مجلس ۵جولائی ۲۰۲۱ فجر :اپنے اعمال پر نظر نہ ہو نظر اللہ تعالیٰ پر ہو ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں 00:34) تکبر اور جاہ دونوں حرام ۔۔جب تکبر اور جاہ آتا ہے تو یہ تمنا ہوتی ہے کہ لوگوں میں میری شہرت ہو اور یہاں تک بات پہنچ جاتی ہے کہ پھر تمناء کرتا ہے اللہ مجھ سے محبت کریں۔۔۔ 02:25) ایک عمر گذرجائے اصلاح کراتے کراتے۔۔ 02:41) جس کی اپنے اعمال پر نظر جائے گی تو پھر اللہ سے نظر ہٹ جائے گی۔۔۔ 04:01) مولانا رومی کا اپنے مرید حسام الدین سے والہانہ تعلق:۔ مولانا رومی کو حضرت حسام الدین سے بہت عشق ہوگیا تھا۔ اصل میں جب روح طالب ہوتی ہے، کوئی کسی پر اللہ کے لئے فدا ہوتا ہے تو محبت دونوں طرف سے ہوجاتی ہے، محبت یک طرفہ نہیںہوتی، دیکھئے محبت کا مادہ حُبّ ہے، حُبّ ادا کرتے وقت دونوں ہونٹ ملتے ہیں یا نہیں؟ اگر ایک ہونٹ ملنا چاہے اور ایک ہونٹ اوپر چلا جائے تو حُبّکا لفظ بھی دا نہیں ہوسکتا، محبت کے مادہ ہی میں وصل ہے، بس، جب دونوں ہونٹ ملیں گے تو محبت کا لفظ ادا ہوگا، لہٰذا جب کوئی شیخ سے محبت کرتا ہے تو شیخ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ مولانا رومی کو حضرت حسام الدین سے اتنا عشق ہوا اور اللہ پاک نے انہیں ا تنے مقام سے نوازا کہ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اب ہم عام لوگوں کے مجمع میں تمہاری تعریف نہیں کیا کریں گے، کیونکہ ہماری محبت سے تمہارے حاسدین پیدا ہوگئے ہیں۔ جب شیخ کسی کو زیادہ چاہتا ہے تو بعض نادان مٹی کے ڈھیلے حسد شروع کردیتے ہیں، تو مولانا رومی حضرت حسام الدین فرماتے ہیں 06:03) میں جو تم سے محبت کررہا ہوں یہ دیکھ کر کچھ لوگ تم سےحسد کر رہے ہیں، یہ زندانی ہیں، نفس کے قیدی ہیں، دنیا وی مریض ہیں، تم سے جل رہے ہیں، اے حسام الدین تمہاری تعریف سے حاسدین لوگوں کو غم ہورہا ہے کہ مولانا رومی ان کو کیوں چاہتے ہیں تو پھر اب میں تمہاری تعریف کہاںکروں گا؟ نااہلوں میں نہیں،اب میں کچھ اللہ والوں کو تلاش کروں گا، جو حسد سے پاک ہیں، جو روحانی غلاظتوں اور گندگیوں سے پاک ہوچکے ہیں ان روحانی لوگوںمیں تیری تعریف کروں گا، جو اللہ کے عاشق ہوںگے، جو رقابت اور جلن سے نکل چکے ہیں، ان کے مجمع میں تیری تعریف کروں گا، میں باز نہیں آئوں گا، شیخ مرید سے کہہ رہا ہے،دیکھو، یہ مرید کیسا مبارک اور خوش قسمت ہے،اسی لیے مولاناشاہ محمد احمد صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں یوں تو ہوتی ہے رقابت لازماً عشاق میں عشقِ مولیٰ ہے مگر اس تہمتِ بد سے بَری 07:04) کسی عورت کے دو عاشق ہوں تو دونوں میںچھری چل جاتی ہے، جیسے شاعر کہتا ہے نہ ملا غیر ہوگئی خیر ورنہ تلوار چل گئی ہوتی چاہتے وہ اگر تو میری دال ان کی محفل میں گَل گئی ہوتی 07:40) معاملات کی صفائی نہیں ہوتی تو پھر جھگڑے ہوتے ہیں۔۔۔ 11:11) جھگڑا کیوں ہوا کیونکہ قرآن پاک پر عمل نہیں ہوا اور آپ ﷺ کی بات نہیں مانی۔۔اس لیے بزرگان دین فرماتے ہیں کبھی دو کے درمیان فیصلہ نہیں کرنا۔۔۔نفس کا غلام جو ہوتا پھر نہیں وہ کسی کی بات نہیں مانتا۔۔ 12:40) جب دو لوگ جھگڑا لے کر آئیں اور دونوں میں کوئی بھی جھکنے کے لیے تیار نہ ہو دونوں نفس کے غلام ہیں تو پہلا پہلا سوال کہ لکھت کی ۔۔۔اس لیے دو جھگڑے آئیں تو حدیث پاک کی بات سنا دو کہ برائی کا بدلہ اچھائی سے دیں لیکن کبھی بھی دو کے درمیان فیصلہ نہیں کرنا۔۔ 16:20) مولانا رومی کا اپنے مرید حسام الدین سے والہانہ تعلق:۔ لیکن اللہ کی محبت اس تہمت سے پاک ہے، اﷲ کے عاشقوں میں کبھی لڑائی نہیں ہوتی، تمام عاشق ایک دوسرے پر فدا ہوتے ہیں، اللہ کی پاک محبت کے عاشق بھی پاک ہوتے ہیں، جلن، حسد، لڑائی، بغض، کینہ، ایک دوسرے کا برا چاہنا، ان جھگڑوں سے وہ پاک ہوتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہی ہیں کہ اللہ والوں میںکیسی محبت ہوتی ہے۔ اس کے بعد مولانا رومی فرماتے ہیں اے حسام الدین، یہ حاسدین مٹی کے ڈھیلے ہیں، ان کے ارادے برے ہیں ، تجھے جو اللہ تعالیٰ نے تعلق مع اللہ کا سورج اور آفتاب بنایا ہے تو یہ چاہتے ہیں کہ اس پر مٹی ڈال دیں، یہ تیرا آفتابِ نسبت چھپانا چاہتے ہیں مگر یہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ اسی طرح عشرت میاں یعنی میر صاحب کے لئے بھی میری مثنوی ’’مثنویِ اخترؔ‘‘ میں میرا ایک شعر ہے، آپ دیکھئےگا؎ جانِ عشرت عشرتِ جانِ من است جانِ او ہر لحظہ مستانِ من است۔۔ بہر حال مولانا حسام الدین مولانا رومی کے ساتھ اخیر عمر تک رہے۔ جب ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار مکمل ہوگئے، سینکڑوں قصے بیان ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اس مثنوی کے الہامی ہونے کے ثبوت کے لئے اپنے وارداتِ غیبیہ کو مولانا کے قلب سے ہٹالیا تو مولانا رومی سمجھ گئے کہ اب مثنوی کا اختتام ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ آخری قصے کو ادھورا رکھنا چاہتے ہیں میرے قلب کے سامنے اللہ کے علم کا جو آفتاب مضامین القا کر رہا تھا وہ ڈوب گیا، لہٰذا اب مثنوی ختم ہوگئی، پھر اس کے بعد مولانا رومی کا آفتاب بھی غروب ہوگیا اور ان کا انتقال ہوگیا، جنازہ میں اتنا مجمع تھا کہ صبح انتقال ہوا تھا لیکن قبرستان پہنچتے پہنچتے شام ہوگئی اور شام کے وقت وہ دفن ہوئے۔ 19:21) مدارس کے مہتمم حضرات کو اہم ہدایات:. ب اس کے بعد مدارسِ عربیہ سے متعلق نہایت اہم مضمون عرض کرتا ہوں۔ سب سے پہلے مدارس کے مہتمم حضرات سے عرض کرنا ہے کہ وہ اپنے مدرسہ کے تمام طلبہ کی نگرانی کریں، چاہے وہ دار الاقامہ میں رہتے ہوں یا باہر سے آتے ہوں کہ کون کس کے پاس زیادہ اٹھتا بیٹھتا ہے، کون چائے کی دکان پر یا کہیں مٹھائی وغیرہ کی دکان پر جاتا ہے،اس کی اخلاقی طور پر نگرانی رکھی جائے۔ اَمارد سےجسمانی خدمت لینا فتنہ کا سبب ہے مہتمم اور اساتذہ کسی نوجوان طالبِ علم سے جو امرد ہو یعنی جس کی ڈاڑھی نہ آئی ہو جسمانی خدمت نہ لیں یا اگر ڈاڑھی آبھی گئی ہو لیکن اس کی طرف دیکھنے سے نفس کا میلان ہوتا ہو تو وہ بھی امرد کے حکم میں داخل ہے، اس سے بھی ہاتھ پیر نہ دبوائیں۔ 22:07)لہٰذا جس نوجوان کی طرف ذرہ برابر بھی، ایک نکتہ بھی کشش ہو اس سے ہر گز جسمانی خدمت نہ لیں، ورنہ شیطان مسمریزم کرتا ہے اور ایک نکتہ حسن کو سو بنا دیتا ہے، جیسے خوردبین سے چھوٹی چیز بڑی دکھائی دیتی ہے، اسی طرح شیطان بھی ایک نکتہ حسن کو سو بنا دینا خوب جانتا ہے، شیطان کے پاس گمراہی کے یہ سب آلات ہیں، گمراہی کے جتنے آلات ہیں سب اس کو دیئے گئے ہیں اور یہ بڑے زبر دست آلات ہیں، بھلا جس پر اللہ تعالیٰ کے اسم مضل کی تجلی ہورہی ہو تو اس کے پاس گمراہی کے کسی آلے کی کمی ہوگی، لہٰذا اس مردود سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے۔ 26:11) ہلکی ہلکی ڈاڑھی والوں سے بھی احتیاط کرنا چاہئے لہٰذا جب تک ایک مٹھی ڈاڑھی نہ آجائے سخت احتیاط کی ضرورت ہے، بے ڈاڑھی والوں سے بھی اور ہلکی ہلکی ڈاڑھی مونچھوں والوں سے بھی، علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یعنی بعض فساق ایسے لڑکوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں جن کی تھوڑی تھوڑی ڈاڑھی آگئی ہو اور اس کی وجہ کیا ہے؟ شیخ سعدی شیرازی نے فرمایا کہ کالے بادلوں سے جب چاند نکلتا ہے تو زیادہ روشن معلوم ہوتا ہے تو نوجوان بچوں کی کالی کالی داڑھی سے ان کے چہرہ پر حسن کی لائٹ بڑھ جاتی ہے، لہٰذا ان سے سخت احتیاط رکھو۔ 27:06) اَمردوں سے جسمانی خدمت لینا سیئہ جاریہ بن جاتا ہے ایسے نوجوان طالبِ علموں سے پیر دبوانا سیئہ جارہ بن جاتا ہے، یعنی وہ استاد خود بھی فتنہ کا شکار ہوتا ہے اور بعد میں اس کا شاگرد بھی کہتا ہے کہ میرے استاد جی تو دبواتے تھے، لہٰذا اس میں کوئی حرج نہیں ہے، میں بھی دبوائوں گا اور اس طرح اس برائی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ بعض وقت میں بعض نفوسِ مقدسہ جن کو ایسے لڑکوں سے کوئی فتنہ اور ضرر نہیں ہوتا تھا ان حضرات نے اپنے نفس کی پاکی کی وجہ سے ان سے ہاتھ پاؤں دبوالیے لیکن اگر دوسرے اس کی نقل کریں گے کہ ہمارے شیخ نے بھی امردوں سے اپنے پائوں دبوائے ہیں لہٰذا ہم بھی دبوائیں گے،تو شیخ کی یہ نقل فتنہ کا سبب بن جائے گی، کیونکہ شیخ کا سا پاکیزہ نفس ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا ۔ شیخ نے جن شرائط پر عمل کیا، عام لوگوں سے ان شرائط کی پابندی نہ ہو سکے گی۔ لہٰذا جن کاموں میں شرائط کی پابندی نہ رہے یا شرائط کی پابندی نہ ہو سکنے کا شدید خطرہ ہو اور فتنہ میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہو تو ایسا کام نہ کرو، سخت احتیاط کرو۔ 31:17) جیسے علامہ شامی نے فتاوی شامی کتابُ الْحَظْر وِالْاِبَاحَۃ میں سماع کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ پہلے زمانے کے بعض لوگوں نے چند شرائط کے ساتھ قوالی کی مجلسیں منعقد کرنا شروع کی تھیں لیکن تمام علماء نے اس کو ناجائز اور حرام قرار دیا تھا، کیونکہ ان کی شرائط پر عادتاً عمل ناممکن تھا، لہٰذا قوالی تو حرام ہے ہاں، حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ چار شرائط کے ساتھ اشعار سن سکتے ہیں، وہ قوالی نہیں ہیں۔ سماع کی چار شرائط:۔ پہلی شرط: مسمع کودک و زن نباشد، شعر سنانے والا امرد یعنی بے ڈاڑھی مونچھ کا لڑکا نہ ہو اور نہ عورت ہو۔ 33:01) بے ڈاڑھی مونچھ کا لڑکا نہ ہو اور نہ عورت ہو۔ عورتوں اور بے ڈاڑھی مونچھ کے لڑکوں سے نعت شریف سننا بھی صحیح نہیں ہے۔ دوسری شرط: سامع اہلِ ہوا نباشد،شعر سننے والا آدمی اہلِ نفس، اہلِ ہوا نہ ہو جس کو عشقیہ شعر سن کر کوئی دنیاوی معشوق یاد آجائے بلکہ اشعار سننے والے سب اللہ کے عاشق ہوں اور نفسانی محبت سے پاک ہو چکے ہوں، ان پر روحانیت کا غلبہ ہو، ان کے قلوب مزکّٰی، پاکیزہ، مصفّٰی اور مجلّٰی ہوں۔تیسری شرط: مضمون خلافِ شرع نباشد، اشعار کے مضامین شریعت کے خلاف نہ ہوں، جیسے آج کل کے قوال خلافِ شرع مضامین بیان کرتے ہیں، زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، نبی کو خدا سے بڑھا دیتے ہیں اور اولیاء اللہ کو نعوذ باللہ خدا کی حکومت میں شریک قرار دے کر امت کو گمراہ کرتے ہیں۔ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے، اس کا کوئی ہمسر کوئی شریک نہیں ہے، سارا اختیار اللہ تعالیٰ کا ہے۔چوتھی شرط:آلۂ لہو و لعب نہ باشد، اور چوتھی شرط یہ ہے کہ آلاتِ مزامیر یعنی گانے بجانے کے آلات، سارنگی، طبلہ وساز نہ ہوں کہ یہ سب حرام اور گناہ کبیرہ ہیں۔ |