رمضان مجلس  ۲۵۔ اپریل   ۲۰۲۱بعد تراویح :خانقاہ سے کیا مراد ہے ؟

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:22) ہر سمعنا قبول نہیں ہے کفار نے بھی سمعنا کہا تھا لیکن واطعنا نہیں کہا کہ اطاعت نہیں کریں گے۔۔

02:28) کسی نے پرچہ دیا تھا کہ بیان سننے کا فائدہ کیا یاد ہی نہیں رہتا پھر حضرت شیخ نے نصیحت فرمائی کہ پہلے روزے کو کیا کھایا  تھا افطاری میں...یاد ہے !نہیں..تو اُس کی طاقت موجود ہے یا نہیں..جب رزق کی طاقت تو موجو د اللہ کے نام کا کوئی اثر نہ ہو۔۔

03:48) اللہ کے نام کی خوشبو موجو د رہتی ہے ۔۔

05:04) شراب کا گناہ..چاہے پینا ہو پیک کرنا ہو بیچنا ہو سب بہت بڑے گناہ ہیں۔۔

05:25) رمضان میں بھی سب گناہ ہورہے ہیں جبکہ شیطان قید ہوچکے کیوں؟۔

06:39) عبادات کی کمی نہیں۔۔

10:30) شریعت و سنت کی پٹری۔۔

۔ 11:39) رمضان شریف کا مقصد تقوی ہے اور تقوی کا حصول کیسے ہو گا۔۔دو کام کرلیں ایک آنکھ کی حفاظت اور دل کی حفاظت۔۔

17:01) نظر کی حفاظت کا حکم قرآن پاک کا ہے اور مرد و عورت دونو ں کے لیے حکم ہے۔۔

17:30) جس کو اللہ تعالی ہلاک کرنا چاہتے ہیں اُس سے حیاء کو چھین لیتے ہیں۔۔

20:05) افطار کی بھی دعوت ہو اور پردہ نہ ہو تو ایسی دعوت میں جانا جائز نہیں۔

۔ 23:18) جو جس چیز کے لیے محنت کرے گا وہ ملے گی اگر دنیا کے لیے محنت کرے گا تو دنیا ملے گیاگر اللہ والا بننے کی محنت کرے گا تو دنیا بھی ملے گی اور آخرت بھی۔۔

24:03) اللہ کی رحمت سے دور ہوگی جو دوسروں کی بہو بیٹیوں کو دیکھتے ہیں۔۔

24:35) ۳؍ربیع الاوّل ۱۴۱۴؁ھ مطابق ۱۱؍ستمبر ۱۹۹۳؁، بروز ہفتہ آج صبح ساڑھے گیارہ بجے مولانا عمر فاروق صاحب احقر کے کمرے میں آئے۔۔

27:10) احقر سفر نامہ لکھ رہا تھا، انہوں نے بتایا کہ مولانا رشید بزرگ صاحب آئے تھے اور حضرت والا کے ساتھ ابھی ابھی لی مارک کی پہاڑیوں کی سیر کے لیے روانہ ہوئے ہیں اور حضرت والا دامت برکاتہم نے احقر کے لیے فرمایا ہے کہ مولانا دائود کے ساتھ آجائے۔مولانا دائود صاحب کچھ ضروری کاموں سے فارغ ہو کر تقریباً بارہ بجے خانقاہ سے روانہ ہوئے۔

27:45) اصلی خانقاہ۔۔ جہاں اللہ کی محبت سکھائی جائے بس وہی ہے اصلی خانقاہ۔۔

28:58) کار میں ان کے ساتھ احقر اور الیاس صوفی صاحب تھے۔ مولانا عمر فاروق اور حسن پٹیل صاحب ہم سے پہلے جاچکے تھے، تقریباً دس منٹ بعد ہماری کار پہاڑی راستوں سے گذر رہی تھی۔ آج موسم قدرے گرم تھا اور پہاڑ کی سیر کے لیے نہایت موزوں،جتنی بلندی کی طرف ہم بڑھتے جاتے تھے منظر خوش نما ہوتا جاتا تھا۔ دور نیچے سمندر نظر آرہا تھااور چاروں طرف سبزہ سے لدے ہوئے بلند قامت پہاڑ اور ان کے وسیع قدرتی سبزہ زار گویا زمین پر مخمل بچھا ہوا تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹہ کی کوہ پیمائی کے بعد پہاڑوں کی بلندیوں پر سرو قد درختوں کی قطاریں نظر آئیں اور نہایت ہلکا کہر سبزپوش پہاڑوں پر مثل آنچل کے گررہا تھا لیکن اتنا ہلکا تھا کہ منظر صاف نظر آرہا تھا۔ ایک بجے کے قریب ہم منزلِ مقصود پر پہنچ گئے اور الحمدللہ وہاںمحبی ومحبوبی و مرشدی عارف باﷲ حضرت والا دامت برکاتہم کو پالیا ورنہ اب تک ان مناظر میں احقرکوکچھ مزہ نہیں آرہاتھا۔ حضرت والا کے بغیر احقر کو کوئی چیز اچھی نہیں لگتی اور دوستوں کے ساتھ بھی تنہائی محسوس ہورہی تھی اور احقر کو اپنے یہ شعر یاد آرہے تھے جو کسی زمانے میں حضرت کی یاد میں کہے تھے سامنے تم ہو تو دنیا ہے مجھے خُلدِ بریں اور قیامت کا سماں تم سے بچھڑ جانے میں پاس اگر تم ہو تو ہے آباد ویرانہ مرا ورنہ آبادی بھی شامل میرے ویرانے میں ہے۔۔

32:01) گیا حسن خوبانِ دلخواہ کا ہمیشہ رہے نام اللہ کا

33:49) اس مقام کانام فرانسیسی زبان میں Fennets ہے اس کا ترجمہ ہے کھڑکی۔ کیونکہ یہ پہاڑ اتنی بلندی پر ہے کہ یہاں سے تمام پہاڑوں کی چوٹیاں ایسی نظر آتی ہیں جیسے بلند چھت کی کھڑکی سے میدان، علاوہ ری یونین کے بلند ترین سیاہ پہاڑکے کہ وہ اس سے بھی بلند ہے۔ حضرت والا نے احقر سے فرمایا کہ وہاں سامنے جا کر دیکھو کیا منظر ہے اور اﷲ تعالیٰ سے جنت مانگ لوکہ یہ دنیائے فانی جب ایسی حسین بنائی ہے تو جنت کیسی ہوگی۔

35:04) حسین مناظر دیکھ کر ایک دعا کی تعلیم:۔ پھر حضرت والا رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ مناظر لاکھ حسین ہوں لیکن ایک دن فنا ہونے والے ہیں، قیامت کا زلزلہ ان کو تباہ کر دے گالہٰذا ان سے دل نہ لگائو۔ حسنِ تباہ سے بس نباہ کرلو، ان کو دیکھ کر اﷲ تعالیٰ سے جنت مانگ لو: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ وَمَا قَرَّبَ اِلَیْھَا مِنْ قَوْلٍ اَوْ عَمَلٍ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ اِلَیْھَا مِنْ قَوْلٍ اَوْ عَمَلٍ احقر نے عرض کیا کہ حضرت والا نے ایک بار فرمایا تھا کہ جس دنیا سے ہمیشہ کے لیے جانا اور پھر لوٹ کر کبھی نہ آنا ایسی دنیا سے دل کا کیا لگانا۔ اس ارشادِ مبارک کو احقر نے منظوم کردیا تھا اگر اجازت ہو تو یہاں کے احباب کو سنادوں؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ ضرور سُنائو۔پھر احقر نے یہ ملفوظِ منظوم سُنایا جس کو سب حضرات نے پسند فرمایا ؎ جس جہاں سے ہمیشہ کو جانا اور کبھی لوٹ کر پھر نہ آنا یہ ہے ارشادِ قطبِ زمانہ ایسی دنیا سے کیا دل لگانا

37:41) اﷲ تعالیٰ سے جنت مانگ لوکہ یہ دنیائے فانی جب ایسی حسین بنائی ہے تو جنت کیسی ہوگی۔ یہ پہاڑاوردرخت اور یہ خوشنما مناظر تو زلزلۂ قیامت کی زد میں ہیں، ایک دن قیامت کا زلزلہ ان کو ختم کردے گا لہٰذا اﷲ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو کہ اے اﷲ! ہم آپ سے جنت مانگتے ہیں اور ان اعمال کی توفیق بھی جو جنت میں لے جانے والے ہیں اور دوزخ سے پناہ چاہتے ہیں اور ان اعمال سے بھی جو دوزخ میں لے جانے والے ہیں، جنت کا ہمارا استحقاق تو نہیں ہے لیکن دوزخ کے عذاب کا تحمل نہیں ہے۔ اس لیے بدونِ استحقاق محض اپنے کرم سے ہم سب کو جنت نصیب فرمادیں، آمین۔

38:45) احقر نے آگے بڑھ کر جب بلندی سے نیچے کی طرف دیکھا تو اتنا حسین منظر پہلے کبھی نگاہوں سے نہیں گذرا تھا۔ نیچے سبز پوش پہاڑوں کے ساکت و خاموش عظیم القامت خیمے جا بجا پہلو بہ پہلو گڑے ہوئے تھے اور گہرائی در گہرائی میں سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی سڑکیں اتنی چھوٹی معلوم ہورہی تھیں جیسے بچوں کے کھلونے ہوں اور سامنے ری یونین کا سب سے بلند اور طویل و عریض سیاہ پہاڑ جس کی بلندیاں کہر آلود تھیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ آسمان پر کوئی بادل ہے اور چاروں طرف ایک ھو کا عالم۔ کان لگا کر غور سے سننے سے دور دراز چشموں کی ہلکی ہلکی دلکش آواز فضا کی خاموشی کی ہمنوا تھی اور سارے مناظر پر تنہائی برس رہی تھی اور کسی شاعر نے شاید کسی ایسی ہی خیالی بستی کے لیے یہ شعر کہے تھے جو اس وقت احقر کو یا د آرہے تھے۔۔

42:14) سارے مناظر پر تنہائی برس رہی تھی اور کسی شاعر نے شاید کسی ایسی ہی خیالی بستی کے لیے یہ شعر کہے تھے جو اس وقت احقر کو یا د آرہے تھے ؎ آفاق کے اُس پار اک اس طرح کی بستی ہو صدیوں سے جو انساں کی صورت کو ترستی ہو اور اس کے مناظر پر تنہائی برستی ہو یوں ہو تو وہیں لے چل اے عشق کہیں لے چل

44:51) موسم میں خوشگوار ہلکی سی خنکی تھی۔ اب کچھ بھوک بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس منظر کے عین مقابل میں زمین پر دریاں اور چٹائیاں بچھا دی گئیں اور چا ئے، بسکٹ، مٹھائی اور پھل وغیرہ سے ضیافت کی گئی جو مولانا دائود صاحب ساتھ لائے تھے۔

46:35) لذت ذکر نام خدا والے اشعار حضرت شیخ نے پڑھ کر سنائے

48:32) حدیث پاک:۔ حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گذرا۔ آپ ﷺ نے ایک شخص سے جو آپ ﷺ کے پاس بیٹھا تھا پوچھااس شخص کی نسبت جو ابھی گذرا ہے تمھاری کیا رائے ہے ۔اس نے عرض کیا یہ شخص شریف آدمیوں میں سے ہے اور اللہ کی قسم اس قابل ہے کہ اگر کسی عورت کو نکاح کا پیام دے تو اس کے پیام کو قبول کر لیا جائے اورکسی کی (حکام)سے سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول کی جائے یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خاموش ہو رہے ۔ پھر ایک اورشخص آپ ﷺ کے پاس سے گذرا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسی شخص سے پوچھا اور اس شخص کے متعلق تمھاری کیارائے ہے ۔اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ شخص مسلمان فقراء میں سے ہے یہ اس لائق ہے کہ اگر کسی نکا ح کا پیام دے تو اس کا پیام قبول نہ کیاجائے اورکسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے کسی سے کوئی بات کہے تو اس کی نہ سنی جائے ۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا یہ شخص اس جیسے دنیا بھرے ہوئے آدمیوں سے بہتر ہے جس کی تو نے تعریف کی۔

52:09) تشریح:۔ یہ ارشاد کہ ’’یہ شخص اس جیسے دنیا بھر کے آدمیوں سے بہتر ہے ‘‘ مرتبہ میں تو ظاہر یہ ہے کہ حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جس کے متعلق یہ فرمایا وہ غنی (مالدار) ہو گا اور ایسی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ فقیر بسبب صفائی قلب کے پروردگار کے احکام کو جلد قبول کرتا ہے اور اغنیاء حق بات کے قبول کرنے سے سرکشی اور استغناء اور تکبر کرتے ہیں اور یہ مشاہدہ ہے کہ علماء اور بزرگان دین کے شاگردوں اورمریدوں میں زیادہ تر فقراء ہوتے ہیں جو حق کو جلد قبول کر لیتے ہیں ۔ حدیث شریف میں شخص اول غنی تھا اور مومن تھا۔ کافروں سے نہ تھا کیوںکہ مفاضلہ کافر اورمومن میں نہیں ہوتا۔ کافر میں خیر کی نسبت کرنا جائز نہیں مومن مومن میں تفاضل ہوتا ہے۔ (مظاہر حق ص۷۳۶َ، ۷۳۷، ج۴)

59:15) روزے کی فضیلت پر حدیث پاک۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries