مجلس یکم اپریل ۲۰۲۱ عشاء : شبہ والی چیز سے بھی بچنا ہے ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں 06:42) ایک آدمی نے ویڈیو بنائی اس سے متعلق نصیحت۔۔۔۔۔ 06:44) گھروں میں تصویروں سے متعلق ۔۔۔۔۔ 07:22) سیالکوٹ کے ایک گاؤں کا ذکر جس میں ایک مسجد میں ایک بچہ تصویر بنا رہا تھا۔ 09:37) شُبے والی چیز سے بھی بچنا ہے ،علامہ بنوری رحمہ اللہ کی بات مانو تصویر سے متعلق،حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی بات کے جس با ت کو بعض علماء جائز نہ سمجھیں اس سے بھی بچنا چاہیے۔ 13:05) تصویروں سے متعلق وقت لگانے والوں کو نصیحت۔۔۔۔۔ 18:51) حضرت مفتی محمد نعیم صاحب کی بات کہ ایک غیر مسلم نے کہا کہ میں ایمان لانا چاہتا ہوں لیکن مسلمان نہیں ہونا چاہتا۔ 20:11) درسِ مثنوی :. ارشاد فرمایا کہ جب بچہ پیدا ہوتاہے تو بچہ کی ناف میں ایک رگ ہوتی ہے جو شکم مادر سے جڑی رہتی ہے جسے نال کہتے ہیں، دائی اس نال کو کاٹتی ہے جو دلیل ہے کہ اس کا رابطہ شکم مادر سے کٹ گیا اور اب یہ دنیا میں آگیا اور اس کو ایک الگ وجود عطا ہوگیا۔ اسی کو مولانا فرماتے ہی کہ اللہ تعالی نے اپنی محبت کی شرط پر ہماری نال یعنی ناف کاٹی ہے۔ بر مہر خود اپنی محبت کی شرط پر ’’بر‘‘ معنی میں یہاں شرط کے ہے یعنی اللہ تعالی نے اپنے محبت کی شرط پر ہم کو وجود بخشا ہے کہ جا تو رہے ہو مگر میری محبت کے پابند رہنا، اس شرط پر ہم تم کو دنیا میں بھیج رہے ہیں کہ تم غیروں کے نہ بننا، نہ نفس کے بننا نہ شیطا ن کے بننا ہمارے ہو تو ہمارے بن کر رہنا نہیں ہوں کسی کا تو کیوں ہوں کسی کا اُنہیں کا اُنہیں کا ہوا جارہا ہوں میرے شیخ یہ شعر پڑھا کرتے تھے نہ کبھی تھے بادہ پرست ہم نہ ہمیں یہ ذوق شراب ہے لب یار چوسے تھے خواب میں وہی ذوقِ مستیِ خواب ہے پھر حضرت اس کے معنی بتاتے تھے کہ جب اللہ نے ارواح کو اپنی تجلی دکھائی اورسوال فرمایا اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو اس میں اپنی شان ربوبیت کی تجلی دکھادی اور اپنی محبت کی چوٹ لگادی۔ وہی چوٹ لگی ہوئی ہے کہ آج اللہ کانام سن کر کافر کا بھی دل ہل جاتاہے اور کتنا ہی فاسق ہو مگر اللہ کانام سن کر وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ آہ جیسے ہم نے کبھی اس نام کو سنا ہے۔ اپنی چوٹ لگاکر ہمیں دنیا میں بھیجا ہے، ان کی محبت ہماری جانوں کا فطری ذوق ہے۔ اسی کو خواجہ صاحب فرماتے ہیں۔ ؎ دل ازل سے تھا کوئی آج کا شیدائی ہے تھی جو اِک چوٹ پرانی وہ اُبھر آئی ہے جب پُروا ہوا چلتی ہے تو پرانی چوٹ درد کرنے لگتی ہے۔ اللہ کی محبت کی یہ پُروا ہوائیں اللہ والوں کی مجالس میں ملتی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، جامع صغیر کی روایت ہے کہ : اِنَّ لِرَبِّکُمْ فِیْ اَیَّامِ دَھْرِ کُمْ نَفَحَاتٍ فَتَعَرَّضُوْالَہٗ لَعَلَّہٗ اَنْ یُّصِیْبَکُمْ نَفَحَۃٌ مِّنْھَا فَلَا تَشْقَوْنَ بَعْدَھَا اَبَدًا (ج ا، ص۹۵) ٍٍٍٍٍٍٍٍٍاے میری امت کے لوگو!تمہارے زمانہ کے شب وروز میں اللہ تعالی کے قرب کی ہوائیں آتی رہتی ہیں تجلیات جذب نازل ہوتی رہتی ہیں۔ تم ان کو تلاش کرو شاید کہ تم ان میں سے کوئی تجلی، نسیم کرم کاکوئی جھونکا پاجائو جس کا یہ اثر ہے کہ پھر تم کبھی بد بخت وبدنصیب نہیں ہوسکتے۔ اس حدیث میں اللہ کے قرب کی ہوائوں کا، تجلیات قرب کے نزول کا زمانہ بتایا گیا۔ لیکن بخاری شریف کی حدیث میں ان کا مکان بھی بتادیا گیا کہ یہ کہاں نازل ہوتی ہیں۔ (ھُمُ الْجُلْسَائُ لَایَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ)(ج۲،بابُ فَضْلِ ذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی) یہ اللہ والے ایسے ہم نشین ہیں کہ جن کے پاس بیٹھنے والا کبھی بدبخت وبد نصیب نہیں رہ سکتا۔ دونوں حدیثوںکو ملانے سے ایک علم عظیم عطاہوا۔ زمانہ کے شب وروز میں جو تجلیات جذب نازل ہوتی ہیں اور جو شقاوت کو سعادت سے بدل دیتی ہیں ان کی منزل اور محل اور اور ان کا مکان اہل اللہ کی مجالس ہیں کیونکہ ان کا جلیس وہم نشین بد بخت نہیں رہ سکتا۔ معلوم ہواکہ ان تجلیات مقربات کی جائے نزول مجالس اہل اللہ ہیں لہذاجو اللہ والوں کے پاس بیٹھتا ہے تو جذب کی کوئی تجلی اس پر بھی پڑجاتی ہے اور وہ ہمیشہ کے لئے سعید ہوجاتاہے اور محبت کی پرانی چوٹ جو اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ فرماکر اللہ تعالی نے لگائی تھی پھر ابھر آتی ہے اور یہ اللہ کی محبت کا درد مستقل پاجاتاہے۔ دونوں حدیثوں کے ارتباط سے جو علم عظیم اللہ تعالی نے عطا فرمایا۔ اس کی حلاوت سے دل مست ہورہاہے۔ جامع صغیر کی روایت سے معلوم ہوا کہ اس دنیا کے شب وروز میں جن کو وہ تجلیات مل گئیں اس کے بعد کوئی شقی وبدبخت نہیں رہ سکتا۔ مندرجہ بالا حدیث پاک سے ان تجلیات جذب، تجلیات مقربات اور نفحات کرم کا زمانہ تو معلوم ہوگیا لیکن دل میں یہ سوال پیدا ہوتاتھا کہ یہ تجلیات کہاں ملتی ہیں ؟بخاری شریف کی حدیث لَایَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ سے اللہ تعالی نے فوراً دل میں یہ بات عطافرمائی کہ اہل اللہ کی مجالس ہی وہ مکان ہیں جہاں ان تجلیات کا نزول ہوتاہے جن کو پانے کے بعد شقاوت سعادت سے اور بدبختی نیک بختی سے تبدیل ہوجاتی ہے۔ الحمدللہ تعالی کہ تجلیات جذب کے زمان ومکان کا تعین مدلَّل بالحدیث ہوگیا۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔ اللہ تعالی اپنے کرم سے عجیب وغریب علوم عطافرمارہے ہیں اور یہ آپ حضرات ہی کی برکات ہیں۔۔۔ 49:29) پرچیاں۔ 50:22) بیعت۔۔۔۔ 06:42) ایک آدمی نے ویڈیو بنائی اس سے متعلق نصیحت۔۔۔۔۔ 06:44) گھروں میں تصویروں سے متعلق ۔۔۔۔۔ 07:22) سیالکوٹ کے ایک گاؤں کا ذکر جس میں ایک مسجد میں ایک بچہ تصویر کھینچ رہا تھا۔تنبیہ 09:37) شُبے والی چیز سے بھی بچنا ہے ،علامہ بنوری رحمہ اللہ کی بات مانو تصویر سے متعلق،حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی بات کے جس با ت کو بعض علماء جائز نہ سمجھیں اس سے بھی بچنا چاہیے۔ 13:05) تصویروں سے متعلق وقت لگانے والوں کو نصیحت۔۔۔۔۔ 18:51) حضرت مفتی محمد نعیم صاحب کی بات کہ ایک غیر مسلم نے کہا کہ میں ایمان لانا چاہتا ہوں لیکن مسلمان نہیں ہونا چاہتا۔ 20:11) درسِ مثنوی :. ارشاد فرمایا کہ جب بچہ پیدا ہوتاہے تو بچہ کی ناف میں ایک رگ ہوتی ہے جو شکم مادر سے جڑی رہتی ہے جسے نال کہتے ہیں، دائی اس نال کو کاٹتی ہے جو دلیل ہے کہ اس کا رابطہ شکم مادر سے کٹ گیا اور اب یہ دنیا میں آگیا اور اس کو ایک الگ وجود عطا ہوگیا۔ اسی کو مولانا فرماتے ہی کہ اللہ تعالی نے اپنی محبت کی شرط پر ہماری نال یعنی ناف کاٹی ہے۔ بر مہر خود اپنی محبت کی شرط پر ’’بر‘‘ معنی میں یہاں شرط کے ہے یعنی اللہ تعالی نے اپنے محبت کی شرط پر ہم کو وجود بخشا ہے کہ جا تو رہے ہو مگر میری محبت کے پابند رہنا، اس شرط پر ہم تم کو دنیا میں بھیج رہے ہیں کہ تم غیروں کے نہ بننا، نہ نفس کے بننا نہ شیطا ن کے بننا ہمارے ہو تو ہمارے بن کر رہنا نہیں ہوں کسی کا تو کیوں ہوں کسی کا اُنہیں کا اُنہیں کا ہوا جارہا ہوں میرے شیخ یہ شعر پڑھا کرتے تھے نہ کبھی تھے بادہ پرست ہم نہ ہمیں یہ ذوق شراب ہے لب یار چوسے تھے خواب میں وہی ذوقِ مستیِ خواب ہے پھر حضرت اس کے معنی بتاتے تھے کہ جب اللہ نے ارواح کو اپنی تجلی دکھائی اورسوال فرمایا اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو اس میں اپنی شان ربوبیت کی تجلی دکھادی اور اپنی محبت کی چوٹ لگادی۔ وہی چوٹ لگی ہوئی ہے کہ آج اللہ کانام سن کر کافر کا بھی دل ہل جاتاہے اور کتنا ہی فاسق ہو مگر اللہ کانام سن کر وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ آہ جیسے ہم نے کبھی اس نام کو سنا ہے۔ اپنی چوٹ لگاکر ہمیں دنیا میں بھیجا ہے، ان کی محبت ہماری جانوں کا فطری ذوق ہے۔ اسی کو خواجہ صاحب فرماتے ہیں۔ ؎ دل ازل سے تھا کوئی آج کا شیدائی ہے تھی جو اِک چوٹ پرانی وہ اُبھر آئی ہے جب پُروا ہوا چلتی ہے تو پرانی چوٹ درد کرنے لگتی ہے۔ اللہ کی محبت کی یہ پُروا ہوائیں اللہ والوں کی مجالس میں ملتی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، جامع صغیر کی روایت ہے کہ : اِنَّ لِرَبِّکُمْ فِیْ اَیَّامِ دَھْرِ کُمْ نَفَحَاتٍ فَتَعَرَّضُوْالَہٗ لَعَلَّہٗ اَنْ یُّصِیْبَکُمْ نَفَحَۃٌ مِّنْھَا فَلَا تَشْقَوْنَ بَعْدَھَا اَبَدًا (ج ا، ص۹۵) ٍٍٍٍٍٍٍٍٍاے میری امت کے لوگو!تمہارے زمانہ کے شب وروز میں اللہ تعالی کے قرب کی ہوائیں آتی رہتی ہیں تجلیات جذب نازل ہوتی رہتی ہیں۔ تم ان کو تلاش کرو شاید کہ تم ان میں سے کوئی تجلی، نسیم کرم کاکوئی جھونکا پاجائو جس کا یہ اثر ہے کہ پھر تم کبھی بد بخت وبدنصیب نہیں ہوسکتے۔ اس حدیث میں اللہ کے قرب کی ہوائوں کا، تجلیات قرب کے نزول کا زمانہ بتایا گیا۔ لیکن بخاری شریف کی حدیث میں ان کا مکان بھی بتادیا گیا کہ یہ کہاں نازل ہوتی ہیں۔ (ھُمُ الْجُلْسَائُ لَایَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ)(ج۲،بابُ فَضْلِ ذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی) یہ اللہ والے ایسے ہم نشین ہیںکہ جن کے پاس بیٹھنے والا کبھی بدبخت وبد نصیب نہیں رہ سکتا۔ دونوں حدیثوںکو ملانے سے ایک علم عظیم عطاہوا۔ زمانہ کے شب وروز میں جو تجلیات جذب نازل ہوتی ہیں اور جو شقاوت کو سعادت سے بدل دیتی ہیں ان کی منزل اور محل اور اور ان کا مکان اہل اللہ کی مجالس ہیں کیونکہ ان کا جلیس وہم نشین بد بخت نہیں رہ سکتا۔ معلوم ہواکہ ان تجلیات مقربات کی جائے نزول مجالس اہل اللہ ہیں لہذاجو اللہ والوں کے پاس بیٹھتا ہے تو جذب کی کوئی تجلی اس پر بھی پڑجاتی ہے اور وہ ہمیشہ کے لئے سعید ہوجاتاہے اور محبت کی پرانی چوٹ جو اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ فرماکر اللہ تعالی نے لگائی تھی پھر ابھر آتی ہے اور یہ اللہ کی محبت کا درد مستقل پاجاتاہے۔ دونوں حدیثوں کے ارتباط سے جو علم عظیم اللہ تعالی نے عطا فرمایا۔ اس کی حلاوت سے دل مست ہورہاہے۔ جامع صغیر کی روایت سے معلوم ہوا کہ اس دنیا کے شب وروز میں جن کو وہ تجلیات مل گئیںاس کے بعد کوئی شقی وبدبخت نہیں رہ سکتا۔ مندرجہ بالا حدیث پاک سے ان تجلیات جذب، تجلیات مقربات اور نفحات کرم کا زمانہ تو معلوم ہوگیا لیکن دل میں یہ سوال پیدا ہوتاتھا کہ یہ تجلیات کہاں ملتی ہیں ؟بخاری شریف کی حدیث لَایَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ سے اللہ تعالی نے فوراً دل میں یہ بات عطافرمائی کہ اہل اللہ کی مجالس ہی وہ مکان ہیں جہاں ان تجلیات کا نزول ہوتاہے جن کو پانے کے بعد شقاوت سعادت سے اور بدبختی نیک بختی سے تبدیل ہوجاتی ہے۔ الحمدللہ تعالی کہ تجلیات جذب کے زمان ومکان کا تعین مدلَّل بالحدیث ہوگیا۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔ اللہ تعالی اپنے کرم سے عجیب وغریب علوم عطافرمارہے ہیں اور یہ آپ حضرات ہی کی برکات ہیں۔۔۔ |