مرکزی بیان ۱۹۔   اگست   ۲۰۲۱ : اللہ کے راستے میں بے ادبی معصیت سے زیادہ مضر ہے             !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

08:41) مصطفیٰ بھائی نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔ رنگ لائیں گی کب میری آہیں پھر مدینہ کی جانب کو جائیں جب نظر آئے وہ سبز گنبد کہہ کے صل علی جھوم جائیں جب حضوری کا عالم عطا ہو ان کو افسانۂ غم سنائیں اب نہ جانا ہو گھر ہم کو واپس چپکے چپکے یہ مانگیں دعائیں تیرے در پر مرا سر ہو یارب جان اس طرح تجھ پر لٹائیں مجھ کو اپنا بنا لو کرم سے ملتزم پر یہ مانگیں دعائیں دونوں عالم کی کیا ہے حقیقت جتنے عالم ہوں تجھ پر لٹائیں سارے عالم میں پھر پھر کے یارب تیرا دردِ محبت سنائیں تیرا دردِ محبت سنا کر سارے عالم کو مجنوں بنائیں سارے عالم کو مجنوں بنا کر میرے مولیٰ ترے گیت گائیں لذتِ قرب پا کر تری ہم لذتِ دوجہاں بھول جائیں دربدر ڈھونڈتا ہے یہ اخترؔ اہلِ دردِ محبت کو پائیں

12:08) بیان کرنے والے،سننے والے،سننے والیاں اللہ تعالی سے جب معافی مانگ کر بیٹھے گیں تو پھر بیان دل میں بھی اترے گا۔۔

14:22) گناہ کرنا نہیں ہے اگر ہوگیا تو توبہ کرلیں پھر ایسا ہوجائے گا کہ گناہ کیا ہی نہیں۔۔

19:30) آج اپنی اصلاح کی فکر نہیں بس ہر وقت دوسروں کی برائیاں۔۔

22:02) جائز نعمت اللہ تعالی سے مانگنا منع نہیں لیکن جو محبوب دیں اُس پر راضی رہنا ہے۔۔۔

22:45) مانگو بادشاہت لیکن رہو فقیری پر راضی۔۔۔

25:35) آج عصر میں بھی اشد اور شدید محبت پر کچھ بیان ہوا۔۔۔

27:20) رضائے محبوب لذت طاعت لذت مناجات لذت قرب۔۔۔

29:21) ایک خاتون مایوس کہ مجھے خواب میں آپ ﷺ کی زیارت نصیب نہیں ہورہی پھر حضرت کی نصیحت۔۔

33:07) ایک غم کی بات۔۔۔

41:46) ذکر کرنا،اہل اللہ کی صحبت کی فکر کرنا۔۔۔

43:52) اشعار سے متعلق اہم مضامین کہ کون سے اشعار سن سکتے ہیں اشعار سننے کی شرائط کیا ہیں۔۔

48:55) کثرتِ مزاح سے متعلق اہم نصیحت کہ کون سا مزاح منع ہے۔۔۔

52:42) ایک بہت اہم حدیث پاک۔۔ مالِ غنیمت،زکوۃ،صدقات کے مال میں تصرف کرنا بغیر اجازت کے استعمال کرلینا۔۔۔بہت بڑا گناہ ہے۔۔۔

55:59) مال غنیمت میں خیانت کا ذکر۔۔۔بہت بڑا گناہ ہے۔۔۔

01:05:29) جھوٹ،خیانت ،بدنظری،شراب،شراب کے لیے پیکنگ کرنا وغیرہ وغیرہ ان سب کو چھوڑنے کے لیے حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خوف کی ضرورت ہے۔۔۔

01:07:22) حضرت والا رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بڑی بڑی مشینیں کٹ آؤٹ سے چلتی ہیں اسی طرح شیخ بھی کٹ آؤٹ ہے ۔۔۔۔لذت اعترافِ قصور سے مضمون پڑھ کر سنایا۔۔۔۔ دو نعمتیں: (۱)اتباعِ سنت، (۲)رضائے شیخ حکیم الامت کا ارشاد ہے کہ جس کو اتباعِ سنت اور رضائے شیخ نصیب ہو تو ا س کے اندھیرے بھی اُجالے ہیں اور اگر اتباعِ سنت تو کرتا ہے مگر شیخ کو ناراض کیے ہوئے ہے تو شیخ کو ناراض کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی باپ کو ناراض کرے، تو جس طرح ماں باپ کو خوش کرنا ضروری ہے اسی طرح شیخ کی رضا بھی ضروری ہے اور جو شیخ کو ناراض رکھتا ہے تو یہ شخص بھی محروم رہے گا اور اس کے اُجالے بھی اندھیرے ہیں، اگر اس کو روشنی بھی نظر آتی ہے تو سمجھ لو سب دھوکہ ہے۔ شیخ دروازۂ فیض ہے اس پر اﷲ تعالیٰ نے ایک بات دل میں ڈالی کہ شیخ دروازۂ رحمت اور دروازۂ فیض ہے، مبدأ فیاض سے بندے تک وہ بیچ میں کٹ آؤٹ اور واسطہ ہوتا ہے اور ہر انسان اپنے دروازے کی صفائی کو محبوب رکھتا ہے اور دروازے کو گندا رکھنا مشابۂ یہودیت ہے ،یہودی لوگ اپنے دروازے کو گندا رکھتے تھے۔ تو شیخ اﷲ کا دروازہ ہے، لہٰذا دروازے کو صاف رکھنا، خوش رکھنا، تکدر نہ ہونے دینا، یہ مطلوب ہے یا نہیں؟ جس طرح انسان اپنے دروازے کی گندگی سے ناراض ہوتا ہے، غم محسوس کرتا ہے تو جو شیخ کو ستاتا ہے یا ناراض رکھتا ہے، اﷲ تعالیٰ بھی اپنے اس دروازے کو ناراض کرنے والے کو اپنے فیضِ رحمت سے محروم کردیتا ہے۔ دریائے رحمت سے جو ٹونٹی تم کو مل رہی ہے اگر کوئی اس ٹونٹی میں نجاست لگادے تو اس میں سے جو پانی آئے گا تم کو بد بودار لگے گا لیکن اس میں دریا کا قصور نہیں ہے، تم نے ٹونٹی میں نجاست کیوں لگائی لہٰذا شیخ کو مکدر مت کرو بلکہ گاہے گاہے اس کو خوش کرو، کبھی غلطی ہوجائے تو فوراً معافی مانگ لو تاکہ اس پر اﷲ کی رحمتوں کی جو بارش برس رہی ہے اس میں سے ہمیں بھی کچھ حصہ مل جائے اور ہم جو طرح طرح کی سزاؤں کے مستحق تھے تو ہم پر طرح طرح کی نعمتیں برس جائیں۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ کتنے ہی بڑے ہوجاؤ دو چیز جس کے اندر ہے اتباعِ سنت اور رضائے شیخ اس کے اندھیرے بھی اُجالے ہیں اور جس سے شیخ ناراض ہو یا سنت کی اتباع نہ ہو تو اس کے اُجالے بھی اندھیرے ہیں۔ یہ حکیم الامت کا ارشاد ہے۔ اس لیے سمجھاتا ہوں کہ اپنی عاقبت مت خراب کرو، ایک دفعہ سمجھ لو کہ فائدہ اعترافِ قصور میں ہے، فوراً کہو کہ مجھ سے خطا ہوئی، معافی چاہتا ہوں، اگر عذر بھی ہے تو وہ بھی اس وقت مت پیش کرو۔ جب بادشاہ حرص چاہتا ہے تو قناعت پر خاک ڈالو، جب شیخ تم سے اعترافِ قصور مانگتا ہے تو تم اپنی عقل پر خاک ڈالو۔ محبت میں بعض دوست ایسے ہیں کہ شاید روئے زمین پر ان سے زیادہ کوئی محبت کرنے والا نہ ہو مگر وہ اپنی نادانی اور اپنے نفس کے وجود سے اور فنائے نفس کے نہ ہونے سے اگر مگر لگا کر اذیت پہنچانے میں بھی روئے زمین پر اوّل نمبر ہوتے ہیں، جہاں وہ محبت میں روئے زمین پر اوّل نمبر ہیں وہاں ایذا رسانی میں بھی اوّل نمبر ہوتے ہیں، ایسا شخص شیخ کی موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس لیے اس نسخے کو یاد کر لو اور دنیا اور آخرت برباد مت کرو، اگر تمہارے دل میں محبت ہے تو محبت کا حق اداکرو، تم کیوں نہیں چاہتے کہ میرا محبوب خوش رہے، اس کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی رہیں، اس کا بال بال ہمارے لیے دعا گو رہے۔ بولو بھئی! محبت کیا چاہتی ہے؟ محبوب کو اذیت پہنچانا یا محبوب کو خوش رکھنا؟ تو اپنی عقل پر خاک ڈالو، جو محبوب چاہتا ہے اس طرح سے رہو۔ محبت نام ہی اس کا ہے کہ اپنی مرضی کو محبوب کی مرضی میں فنا کر دے، محبوب سے محبت اپنی مرضی سے کرنا یہ بدعت ہے اور محبوب سے محبت محبوب کی مرضی سے کرنا یہ سنت ہے

01:17:48) حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں بے ادبی معصیت سے زیادہ مضر ہوتی ہے۔۔۔۔

01:21:37) فرمایا کہ فرض کر لیجیئے کہ کرونا وغیرہ سب ختم ہوگیا تو کیا موت نہیں آئے گی؟۔۔۔۔

01:24:02) الہامات ربّانی سے شیخ کی ڈانٹ سے متعلق مضمون پڑھ کر سنایا۔۔۔ لہٰذا بزرگوں کا سایہ ہمیشہ اپنے اوپر رکھو۔مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ نئی ٹویوٹا کار خرید کر کوئی لائےلیکن اس کے بریک پر کسی ڈرائیور کا پیر نہ ہویا بریک کہے ڈرائیور سے کہ آپ کے جوتوں میں گدھے کی لید لگی ہوئی ہے،میرے اوپر نہ رکھنا،مجھے گھن آرہی ہے،تو کار اور سواری دونوں تباہ ہو جائیں گے۔جن لوگوں نے اللہ والوں کا پیر اپنی گردن پر نہیں رکھا،یا اپنے جیسے نالائقوں کی دُم پکڑے رہے،نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا یعنی گمراہ ہوگئے۔ جتنے ذہین لوگ دنیا میں تھے اور کسی اللہ والے کا سایہ ان پر نہیں تھا، انہی سے گمراہی کے فرقے پیدا ہوئے،لیکن کوئی ایسا عالم نہیں بگڑا جس کا کسی اللہ والے سے مضبوط تعلق ہو، تاریخ اس کی شاہد ہے۔بڑوں کا وجود بڑی نعمت ہے۔آج دیکھ لو،اختر بوڑھا ہوگیا، بخاری شریف پڑھانے والے بڑے بڑے محدثین آج اختر سے بیعت ہیں،ان کے شاگرد بھی بخاری پڑھا رہے ہیںلیکن ابھی بھی ہردوئی جاتا ہوں اور ڈانٹ بھی کھاتا ہوں، ابھی بھی حضرت جرمانہ لگاتے ہیں،ذرا سی غلطی ہوئی اور حکم دے دیا کہ سو رکعات پڑھئے۔ شکر ادا کرتا ہوں کہ یا اللہ!آج ہمیں کوئی ڈانٹنے والا ہے؎ مجھے ترچھی نظر سے دیکھ لے یہ کس کی ہمت ہے مگر اُس جانِ محبوبی کو مستثنیٰ سمجھتا ہوں وہ دن منحوس ہوگا جس دن ہمیں کوئی ڈانٹنے والا نہیں ہوگا۔وہ بہت نالائق بیٹا ہے جو باپ کی ڈانٹ سے کبیدہ خاطر ہوجائےاور اپنی اولاد کی طرف دیکھنے لگے کہ آپ نے میری اولاد کے سامنے میری توہین کردی۔بیٹا شریف وہ ہے جو ٹوپی اُتار کر باپ کے قدموں میں بیٹھ جائے کہ میری اولاد کے سامنے جتنے جوتے چاہے لگا لیجیے کیونکہ یہ میری اولاد ہے،میں آپ کی اولاد ہوں،جتنا حق مجھے اپنی اولاد پر ہے اتنا ہی حق آپ کو مجھ پر ہے۔پھر ان شاء اللہ تعالیٰ! اول تو پِٹے گا نہیں،اگر پِٹ بھی گیا تو اس کی اپنی اولاد ہمیشہ اس کی فرمانبردار رہے گی۔ حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ کے سگے بھانجے،مولانا ظفر عثمانی رحمہ اللہ کے بھائی، مولانا سعید احمد عثمانی مرحوم بہت عمدہ تقریر کرتے تھے،بالکل حکیم الامت رحمہ اللہ کی نقل ہوتی تھی کہ اگر چہرہ چھپا دیا جائے تو معلوم ہو کہ مولانا اشرف علی تھانوی تقریر کر رہے ہیں۔ایک مرتبہ سہارنپور میں ان کی تقریر ہوئی۔لوگوں نے آکر حضرت کو اطلاع کی کہ آج مولوی سعید میاں کی غضب کی تقریر ہوئی،حضرت سمجھ گئے کہ صاحبزادے پر کچھ شان آگئی ہوگی۔مجلس میں آتے ہوئے ان کا پائوں ذرا سا کسی کے لگ گیا،بس حضرت برس پڑے کہ بڑے نالائق ہو،بے وقوف ہو، نظر نہیں آتا، دیکھ کر نہیں چلتے۔بڑے بڑے علماء موجود تھے،انہوں نے عرض کیا حضرت!غلطی تو معمولی سی تھی، پھر اتنا زیادہ آپ نے ڈانٹا؟فرمایا کہ مولوی سعید نے تقریر اتنی عمدہ کی تھی کہ ان کا نفس تعریفیں سُن سُن کر موٹا ہوگیا ہوگا،میں نے اس پھوڑے کا علاج کیا ہے،ان کے عجب و کبر کو دور کرنے کے لئے میں نے ذرا سی غلطی پر بلا ضرورت ڈانٹا ہے تاکہ بڑائی کا گردا جھڑ جائے۔ اور سنئے!میں ہندوستان گیا ہوا تھا،ہولی کا دن تھا،میرا بیان کانپور میں ہوا اور بہت مجمع اس میں تھا،پولیس والے بھی حیران تھے کہ سڑکوں پر کھڑے ہوکر لوگ کس کی تقریر سن رہے ہیں۔حضرت ہردوئی دامت برکاتہم کو میری زوردار تقریر کی اطلاع ہوچکی تھی۔ہردوئی واپسی پر مجھے معمولی سی تاخیر ہوگئی،بس غضب ہوگیا، سوالات جوابات شروع ہوگئے۔میں نے معافی نامہ لکھا،اس کا جواب بغیر معافی کے آگیا،پھر وہ ڈانٹ پڑی کہ کیا بتائوں۔حیدرآباددکن تک حضرت ڈانٹتے رہے، میں بھی دل میں سمجھ رہا تھا کہ بڑے میاں چاہتے ہیں کہ میرا گردا جھاڑ دیں۔ میں مسجد میں کہتا ہوں (شدید گریہ کے ساتھ فرمایا)کہ آج اگر مولانا ابرار الحق صاحب کا سایہ مجھ پر نہ ہوتا تو آپ لوگوں کی تعداد دیکھ کر میرے دماغ میں خرابی آجاتی لیکن اس اللہ والے کی کرامت ہے۔الحمد للہ!میرے اوپر ایک بڑے کا بریک ہے،جس سے امید ہے کہ ان شاءاللہ!اور قیامت تک علماء کا اجماع ہے کہ جو اپنے شیخ کے سایہ میں ہوتا ہے وہ خراب اور برباد نہیں ہوتا۔اس لئے حکیم الامت تھانوی نے فرمایا تھا کہ شیخ ِاول کے انتقال کے بعد اگر بغیر شیخ کے رہو گے تو برباد ہوجائو گے۔حضرت ڈاکٹر عبد الحئی صاحبh رحمہ اللہ سے میں نے خود سنا،فرمایا کہ اپنے شیخ کے انتقال کے بعد فوراً دوسرے شیخ سے تعلق کرلو،اور اگر کوئی بڑا نہ رہے تو اپنے برابر والوں سے تعلق کرلو،ان کو مشیر بنا لو،اگر برابر والے بھی نہ رہیں تو چھوٹوں سے مشورہ کر لو،ان شاء اللہ! خراب ہونے سے،بگڑنے سے بچ جائو گے۔ خود حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ نے اپنے پیر حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمہ اللہ کو اپنا مصلح بنا لیا تھا۔یہاں کراچی سے باقاعدگی سے پھولپور اصلاحی خط لکھا کرتے تھےاور میرے ہاتھوں سے جواب آتا تھا،قلم اختر کا ہوتا تھا،حضرت پھولپوری رحمہ اللہ املاء کراتے تھے کہ یہ جواب لکھو،باقاعدہ معمولات بھی ڈاکٹر صاحب لکھتے تھے۔آج ہم لوگ دوچار رکعت پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم صاحب ِنسبت ہوگئے۔حضرت حکیم الامتh فرماتے ہیں کہ کبھی اللہ کا دھیان رہنے لگے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہےتو یہ مت سمجھو کہ صاحب ِنسبت ہوگئے،کبھی مشق سے بھی یہ بات حاصل ہوجاتی ہے۔اصلی نسبت کس کی ہے؟اصلی صاحب ِنسبت وہ ہے جسے سنت کی اتباع نصیب ہوجائے،جو مسلسل کسی گناہ پر قائم نہ رہے۔اولیاء اللہ معصوم نہیں ہوجاتے مگر احیاناً کبھی لغزش ہوجانایہ منافی ٔولایت نہیں ہے،خطا ہوسکتی ہے مگر اللہ والے کبھی خطا پر قائم نہیں رہ سکتے، اللہ تعالیٰ ان کو توفیق ِتوبہ دے کر پاک کرتا رہتا ہے۔جو بچہ یتیم ہوتا ہے وہ گٹر میں پڑا رہتا ہے،اور جس کا ابّا زندہ ہوتا ہے وہ بچے کو گٹر میں پڑا نہیں رہنے دیتا،اللہ تعالیٰ بھی جس سے محبت کا تعلق رکھتے ہیں، گناہ کے بعد اس کو توبہ کی توفیق دے دیتے ہیں۔ شاہ عبد الغنی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس دن میں حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ سے بیعت ہوا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مجھے ایک حیات عطا ہو گئی۔یہ تعلق اللہ والوں سے عظیم الشان نعمت ہےبلکہ حسن ِخاتمہ نصیب ہوتا ہے،یہ حکیم الامت رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔ اہل اللہ کی دعائیں،ان کی صحبتیں عظیم الشان نعمتیں ہیں،یہ میں نہیں کہتا،ساری دنیا کے اولیاء اللہ کہہ کر قبروں میں چلے گئے،مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ آج دارالعلوم کے قبرستان میں لیٹے ہوئے ہیں،ڈاکٹر عبد الحئی صاحب رحمہ اللہ آج دارالعلوم کے قبرستان میں لیٹے ہوئے ہیں،ان کی قبریں شہادت دے رہی ہیں،ان کی زندگی کا ہر لمحہ شہادت دے رہا ہے کہ کسی اللہ والے کی صحبت میں انہوں نے اپنی حیات گذاری، انہی صحبتوں کا سب صدقہ تھا ورنہ علماء کو کیا ضرورت تھی ایک ایل ایل بی مسٹر کے پاس جانے کی ؟

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries