مجلس ۲۶ ستمبر   ۲۰۲۱  عشاء :مخلوقات اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور پرورش کا مظہر ہیں             !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

00:51) کتاب سے تعلیم ہوئی۔۔۔

08:38) مولانا یسین صاحب رحمہ اللہ کس مجاہدے کے ساتھ عالم بنے تھے ۔۔۔

10:02) ہر شخص حافظ عالم مفتی نہیں بن سکتا لیکن اللہ والا بننا فرض ہے۔۔۔

12:35) مولانا یسین صاحب رحمہ اللہ کا ایک عجیب واقعہ۔۔۔

14:33) جو جوان اپنی جوانی کو اللہ پر فدا کرے گا عرش کا سایہ پائے گا۔۔۔

17:57) حضرت شیخ سعدی نے مشہور کتاب ’’ گلستان ‘‘ میں ایک قصّہ درج ہے کہ میں ایک دفعہ سفر کر رہا تھا۔ سفر کے دوران ایک تاجر کے گھر رات گزارنے کیلئے رکا اس تاجر نے ساری رات میرا دماغ کھایا وہ اس طرح کہ اپنی تجارت کی کہانیاں مجھے سُناتا رہا کہ فلاں ملک میں میری یہ تجارت ہے، فلاں جگہ میری اس چیز کی منڈی ہے، فلاں ملک سے یہ چیز لی کر آتا ہوں، یہ چیز برآمد کرتا ہوں۔ساری رات کہانیاں سُنا کر آخر میں کہنے لگا کہ میری اور سب خوا ہشات تو پوری ہوگئی ہیں اور میری تجارت بھی پروان چڑھ گئی ہے، البتہ اب صرف ایک آخری سفر کرنے کا ارادہ ہے، آپ دُعا کریں کہ میرا وہ سفر کامیاب ہوجائے تو پھر اس کے بعد قناعت کی زندگی اختیار کر لوں گا اور باقی زندگی اپنی گھر پر بیٹھ کر گزاروں گا۔

20:10) شیخ سعدیؒ نے سوال پوچھا کہ وہ کیسا سفر ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں یہاں سے فارسی گندھک لے کر چین جاؤں گا، اس لیے کہ میں نے سُن رکھا ہےکہ وہ چین میں بہت زیادہ دام پر بکتی ہے، پھر چین سے چینی. برتن لے کر روم میں فروخت کروں گا، وہاں سے رومی کپڑا لے کر انڈیا میں فروخت کروں گا اور پھر ہندوستان سے فولاد خرید کر حلب میں لے جا کر فروخت کروں گا ، حلب سے شیشہ خرید کر یمن میں بیچ دوں گا، پھروہاں سے یمنی چادر لے کر فارس آجاؤں گا غرض یہ کہ اس نے ساری دنیا کے ایک سفر کا منصوبہ تیار کر لیا اور شیخ سعدیؒ سے کہا کہ بس اس ایک آخری سفر کا ارادہ رکھتا ہوں ، اس کے لیے آپ دُعا کریں، اس کے بعد میں قناعت سے اپنے گھر پر باقی زندگی بصرکروں گا، اس وقت بھی یہی خیال ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی باقی زندگی دُکان پر ہی گزارلے گا۔

21:06) شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اس سفر کی روداد سُنی تو میں اس سے مخاطب ہوا اور اس سے کہافرمایا کہ تم نے یہ واقعہ سُنا ہے کہ ’’ غور ‘‘ کے صحرا میں ایک بہت بڑے تاجر کا سامان اس کے اونٹ سے گرا ہوا پڑا تھا، ایک طرف اس کا اونٹ بھی مردا حالت میں پڑا تھا اور دوسری طرف وہ خود بھی مرا ہوا پڑا تھا، اس کا وہ سامان زبان حال سے یہ کہہ رہا تھا کہ دنیا دار کی تنگ نگاہ یا تو قناعت پر کرسکتی ہے یا قبر کی مٹی ہر کر سکتی ہے ، اس کے پُر کرنے کا کوئی تیسرا طریقہ نہیں ہے۔یہ واقعہ سنانے کے بعد شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ جب دنیا انسان کے اوپر مسلط ہوجاتی ہے تو پھر اس کو کسی اور چیز کا خیال تک نہیں آتا ، یہ ہے دنیا کی محبت جس سے منع کیا گیا ہے۔

22:34) تکبر کے دو جز ہیں اور تکبر والا جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔۔۔

26:58) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان:۔

31:58) حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے ملفوظات۔۔۔ قلب تو ایک ہی ذات کے لیے ہے

35:20) دل گلستاں تھا تو ہرشے سے ٹپکتی تھی بہار دل بیاباں ہوگیا، عالم بیاباں ہوگیا

36:17) فرمایا اس طریق میں قلب کی ایسی حالت ہے کہ ہر وقت گناہوں سے حفاظت کی فکر ہوتی ہے۔۔۔

37:22) ایک سائنس دان کا ذہن: ایک سائنس دان نے لکھا کہ جب خلیج بنگال میں سورج کی گرمی سے سمندر کی موجوں سے بادل بنتے ہیں تو وہ بادل مون سون اُٹھاکر ہمالیہ پہاڑ سے ٹکراکر جنوبی ہند میں برس جاتے ہیں جس سے جنوبی ہند سرسبز و شاداب ہے۔ اگر ہمالیہ پہاڑ نہ ہوتا تو خلیجِ بنگال کی مون سون ہوائوں سے جو بادل بنتے۔ یہ آذربائیجان، تاشقند، سمرقند، بخارا میں برستے اور جنوبی ہند مثل منگولیا کے ریگستان ہوتا۔ یہ ایک سائن دان کا بیان شایع ہوا۔ تو ہمارے پاکستان سے ’’الحق‘‘ رسالہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک سے نکلتا ہے۔ اس میں مولانا عبداللہ شجاع آبادی نے اس کا جواب دیا کہ ان ظالموں کو یہ سوچنا چاہیے کہ جس سورج سے یہ بادل بنے، یہ سورج کیا تمہارے باپ نے پیدا کیا؟ کیوں تمہارا ذہن اللہ کی طرف نہیں جاتا اور سمندر کس نے پیدا کیا جہاں سے بادل اُٹھتے ہیں؟ ہمالیہ پہاڑ کس نے بنایا؟ بس یہ سائنس دان مخلوق سے مخلوق تک پہنچتے ہیں اور اللہ والے مخلوق سے خالق تک پہنچتے ہیں۔

42:33) ذرہ ذرہ کائنات اللہ تعالی کی نشانی ہے۔۔۔

49:30) فکر برائے خلق ذکر برائے خالق: اس لیے حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تفکر مخلوق میں کرو۔ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ اور اللہ کے اندر فکر مت کرو کیوں کہ تمہاری عقل محدود ہے۔ محدود عقل میں اللہ کی ذات غیرمحدود کیسے آئے گی؟ لہٰذا اللہ کی ذات کے بارے میں عقل کو استعمال مت کرو۔ اللہ تعالیٰ کو یاد کرو، ذکر ہی سے وہ مل جائیں گے۔

52:29) رماتے ہیں اللہ نے یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اور وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ نازل فرماکر بتادیا کہ فکر برائے خلق ہے اور ذکر برائے خالق ہے۔ ہم کو یاد کیا کرو، ہم کو کیا سوچ سکتے ہو، اتنی سی عقل میں کہاں آسکتے ہیں؟ ایک محدود دوسرے بڑے محدود کو اپنے اندر نہیں لے سکتا۔ کیوں بھائی گلاس میں صراحی آئے گی؟ صراحی میں مٹکا آئے گا؟ مٹکے میں حوض آئے گا؟ حوض میں نہر، نہر میں دریا اور دریا میں سمندر آئے گا؟ جب چھوٹے محدود میں اس سے بڑے محدود کو نہیں لے سکتے تو پھر غیرمحدود ذات کو اپنی عقل میں کیسے لے سکتے ہو؟ لہٰذا ہماری یاد میں لگ جائو، ہماری یاد ہی سے ہم تم کو مل جائیں گے اور عقل تمہاری پیچھے رہ جائے گی۔ نگاہ عشق تو بے پردہ دیکھتی ہے اسے خرد کے سامنے اب تک حجابِ عالم ہے

55:11) ذکر کا حاصل اور حاصلِ شکر۔۔۔

59:55) معرفتِ الٰہیہ کا تعلق ربوبیت الٰہیہ سے: اللہ تعالیٰ نے اپنی پہچان کا طریقہ آگے بتلادیا کہ کون ہے؟ رب العالمین ہے۔ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔‘‘ ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے خاص ہیں جو رب العالمین ہے۔ پروردگار ہے۔ تمام عالم کا ایک ایک ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ میرا کوئی پیدا کرنے والا ہے زمین و آسمان چاند و سورج سیارے، پہاڑ دریا اور سمندر اور عالم کی عجیب و غریب مخلوقات حق تعالیٰ کی وحدانیت و ربوبیت پر شہادت دے رہے حتّٰی کہ درختوں کے پتوں اور پھول کی پنکھڑیوں کے باریک باریک و ریشے سب میں حق تعالیٰ کی ربوبیت کار فرما ہے۔ لہٰذا الحمدللہ کے بعد ربّ العالمین فرماکر بتادیا کہ اگر تم ہمیں پہچاننا چاہتے ہو، ہماری معرفت حاصل کرنا چاہتے ہو تو ہماری صفت ربوبیت کو دیکھو کیونکہ تمام عالم کے ذرّہ ذرّہ میں ہماری ربوبیت کا تم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہو کہ ایک ناپاک قطرہ مِنی پر کیسی بخیہ گری اور کیسے کیسے عجیب تصرفات ہم نے کیے ہیں، ایک قطرہ میں بینائی، شنوائی گویائی کے خزانے کس نے رکھے ہیں، ایک بے جان قطرہ کو گوشت پوست کا انسان کسی نے بنایا ہیـ؟ ’’وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ‘‘ کیا تم اپنی ذات میں ہمیں نہیں دیکھتے ہو ؎ مری ہستی ہے خود شاہد وجود ذات باری کی دلیل ایسی ہے یہ جو عمر بھر رد ہو نہیں سکتی لیکن اللہ تعالیٰ کو پہنچاننے کے لیے صرف عقل کافی نہیں ہے۔ اسی لیے سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تَفَکَّرُوْا فِیْ خَلْقِ اللّہِ‘‘ مخلوقات اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور پرورش کا مظہر ہیں لہٰذا تم اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور کرو لیکن ’’وَلَا تَتَفَکَّرُوْا فِی اللّہ‘‘ اللہ کی ذات میں فکر مت کرنا ’’فَاِنَّکُمْ لَمْ تَقْدِرُوْا قَدْرَہٗ‘‘ خطبات الاحکام بحوالہ الترغیب والترہیب، اللہ کا تم اندازہ نہیں کرسکتے ہو غیر محدود ذات کو اپنی عقل کی چھوٹی سی ڈبیہ میں لا نہیں سکتے ہو۔

01:04:51) فکر فی المخلوقات سے استدلال توحید پر مغفرت: روایت میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ بدوی تھے آسمان کے نیچے گائوں میں لیٹنے کی عادت ہوتی ہے۔ گائوں میں لیٹے ہوئے تھے۔ آسمان کی طرف دیکھا اور یہ کہا: ’’یَااَیُّھَا السَّمَآئُ وَالنُّجُوْمُ اَنَّ لَکِ رَبًّا وَّخَالِقًا۔‘‘ اے آسمانو! اے ستارو! تمہارا کوئی پیدا کرنے والا ہے کوئی رب ہے کوئی تمہارا خالق ہے پھر اس نے کہا: ’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ‘‘ اے اللہ! مجھ کو بخش دیجئے۔ اسی وقت وحی نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنے اس اُمّتی کو خوشخبری سنادیں کہ میں نے اس کے اس استدلال توحید کو قبول کرلیا کہ اس نے مجھے کس طرح سے پہچانا۔ اے آسمانو، اے ستارو! تمہارا کوئی رب اور پیدا کرنے والا ہے، اے اللہ مجھ کو بخش دیجئے۔ تو ایک دیہاتی اور بدوی کے اس استدلال کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرماکر اس کی مغفرت فرمادی۔میں آپ لوگوں سے بھی یہ گفتگو کرکے اپنی مغفرت کا سامان کرلیجئے۔ اگر عربی کی عبارت یاد نہ ہو تو اردو میں کہہ لیجئے کہ اے آسمانو، اے ستارو! تمہارا کوئی پیدا کرنے والا ہے اور رب ہے۔ ایک جملہ اس میں پوشیدہ ہے کہ وہی ہمارا بھی خالق ہے۔ ہمارا بھی وہی پالنے والا ہے پھر کہیے ’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ‘‘ اے اللہ ہم کو بخش دیجئے۔ ان الفاظ میں مغفرت کا سامان ہے۔ شاپنگ کرلیجئے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries