رمضان جمعہ بیان ۷ مئی۲۰۲۱ :توبہ ،معافی اور اللہ کی رحمت          !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:20) حضرت شیخ نےبیان کے لیے خطبہ ارشاد فرمایا۔۔

01:48) معافی سے دور نہیں بھاگنا چاہیے۔۔

02:56) جو جتنا اللہ تعالی کا پیارا ہوتا ہے تو اُس کا معاملہ بھی ویسا ہوتا ہے۔۔

03:57) اللہ تعالی کے پاس نیا پرانا نہیں چلتا۔

10:50) قرآن پاک کے وعدے پر ہم یقین کرتے ہیں لیکن صرف زبان پر ہے دل میں نہیں اترا یہ دل میں اترنا اصلاحی بیانات سے ہوگا۔۔

11:34) ہر دعا قبول ہوتی ہے لیکن قبولیت کے انداز الگ ہیں۔۔

13:06) حضرت یوسف علیہ السلام کا مختصر واقعہ اور پھر نصیحت۔۔

14:10) واقعہ سے کیا سبق ملا۔۔

17:55) آج گھر گھر میں لڑائی جھگڑے۔۔

23:01) ایسے ایسے علاقے ہیں جہاں سگے بھائی کو قتل کردیا یہاں تک کہ والد صاحب کو نہیں چھوڑا ہر وقت بارود کے ڈھیر میں بیٹھے ہیں۔۔

23:49) عورتوں کی فضیلت کہ آپ شہزادیاں ہیں گھر میں بیٹھیں یہ نعرہ مت لگائیں کہ مرد عورت برابر۔۔

27:15) حضرت یعقوب علیہ السلام نے چالیس سال تک دعا مانگی یہاں تک کہ بینائی چلی گئی۔۔

31:55) اللہ تعالی کی معافی کیسی ہے ایک مشین کی مثال دے کر فرمایا۔

32:19) اپنے گناہوں کو مت دیکھیں اللہ تعالی کی رحمت کو دیکھیں۔۔

36:06) موت کا مراقبہ۔۔

36:49) قضاء کے سامنے بے کار ہوتے ہیں حواس اکبرؔ کھلی ہوتی ہیں گو آنکھیں مگر بینا نہیں ہوتیں جب موت آجاتی ہے تو مردہ کی آنکھ کھول کر بیوی کہے کہ ہم کو ایک نظر دیکھ لو تو مردہ کی آنکھ کھلی ہوتی ہے مگر کچھ نظر نہیں آتا، بچے کہتے ہیں کہ ابا جان مجھے دیکھ لو مگر ابا جان اب انہیں دیکھ سکتے...ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ مرکر ساری خواہشات کو چھوڑنا پڑے گا لیکن اب اس پر کوئی اجر نہیں ہے کیونکہ یہ مجبوری کا چھوڑنا ہے لہٰذا جیتے جی ہم زندگی خدا پر فدا کردیں، جیتے جی بری خواہشات کو ترک کردیں۔۔

38:55) دبا کر قبر میں چل دیئے نہ دعا نہ سلام یہ پل بھر میں کیا ہوگیا زمانے کو اور ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے تہہِ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے۔۔

39:55) آج ہم توبہ کرلیں۔۔

41:21) حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی معافی کا واقعہ:۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی اپنے بھائیوں کو معاف کردیا تھا، باپ نے بھی معاف کردیا تھا لیکن بیٹوں نے کہا کہ اباجان! آپ نے اور بھائی یوسف نے تو معاف کردیا لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے پکڑ لیا تو کیا ہوگا؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے بھی ہماری معافی کرادیجئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کئی دن تک روتے رہے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے بیٹوں کے لئے معافی طلب کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آگئے۔انہوں نے آکرکہا کہ یعقوب علیہ السلام! مبارک ہو اللہ تعالیٰ نے آپ کے بیٹوں کو معاف کردیا جنہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا تھا۔ لیکن کیسے معاف کیا؟ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت یعقوب علیہ السلام سے فرمایا کہ سب سے پہلے میں کھڑا ہوتا ہوں، میرے پیچھے آپ کھڑے ہوں، آپ کے پیچھے یوسف علیہ السلام، پھر ان کے پیچھے سب بھائی کھڑے ہوں اور اس کے بعد یہ دعا پڑھئے۔دیکھو یہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی لائی ہوئی دعا ہے،آسان دعا ہے:۔ {یَاغَیَّاثَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَغِثْنَا} اے ایمان والوں کی فریاد سننے والے! ہماری فریاد سن لیجئے۔

44:59) حضرت عثمان رضی اللہ کا مبارک تذکرہ شہادت کا مختصر تذکرہ۔۔۔

46:07) {یَارَجَائَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَاتَقْطَعْ اے ایمان والوں کی امید! آپ ہماری امیدوں کو نہ کاٹیئے یعنی ہم کو مایوس نہ کیجئے۔ {یَامُعِیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِثَّا} اے ایمان والوں کی مدد کرنے والے! ہماری مدد کیجئے۔

47:26) {یَامُحِبَّ التَّوَّابِیْنَ تُبْ عَلَیْنَا} اے توبہ کرنے والوں کو محبوب اور پیارا بنانے والے! ہماری توبہ قبول فرمالے، ہم پر مہربانی کردے۔ قرآنِ پاک کی آیت بھی ہے کہ : {اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ} اللہ تو بہ کرنے والے کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں۔

50:41) لیلۃ القدر سے متعلق ایک مضمون بیان فرمایا ۔۔ لیلۃ القدر کی فضیلت تو اب آپ لوگ کہیں گے کہ اس رات کی آخر فضیلت کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ رات ایک ہزار مہینوں سے زیادہ افضل ہے ﴿ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ﴾ اسی لیے اس رات کو شب قدر کہتے ہیں۔ حضرت تھانوی h بیان القرآن میں، تفسیر خازن کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ اگر کوئی ایک ہزار مہینوں تک عبادت کرے اورکوئی صرف آج کی رات عبادت کرلے تو آج کی رات کی عبادت ایک ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہوجائے گی، اور کتنی افضل ہوگی اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ دیکھا آپ نے آج کی رات میں کتنی خیر ہے

01:07:19) دین کی سمجھ بہت بڑی بات ہے۔۔

01:10:16) شب قدر میں دعا حدیث ’’اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ‘‘ کی عاشقانہ شرح ’’اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ‘‘ ’’اے اللہ! آپ بہت معافی دینے والے ہیں اور بہت کریم ہیں‘‘ یعنی نالائقوں کو بھی معاف کرنے والے ہیں، جو اس درجہ نالائق ہو کہ گناہ کرتے کرتے اس قابل ہوگیا ہو کہ معافی کے قابل بھی نہ رہا ہو، ایسوں کو بھی مہربانی سے محروم نہ کرنے کا نام کرم ہے، لہٰذا سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم کو یہ سکھایا کہ ’’عَفُوٌّ‘‘ کے بعد کریم بھی کہو کہ اے اللہ! اگرچہ ہم اپنی مسلسل نالائقیوں سے، مسلسل بے وفائیوں سے اور بے غیرتی کے اعمال سے آپ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں اور اس قابل نہیں ہیں کہ آپ ہمیں معاف فرمادیں لیکن آپ کریم ہیں او رکریم کے معنی یہ ہیں کہ جو نالائقوں کو بھی اپنی مہربانی سے محروم نہ کرے، اس لیے آپ ہم پر رحم فرماکر دیجئے۔ اپنے کرم سے ہم کو محروم نہ کیجئے کیونکہ آپ کریم ہیں اور کریم نالائقوں کو بھی محروم نہیں کرتا۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries