مجلس۲۵ ستمبر   ۲۰۲۱    فجر :آداب ِ معاشرت سے تعلیم      !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:58) آدابِ معاشرت سے تعلیم ہوئی ...کہ اعمال میں کوتاہی ارادے کی کمی کی وجہ سے ہوئی۔۔۔

06:02) حصول مقصود میں کوتاہی کی وجہ۔۔۔

06:24) اللہ والا بننے میں دو حجاب ہیں ایک عورت اور ایک لڑکا۔۔۔

12:51) ذکر کے بعد دعا: اور ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ سے پھر یہ دعا کرے کہ یااللہ! اس ذکر کی برکت سے ذاکر کو مذکور تک پہنچا دے یعنی اپنی ذات تک مجھے پہنچادے۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ ذکر ذاکر کو مذکورہ تک پہنچادیتا ہے۔ ذال، کاف، را، ذاکر میں بھی ہے مذکور میں بھی ہے۔ یہ ذکر واسطہ اور رابطہ ہے بندہ اور اللہ کے درمیان۔ اس پر میرا ایک شعر ہے ؎ اللہ اللہ کیسا پیارا نام ہے عاشقوں کا مینا اور جام ہے ذکر اسم ذات: اب آیت کی تفسیر کرتا ہوں۔ اچھا ہے اس وقت علماء بھی میرے پاس موجود ہیں۔ انہیں خوب لطف آئے گا۔ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے امام بیہقی تھے۔ یہ جملہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ ان کی تفسیر مظہری ہے جو انہوں نے اپنے پیر کے نام منسوب کی اور اپنا نام چھپادیا۔ یہ اللہ والوں کی ادائیں ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مٹادیتے ہیں۔ فرماتے ہیں: وَاذکُرِ اسْمَ رَبِّکَ یعنی اپنے ربّ کے اسم کا ذکر کیجئے، ربّ کے نام کا ذکر کیجئے اور ربّ کا نام کیا ہے؟ وہ ہے ’’اللہ‘‘۔ فرماتے ہیں کہ صوفیاء کا اسم ذات کا ذکر اسی آیت سے ثابت ہوتا ہے اور حکیم الامت حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم اللہ اللہ کرو بلکہ ربّ کا نام لو۔ تو ربّ کا لفظ کیوں نازل فرمایا؟ فرمایا کہ انسان اپنے پالنے والے کو محبت سے یاد کرتا ہے۔ ماں باپ کے نام میں مزہ آتا ہے اس لیے کہ بچپن میں پالا ہے۔ تو ربّ کا لفظ نازل کرکے اللہ نے ذاکرین کو ہدایت کردی کہ اے دنیا والو! جب ہم کو یاد کرنا تو محبت سے یاد کرنا، میں تمہارا پالنے والا ہوں۔ آہ کرو، اس ربوبیت کو یاد کرو کہ وہ پالنے والا ہے اور پالنے کے اسباب کو بھی پیدا کرنے والا ہے۔ سارا عالم ہماری پرورش میں لگا ہوا ہے۔ اِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَکُمْ وَ اِنَّکُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَۃِ سورج، چاند، آسمان، زمین، دریا، پہاڑ سب ہماری پرورش اور خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔

16:00) ایک سائنس دان کا ذہن: ایک سائنس دان نے لکھا کہ جب خلیج بنگال میں سورج کی گرمی سے سمندر کی موجوں سے بادل بنتے ہیں تو وہ بادل مون سون اُٹھاکر ہمالیہ پہاڑ سے ٹکراکر جنوبی ہند میں برس جاتے ہیں جس سے جنوبی ہند سرسبز و شاداب ہے۔ اگر ہمالیہ پہاڑ نہ ہوتا تو خلیجِ بنگال کی مون سون ہوائوں سے جو بادل بنتے۔ یہ آذربائیجان، تاشقند، سمرقند، بخارا میں برستے اور جنوبی ہند مثل منگولیا کے ریگستان ہوتا۔ یہ ایک سائن دان کا بیان شایع ہوا۔ تو ہمارے پاکستان سے ’’الحق‘‘ رسالہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک سے نکلتا ہے۔ اس میں مولانا عبداللہ شجاع آبادی نے اس کا جواب دیا کہ ان ظالموں کو یہ سوچنا چاہیے کہ جس سورج سے یہ بادل بنے، یہ سورج کیا تمہارے باپ نے پیدا کیا؟ کیوں تمہارا ذہن اللہ کی طرف نہیں جاتا اور سمندر کس نے پیدا کیا جہاں سے بادل اُٹھتے ہیں؟ ہمالیہ پہاڑ کس نے بنایا؟ بس یہ سائنس دان مخلوق سے مخلوق تک پہنچتے ہیں اور اللہ والے مخلوق سے خالق تک پہنچتے ہیں۔

18:59) فکر برائے خلق ذکر برائے خالق: اس لیے حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تفکر مخلوق میں کرو۔ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ اور اللہ کے اندر فکر مت کرو کیوں کہ تمہاری عقل محدود ہے۔ محدود عقل میں اللہ کی ذات غیرمحدود کیسے آئے گی؟ لہٰذا اللہ کی ذات کے بارے میں عقل کو استعمال مت کرو۔ اللہ تعالیٰ کو یاد کرو، ذکر ہی سے وہ مل جائیں گے۔ فرماتے ہیں اللہ نے یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اور وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ نازل فرماکر بتادیا کہ فکر برائے خلق ہے اور ذکر برائے خالق ہے۔ ہم کو یاد کیا کرو، ہم کو کیا سوچ سکتے ہو، اتنی سی عقل میں کہاں آسکتے ہیں؟ ایک محدود دوسرے بڑے محدود کو اپنے اندر نہیں لے سکتا۔ کیوں بھائی گلاس میں صراحی آئے گی؟ صراحی میں مٹکا آئے گا؟ مٹکے میں حوض آئے گا؟ حوض میں نہر، نہر میں دریا اور دریا میں سمندر آئے گا؟ جب چھوٹے محدود میں اس سے بڑے محدود کو نہیں لے سکتے تو پھر غیرمحدود ذات کو اپنی عقل میں کیسے لے سکتے ہو؟ لہٰذا ہماری یاد میں لگ جائو، ہماری یاد ہی سے ہم تم کو مل جائیں گے اور عقل تمہاری پیچھے رہ جائے گی۔ نگاہ عشق تو بے پردہ دیکھتی ہے اسے خرد کے سامنے اب تک حجابِ عالم ہے

20:23) بّتل کی حقیقت: وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا اور غیراللہ سے کٹ کر اللہ سے جڑجائو۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تبتل کی شرعی تعریف یہ ہے کہ علاقۂ دُنیا پر، دنیا کے تمام تعلق پر، اللہ تعالیٰ کا تعلق غالب آجائے۔ تبتل کے لیے ترکِ دنیا ضروری نہیں بلکہ جائز بھی نہیں۔ بال بچوں کے ساتھ اور کاروبار کے ساتھ رہتے ہوئے اللہ کی محبت کو اپنے اوپر غالب کرلو اسی کا نام تبتل ہے۔ جو گیوں اور ہندوئوں نے سمجھا کہ دریا کے کنارے چلے جائو اور بال بچوں کو چھوڑ کر رہبانیت اختیار کرلو۔ ہماری شریعت میں یہ درست نہیں، اس لیے حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ہیں کہ علاقۂ خداوندی کو علاقۂ تمام مخلوقات پر غالب کرنے کا نام تبتل ہے جس کو جگر مراد آبادی نے اس انداز میں پیش کیا ؎ میرا کمالِ عشق بس اتنا ہے اے جگر وہ مجھ پہ چھاگئے میں زمانہ پہ چھا گیا آہ! جس پر اللہ کی محبت غالب ہوجاتی ہے جہاں جائے گا غالب رہے گا ؎ جہاں جاتے ہیں ہم تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں کوئی محفل ہو تیرا رنگِ محفل دیکھ لیتے ہیں

21:59) نیا کو لات مارو کا مطلب: کانپور میں تاجروں نے مجھ سے پوچھا کہ دنیا کو لات مارو کے کیا معنی ہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ دنیا کو لات مارنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی محبت پر اللہ تعالیٰ کی محبت غالب کرلو، کیونکہ اگر دنیا کو لات مارے اور ابھی تین دن کھانا بند ہو جائے ایسے صوفیوں کو جو کہتے ہیں کہ دنیا کو لات مارو تو ان کی لات ہی نہیں اُٹھے گی لات مارنے کے لیے۔ اس دنیا مطلق مذموم نہیں بلکہ وہ دنیا مذموم ہے جو آخرت سے غافل کردے۔ وَاِنْ جَعَلْتَہَا وَسِیْلَۃً لِّلْآخِرَۃِ وَذَرِیْعَۃً لَہَا فَہِیَ نِعْمَ الْمَتَاع اور اگر تم نے دنیا کو آخرت کا ذریعہ بنالیا تو وہی دنیا بہترین پونجی ہے لہٰذا اگر دنیا کی محبت شدید ہو تو اللہ کی محبت اشد کرلو۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ اللہ کی محبت کا فیصد، پر سنٹیج، کچھ زیادہ کرلو۔ اس جواب سے سارے تاجر خوش ہوگئے۔ ان میں مفتی منظور صاحب ناظم جامع العلوم کانپور بھی تھے۔ سائل وہی تھے، سب کے نمائندے وہی بنے ہوئے تھے۔

23:45) دنیا کا کام کیسے ہوگا؟ تیسرا مسئلہ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ جب آدمی ذکر کرتا ہے تو شیطان فوراً بہکاتا ہے کہ تمہارا دنیا کا کام کیسے ہوگا۔ کل تم کو فلاں فلاں کام کرنا ہے۔ یہ کرنا ہے وہ کرنا ہے، سارے دن کا کام پیش کردیتا ہے۔ تو اللہ نے فرمایا کہ رَبُّ الْمَشْرِقِ یعنی جو دن پیدا کرسکتا ہے کیا وہ تمہارے دن کے کام نہیں بناسکتا ہے؟ اور مَیں رَبُّ الْمَغْرِبِ بھی ہوں۔ رات پیدا کرسکتا ہوں، رات کی مشکلات حل نہیں کرسکتا ہوں؟ لہٰذا دن اور رات کی مشکلات میرے سپرد کردو۔ جو سارے دن کو روشن کرسکتا ہے۔ آسمان و زمین پیدا کرسکتا ہے، کیا وہ ایک کلو آٹا تم کو نہیں دے سکتا ہے؟

24:33) خالق کا شکریہ: مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے ظالمو! کوئی حاجی تم کو ٹوپی پہنادے تو تم اس کا تین دفعہ شکریہ ادا کرتے ہو لیکن جس سر پر ٹوپی رکھتے ہو، جس نے سر عطا فرمایا اس سر بنانے والے کا شکریہ ادا نہیں کرتے ہو! سر بنانے والے کا شکریہ زیادہ ادا کرو۔ اگر سر نہ ہوتا تو ٹوپی کہاں رکھتے؟ دو روٹی کوئی کھلاوے تو اس کا بہت شکریہ ادا کرتے ہو، جزاک اللہ کہتے ہو لیکن جس نے معدہ بنایا ہے اس کا شکریہ بھی تو ادا کرو۔ معدہ زیادہ قیمتی ہے یا روٹی؟ معدہ بنانے والے کا بھی تو شکریہ ادا کرو۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries