رمضان مجلس ۱۶۔ اپریل ۲۰۲۱ بعد تراویح :غصہ کو ضبط کرنے کا انعام ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں 00:28) بیان کےآغاز میں جناب مصطفی مکی صاحب نے حضرت مولانا تائب صاحب کے اشعار پڑھ کر سنائے۔۔ 06:32) پھر جناب مولانا محمد کریم صاحب سے حضرت شیخ نے اشعار پڑھنے کا فرمایا ۔۔شیخ العرب والعجم حضرت والا رحمہ اللہ کی کتاب فیضانِ محبت سے ساحل سے لگے گا میرا بھی سفینہ اشعار پڑھ کر سنائے۔۔ 06:54) فیضانِ مدینہ ہے یہ فیضانِ مدینہ ساحل سے لگے گا کبھی میرا بھی سفینہ دیکھیں گے کبھی شوق سے مکہ و مدینہ مؤمن جو فدا نقشِ کفِ پائے نبی ہو ہو زیرِ قدم آج بھی عالم کا خزینہ گر سنتِ نبوی کی کرے پیروی اُمت طوفاں سے نکل جائے گا پھر اس کا سفینہ 09:08) یہ دولتِ ایمان جو ملی سارے جہاں کو فیضانِ مدینہ ہے یہ فیضانِ مدینہ 10:04) جو قلب پریشاں تھا سدا رنج و الم سے فیضانِ نبوت سے ملا اُس کو سکینہ اے ختمِ رُسل! کتنے بشر آپ کے صدقے ہر شر سے ہوئے پاک ہوئے مثلِ نگینہ جو مثل حجر تھا وہ ہوا رشکِ نگینہ جو ڈوبنے والا تھا ضلالت کے بھنور میں اب رہبرِ اُمت ہے وہ گمراہ سفینہ جو کفر کی ظلمات سے تھا ننگِ خلائق ہے نورِ ولایت سے منوّر وہی سینہ اخترؔ کی زباں اور شرفِ نعتِ محمدا اللہ کا احسان ہے بے خون و پسینہ 14:35) اشعار کے بعد بیان کا آغاز ہوا 16:18) گناہوں کی زندگی میں چین نہیں سکون نہیں۔ 16:30) کافر بھی اللہ والا بن سکتا کیسے۔۔۔ایمان لے آئے اور گناہ نہ کرے۔۔ 16:48) ایک بت تھا جو ستر سال تک صنم صنم کرتا تھا ...جس کو اللہ چاہے جذب فرمالیتے ہیں ایک دن نیند میں تھا تو غلطی سے نکل گیا صمد تو فورا غیبی آواز سنی کہ ایے میرے بندے میں حاضر ہوں تو کہاں ہے اُس نے کہا کہ اتنے عرصے بت کو پکارا کوئی آواز نہیں اور ایک بار غلطی سے مسلمانوں کے رب کا نام نکل گیا فورا آواز آگئی ..تو ڈنڈا لے کر بت کو توڑ دیا اور ایمان لے آیا۔۔۔ 19:16) اللہ پاک نے اپنے پیاروں کی نشانیاں بیان فرمادی تاک دھوکہ نہ کھانا قبروں پر نہ جانا۔۔ 19:55) آج مفتی فرحان صاحب نے تروایح میں قرآن پاک کی یہ آیت پڑھیں جس میں اللہ کے پیاروں کی نشانیاں بیان ہوئیں۔۔ 20:32) پہلی نشانی: وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (۱)… جو لوگ کہ غصہ کو پی جاتے ہیں۔ (۲)… ہمارے بندوں کی خطائوں کو معاف کردیتے ہیں اور (۳)… صرف معاف ہی نہیں کرتے بلکہ ان پر کچھ احسان پر بھی کردیتے ہیں تو ایسوں کو اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے۔ 24:00) غصے کی بات پر غصہ آئے گا ..ایک واقعہ ۔۔ ایک صحابی حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’کُنْتُ اَضْرِبُ غُلَامًالِّیْ‘‘ میں اپنے ایک مملوک غلام کی پٹائی کررہا تھا۔ 28:16) غصے کے بارے میں احادیث پڑھ کر سنائی۔۔ 29:04) یہ تکبر انسان کو مار دیتا ہے۔۔مال کا نشہ،گاڑی کا نشہ،خوبصورتی کا نشہ۔۔ 30:44) شیطان تکبر کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مردود ہوگیا۔۔ 31:16) غصے کے بارے پہلی حدیث یہ بیان فرمائی کہ: ’’جس شخص نے غصہ کو ضبط کرلیا باوجودیکہ وہ غصہ نافذ کرنے پر قدرت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو ایمان اور سکون سے بھردے گا۔‘‘جامع صغیر کی روایت ہے۔۔فرمایا کہ جو شخص غصہ کا تلخ گھونٹ پی لیتا ہے یعنی غصہ کو ضبط کرلیتا ہے تو وہ غصہ سب کا سب نور بن جاتا ہے۔ 35:31) دوسری حدیث یہ بیان کی کہ: غصہ ضبط کرنے کا یہ دوسرا انعام بیان فرمایا گیا۔ ’’جس شخص نے غصہ کو ضبط کرلیا درآنحالیکہ وہ اس کے نافذ کرنے پر قادر تھا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو تمام مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور اختیار دیں گے کہ جس حور کو چاہے اپنی پسند سے انتخاب کرلے۔‘‘ 38:54) تیسری حدیث یہ ہے کہ: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ وہ شخص کھڑا ہوجائے جس کا میرے اوپر کوئی حق ہو فَلَا یَقُوْمُ اِلَّا اِنْسَانٌ عَفَا پس کوئی شخص کھڑا نہیں ہوگا، مگر وہ جس نے دنیا میں کسی کی خطائوں کو معاف کیا ہوگا۔‘‘ 44:24) حسن مجازی کی چکر بازیاں۔۔ 45:02) چوتھی حدیث :۔ ’’جو شخص یہ بات پسند کرے کہ جنت میں اس کے لیے اونچے محل بنائے جائیں اور اس کے درجات بھی بلند ہوجائیں اس کو چاہئے کہ جو شخص اس پر ظلم کرے اس کو معاف کردے اور جو اس کو محروم رکھے اس کو عطا کردے، اور جو اس سے قطع رحمی کرے اس کے ساتھ رحمی کرے۔‘‘ 45:46) پانچویں حدیث یہ ہے کہ: ’’غصہ ایمان کو ایسا خراب اور برباد کردیتا ہے جیسا کہ ایلو شہد کو خراب کردیتا ہے۔‘‘ ایلوا ایک نہایت کڑوی دوا ہے اگر کوئی دُور بھی کوٹ رہا ہو تو حلق کڑوا ہو جاتا ہے۔ ایک من شہد میں ذرا سا ڈال دیجیے، سارا شہد کڑوا ہوجائے گا۔ 46:21) چھٹی حدیث ہے کہ: ’’جو شخص اپنے غصہ کو روک لے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا عذاب اس سے روک لیں گے۔‘‘ 48:51) ساتویں حدیث کے روای ایک صحابی حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’کُنْتُ اَضْرِبُ غُلَامًالِّیْ‘‘ میں اپنے ایک مملوک غلام کی پٹائی کررہا تھا۔ فَسَمِعْتُ مِنْ خَلْفِیْ صَوْتًا میں نے اپنی پیٹھ کے پیچھے سے ایک آواز سنی۔ وہ کیا آواز تھی؟ ’’اِعْلَمْ اَبَا مَسْعُوْدٍ لَلّٰہُ اِقْدَرُ عَلَیْکَ مِنْکَ عَلَیْہِ۔‘‘ یہ کلام نبوت کی بلاغت ہے کہ چند ضمیروں میں دو سطر کا مضمون بیان فرمادیا۔ اگر ہم اُردو میں اس کا ترجمہ کریں تو ڈیڑھ دو سطر ہوجائے گی۔ فرمایا کہ اے ابا مسعود! اللہ تعالیٰ کو تجھ پر زیادہ قدرت ہے۔ اس قدرت سے جو تجھ کو اس غلام پر حاصل ہے جس کو تو پیٹ رہا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’فَالْتَفَتُّ‘‘ میں نے متوجہ ہوکر دیکھا کہ کہاں سے یہ آواز آئی۔ فَاِذَا ہُوَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، یہ آپ کی آواز تھی ؎ جی اُٹھے مُردے تری آواز سے یہ آوازِ نبوت تھی جس سے صحابہ رضی اللہ عنہ کے دل زندہ ہوتے تھے۔ 50:24) آج ماں باپ پر خرچہ نہیں کرتے۔۔کس کس طرح ماں باپ کو جھڑکتے ہیں۔۔ 51:40) بس اللہ تعالیٰ نے صحبتِ نبوّت کے فیضان کی برکت سے فوراً ہدایت عطا فرمادی۔ اللہ والوں کی صحبت سے قلب میں اعمالِ صالحہ کی ایک زبردست قوت و ہمت اور توفیق پید اہوجاتی ہے۔ چالیس چالیس سال سے انسان جس گناہ کو چھوڑنے کی طاقت نہ پاتا ہو اللہ والوں کے پاس چند دن رہ کرکے دیکھے کہ کیا ہوتا ہے۔ 55:14) جب اولیاء اللہ کی صحبت کا یہ انعام ہے کہ ان کی صحبت کے فیض سے شقاوت سعادت سے تبدیل ہوجاتی ہے اور قلب میں اعمالِ صالحہ کی زبردست ہمت و توفیق عطا ہوجاتی ہے تو صحبتِ نبوّت کے فیضان کا کیا عالم ہوگا؟ حالتِ ایمان میں جس پر نبوت کی گناہ پڑگئی وہ صحابی ہوگیا اور دنیا کا بڑے سے بڑا ولی بھی ایک ادنیٰ صحابی کے رُتبہ کو نہیں پاسکتا۔ چنانچہ صحبت نبوت کے فیضان سے حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ کو فوراً تنبیہ ہوگئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہُوَ ہُرٌّ لِوَجْہِ اللّٰہِ اس غلام کو میں نے اللہ کے لیے آواز کردیا، اس خطا کی تلافی میں۔ معلوم ہوا کہ خطائوں کی تلافی بھی ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَوْلَمْ تَفْعَلْ لَلَفَحَتْکَ النَّارُ اَوْ لَمَسَّتْکَ النَّارُ۔‘‘ (مسلم: ۵۱، ج ۲) اگر تُو ایسا نہ کرتا اور غلام پر یہ رحمت نہ دکھاتا تو جہنم کی آگ تجھے جھلسادیتی اور جلا کے خاک کردیتی۔ یہ کون ہیں؟ صحابی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والے ہیں۔ آج کس ظالم کا منہ ہے جو کہے کہ میں اتنا تہجد پڑھتا ہوں، صوفی ہوں، اتنا ذکر و فکر کرتا ہوں، میرے غصہ پر کوئی پکڑ نہیں ہوگی۔ ذرا سوچئے! یہ بات سوچنے کی ہے یا نہیں کہ اپنی عبادت پر اتنا ناز کہ ہم نے تہجد پڑھی ہے لہٰذا مسلمانوں کو، اور بھائیوں کو اور بہنوں کو اور بیویوں کو جس طرح چاہو ستائو۔ کوئی قانون نہیں۔ دیکھئے! صحبت یافتۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ کے لیے یہ حکم ہورہا ہے کہ اگر تم نے رحمت نہ کی تو یاد رکھو قیامت کے دن دوزخ کی آگ تم کو لپٹ جائے گی۔ اب کس صوفی کا منہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ میرا غصہ میرے لیے کچھ مضر نہیں۔ میری تو اتنی عبادت ہے، اتنا وظیفہ پڑھتا ہوں، میرے غصہ پر کوئی پکڑ نہیں ہوگی۔ حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ سے زیادہ آپ مقبول ہیں۔ صحابی سے گویا بڑھ گیا۔ یہ صوفی جو ایسی باتیں کرتا ہے۔ یہ گویا دعویٰ کررہا ہے کہ صحابی سے نعوذباللہ اس کا درجہ بڑھ گیا۔ 57:40) ایک عجیب و غریب بات:۔ میرے دوستو! لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں مصلح کی کیا ضرورت ہے؟ دیکھئے! صحابی ہیں حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ لیکن مربّی و مصلح کی ضرورت پیش آئی کہ نہیں؟ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو مربّی کی ضرورت تھی جو انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام انسانوں میں سب سے زیادہ افضل ہیں تو ہم لوگوں کا کیا منہ ہے کہ ہم اپنے کو تربیت کا محتاج نہ سمجھیں۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ایک عزیز سے ناراض ہوگئے اور فرمایا خدا کی قسم! اب میں ان پر کبھی احسان نہ کروں گا اور جن سے ناراض ہوئے وہ جنگِ بدر لڑے ہوئے تھے۔ اصحابِ بدر جنگ بدر کی برکت سے اللہ کے یہاں مقبول ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی سفارش فرمائی اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ آیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی جس کے ترجمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اے صدیق کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ میرا بدری صحابی جس نے جنگِ بدر لڑی ہے، تم اس کی خطا معاف کردو اور میں قیامت کے دن تمہیں معاف کردوں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت صدیق اکبر نے اپنی قسم توڑ دی اور اس کا کفارہ ادا کیا اور دوسری قسم اُٹھائی کہ وَاللّٰہِ اِنِّیْ اُحِبُّ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لِیْ اللہ کی قسم میں محبوب رکھتا ہوں کہ اللہ مجھے معاف کردے اور میں اپنے عزیز کی خطا کو معاف کرتا ہوں اور فرمایا اب میں پہلے سے بھی زیادہ ان پر احسان کروں گا۔ یہ ہے وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ اللہ کے خاص بندے وہ ہیں جو لوگوں کی خطائوں کو معاف کردیتے ہیں اس کے بعد وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ہے کہ معاف کرنے کے بعد اس پر کچھ احسان بھی کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو محبو رکھتے ہیں۔ 59:37) یہ واقعات ایسے ہی نہیں ہیں آج ہی اللہ سے معافی مانگیں جس کو ستایا ہے اُس سے معافی مانگیں،والدین سے معافی مانگ لیں۔۔ 01:01:13) لیکن تکبر اور فرعونیت جب بھری ہو تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتیں۔۔ |