رمضان مجلس۷مئی۲۰۲۱بعد تراویح:اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا    !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

05:38) یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔۔۔الغيبة اشد من الزنا۔۔۔۔حضرت والا رحمہ اللہ کے درد ِدل کا تذکرہ۔۔۔۔۔۔حضرت والا رحمہ اللہ کی نیند کم ہوتی تھی اگر کوئی کہے دیتا تو سخت ڈانٹ دیتے کہ اندھی بوڑھیا مت بنو۔۔۔۔۔۔۔

05:39) ایمان کا تقاضا یہ ہیکہ گناہ نہ کریں۔۔۔جسم روح کے تابع ہے۔۔۔۔۔۔۔روح کی غذا اللہ کی یاد ہے اور نفس کی غذا گناہ ہیں۔۔۔۔۔نفس سے متعلق مولانا رومی رحمہ اللہ کی مثال۔۔۔۔۔

12:45) اگر ساری دنیا مچھر کے پر برابر۔۔

13:41) سونے اور چاندی کی تختیاں بنائی جائیں گی دوزخ میں عبرتناک وعید۔۔

18:55) وراثت پر اہم نصیحت۔

23:58) حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمہ اللہ کی کتاب فضائل رمضان سے ایک حدیث پاک پڑھ کر سنائی۔۔

25:42) مسلمان کی شان یہ نہیں کہ اُس سے کبیرہ گناہ ہوجائے اگر ہوجائے تو مسلمان کی شان یہ ہے کہ فورا توبہ کرکے پاک و صاف ہوجائے۔

27:18) قلب سلیم کی کل دو تفسیر بیان ہوچکیں:۔ دوبارہ مختصر بیان فرمایا:۔ اب قلب سلیم کیسے ہوگا؟ اس کے پانچ راستے دو کیا تھے جو کل بیان ہوئے۔ قلب سلیم کے پانچ راستے (۱)الذی ینفق مالہ فی سبیل البر جو اللہ کے راستے میں مال خرچ کرتا ہے، چونکہ اسے یقین ہے کہ وہاں ملے گا، خرچ نہیں ہورہا بلکہ اللہ کے یہاں جمع ہورہا ہے۔

31:05) جو ہمارے علماء کا اکرام نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔۔

33:45) جو اللہ نے حدود بنائی ہے اُ س کے قریب بھی مت جانا۔۔

38:33) کون سا مال کام نہ آئے گا۔۔

38:50) مال و اولاد کام نہ آئے گا ما ل کا بتادیا دوسرا اولاد کون سی کام نہ آئے گی۔۔ (۲)الذی یرشد بنیہ الی الحق جو اپنی اولاد کو بھی نیک بنائے۔

40:49) لا من اتی اللّٰہ بقلب سلیم۔ مگر جو قلب سلیم اللہ تعالیٰ کے یہاں پیش کرے گا جنت قیامت کے دن بغیر عذاب اسی کو ملے گی۔ بغیر حساب بخشا جائے گا۔ اب قلب سلیم کیسے ہوگا؟ غلط عقیدوں سے پاکی (۳)الذی یکون قلبہ خالیا عن العقائد الباطلہ جس کا دل باطل عقیدوں سے پاک ہو، ایسا عقیدہ نہ ہو کہ پیروں سے بیٹا وغیرہ مانگنے لگے۔۔

43:05) خدا فرماچکا قرآں کے اندر مرے محتاج ہیں پیر و پیمبر وہ کیا ہے جو نہیں ہوتا خدا سے جسے تو مانگتا ہے اولیاء سے جسے تو مانگتا ہے اولیاء سے اور سنت کے خلاف جو پیر چلے اگر وہ ہوا پر اُڑتا ہو تو اس کو شیطان سمجھو..اگر کوئی پیر فقیر کرامت دکھاوے ہوا پر اڑنے لگے مگر ڈاڑھی نہیں رکھتا، نماز نہیں پڑھتا، سنت کے خلاف زندگی ہے۔۔

46:07) اچھے اور برے خواب کے وقت کیا کرنا ہے۔۔

46:28) خواہشات کا غلبہ نہ ہو:۔ (۴)الذی یکون قلبہ خالیا عن غلبۃ الشہوات۔ جس کا دل شہوتوں کے غلبہ سے پاک ہو۔۔ریا تکبر،حسد،بدنظری،لڑکے لڑکیوں سے پاک ہوجائے۔۔

50:16) پہلے اپنی فکر کرنی ہے بیان کرنا اللہ کی نعمت ہے لیکن اصل بیان پر عمل ہے۔۔

51:59) محبت اور اطاعت کا جذبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں کیسا تھا۔۔

53:10) ’’اَلْمَرْأَ ۃُ کَالضِّلْعِ ’’اِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِھَا اسْتَمْتَعْتَ بِھَا وَفِیْھَا عِوَجٌ‘‘ جیسے ٹیڑھی پسلیاں کام دے رہی ہیں ایسے ہی ان سے کام چلاتے رہو، ان کے ٹیڑھے پن پر صبر کرتے رہ، اگر تم ان کو سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ بیٹھو گے۔ ’’اَلْمَرْأَ ۃُ کَالضِّلْعِ پرحضرت والا رحمہ اللہ کی ایک اہم نصیحت ۔۔

57:37) نا محرم سے بغیر شرعی عذر کے بار کرنا زبان کا زنا ہے اور دیکھنا آنکھ کا زنا ہے۔

58:01) بوڑھوں کو زیادہ احتیاط کرنا ہے۔

59:50) جو جس حال میں مرے گا اُسی حال میں اٹھایا جائے گا ایک عبرتناک واقعہ۔۔۔

01:00:19) نظر کی حفاظت کا اعلان اللہ تعالی کا اعلان ہے۔۔

01:05:20) سمارٹ فون نے آج ہمیں کہاں پہنچادیا کہ چار بچوں کی ماں بچوں کو چھوڑ کر بھاگ گئی۔۔

01:08:06) سارے گناہ گندم کا فساد ہیں۔۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ کی تفسیر:۔ فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ کے معنی ہیں: ’’اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِاِجَالَۃِ النَّظَرِ‘‘، جَالَ یَجُوْلُ معنی گھومنا، اَجَالَ یُجَالُ معنی گھمانا۔ تو جب تم نظر کو گھما گھاکے اِدھر اُدھر دیکھتے ہو تو اللہ تعالیٰ بھی تم کو دیکھ رہا ہے کہ یہ نالائق آنکھوں کو کہاں استعمال کررہا ہے، میں اس کو دیکھتا ہوں اور یہ کہیں اور دیکھ رہا ہے ؎ جو کرتا ہے تو چھپ کے اہلِ جہاں سے کوئی دیکھتا ہے تجھے آسماں سے دوسری تفسیر ہے: ’’اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِاسْتِعْمَالِ سَائِرِ الْحَوَاسِّ‘‘ جب تم بدنظری کرتے ہو تو تمہارے حواسِ خمسہ غیراللہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کان سے اس کی گفتگو سننے کو دل چاہتا ہے، زبان سے اس کو چاٹنے کو دل چاہتا ہے، ناک سے اس کو سونگھنے کو دل چاہتا ہے، ہاتھ سے اس کو چھونے کو دل چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس ڈیزائن سے بھی باخبر ہے

01:11:11) حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا مختصر تذکرہ۔

01:11:55) تیسری تفسیر ہے: ’’اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِتَحْرِیْکِ الجَوَارِحِ‘‘ اور تمہارے ہاتھ پیر بھی اس کے چکر میں آجاتے ہیں، ہاتھ سے اس کو خط لکھنے لگتے ہو اور پیر سے وہاں جانے لگتے ہو وغیرہ اور آخری تفسیر کیا ہے۔ ’’اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَقْصُدُوْنَ بِذَالِکَ‘‘ اس نظر سے جو تمہاری آخری منازل ہے یعنی بدکاری اور بدکاری کے ارادوں اور تمنائوں سے بھی اللہ تعالیٰ باخبر ہے کہ تم دل میں کیا سوچ رہے ہو۔

01:12:42) غیر اللہ سے دل پاک ہو (۵)الذی یکون قلبہ خالیا عما سوی اللّٰہ جس کا دل ماسویٰ اللہ سے خالی ہو۔ یعنی بیوی بچوں اور مال ودولت پر اللہ کی محبت غالب

آجائے 01:13:11) حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بھی جذب ہوئے۔۔

01:21:06) حضرت وحشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے جذب کا واقعہ:۔ جنگ ِاُحد میں سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو قتل کیا اور بہت بے دردی سے قتل کیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس دن اتنا دکھ ہوا کہ آپ نے فرمایا کہ اس کے بدلہ میں ستر کافروں کے ساتھ یہی معاملہ کروں گا اور خُدا کی قسم کھائی۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: {وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ} اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اگر آپ بدلہ لیں تو اتنا ہی بدلہ لے سکتیں ہیں جتنی آپ کو تکلیف پہنچائی گئی ۔ آپ بھی کسی ایک کافر کے ساتھ ایسا کریں۔ ایک یا چند کے بدلہ میں ستر کافروں کو نہیں مار سکتے لیکن ’’وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرُ لِّلصّٰبِرِیْنَ‘‘ اگر آپ صبر کریں تو یہ بہتر ہے ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالی نے صبر کو میرے لیے خیر فرمایا۔ اے صحابہ سن لو میں صبر اختیار کرتا ہوں اب کسی ایک سے بھی بدلہ نہیں لوں گا اور میں قسم توڑتا ہوں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قسم کا کفارہ ادا فرمایا

01:22:02) اب کچھ عرصہ بعد حضرت وحشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ کو اب اسلام پیش کیا جا رہا ہے۔ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت دینے کے لیے پیغام بھیجا کہ اے وحشی ایمان لے آئو تو انہوںنے رسول خُدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی طر ف جواب بھیجا۔ ذرا دیکھئے پیغامات کے تبادلے ہو رہے ہیں۔ کیا پیغام بھیجا کہ آپ جانتے ہیں ۔ ’’ان من قتل او اشرک او زنی‘‘جو شرک کرے گا ، قتل کرے گا، زنا کرے گاآپ جانتے ہیں کہ اس کے بارے میں آپ کے خُدا نے یہ نازل کیا ہے{وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًاo یُّضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ} وہ اﷲ کے یہاں مجرم ہے۔ اس کو سزا بھگتنا پڑے گی اوراس کو ڈبل عذاب دیا جائے گا۔ حضرت وحشی حالت کُفر میں قرآن پاک کا حوالہ دے رہے ہیں۔میں نے تو ان میں سے کوئی کام بھی نہیں چھوڑا۔ قتل بھی ایسے شخص کو کیا جو اسلام میں سب سے محترم شخصیت تھی۔ میں اُس کا قاتل ہوں اور گناہ کے سب کام کیے۔ ﷲ تعالیٰ نے وحشی کے اسلام کے لیے دو آیت نازل فرمائی۔ دیکھئے یہ اﷲ تعالیٰ کا کرم ہے۔ ایسے مبغوض، ایسے مجرم، رسول خُدا کے چچا کے قاتل پر اﷲ تعالیٰ کی رحمت برس رہی ہے۔ کیا ٹھکانہ ہے اس کے حلم کا! دوسری آیت نازل ہو رہی ہے ان کے اسلام کے لیے: {اِلاَّ مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً} اے رسول خدا وحشی کو آپ پیغام دے دیں کہ اگر وہ توبہ کرلیں اور ایمان لائیں اور صالح عمل کرتے رہیں تو میں ان کے ایمان اور اسلام کو قبول کرتا ہوں۔ دنیا میں ہے کوئی ایسا حلم والا جو اپنے محبوب عزیز کے قاتل کو اس طرح بخشے گا۔ سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس آیت کو جب اُنکے پاس بھیجا تو اس پر ان کا پیغام سُنئے۔

01:25:02) کہتے ہیں ’’ھٰذَا شَرْطٌ شَدِیْدٌ‘‘ یہ تو بڑی سخت شرط ہے کیوں کہ میں توبہ کر سکتا ہوں، ایمان لا سکتا ہوں۔ لیکن ’’وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً‘‘ ساری زند گی نیک عمل کرتا رہوں اس میں ذرا مجھے اپنے بارے میں اعتماد نہیں ہے میں شاید اس پر قادر نہ ہو سکوں۔ اب تیسری آیت نازل ہورہی ہے۔ دیکھئے اﷲ تعالیٰ ایسے شخص کے اسلام کے لیے ، بدترین مجرم کے لیے آیت پر آیت نازل فرما رہے ہیں اور یہ ناز نخرے دکھا رہے ہیں۔ ہے کوئی ایسا دل گردہ والا جو اپنے مجرم کے ناز نخرے برداشت کرے لیکن اﷲ تعالیٰ کی رحمتِ غیر محدود کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا کہ یہ ایمان لانے کے لیے شرطیں لگا رہے ہیں، پیغامات کے تبادلے ہورہے ہیں۔ اُن کے لیے قرآن کی آیات لے کر جبرئیل علیہ السلام کی آمد و رفت ہورہی ہے۔ اﷲ اکبر کیا ٹھکانہ ہے ان کی رحمت کا ۔ تیسری آیت کیا نازل فرمائی: {اِنَّ اﷲَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآء کہتے ہیں ’’ھٰذَا شَرْطٌ شَدِیْدٌ‘‘ یہ تو بڑی سخت شرط ہے کیوں کہ میں توبہ کر سکتا ہوں، ایمان لا سکتا ہوں۔ لیکن ’’وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً‘‘ ساری زند گی نیک عمل کرتا رہوں اس میں ذرا مجھے اپنے بارے میں اعتماد نہیں ہے ۔۔۔

01:27:14) اب ان کا جواب سنئے۔ پھر پیغام کا تبادلہ ہورہا ہے۔ کہتے ہیں اَرَانِیْ بَعْدُ فِیْ شُبْھَۃٍ میں ابھی شبہ میں ہوں کیوں کہ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے مغفرت کی آزادی نہیں دی بلکہ مغفرت کو اپنی مشیت سے مقید کردیا کہ جس کو میں چاہوں گا اس کو بخش دوں گا۔ مجھے کیا پتہ کہ اﷲ تعالیٰ کی مشیت میرے لیے ہوگی یا نہیں، وہ میرے لیے مغفرت چاہیں گے یا نہیں ’’فَلاَ اَدْرِیْ یَغْفِرُ لِی اَمْ لاَ؟ پس میں نہیں جانتا کہ وہ مجھے بخشیں گے یا نہیں۔ بتائیے پیغامات کے تبادلے سن رہے ہیں آپ لوگ۔ کیا یہ حق تعالیٰ کا جذب نہیں ہے؟ یہ اُنہیں کا جذب ہے۔ حضرت وحشی کوبھی ابھی خبر نہیںکہ اﷲ تعالیٰ انہیں جذب فرمارہے ہیں اب جوتھی آیت نازل ہورہی ہے: {قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَۃِ اﷲِ اِ نَّ اﷲَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ 01:29:06) اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ‘‘ اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم آپ میرے گناہگار بندوں کو بتا دیجئے کہ اے میرے بندوں جنہوں نے اپنے اوپر زیادتیاں کرلیں، ظلم کر لیے، بے شمار گناہ کر لیے’’لاَ تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَۃِ اﷲِ‘‘ تم میری رحمت سے نا امید نہ ہو ’’اِنَّ اﷲَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا‘‘ یقینا اﷲ تمام گناہوں کو معاف فرمادے گا۔

01:30:05) اِس آیت کے نزول کے بعد کیا ہوا۔ اب تبادلۂ پیغامات کا نقشہ بدل گیا حضرت وحشی کا کام بن گیا ۔ کہا نعم ہذا یہ بہت اچھی آیت ہے پھر آئے اور اسلام قبول کر لیا۔ صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم’’ ہٰذَا لَہٗ خَاصَّۃٌ اَمْ لِلْمُسْلِمِیْنَ عَامَّۃٌ‘‘کیا یہ آیت وحشی کے لیے خاص ہے یا سارے عالم کے مسلمانوں کے لیے ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا ’’بَلْ لِلْمُسْلِمیْنَ عَامَّۃٌ‘‘ قیامت تک کے تمام مسلمانوں کے لیے اﷲ کا یہ فضل عام ہے۔ ابا جب بچہ کی خطائوں کو معاف کردیتا ہے تو باپ کی ناراضگی سے اس کی جو ذلت اور رسوائی ہوتی ہے، ہر طرف چرچا ہوتا ہے کہ بڑا نالائق بیٹا ہے تو پھر باپ یہی کہتا ہے کہ میرا بیٹا لائق ہے، اس نے معافی مانگ لی اور اس کو کوئی عہدہ دے دیتا ہے، یا کلفٹن کا کوئی بنگلہ دے دیتا ہے، یا کوئی زبردست مرسڈیز کار دے دیتا ہے یا کوئی فیکٹری اس کے نام لکھ دیتا ہے جس سے لوگ سمجھ جائیں کہ با پ نے اس کو پیار کرلیا۔ اب اﷲ تعالیٰ بھی حضرت وحشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نام ایک فیکٹری لکھ رہے ہیں۔ وہ کیا؟ نبوت کا جھوٹا دعو یٰ کرنے والا مسیلمہ کذاب جِس سے حضرت ابو بکرصدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کو جہاد کرنا پڑا س کو حضرت وحشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سے قتل کرادیا۔ اس وقت بہت سے بڑے بڑے صحابہ جرنیل تھے لیکن یہ نعمت حضرت وحشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی قسمت میں اﷲ تعالیٰ نے لکھی، یہ شرف اﷲ تعالیٰ کو حضرت وحشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دینا تھا کہ میرا یہ بندہ قاتلِ حمزہ رضی اﷲ عنہ ہے اسی کے ہاتھوں سے اب ایک ذلیل ترین شخصیت کو قتل کرادیا جائے تاکہ اس کی عزت قیامت تک امت کے اندر قائم ہوجائے، ہم اپنے اس رسوا اورذلیل بندہ کی قسمت کو بدلنا چاہتے ہیں ہم اس کی تاریخ بدلنا چاہتے ہیں ہم اس کی تاریخ کو سنہرے حروف سے لکھوانا چاہتے ہیں لہٰذا اس مسیلمہ کذاب کو حضرت وحشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں سے قتل کرادیا۔ اس کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ میں نے اپنے زمانہ ٔ کفر میں زمانہ ٔجاہلیت میں دنیا کے ایک بہترین انسان کو قتل کیا تھا اوراپنے زمانہ ٔ اسلام میں مَیں نے بدترین انسان کو قتل کیا جو نبوت کادشمن تھا اور جھوٹا نبی بنا ہوا تھا جس کو اﷲ تعالیٰ اپنا بناتا ہے اس کی بگڑی بنانا اﷲ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔۔

01:44:36) آخر میں درد بھری دعا۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries