مجلس  ۱۴۔   اگست   ۲۰۲۱  فجر :اپنی اصلاح سے زیادہ  دوسروں کی فکر ہے  !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

10:10) الہامات ربّانی سے ملفوظات پڑ ھ کر سنائے۔۔۔ حضرت ڈاکٹر عبد الحئی صاحب رحمہ اللہ کا تذکرہ پھر حضرت پھولپوری رحمہ اللہ نے ہنس کر فرمایا کہ اللہ والوں کی صحبت میں کیا ملتا ہے،عقل سے مت سوچو،جو لوگ وہاں رہ رہے ہوں،ان کو دیکھو کہ کیا سے کیا ہوگئے! مسٹر سے شیخ العلماء ہوگئے،خواجہ صاحب رحمہ اللہ مسٹر سے علماء کے شیخ بنے۔پھر میرے شیخ نے یہ شعر پڑھا؎ تُو نے مجھ کو کیا سے کیا شوقِ فراواں کردیا پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کردیا اللہ والوں کے پاس خدا کی محبت،خدا کی محبت کا درد،خدا کا خوف جو اُن کے دلوں میں ہوتا ہے،ان کے پاس بیٹھنے سے آہستہ آہستہ مریدوں کے دلوں میں منتقل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔نفس بغیر شیخ کے مٹتا ہی نہیں،عقل میں اگر سلامتی ہو،ذرّہ برابر نور ہو تو انسان پہچان لے گا ۔آخر کوئی تو بات تھی جو ڈاکٹر عبد الحئی صاحب رحمہ اللہ کے پاس مولانا رفیع عثمانی،مولانا تقی عثمانی جیسے بڑے بڑے عالم جاتے تھے، مولانا تقی عثمانی اتنے بڑے عالم ہیں کہ ترمذی شریف کی شرح لکھ دی، جو شخص حدیثوں کی شرح لکھےاور عربی میں تقریر کرے تو سوچو اس کا علم کتنا ہوگا! لیکن ڈاکٹر صاحب کی جوتیاں سیدھی کیں۔مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ  کا علم کیا کم تھا،کتنے بڑے عالم تھے ،پورے پاکستان سے ان سے سوالات پوچھے جاتے تھے  اور اخبار میں چھپتےتھے ،ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پیچھے پیچھے پھرتے تھے،کیا ہوگیا تھا ان علماء کو؟ڈاکٹر صاحبh کے پاس کیا پا گئے تھے؟ علی گڑھ کے پڑھے ہوئے ایل ایل بی تھے اور ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھے۔ مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں؎ اے کہ شیراں مر سگانش را غلام گفتن امکاں نیست خامش والسلام فرماتے ہیں کہ اے دنیا والو! بہت سے شیر محبوب کے کتے کے غلام بن چکے مگر بےوقوفوں کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آسکتیںکہ آخر علماء کیوں ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کے غلام بن گئے تھے،وہی حکیم الامت رحمہ اللہ کی نسبت تھی،تعلق مع اللہ کی برکت تھی۔ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ ایسے ایسے علوم بیان فرماتے تھے کہ علماء عش عش کرتے تھے، میں خود حیران ہو جاتا تھا۔ایک مرتبہ فرمایا کہ جب دعا مانگتے مانگتے تھک جائو،اب مانگنے کا دَم ہی نہیں ہے،تو اللہ میاں سے یہ کہہ دو کہ اے اللہ!اب آپ ہمیں بغیر مانگے دے دیجئے۔یہ معمولی بات نہیں ہے۔اور ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ اپنے کو ہمیشہ خادم سمجھنا،مخدوم مت سمجھنا،چاہے ساری دنیا تمہاری مرید بن جائے۔مخدوم بننے میں لوگ حسد کرتے ہیں،خادم بننے میں کوئی حسد نہیں کرتا۔دس آدمی بستر لے کر جارہے ہیں،آپ ان سے کہیں کہ لائیے!اپنا بستر مجھے دے دیجئے،اس میں کوئی آپ سے نہیں لڑے گا۔برعکس اس کے اگر آپ نے کہا کہ میں آپ لوگوں کا امیر بننا چاہتا ہوں تو قرعہ اندازی کرنا پڑے گی۔خادم بننے کا منصب ایک مبارک منصب ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میں نے کبھی اپنے بیوی بچوں کو بھی نہیں سمجھا کہ یہ میرے خادم ہیں۔۔۔

10:12) جہاں کوئی غیبت کر رہا ہو وہاں سے اُٹھتے کیوں نہیں ہو۔۔۔۔

11:39) اپنی اصلاح نہیں کراتے اور دوسروں کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔۔

14:55) حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو اپنی مجلسوں میں اپنے شیخ کا نام نہیں لیتا اُس کی گرمیاں بھی ٹھنڈک میں بدل جاتی ہیں۔۔۔

17:42) زیادہ تر شیخ کو پرانوں سے تکلیف پہنچتی ہے۔۔۔

19:49) صفِ اوّل سے متعلق نصیحت کہ ہم مسجد میں پہلے آنے کی فکر کیوں نہیں کرتے۔۔۔

30:35) شیخ جس کو کام کا کہے ادب یہی ہے کہ وہی وہ کام کرے۔۔۔۔

31:21) اللہ کے گھر میں آنے میں سُستی نہیں کرنی چاہیے۔۔۔۔

32:04) الہامات ربّانی سے باقی مضمون مکمل کیا۔۔۔ میں نے کبھی اپنے بیوی بچوں کو بھی نہیں سمجھا کہ یہ میرے خادم ہیں، یہی سمجھا کہ’’ ان کی خدمت‘‘ اللہ نے میرے سپرد کی ہے۔ میں جب غیر ملکی سفر کرتا تھا تو خود جا کر حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ سے دعا کراتا تھا۔حضرت کوئی وظیفہ پڑھ کر دیر تک مجھ پر دَم کرتے تھے۔ڈاکٹر صاحب تو چلے گئے،اب کہاں جائیں،زبردستی کسی سے اعتقاد تو نہیں کیا جا سکتا۔۔۔

34:58) پرچیاں۔۔۔۔ HazratFerozMemon.org

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries