یہ مضمون سامنے ہوتو نماز میں، تلاوت میں، سجدہ میں مزہ آجائے گا کہ کتنے عظیم الشان مالک کے قدموں میں میرا سر ہے، کتنے عظیم الشان مالک کے سامنے میں ہاتھ باندھے کھڑا ہوں، کتنے عظیم الشان مالک کو اس مالک ہی کا کلام سنارہاہوں۔

36:26) اچھی نظر سے دیکھو یا بری نظر سے دیکھو یا شفقت کے بہانے لڑکیوں کو دیکھو یا غصے کے بہانے دیکھنا حرام ہے۔

40:13) اگر گناہ نہیں چھوڑا اور توبہ نہیں کی تو دو کیس چلیں گے ایک توبہ نہیں کی تو گناہ کا کیس چلے گا۔

41:07) اور دوسرا کیس دھوکے بازی کا چلے گا۔

44:36) خواتین کو ڈرائیونگ سے متعلق نصیحت۔

47:22) مجلس درس مثنوی:۔ گر تُو ماہ و مہر رَا گوئی خِفا گر تو قدِّ سرو رَا گوئی دوتا مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ان چاند سورج کی روشنی اللہ تعالی کے نور کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہے کیونکہ نور کی تعریف ہے ظَاہِرٌ لِّنَفْسِہٖ جو اپنی ذات سے ظاہر ہو اور یہ اپنی ذات سے ظاہر نہیں ہیں، ان کا نور اللہ تعالی کی ادنیٰ بھیک ہے اور پھر یہ غروب بھی ہوجاتے ہیں اور اللہ کا نور کبھی غروب نہیں ہوتا اور قیامت کے دن یہ لپیٹ دیئے جائیں گے کما قاَلَ تعالیٰ!اِذَالشَّمْسُ کُوِّرَتْ پس ان کی یہ بھیک بھی عارضی ہے لہذا اللہ کے نور کے مقابلہ میں ان کی روشنی کیا بیچتی ہے۔

49:25) دجالی فتنہ۔

50:23) مجلس درس مثنوی:۔ پس ان کی یہ بھیک بھی عارضی ہے لہذا اللہ کے نور کے مقابلہ میں ان کی روشنی کیا بیچتی ہے۔ اس کے علاوہ چاند اور سورج کا نور فانی بھی ہے اور محدود بھی اور اللہ تعالی کا نور غیر فانی غیر محدود ہے اور فانی محدود اپنی اکثریت کے باوجود غیر فانی غیر محدود کے سامنے اقلیت میں ہوتا ہے۔

52:26) مجلس درس مثنوی:۔ اس لئے مولانا فرماتے ہیں کہ اے اللہ !اگر آپ چاند اور سورج کو حقارت سے طعنۂ خفادیں کہ اے بے نورو ! تمہارے اندر کوئی روشنی نہیں ہے، تم مخفی ہو، تم پر تو نور کا اطلاق بھی نہیں ہوتا، تم تو ظَاہِرٌ لِّنَفْسِہٖ بھی نہیں ہوتو مُظْہِرٌ لِّغَیْرِہٖ کیسے ہوسکتے ہو میری دی ہوئی بھیک سے تم روشن ہو اور کائنات کو روشن کررہے ہو، اور روزانہ تم کو غروب کرکے تمہاری حقارت اور بے کسی کا تماشہ کائنات کو دکھا تاہوں کہ تم بے نور ہوجاتے ہو اور کائنات کو روشنی دینے کے قابل بھی نہیں رہتے۔ پس اے چاند اور سورج تمہارا نور حادث وفانی میرے نور قدیم واجب الوجود کے مقابلہ میں خفاواِسْتَتَار، کالعدم اور بے حقیقت ہے۔

54:06) مجلس درس مثنوی:۔ اور اے اللہ ! اگر آپ سروکے درخت کو (جس سے شعراء محبوبان مجازی کے قد کو تشبیہ دیتے ہیں )فرمادیں کہ اے سرو کے درختو! تم میں ٹیڑھا پن،اِنْحِنَا، عیب اور کجی ہے کیونکہ یہ رعنائی قد تمہاری ذاتی صفت نہیں ہے، میری عطا ہے اور میری رعنائی جمال اور حسن ازلی غیر فانی سے اسے کوئی نسبت نہیں اور ؎ گر تو کان و بحر را گوئی فقِیر گر تو چرخ و عرش را گوئی حقِیر

54:38) مجلس درس مثنوی:۔ اگر آپ معادنِ سیم وزراور مخازنِ لعل وگہر اور معدنیا ت کے انمول ذخائر اور بحرِ حاملِ سوا حلِ جواہر یعنی اے خدا! اگر آپ سونے چاندی کی کانوں اور قیمتی موتیوں کے خزانوں اور معدنیات کے انمول ذخیروں اور ساحل سمندر میں چھپے ہوئے کروڑوں کروڑوں کے موتیوں کو فرمادیں کہ تم سب فقیر اور بھک منگے ہو، اگر چہ تم ایسے غنی ہو کہ دوسروں کو بھی غنی کرتے ہو لیکن چونکہ یہ صفت غنا تمہاری ذاتی صفت نہیں میری بھیک ہے لہذا تم فقیر اور بھک منگے حقیر اور ناچیز اور بے حقیقت ہو اور اگر آپ عرش اعظم جیسی عظیم مخلوق کو جو ساتوں آسمان کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے ہے، فرمادیں کہ اے آسمانو!اور اے عرش وکرسی! تم سب حقیر مخلوق ہو۔ آں بہ نسبت باکمالِ تو رواست ملک و اقبال و غناہا مر تو راست تو اپنی مخلوقات کو ان تعبیرات سے خطاب کرنا آپ کے کمالات کے پیش نظر آپ کو زیب دیتا ہے کہ ملک وسلطنت اور اقبال مندی وغنا آپ ہی کے لے خاص ہے، کسی اور کو زیبا نہیں کیونکہ آپ کی ذات قدیم اور واجب الوجود ہے اور مخلوق حادث وفانی ہے۔

56:14) مجلس درس مثنوی:۔ نیست زُرْغِبّاً وظیفہ عاشقاں سخت مستسقی ست جانِ صادقاں ارشاد فرمایا کہ مولانا کا یہ شرع دراصل ایک حدیث پاک کی شرح اور توضیح ہے ضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کُنْتُ اَلْزَمَ لِصُحْبَۃِ النَّبِیِّ صَلِّیَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ میں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ایک دم چمٹا رہتا تھا اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ زُرْغِبّاً تَزْدَدْ حُبّاً ناغہ دے کر ملو اس سے محبت بڑھتی ہے تو صحابی کا عمل بظاہر اس حدیث کے خلا ف معلوم ہوتاہے لیکن اگر یہ جائز نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کومنع فرمادیتے کہ ہر وقت ہمارے پاس نہ رہا کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکیر نہ فرمانا دلیل ہے کہ صحابی کا عمل درست تھا لیکن حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دونوں حدیثوںمیں تطبیق نہیں ہورہی تھی کہ اس کا جواب اور اس حدیث کی شرح مجھے مثنوی کے مذکورہ شعر میں مل گئی۔

57:50) مجلس درس مثنوی:۔ مولانا رومی فرماتے ہیں نیست زُرْغِبًّا وظیفہ عاشقاں سخت مستسقی ست جانِ صادقاں ناغہ دے کر ملاقات کرنا یہ عاشقوں کا وظیفہ نہیں ہے۔ زُرْغِبّاً تَزْدَدْ حُبّاً کا حکم، رشتہ داروں کے لئے ہے کہ مثلاً سسرال میں نہ پڑے رہو ورنہ ساس سسر کہیں گے کہ کہاں سے یہ بے حیا داماد ملا کہ جب دیکھو پڑا رہتاہے۔ رشتہ داروں کے یہاں روزانہ مت جائو، وہاں جاکر ڈیرہ مت ڈال دو ورنہ محبت میں کمی آجائے گی لیکن جو اللہ کے عاشق ہیں ناغہ دے کر ملاقات کرنے کاحکم ان کے لئے نہیں ہے کیونکہ ان کی جان اللہ تعالی کی سخت پیاسی ہے کہ بغیر اللہ کے عاشقوں کی ملاقات کے وہ کہیں چین نہیں پاسکتی۔ اگر مچھلیوں سے کہا جائے کہ پانی میں ناغہ دے کر آیا کرو تو وہ مرجائیں گی۔ حضرت ابو ہریہ رضی اللہ تعالی عنہ دریائے نبوت کی مچھلی تھے، وہ ناغہ نہیں کرسکتے تھے۔

01:03:06) مجلس درس مثنوی:۔ اگر مچھلیوں سے کہا جائے کہ پانی میں ناغہ دے کر آیا کرو تو وہ مرجائیں گی۔ حضرت ابو ہریہ رضی اللہ تعالی عنہ دریائے نبوت کی مچھلی تھے، وہ ناغہ نہیں کرسکتے تھے۔ مولانا فرماتے ہیں نیست زُرْغِبّاً وظیفہ ماہیاں زانکہ بے دریا ندارند انسِ جاں ناغہ دے کر پانی سے ملاقات کرنا مچھلیوں کاکام نہیں ہے کیونکہ بغیر پانی کے وہ زندہ نہیں رہ سکتیں، بغیر پانی کے وہ اپنی جان سے بیزار ہوجاتی ہیں۔

01:03:39) میرصاحب کا واقعہ ہے۔ جب انہوں نے آنا شروع کیا تو صبح فجر کے بعد آتے تھے اور رات کو جاتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ تیسرے دن آیا کرو۔ لیکن ایک ہی دن میں وہ تڑپ گئے اور ایسے پاگل ہوئے کہ بس سے اُتر کرناظم آباد میں میرے گھر کی طرف بھاگنے لگے۔ راستہ میں ایک بوڑھا آدمی جارہا تھا اس نے انہیں بھاگتا ہوا دیکھا تو ایک طرف کو ہوگیا۔ اتفاق سے یہ بھی ادھر کو ہوئے پھر وہ دوسری طرف ہٹا تو یہ بھی جلدی میں ادھر کو ہوگئے۔ وہ بے چارہ یا تو یہ سمجھا کہ یہ مجھ سے ٹکرا جائے گا اور میری ہڈی پسلی ٹوٹ جائے گی یا یہ سمجھا کہ کہیں یہ مجھ پر حملہ تو نہیں کررہاہے تو زور سے چیخاکہ ہائے مرگیا مرگیا۔ میر صاحب معافی مانگتے ہوئے ہنستے ہوئے بھاگتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ میری جدائی ناقابل برداشت ہورہی تھی اور دل چاہ رہاتھا کہ جلد از جلد ملاقات ہو۔ لہذا مولانا نے اسی لئے فرمایا کہ ناغہ دے کر ملاقات کرنے کا حکم عاشقوں کے لئے نہیں ہے کیونکہ بغیر محبوب کے ان کی زندگی دوبھر ہے جیسے مچھلیوں کے لئے یہ ناممکن ہے کہ پانی سے وہ ناغہ دے کر ملاقات کریں کیونکہ پانی ان کی زندگی کی اساس ہے بغیر پانی کے وہ زندہ نہیں رہ سکتیں۔ اسی کو مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

01:04:35) اسی کو مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ترا ذکر ہے مری زندگی ترا بھولنا مری موت ہے اسی لئے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی جان عاشق زُرْغِبّاًکی متحمل نہ تھی اس لئے وہ ہمیشہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکھٹ پر پڑے رہتے تھے۔

01:05:18) آپ ﷺ کا تذکرہ مبارک ایک صحابی ذوالبجادین رضی اللہ عنہ کو دفن کیا صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے افسوس کیا کے کاش ان کی جگہ ہم ہوتے،شہزادہ مکہ حضرت مُعصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا تذکرہ جو غزوہ اُحد میں شہید ہوئے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries