مجلس ۲۸ ستمبر   ۲۰۲۱  عشاء  :مجلس اشعار معرفت و محبت              !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

08:12) تخصص کے طالبِ علم مولانا زبیر صاحب نے قرآن پاک کی تلاوت کی۔۔۔

08:57) فرمایا کہ جو بھی دُنیا میں آیا ہے محنت تو کرنی ہے۔۔۔۔

09:29) خصائل نبویﷺ سے حضور اقدس ﷺ کے اخلاق و آداب سے متعلق تعلیم ہوئی۔۔۔

11:07) تخصص کے طالبِ علم مولانا زبیر صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔ جو تری بزمِ محبت سے گریزاں نکلا جس طرح نکلا وہ حیراں و پریشاں نکلا دل دیا غیر کو جس نے بھی وہ ناداں نکلا کیوں کہ وہ جان چمن خار بیاباں نکلا ساری دنیا کی خرد آئی فدا ہونے کو جب کبھی جوش جنوں چاک گریباں نکلا درد ملتا ہے ترے درد کے بیماروں سے شیخ پھر سارے جہاں سے بھی مہرباں نکلا نارِ شہوت میں نظر آئے اندھیرے دل کو نورِ تقویٰ دلِ مؤمن میں درخشاں نکلا بعد مدت کے ہوئی اہلِ محبت کی شناخت خاک سمجھا تھا جسے لعل بدخشاں نکلا زاہد خشک جو تھا، پیر مغاں کے صدقے حاملِ درد ہوا غیر سے نالاں نکلا ہائے اس قطرئہ دریائے محبت کا اثر جس کو سمجھا تھا کہ قطرہ ہے وہ طوفاں نکلا خار سمجھا تھا جسے اہلِ جہاں نے اخترؔ دامنِ فقر میں اس کے ہی گلستاں نکلا

20:51) حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہیکہ اہل علم کو کوئی پہچانے ہی نہیں ۔۔۔

23:27) جو مٹ کر رہتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کی خوشبو اُڑاتے ہیں۔۔۔

24:52) مولانا کریم صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔ اختر ہمیں تو چاہیے وہ رند بادہ نوش جس کو ہو فکر جام نہ ہو فکر نائو نوش ہو جس کی موت و زندگی بس اس کے نام پر دونوں جہاں کو کھیل گیا اس کے نام پر جو روح چین پاتی نہ ہو اس کے غیر سے وحشت سے بھاگی پھرتی ہو ہر ایک دیر سے سینے میں ہو جو درد کا نشتر لیے ہوئے صحراو چمن دونوں کو مضطر کیے ہوئے اﷲ کہے درد سے وہ اس طرح اخترؔ ارض و سما کی یہ فضا ہو جائے منور یا رب تیرے عشاق سے ہو میری ملاقات قائم ہیں جن کے واسطے یہ ارض و سماوات جیتے ہیں جو تیرے لیے مرتے ہیں ہم وہیں جس دل میں تو نہیں وہاں جائیں گے ہم نہیں مل جائے جب وہ درد شناسائے محبت پھر شوق سے کر دوں فدا گلہائے محبت پوچھوں گا میں اس سوختہ جاں سے یہ با ادب ہم تشنہ لبوں کو بھی پلائے گا جام کب کچھ راز بتا مجھ کو بھی اے چاک گریبان اے دامن تر اشک رواں زلف پریشان کس کے لیے دریا تیری آنکھوں سے رواں ہے کس کے لیے پیری میں بھی تو رشک جواں ہے کس کے لیے لب پر یہ تیرے آہ و فغاں ہے ہے کس نگہ پاک کا تیرے جگر میں تیر اک خلق ہوئی جاتی ہے جس درد کی اسیر تیرے چمن کو کیسے اجاڑے گی یہ خزاں جو خود ہی تیرے فیض سے ہے رشک گلستاں میں کچھ بھی نہیں دوستو یہ سب میرے اشعار فیض شہ عبدالغنی فیض شہ ابرار میں داستان زخم جگر کس کو سنائوں اخترؔ میں اپنا زخم جگر کس کو دکھائوں پا جاتا ہوں جب آشنائے درد جگر کو کرتا ہوں فاش رابطۂ شمس و قمر کو

32:18) مصطفٰی بھائی نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔۔ مجھ کو جینے کا سہارا چاہیے غم تمہارا دل ہمارا چاہیے

40:31) بزرگ کسے کہتے ہیں؟۔۔۔داڑھی رکھنا واجب ہے اور مونچھوں کا کیا حکم ہے۔۔۔

42:04) ٹخنا چھپانا حرام ہے۔۔۔

42:58) تعویزوں میں کیا ہے ؟ کام کون بناتا ہے؟اللہ بناتا ہے۔۔۔

44:18) ایک جعلی پیر جو ایک وقت میں آٹھ ہزار روپیہ کا کھانا کھاتا ہے۔۔۔

46:23) مصطفیٰ بھائی نے اسی مناسبت سے حضرت تائب صاحب کے کچھ اشعار پڑھے۔۔۔یہی میرے مُرشد کی خلوت کی باتیں۔۔۔

48:29) مجھ کو جینے کا سہارا چاہیے غم تمہارا دل ہمارا چاہیےبحر الفت کا کنارا چاہیے سر ہمارا در تمہارا چاہیے غم میں بس ان کو پکارا چاہیے ان کے ہوتے کیا سہارا چاہیے لذت فریاد طوفانوں میں ہے کون کہتا ہے کنارا چاہیے حاصل ساحل مجھے طوفاں میں ہے ان کے جلوئوں کا نظارا چاہیےاپنی آہوں سے در جاناں پہ میر اپنی بگڑی کو سنوارا چاہیے آپ پر ہر دم فدا ہو میری جاں غیر کی مجھ کو نہ پروا چاہیےدست بکشا جانب زنبیل ما میرے سر کو تیرا سودا چاہیے اخترؔ خستہ و دور افتادہ کو ان کی رحمت کا بلاوا چاہیے

58:28) مفتی انوارالحق صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔۔ تجھے مشکل ہے کیا غم کو میرے زیر و زبر کرنا ہماری شامِ غم کو فضل سے رشکِ سحر کرنا تری قدرت کا یہ ادنیٰ کرشمہ ہوگا اے مالک کہ ہم سے دُور اُفتادوں کو پھر نزدیک تر کرناترے دستِ کرم کی کیمیا تاثیر کیا کہیے کسی ذرّے کو تیرا دم میں خورشید و قمر کرنا جو تیری راہ میں روباہ خصلت سے ہیں پسماندہ تجھے مشکل نہیں ایسوں کو رشکِ شیرنر کرنایہی ہے راستہ اپنے گناہوں کی تلافی کا تری سرکار میں بندوں کا ہر دم چشم تر کرنا تجھے مشکل نہیں مسکیں کو سلطانِ جہاں کر دے کرم سے اپنے اخترؔ کو ترا شمس و قمر کرنا 01:05:56) پرچیاں۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries