مجلس۲۴۔ اکتوبر۲۰۲۱ مغرب :دینی اسفار سے متعلق احباب کو اہم نصیحتیں   !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

12:39) دینی سفر سے متعلق نصیحتیں آفتاب نسبت مع اللہ سے حضرت والا رحمہ اللہ کا مضمون پڑھ کر سنایا:ارشاد فرمایا کہ شیخ کے ساتھ جب سفر کرو تو نیت درست کرلو کہ اے اللہ آپ کی رضا کے لیے، آپ کی محبت سیکھنے کے لیے یہ سفر کررہا ہوں اور دعا بھی کرو کہ ہم سے کوئی ایسا کام نہ ہو جس میں ہمارے بڑوں کی عزت پر حرف آئے کہ دیکھو یہ ان کے خادم ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی جو پہلی دفعہ سفر پر ہمارے ساتھ آئے تھے بغیر ضرورت کے دکان پر چلے گئے جہاں برمی لڑکیاں سیلز مینی کرتی ہیں، صرف مزہ لینے کے لیے چلے گئے، کوئی کام نہیں تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے بہت دُکھ ہوا کہ میرے ساتھ مولیٰ کے لیے سفرکرتے ہو لیکن پھر بھی تم نے لیلیٰ کو نہیں چھوڑا۔ اگر یہی کرنا تھا تو ساتھ کیوں آئے۔ دیکھو جو شخص بھنگیوں میں رہتا ہے اسے پاخانہ سونگھنے کی عادت ہے لیکن کسی حکیم نے اس کے علاج کے لیے اس کو عطر کی دکان میں نوکری دلوادی کہ جب وہ ہر وقت خوشبو سونگھے گا تو پھر اسے بدبو سے خودبخود نفرت ہوجائے گی لیکن اگر وہ ایسا خبیث ہوکہ عطر کی دکان میں بھی گو کی ڈبیہ ساتھ رکھتا ہو کہ دو چار گھنٹے کے بعد نکالی اور سونگھ لی تو کیا اس کی اِصلاح ہوسکتی ہے؟ اگر میں دیکھتا ہوں کہ کوئی کسی حسین لڑکے یا لڑکی کو دیکھ رہا ہے تو مجھے ایسا صدمہ ہوتا ہے کہ جیسے میرا ہارٹ فیل ہوجائے گا اور مجھے اللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈر لگتا ہے کہ ایسوں کے ساتھ رہنے سے کہیں غضب نازل نہ ہوجائے کیونکہ جہاں عذاب نازل ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں صحابہ سے فرمایا کہ جن لوگوں نے اس معذّب بستی کے پانی سے آٹا گوندھ لیا وہ پھینک دو کیونکہ یہاں عذاب نازل ہوا ہے اور آپ نے سر جھکالیا اور منہ پر کپڑا ڈال دیا اور فرمایا کہ روتے ہوئے گذر جاؤ، یہاں عذاب آیا ہے۔ تو جس عمل پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے تو جب لعنت آتی ہے تو وہ گرد و پیش کو بھی متأثر کرتی ہے، تو بدنظری کرنے والے کو خاص ہدایت کردو کہ تم اپنی لعنت کو متعدی مت کرو، ساتھ رہو اور صحیح رہو پھر دیکھو کیا ملتا ہے اور اگر یہی لعنتی کام کرنا ہے تو یہاں سے بھاگ جاؤ، کیوں ساتھ رہتے ہو، دھوکہ دیتے ہو اپنے نفس کو بھی اور مخلوق کو بھی۔ رَفِیْق فِی السَّفَر کو رَفِیْق فِی الْعَمَل ہونا چاہیے۔ خالی رفیقِ بریانی اور رفیقِ سموسہ نہیں ہونا چاہیے وَحَسُنَ اُولٰۗئِکَ رَفِیْقًا رفاقت سے مراد رفاقت صراطِ مستقیم ہے اور صراطِ مستقیم کیا ہے؟ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْہے، یہ منعم علیہم کا راستہ ہے یعنی اُن بندوں کا راستہ جن پر انعام نازل ہوا اور منعم علیہم کون ہیں؟ اُولٰۗئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَاۗءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ نبیین، صدیقین، شہداء و صالحین ہیں وَ حَسُنَ اُولٰۗئِکَ رَفِیْقًا یہ بہت اچھے رفیق ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ان کی رفاقت سے تم کو سیدھا راستہ اللہ کا مل جائے گا۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ صراطِ مستقیم کا بَدَلُ الْکُل مِنَ الْکُل ہے یعنی ان انعام یافتہ بندوں سے تم بالکل اللہ کا راستہ پا جاؤگے۔ تو ظاہر بات ہے کہ صراطِ مستقیم مطلوب و مقصود ہونا چاہیے اور یہ بدنظری کرکے صراطِ مستقیم کا مقصد فوت کررہا ہے لہٰذا علمِ الٰہی میں یہ رفیق نہیں ہے جو اپنے شیخ کے ساتھ رہ کر بھی اِدھر اُدھر بدنظری کرلیتا ہے بلکہ دل میں نیت ہو کہ طرح طرح کے نمکینوں کو دیکھیں گے، طرح طرح کی لیلاؤں کو دیکھیں گے، ایک جگہ سے تو مزہ نہیں آرہا ہے، بعض لوگوں کے دل میں یہ مرض پکڑا گیا ہے کہ وہ شیخ کے ساتھ سفر اسی لیے کرتے ہیں کہ مختلف پلیٹ فارموں پر، مختلف اسٹیشنوں پر، مختلف ائیرپورٹوں پر لندن کا مال، افریقہ کا مال، امریکہ کا مال، باربڈوز کا مال دیکھیں گے، طرح طرح کی لیلاؤں اور طرح طرح کے نمکینوں کو دیکھیں گے، یہ شخص غیراللہ کا طالب ہے، اس کی تو بنیاد ہی میں غیراللہ ہے تو یہ کیسے مولیٰ کو پائے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص عطا فرمائے۔

12:40) غمِ تقویٰ اور انعامِ ولایت:حضرت حکیم الامت کا ارشاد ہے کہ اپنے مربیّ کے ساتھ سفر کرو، جب وہ بھی بے وطن ہو، اپنے بال بچوں سے دور ہوا ور مرید بھی اپنے بال بچوں سے دور ہو پھر دیکھو کہ اﷲ کتنی تیز والی پلاتا ہے ؎ مانا کہ بہت کیف ہے حبُّ الوطنی میں ہوجاتی ہے مے تیز غریب الوطنی میں اس لیے مجددِ زمانہ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا مشورہ ہے کہ اپنے مربیوں کے ساتھ سفر بھی کیا کرو تاکہ مربیّ بھی اور تم بھی وطن سے بے وطن ہو اور بال بچوں سے جداہو، طالب و مطلوب، مرید و شیخ، استاد و شاگرد سب بے وطن ہوجاؤ تاکہ ہجرت کی مشابہت ہوجائے۔ اگر صحبت مرشد کی اہمیت نہ ہوتی تو صحابہ کو اجازت مل جاتی کہ ہمارا نبی مدینہ پاک ہجرت کررہا ہے لیکن تم مکہ ہی میں رہ سکتے ہو لیکن فرمایا کہ کعبہ سے چپٹے رہو گے تو گھر تو مل جائے گا مگر گھر والا نہیں پاؤگے، لہٰذا میرے نبی کے ساتھ جاؤ، رسول اﷲ سے اﷲ ملے گا، کعبۃُ اﷲ سے کعبہ ملے گا اور اﷲ والوں سے اﷲ ملے گا۔اس لیے آج اﷲ تعالیٰ نے میرے قلب میںیہ مضمون عطا فرمایا کہ جو اخلاقِ رذیلہ اور گناہوں کے تقاضوں کے کڑوے پانی سے بھرے ہوئے ہوں اور اﷲ کا کوئی بندہ ان کے پاس آجائے تو اس کے ساتھ سفر کر لو، پھر جب تم بادلوں کی طرح برسو گے تو کڑوے نہیں رہو گے میٹھے برسو گے۔ اس لیے اگر وہ اﷲ والا تمہیں ہائی جیک کرلے تو خوشی خوشی اس کے ساتھ چلے جاؤ اور یہ سمجھو کہ یہ میرے کڑوے پانی کو میٹھا پانی بنائیں گے۔اس لیے سارے عالم میں علماء دین کے سفر کو نعمت سمجھو اور جلدی سے اس کے ہائی جیک میں شامل ہوجاؤ پھر ان شاء اﷲ تم ایسے میٹھے بنو گے کہ میٹھے برسو گے بھی، تمہارا پانی بھی میٹھا برسے گا اور چند دن کے بعد تم خود حیرت میں آجاؤ گے؎ تو نے مجھ کو کیا سے کیا شوق فراواں کردیا پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کردیا حیرت کروگے کہ ہم کیا تھے اور کیا سے کیا ہوگئے۔ بھیکا شاہ نے اپنے شیخ شاہ ابوالمعالی سے کہا کہ ؎ بھیکا معالی پہ واریاں دن میں سو سو بار کاگا سے ہنس کیو اور کرت نہ لاگی بار اے بھیکا شاہ! اپنے شیخ شاہ ابو المعالی پر دن میں سوسو بار قربان ہوجاکہ تو کوّا تھا، گُو کھاتا تھا، گناہ کرتا تھا، اﷲ نے تیرے مرشد شاہ ابو المعالی کے صدقے میں تجھے کوّے سے ہنس چڑیا بنا دیااور دیر بھی نہیں لگائی۔ اس طرح اﷲ انقلاب دیتا ہے، کیا کہیں دوستو! ایک دن آنکھ بند ہوجائے گی پھر پچھتانے سے کچھ نہیں ہوگا، جلدی کرو، اﷲ والا بننے میں دیر مت کرو کیونکہ کچھ بھروسہ نہیں کہ اﷲکب بلا لے۔ میرے شیخ اعظم گڑھ کی پوربی زبان میں اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے؎نہ جانے بلا لے پیا کس گھڑی تو رہ جائے تکتی کھڑی کی کھڑی اشعار کے درمیان تھوڑی تھوڑی نثر پیش کررہا ہوں 17:23) اللہ تعالیٰ کے ساتھ اشد محبت کی بنیاد:الحمدللہ! اللہ کے بھروسے پر کہتا ہوں کہ سلاطینِ عالم کے تخت و تاج اور سورج اور چاند کی روشنیاں اور لیلائے کائنات کے نمکیات اور دولت ان شاء اللہ تعالیٰ مجھے خرید نہیں سکتے۔ سوائے حق تعالیٰ کی محبت کے اور ان کی محبت پر فدا ہونے کے اور میں انہیں کو اپنا سمجھتا ہوں جو میرے ذوق کے مطابق اللہ پر فدا ہونا سیکھتے ہیں اور جو میرا ساتھ نہیں دیتے وہ ساتھ ہیں مگر میرے ساتھ نہیں ہیں ؎ رہتے ہیں میرے ساتھ مگر ساتھ نہیں ہیں سن لو یہ مصرع خود بخود ابھی بن گیا ہے، تازہ تازہ گرم جلیبی ہے ؎ رہتے ہیں میرے ساتھ مگر ساتھ نہیں ہیں میرے ساتھ وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر بجمیع اعضاء ہٖ وبجمیع اجزاء ہٖ وبجمیع کمیاتہ وبجمیع کیفیاتہ وبجمیع انفاسہ فدا ہیں۔ جس کی ہر سانس اللہ تعالیٰ پر ہر وقت فدا ہورہی ہو اور ایک سانس بھی اللہ کو ناراض کرکے غضب اور قہر اور لعنتی زندگی گذارنے سے سچا اور پکا تائب ہوچکا ہو، اس لیے اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو ارادہ کرلو کہ اپنے مولیٰ پر اور پیدا کرنے والے پر اور پالنے والے پر اور جس کے قبضہ میں ہماری صحت اور ہماری بیماری، جس کے قبضہ میں ہماری غریبی اور مالداری، جس کے قبضہ میں ہماری عزت او رذلت اور جس کے قبضہ میں ہماری مغفرت اور جنت اور جہنم ہے، ایسی طاقت والی ذات پر، ایسے ارحم الراحمین پر ہر سانس فدا کرنے کے لیے جان کی بازی لگائو، تب رہو ورنہ اور خانقاہیں بھی موجود ہیں، ہم آپ کو منع نہیں کرتے اور خوشامد بھی نہیں کرتے کہ یہاں آئو، جس کو اللہ پر جان دینا ہو وہ میرا ساتھ دے۔ شاہ سید احمد شہید نے یہی اعلان کیا تھا کہ جس کو میرے ساتھ بالاکوٹ چل کر خدا تعالیٰ پر جان دینا ہو وہ میرے قافلے میں آجائے ؎

21:01) الہامات ربّانی:اس مرتبہ مدینہ شریف میں حق تعالیٰ نے میری مدد فرمائی، ایک وقت آیا کہ حضرت ہردوئی دامت برکاتہم نے میری ایک معاملہ میں گرفت فرمائی،میرے نفس کو ذرا ناگواری ہوئی، میں نے فوراً حضرت کے پائوں دبانے شروع کردئیے اور نفس کو سزا سنا دی کہ اے نالائق! میرا شیخ دین کے معاملے میں تو کیا دنیا کے معاملے میں بھی بلکہ ناحق بھی اگر میرے مریدوں کے سامنے مدینے کی گلیوں میں سرِ بازار جوتے لگائے تو میرے شیخ کو بالکل اس کا حق ہے، تجھے سر جھکائے رہنا پڑے گا۔بیٹا چاہے کچھ بھی ہوجائے، باپ باپ ہی ہے۔ حق تعالیٰ نے اس آزمائش سے اپنے فضل سے پاس کردیا، حق تعالیٰ میرے شیخ کے قلب کو ہمیشہ مجھ سے خوش رکھے ۔

21:04) اللہ تعالیٰ کے ساتھ اشد محبت کی بنیاد:مجھے ایک جماعت، ایک قافلہ عاشقوں کا چاہیے جو میرے ساتھ سارے عالَم میں پھریں اور اللہ تعالیٰ پر جان دینا سیکھیں اور ان شاء اللہ تعالیٰ وہ سلاطین کے تخت و تاج سے زیادہ مزہ پائیں گے۔ لیلائے کائنات کے نمکیات سے زیادہ مزہ پائیں گے۔ سورج و چاند کی روشنی سے زیادہ مزہ پائیں گے، پاپڑ بریانی، پلائو اور سموسوں سے زیادہ مزہ پائیں گے۔ ان کی لذت باطن کے مقابلہ میں ان شاء اللہ کوئی چیز مثل نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل ہے، جب دل میں وہ مولیٰ آتا ہے جو بے مثل ہے جس کا کوئی ہمسر نہیں ہے وہ دل ان شاء اللہ دونوں جہان سے بڑھ کر مست رہے گا اور دوسروں کو بھی مست کرے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اور واللہ! کہتا ہوں کہ اللہ پر مرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہے گا۔ دنیا پر مرنے والے، لیلائوں پر مرنے والے، معشوقوں پر مرنے والے گھاتے میں جاسکتے ہیں لیکن مولیٰ پر مرنے والے کا دونوں جہان میں خود اللہ تعالیٰ کفیل اور اس کو سنبھالنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

24:49) حضرت والا رحمہ اللہ کے مدینے شریف کے ایک سفر کا واقعہ۔۔۔

26:04) راہ ِسلوک کے آداب اور حقوق ِ شیخ:ارشاد فرمایا کہ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ کبھی اپنے شیخ کے ساتھ سفر کرو تاکہ تم بھی بے وطن ہو اور شیخ بھی بے وطن ہو، دونوں بے وطنوں پر خداکو رحم آجائے کہ یہ میری محبت میں مارے مارے پھر رہے ہیں، گھر سے دور، بال بچوں سے دور، کاروبار سے دور، لہٰذا ان پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے؎ مانا کہ بہت کیف ہے حب الوطنی میں مے ہو جاتی ہے تیز غریب الوطنی میں چنانچہ جب موقع ملےچاہے دو تین ہی دن ہوں، اپنے شیخ کے ساتھ سفر کرو، پھر ان شاء اللہ ! اس کا فائدہ دیکھنا۔اگر پیر تو بے وطن ہے اورتم اپنے وطن میں بیٹھے رہو تب بھی فائدہ تو ہوگا مگر تھوڑا ہوگا،اگر مکمل فائدہ چا ہتے ہو توپیر کے ساتھ سفر کرو، شیخ کے ساتھ بے وطن ہوجاؤ کیونکہ بے وطن ہوکر دنیا کی محبت سے دل پاک ہوجاتا ہے۔الحمد للہ! جب میرے شیخ مولاناابرار الحق صاحب دامت برکاتہم تشریف لاتے ہیں تو پھر میں یہ نیت کرلیتا ہوں کہ کراچی سے خیبر تک جہاں جہاں میرے شیخ جائیں گے ہم بھی حضرت کے ساتھ رہیں گے، ان شاء اللہ۔میں سوچتا ہوں کہ ویسے تو میری کوئی کمائی نہیں ہے مگر اپنے پیاروں کے ساتھ رہنے کی اللہ تعالیٰ نے مجھے خوب تو فیق بخشی ہے کہ الحمد للہ! میں نے اللہ والوں کے ساتھ کبھی بے وفائی نہیں کی،اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے ہمیشہ ان پر جان و دل سے فدا رہا، یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت کو ایئرپورٹ سے کراچی شہر میں آنے کی اجازت نہیں ملی، ہم نے بڑے وسائل استعمال کئے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ سب میرے شیخ کو چھوڑ کے چلے گئے اور حضرت والا ایئر پورٹ سے قریب ایک ہوٹل میں ٹھہر گئے۔ میں نےدل میں کہا کہ سب جائیں،ہم نہیں جائیں گے۔میرا شیخ ہندوستان سے آکر یہاں ایئر پورٹ پر بے وطن ہو اور میں اپنے بال بچوں میں رہوں،یہ غیرت ِمحبت کے خلاف ہے چنانچہ میں نے بھی اپنا بستر وہیں لگادیا۔اب ہر پانچ منٹ بعد ہوائی جہاز کا شور ہوتا،میں نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت! جہازوں کے شور و غل سے مجھے نیند نہیں آرہی ہے،تو حضرت نے اپنا صندوقچہ کھولا اور مجھے روئی دی اور کہا کہ یہ روئی اپنے دونوں کانوں میںٹھونس لے،پھر دیکھ کیسی مزیدار نیند آتی ہے۔بس میں نے کانوں میں روئی لگائی اور الحمدللہ سوگیا،یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ِعظیم ہے

28:47) سفر کے دوران بے اُصولیوں پر نصیحت کہ شیخ کی غیر موجودگی میں خانقاہ کو آباد کر نا چاہیے۔۔۔حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب دامت برکاتہم کی تشریف آوری کے موقعے پر کچھ احباب نے ساتھ نہیں دیا اس پر نصیحت۔۔۔

32:55) پردیس میں تذکرئہ وطن:فَادْخُلِیْ فِی عِبَادِیْ کو مقدم فرمایا کہ پہلے میرے خاص بندوں میں بیٹھو وَادْ خُلِیْ جَنَّتِیْ جنت کو بعد میں بیان فرمایا، سمجھ لو اللہ کے نیک بندوں میں بیٹھنا جنت کی نعمت ہے۔ اور جنت سے افضل ہے۔ اور فَادْخُلِیْ بِعِبَادِیْ نہیں فرمایا کہ میرے بندوں کے پاس جائو بلکہ فرمایا: فَادْخُلِیْ فِی عِبَادِیْ میرے بندوں میں داخل ہوجائو یعنی سر سے پیر تک دل اور جان اور جسم سب لے جائو۔ دخول کی دو قسمیں ہیں دخولِ تام اور دخولِ ناقص۔ تام یہ ہے کہ جسم دل اور جان سب داخل ہوجائے اور ناقص یہ ہے کہ جسم داخل ہو اور دل کہیں اور ہو۔ اللہ تعالیٰ کے اس اندازِ بیان پر قربان ہوجائے تب بھی حق ادا نہیں ہوسکتا فَادْخُلِیْ فِی عِبَادِیْ فرمایا چوں کہ ظرف مظروف کو بالکل گھیر لیتا ہے۔ اللہ والوں کے ظرف میں تمہارے قلب اور جسم و جاں کا مظروف بالکل سَما جائے۔ اس کے بعد وَادْ خُلِیْ جَنَّتِیْ ہے جنت کی نعمت خالص ہے، وہاں کوئی الم اور رنجم و غم نہیں ہوگا، جنت خالص راحت ہوگی تو حالص راحت میں پہلی راحت اللہ تعالیٰ نے یہی بیان کی کہ فَادْخُلِیْ فِی عِبَادِیْ میرے خاص بندوں میں داخل ہوجائو، تم کو بہت آرام ملے گا کیوں کہ ان کے پاس آرام جاں ہے، وہ اپنے دل میں خالق کو لیے ہوئے ہیں اس لیے ان کے پاس تم کو مکمل اور بے مثل آرام ملے گا۔ اس لیے جسم سے، دل سے، روح سے میرے بندوںمیں داخل ہوجائو، خلای جسم نہ لے جائو کہ بیٹھے تو ہو اللہ والوں کے پاس اور دل حوروں میں لگا ہوا ہے

38:28) اہل اللہ کے پاس اتنا رہو کہ تم بھی ان ہی جیسے ہوجائو۔كُوْنُوْا کے معنی خَالِطُوْاکے ہیں لیکن ان سے کتنی مخالطت رکھو؟ کتنا ان سے ملنا جلنا رکھو؟ اللہ والوں کے ساتھ اتنا رہو کہ تم بھی ان جیسے ہوجائو۔ شیخ کا درد ِدل، شیخ کا اخلاص، شیخ کی اتباع ِسنت سب آپ کے اندر بھی منتقل ہوجائے،اور وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا اﷲ کی راہ میں مجاہدہ کے لئے تیار ہوجاؤ۔اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں کتنا بھی غم آئے، نظر بچانے میں کتنا بھی غم ہو،یا کسی گناہ کے چھوڑنے میں غم اٹھانا پڑے چاہےدنیاوی کتنا ہی مال مل رہا ہو مگر اللہ کی مرضی کے مطابق نہیں ہے تو وہاں رُک جائو۔لہٰذا مجاہدہ ہو اور ساتھ ساتھ اہل اللہ کی صحبت ہو تو ان شا ءاللہ تعالیٰ کام بن جائے گا۔۔۔

39:34) سفر میں ایک دوست کلی بنا ہوا ہے اور وہ اکیلا کاٹن اُٹھا رہا ہے باقی شیخ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں اس پر نصیحت۔۔۔

42:16) الطاف ربّانی:دوستو! مزہ اپنے کو مٹانے میں ہے، اپنے وجود کو باقی رکھنے میں مزہ نہیں ہے۔ اگر چینی چائے میں پڑی رہے اور کہے کہ ہمیں چمچہ سے مٹائو مت تو پھیکی رہے گی، کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔ اگر اسی چینی کو مٹادوگے، چائے یا شربت میں حل ہوجائے گی تو ان شاء اللہ! لوگ مجبور ہوں گے، ہر گھونٹ پر کہیں گے شکریہ، اس کو پی لو، یہ شربت ایمان افزا ہے۔ شربت روح افزا تو سنا ہوگا، آج یہ نئی لغت سنئے ’’شربت ایمانِ افزائ‘‘۔ یہ لفظ آج اللہ تعالیٰ نے مولانا کی برکت سے قونیہ میں عطا فرمایا۔ جنہو ںنے اپنے نفس کو مٹادیا وہ اللہ والے کیا ہیں؟ شربت ایمان افزا ہیں، ان کو پی لو یعنی ان کی باتوں کو ایک دم دل و جان میں رکھ لو ؎ مہر پاکاں درمیان جاں نشاں اللہ والوں کی محبت کو روح کے اندر داخل کرلو اور ان کی ڈانٹ ڈپٹ کے لیے بھی تیار رہو، بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ڈینٹ نکلتا ہے؟ بتائیے! موٹر میں ڈینٹ ہے تو کیا یہ معمولی ٹھک ٹھک سے نکلے گا؟ زور سے ہتھوڑا مارنا پڑے گا جن کو حضرت حکیم الامت نے ڈانٹا وہی لوگ چمکے اور جن کو پیار و محبت ہی ملی، ڈانٹ نہیں ملی وہ چمکے نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا دستور ہے لیکن شیخ کی ڈانٹ کی تمنا نہ کرو۔ اگر تکویناً پڑجائے تو دل بُرا مت کرو۔

44:25) حضرت میر صاحب رحمہ اللہ کی ڈانٹ ۔۔۔

58:34) سفر میں ہونے والی بے اصولیاں کی اصلاح۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries