رمضان مجلس۸مئی۲۰۲۱بعد تراویح : حسن کبھی برائے عذاب ہوتا ہے ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں 02:52) ایک امرد لڑکے نے اشعار پڑھنے کا اظہار کیا تو اس پر فرمایا کہ ابھی آپ امّرد ہوجب آپ تربوز ہو جاؤ گے تو پھر پرھائیں گے۔۔۔۔۔امردکسے کہتے ہیں؟۔۔۔۔۔ 02:53) ٹوپی پہننے پر ایک دوست کو نصیحت کہ ٹوپی کس طرح پہننی چاہیے۔۔۔۔۔۔ 03:42) ظاہری گناہوں سے بھی بچو اور باطنی گناہوں سے بھی بچو۔۔۔۔۔۔۔بچوں سے متعلق نصیحت۔۔۔۔۔۔۔ 08:34) علامہ شامی ابن عابدین نے آسان تعجد کا طریقہ بتایا کہ وتر سے پہلے دو رکعت اس نیت سے پڑھ لو۔۔۔۔۔ 11:05) حسن کبھی برائے عذاب ہوتا ہے۔۔۔ 11:45) علامہ شامی ابن عابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں فتاوی شامیہ میں۔۔ اَلْاَمْرَدُ الْحَسَنُ الَّذِیْ طَرَّ شَارِبُہ‘ وَلَمْ تَنْبُتْ لِحْیَتُہ‘ فَحُکْمُہ‘ کَحُکْمِ الْمَرْأۃِ لَا یَجُوْزُ النَّظَرُ مِنْ فَرْقِہٖ اِلٰی قَدَمِہٖ عنی امرد کا حکم مثل عورت کے ہے اس کو سر سے پائوں تک دیکھنا حرام ہے لہذاہم لوگ جتنا اللہ کا شکر کریں کم ہے کہ اللہ تعالی نے سچے اللہ والوں سے ہمیں جوڑدیا ورنہ نہ جانے کیاحال ہوتا۔ 13:08) آج جو لڑکے کے ساتھ گندا کام کرتا ہے لوگوں کو جب پتا چلتا ہے تو خوب اُس کو مارتے ہیں دانٹ توڑ دیتے ہیں جب لوگوں کو اتنا غصہ ہے تو اللہ تعالی کا کیا غصہ ہوگا ۔۔ 15:24) مونچھوں کے زیر سایہ لب یارچُھپ گئے داڑھی کے زیر سایہ وہ رُخسارچُھپ گئے بالوں کی سفیدی میں زُلف یارچُھپ گئے جتنے تھے یارِ حُسن وہ سب یار چُھپ گئے 16:53) حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ بہت حسین تھے، حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ درس میں ان کو پشت کے پیچھے بٹھاتے تھے تاکہ نگاہ نہ پڑے۔ علامہ شامی لکھتے ہیں: ’’ان ابا حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی کان یجلس امام محمد فی درسہ خلف ظہرہ مخافۃ عینہ مع کمال تقواہ۔‘‘ شامی لکھتے ہیں کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام محمد کو بوجہ غایت حسن اور شدت جمال کے درس میں اپنی پشت کے پیچھے بیٹھاتے تھے، اپنی نظر کے خوف سے باوجود یکہ آپ کمال درجہ کے متقی تھے۔ 23:22) حضرت شیخ نے جناب مصطفی صاحب سے آپ ﷺ کی محبت میں اشعار پڑھنے کا فرمایا۔ 41:35) حضرت شیخ نے نصوح کے جذب کا واقعہ بیان فرمایا۔۔ ایک شخص تھا،نصوح نام تھا اس کا حضرت نصوح کا واقعہ سنئے جو ایک گنہگار زندگی گذار رہے تھے۔ بڑے خوبصورت تھے، اور آواز بالکل عورتوں کی سی تھی۔حضرت نصوح کا واقعہ سنئے جو ایک گنہگار زندگی گذار رہے تھے۔ بڑے خوبصورت تھے، اور آواز بالکل عورتوں کی سی تھی۔ بس اس نے شہزادیوں اور بادشاہ کی بیویوں کو نہلانے دھلانے اور مالش کرنے کی نوکری کرلی۔ برقع اوڑھا کرتا تھا۔اس میں ذرا بھی ضعف اور کمزوری نہیں تھی۔ لہٰذا تمام عورتیں جتنی بیگمات کو نہلاتی دھلاتی تھی سب سے نمبر ون پاس ہوگیا کیونکہ یہ مرد تھا لہٰذایہ زیادہ طاقت اور زیادہ قوت اور ساتھ ساتھ اندر کی شہوت کے سبب ایسی مالش کرتا تھا کہ بیگمات نے سب خواتین نوکرانیوں سے کہہ دیا تھا کہ بیبیو تم مالش مت کرو۔ یہ جو بڑی بی بی آئی ہے بس ہم اسی سے مالش کروائیں گے۔ جنگل وہیں قریب تھا بیگمات کی مالش کرنے کے بعد اس جنگل میں جا کر رویا کرتا تھا کہ اے خدا ایک دن موت آئے گی پھر آپ کو کیا منہ دکھائوں گا؟ ادھر توبہ بھی کرتا اور ادھر مالش کا کام کر کے اپنے نفس کو خوب مزہ لینے کا موقع دیتا۔ توبہ کر کے آتا اور ادھر پھر وہی کام شروع کر دیتا، ہزاروں بار اس نے توبہ توڑدی لیکن ایک دن اﷲ تعالیٰ کے جذب کا وقت آگیا۔ دیکھئے جب جذب کا وقت آتا ہے تو اس کے راستے خود بخود کھلنے لگتے ہیں اب جذب کا وقت آگیا، اسی جنگل سے ایک عارف با اﷲ گذر رہے تھے اسی وقت نصوح کو تقاضا ہوا کہ جنگل چل کر آہ و فغاں کریں اور روئیں اﷲ سے۔ دیکھا کہ ایک عارف جا رہے ہیں... جذب کا وقت آگیا اور اسی وقت اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ ہوگیاکہ اسے ولی اﷲ بنانا ہے۔ اﷲ نے اس کو جذب کرلیا اور غیب سے اس کے لیے ایک راستہ نکالا اب جو واپس گیا تو بادشاہ کی جتنی بیبیاں تھیں ان میں سے ایک بیوی کا ہار گم ہوگیا اب ہار تلاش کرنے کے لیے اعلان کیا گیا کہ سب نوکرانیوں کے لباس اتار کر تلاشی لی جائے گی سب کو ترتیب وار ننگا کیا جا رہا ہے اور ہار کی تلاشی لی جارہی ہے اب ان نصوح صاحب کا کیا حال ہوا ب آٹھ دس لڑکیاں رہ گئیں اور اس کی باری آنے والی تھی تو اس کے دل میں اتنا خوف طاری ہوا کہ بس اﷲ تعالیٰ سے دُعا شروع کر دی اور رونا شروع کردیا کہ اے خدا آج اگر میری تلاشی لے لی گئی تومیں مرد ثابت ہوجائوں گا اور مجھے گردن تک زمین میں گاڑھ کر بادشاہ کتوں سے نچوادے گا اور مجھے ہلاک کروادے گا، اتنی سخت سزا دے گا جو میری برداشت سے باہر ہے لہٰذا اس کا مضمون سُنئے جو یہ خدا سے دُعا میں کہہ رہا ہے ؎ اے خدا ایں بندہ را رسوا مکن اے خدا اس بندہ کو رسوا نہ کیجئے آج ننگی تلاشی ہورہی ہے آج اگر میں پکڑا جائوںگا تو بادشاہ مجھے موت سے کم سزا نہیں دے گا اے خدا ایں بندہ را رسوا مکن گر بدم من سر من پیدا مکن اگرچہ میں نالائق و بدکار ہوں لیکن آج میرا راز آپ چھپا دیجئے، پردئہ ستّاریت میں مجھ کو پناہ دے دیجئے اگرآپ نے دامن ستاریت مجھ پر وا نہیں کیا تو آج میری وہ سزا ہوگی کہ تاریخ اس کو یاد رکھے گی۔ دوسرے شعر میں اس نے کہا کہ اب میں وعدہ کرتا ہوں اے خدا کہ جان دے دوں گا لیکن آپ کو ناراض نہیں گروں گا اگر آج آپ نے میری پردہ پوشی کرلی، ستاری کی اور میرا عیب چھپا دیا اے عظیم از ما گناہان عظیم اے اﷲ تیری عظمت بہت بڑی ہے اگر حرمِ کعبہ میں بھی ہم سے گناہ ہوجاتا تو بھی آپ معاف کرنے پر قادر ہیں اور اس جنگل میں مجھ سے جو گناہ ہوئے تو یہ کوئی چیز نہیں، لہٰذا اپنی عظمت کے صدقے میں آپ میرے گناہوں کو معاف کر دیجئے ؎ اے عظیم از ما گناہانِ عظیم تو توانی عفو کردن در حریم حریم کعبہ میں آپ گناہ کبیرہ معاف کرسکتے ہیں۔ میرے گناہ آپ کی عظمتوں کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کو رحم آگیا اور اس کو بے ہوش کردیا۔ اس خوف سے بے ہوش ہو کر گر گیا اور بے ہوشی میں اﷲ تعالیٰ نے اس کو جنت و دوزخ کا معائنہ کرادیا۔ اتنے میں ایک عورت کے پاس سے اس کا ہار مل گیا اور اعلان ہوگیا کہ ہار مل گیا، ہار مل گیا۔ یہ بے ہوش پڑا ہوا ہے اب ساری بیگمات اس کو پنکھا جھل رہی ہیں اپنی پیاری خادمہ کو یعنی حضرت خادم کو پنکھا جھل رہی ہیں اور اس کو جب ہوش آیا تو سب نے ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگی کہ ہم لوگوں کی نالائقی معاف کردو کہ تم کو اتنی تکلیف ہوئی کہ تم بے ہوش ہو گئیں۔ وہ تو عورت سمجھ رہی تیں، لیکن اس نے کہا اے بیبیو! میں تمہارے کام کی اب نہیں ہوں میرے ہاتھ پیر سے طاقت خدمت کی اب ختم ہوگئی۔ اس بے ہوشی سے مجھے ایک ضعف آگیا جس سے ہم تمہاری خدمت کے اب قابل نہیں رہے۔ مقصد یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے جنت دوزخ دکھا کر میرے ایمان کو اس مقام پر پہنچادیا ہے کہ اب میں نافرمانی کے قابل نہیں رہا اب اگر میں نافرمانی کرنا بھی چاہوں تو مجھ پر اتنی عظمت اور اتنا خوف طاری ہے کہ اب ہمت نہیں کہ میں اﷲ کے غضب کو اپنی حرام لذتوں سے خرید سکوں۔ 48:44) ایک چرواہے کی داستاں کا حضرت شیخ نے واقعہ بیان فرمایا پھر جناب سلمان سیف سے اسی واقعے سے متعلق اشعار پڑھنے کا فرمایا۔۔ 52:41) واقعہ: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک چرواہا بکری چراتا تھا، اس نے کہا کہ یا اﷲ اگر آپ مجھ کو مل جاتے تو میں آپ کے ہاتھ پیر دباتا، جہاں آپ بیٹھتے وہاں جھاڑو لگاتا، صفائی کرتا، آپ کے بالوں سے جوئیں نکالتا اور آٹے میں دودھ اور گھی ڈال کر روغنی روٹی پکا کر کھلاتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے ڈانٹا کہ اﷲ کا پیٹ نہیں ہے کہ وہ روغنی روٹی کھائے گا، اﷲ کے بال نہیں ہیں کہ اس میں جوئیں پڑگئی ہوں اور اﷲ کے ہاتھ پاؤں نہیں ہیں، اﷲ ان چیزوں سے پاک ہے۔ وہ حضرت موسیٰ کی ڈانٹ سے گھبرا کر بھاگ گیا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ! نادان لوگوں کا ادب اور ہے، پڑھے لکھوں کا ادب اور ہے، اس کو بلا لاؤ، مجھے اس کی بھولی بھولی باتیں اچھی لگ رہی تھیں۔۔۔ 54:52) واقعے کے بعد جناب سلمان سیف سے اشعار پڑھ کر سنائے۔۔ کتاب نمبر: ۱۰۳۳ آئینہ محبت (اشعار) کر رہا تھا عرض باآہ و فغاں کہ رہا تھا اپنے رب سے بے خطر حالِ دردِ زخمِ دل زخمِ جگر عاشقی پید است از زاریٔ دل نیست بیماری جو بیماری ٔ دل ایک دن ایسا ہوا کہ ناگہاں حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ ہاں کہ رہا ہے یہ توکیا ظالم یہاں ہو گیا تو از گروہ کافراں کیا خدا محتاجِ خدمت ہے ترا کیا خدا محتاجِ نصرت ہے ترا کیا خدا کے دست وپاہیں اے جہول کہ دبا وے گا انہیں تواے ملول کیا خدا محتاجِ اکل و نوش ہے کیا خدا محتاجِ سرو دوش ہے حضرت موسیٰ کے ارشادات کو زجر اور توبیخ کے کلمات کو سن کے چرواہے نے کھینچی ایک آہ کر گریباں چاک لی جنگل کی راہ ہو گیا مایوس وہ چرواہا آہ سی لیا منہ اس نے از مدحِ الٰہ وحی آئی سوئے موسیٰ از خدا کیوں کیا تم نے مرا بندہ جدا تو برائے وصل کردن امدی نے برائے فصل کردن آمدی عقل والوں کے لیے ہے یہ ادب آہ چرواہا تھا اہل عقل کب موسیا آداب ِدانا دیگر اند سوختہ جانے روانا دیگر اند تو زسر مستاں قلاوزی مجو جامہ چاکاں راچہ فرمائی رفو چاک ہیں جن کے لباس از عشق حق رفو کا ان کو نہیں ہے امر حق خوش ہمی آید مرا اے عاقلاں چاک دامانی از دیوانگاہ کس طرف وہ میرا پروانہ گیا کس طرف وہ میرا دیوانہ گیا تشنگاں گر آب جویند از جہاں آب ہم جوید زعالم تشنگاں عاشقوں کی گفتگو درکارِرب عشق کی جو شش ہے نے ترکِ ادب عشق کو گر چہ نہ جو عقل و تمیز پر ہزاروں عقل ہیں اس کی کنیز گرچہ ظاہر میں ادب سے دور تھا لیکن اس کا دل مرا رنجور تھا ظاہراً گو لفظ گستاخی کے تھے معنیٰ لیکن عشق و جاں بازی کے تھے اپنے دیوانے کی باتیں موسیا ڈھونڈتی ہے بارگاہ کبریا. 01:01:16) اشعار کے بعد والدین کے حقوق کے بارے میں حضرت شیخ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں بیان فرمایا۔۔ 01:09:30) بدنظری پر لعنت کی بدعا۔۔ 01:15:11) یہاں سے شیخ المشائخ حضرت مولانا شاہ عبدالمتین صاحب دامت برکاتہم کا بیان بنگلہ دیش سے اردو زبان میں بیان شروع ہوا۔۔ |