مجلس ۲۵ ستمبر   ۲۰۲۱   عشاء :یہ نخرے والوں کا نہیں مٹنے والوں کا راستہ ہے         !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:05) بیان کے آغاز میں کتاب سے تعلیم ہوئی۔۔۔

06:16) ایک صا حب کو تنبیہ کہ اتنا آئے پھر ایک دم غائب نہ کوئی اطلاع،نہ کوئی بیان سننا ..فائدہ لازم ضروری ہے اُس کو چھوڑ کر فائدہ متعدی میں چلے گئے۔۔۔

09:11) شیخ کو دھوکہ دے رہے ہیں ..جس جو جتنا برا کہنا ہے کہہ لے لیکن امرد لڑکوں کے بارے میں کوئی بے اصولی برداشت نہیں ہوگی۔۔

10:29) شیخ کو اذیت دیتےہیں۔۔

13:21) فرمایا کہ ایک جگہ کہتےہیں کہ آپ آرام کریں ہم سب دیکھیں گے اور سب شیخ کو ہی دیکھنا پڑ رہا ہے ..مہمان خانہ کو دیکھا تو سب کچھ خراب۔۔۔

16:50) لڑکوں کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگ رہے ہیں شیخ کی مجلس کی بھی فکر نہیں۔۔۔

18:01) جب علم پر عمل نہیں تو پھر یہاں رہنے کی ضرورت بھی نہیں۔۔

18:58) یہ راستہ نخرے والوں کا نہیں ہے یہ مٹنے والوں کا راستہ ہے۔۔

19:44) اشعار پڑھنے کا حضرت شیخ نے فرمایا جناب مصطفی صاحب نے شیخ العرب والعجم حضرت والا مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کے اشعار فیضان ِمحبت سے پڑھے۔۔ دونوں جہاں تباہ ہیں جس نے دیا ہے ان کو دل ظالم نہ کر حیات کو نذرِ بتانِ سنگ دل قیمت حیات کی نہ تھی جب تک محض تھی آب و گل لذتِ زندگی نہ پوچھ جب سے ملا ہے دردِ دل خالق دل پہ دوستو جس نے فدا کیا ہے دل کہتے ہیں اس کو اہلِ دل سارے جہاں کے اہلِ دل

26:26) اہل باطل سے متعلق حضرت مفتی نعیم صاحب دامت برکاتہم کا مضمون پڑھ کر سنایا ۔۔۔

32:43) اگر ناراضگی ہوتی ہے تو جو غلط کام ہوا اُس پر ناراضگی ہوتی ہے۔۔

34:54) عقل مند وہ ہے جو کھڑے بیٹھے لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں۔۔۔

35:32) ایک سائنس دان کا ذہن: ایک سائنس دان نے لکھا کہ جب خلیج بنگال میں سورج کی گرمی سے سمندر کی موجوں سے بادل بنتے ہیں تو وہ بادل مون سون اُٹھاکر ہمالیہ پہاڑ سے ٹکراکر جنوبی ہند میں برس جاتے ہیں جس سے جنوبی ہند سرسبز و شاداب ہے۔ اگر ہمالیہ پہاڑ نہ ہوتا تو خلیجِ بنگال کی مون سون ہوائوں سے جو بادل بنتے۔ یہ آذربائیجان، تاشقند، سمرقند، بخارا میں برستے اور جنوبی ہند مثل منگولیا کے ریگستان ہوتا۔ یہ ایک سائن دان کا بیان شایع ہوا۔ تو ہمارے پاکستان سے ’’الحق‘‘ رسالہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک سے نکلتا ہے۔ اس میں مولانا عبداللہ شجاع آبادی نے اس کا جواب دیا کہ ان ظالموں کو یہ سوچنا چاہیے کہ جس سورج سے یہ بادل بنے، یہ سورج کیا تمہارے باپ نے پیدا کیا؟ کیوں تمہارا ذہن اللہ کی طرف نہیں جاتا اور سمندر کس نے پیدا کیا جہاں سے بادل اُٹھتے ہیں؟ ہمالیہ پہاڑ کس نے بنایا؟ بس یہ سائنس دان مخلوق سے مخلوق تک پہنچتے ہیں اور اللہ والے مخلوق سے خالق تک پہنچتے ہیں۔

42:34) فکر برائے خلق ذکر برائے خالق: اس لیے حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تفکر مخلوق میں کرو۔ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ اور اللہ کے اندر فکر مت کرو کیوں کہ تمہاری عقل محدود ہے۔محدود عقل میں اللہ کی ذات غیرمحدود کیسے آئے گی؟ لہٰذا اللہ کی ذات کے بارے میں عقل کو استعمال مت کرو۔ اللہ تعالیٰ کو یاد کرو، ذکر ہی سے وہ مل جائیں گے۔ فرماتے ہیں اللہ نے یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اور وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ نازل فرماکر بتادیا کہ فکر برائے خلق ہے اور ذکر برائے خالق ہے۔ ہم کو یاد کیا کرو، ہم کو کیا سوچ سکتے ہو، اتنی سی عقل میں کہاں آسکتے ہیں؟

45:50) ایک محدود دوسرے بڑے محدود کو اپنے اندر نہیں لے سکتا۔ کیوں بھائی گلاس میں صراحی آئے گی؟ صراحی میں مٹکا آئے گا؟ مٹکے میں حوض آئے گا؟ حوض میں نہر، نہر میں دریا اور دریا میں سمندر آئے گا؟ جب چھوٹے محدود میں اس سے بڑے محدود کو نہیں لے سکتے تو پھر غیرمحدود ذات کو اپنی عقل میں کیسے لے سکتے ہو؟ لہٰذا ہماری یاد میں لگ جائو، ہماری یاد ہی سے ہم تم کو مل جائیں گے اور عقل تمہاری پیچھے رہ جائے گی۔ نگاہ عشق تو بے پردہ دیکھتی ہے اسے خرد کے سامنے اب تک حجابِ عالم ہے

47:42) تین ڈیزائن کے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین۔۔۔

50:12) تلاوت ،ذکر کے ناغے پر احباب کو تنبیہ کہ معمولات آج پورے نہیں کرتے۔۔

51:02) ترقی نہیں ہوسکتی کیونکہ ذکر روح کو طاقت دیتا ہے۔۔

55:07) شیخ کے پاس اُس کو فائدہ ہوگا جس کی مراد اللہ تعالی کی ذات ہو۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries