مرکزی مجلس۳۱۔ اکتوبر۲۰۲۱ :حلال کی برکت اور حرام کی نحوست ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں 12:03) بیان کے آغاز میں جناب سید ثروت صاحب نے اشعار پڑھ کر سنائے۔۔ 18:57) غیب کا علم کسی کو نہیں ہوتا۔۔۔ 20:08) اللہ والے اللہ نہیں ہے لیکن اللہ سے جدا بھی نہیں ہیں۔۔ خاصانِ خدا خدا نہ باشند لیکن زخدا جدا نہ باشند اللہ والے خدا نہیں ہیں لیکن وہ خدا سے جدا بھی نہیں ہیں۔ 20:27) عود کی خوشبو عود نہیں ہے لیکن عود سے جدا بھی نہیں ہے۔۔ 20:56) بدگمانی سے اسی لیے انسان برباد ہوجا تا ہے۔۔ 21:28) تکبر انتہائی خطرناک مرض ہے شیطان کو بھی اسی تکبر نے مردود کیا۔۔۔ 22:15) صدیقین کے سروں سے بھی سب سے آخر میں تکبر اور جاہ نکلتا ہے۔۔ 23:08) زمزم حوضِ کوثر سے بڑھ کر ہے کیسے؟ 25:04) اللہ نے ایک نعمت دی ہے لیکن ہم محروم ہیں۔۔۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ پہلے زمانے میں دریا کا ایک جانور دریائے گائو ہوتا تھا اس کے اندر ایک قیمتی موتی ہوتاتھا جس کو وہ نکال کر رکھ دیتا تھا جس سے رات کے وقت سارا جنگل روشن ہوجاتا اور وہ جلدی سے اچھی اچھی گھاس چر لیتا۔ تاجر لوگ اس دریائی گائو کے موتی لینے کے لیے درخت پر چڑھ جاتے تھے اور ایک مٹکے میں مٹی اور بھوسہ ملا کر اس موتی کے اوپر گرادیتے جس سے اندھیرا ہوجاتا اور دریائی گائو اسے تلاش کرنے کے لیے بار بار اس جگہ آتا جہاں موتی چھپا ہوا تھا لیکن مٹی اور کیچڑ دیکھ کر واپس چلا جاتا اور صبح تک مایوس ہوکر دریا میں واپس چلا جاتا۔ اسی طرح بعض لوگ اہل اﷲ کو حقیر سمجھتے ہیں اور ان کو اپنا ہی جیسا گمان کرتے ہیں۔۔۔ 26:00) سارے انبیاء علیھم السلام سے کون لوگ محروم ہوئے؟ 26:29) خاندان میں کوئی حافظ ہے عالم ہے کہتے ہیں کھائے گا کہاں سے۔۔ 27:40) حدیث مفہوم ہے۔۔۔کہ علماء کو جنت کے دروازوں پر اﷲ تعالیٰ روک دیں گے اور فرمائیں گے ابھی جنت میں داخل نہ ہو جس جس کی تم چاہو شفاعت کرو اور جنت میں لے جائو 28:43) اللہ والے کون ہیں سب نشانیاں قرآں پاک میں موجود ہے۔۔ 28:58) غیب کا علم صرف اور صرف اللہ تعالی کو ہے۔۔۔ 30:49) موضح القرآن تفسیر میں لکھا ہوا ہے فرمایا کہ عرشِ اعظم کے سامنے لکھا ہوا ہے۔ ’’سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلیٰ غَضَبِیْ۔‘‘ میری رحمت اور میرے غصہ میں جو دوڑ ہوئی تو میری رحمت آگے بڑھ گئی۔ ۔ جو قانون سے نہیں بخشا جائے گا اللہ تعالی اپنے شاہی رحم سے اُس کو بخش دیں گے۔۔عرشِ اعظم پر اللہ نے یہ کیوں لکھا یا ہے؟ فرمایا کہ یہ شاہی رحم کے طور پر لکھایا ہے۔ اس کا نام کیا ہے ازقبیل مراحِم خسروانہ۔ اگر میرا کوئی بندہ قانون سے نہ بخشا جاسکا تو میں اپنے شاہی رحم کو محفوظ رکھتا ہون، اس شاہی رحم سے اس کو معاف کردوں گا جیسے جب کوئی مجرم قانون سے نجات نہیں پاتا اور سپریم کورٹ سے پھانسی کی قطعی سزا ہوجاتی ہے تو اب آگے کیونکہ کوئی اور عدالت نہیں ہے لہٰذا سلطانِ مملکت سے رحم کی درخواست کرتا ہے اور اخباروں میں آجاتا ہے کہ مجرم نے سپریم کورٹ میں ہارنے کے بعد پھانسی کی سزا سن کر اب مملکت کے بادشاہ سے رجوع کیا ہے اور شاہی رحم کی بھیک مانگی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے شاہی رحم کی بھیک کو محفوظ کرلیا ہے۔وہ مالک ہے قیامت کے دن کا۔ جج قانون کا پابند ہوتا ہے۔ مالک پابند نہیں ہوتا۔ اللہ کی قضا اللہ کے سامنے محکوم ہے۔ قضائے الہٰی یعنی اللہ کا فیصلہ اللہ تعالیٰ پر حکومت نہیں کرسکتا ہے۔ 34:13) آنکھ بچاو،دل بچاو،جسم بچاو اللہ کو نہ پاو تو کہنا اختر کیا کہہ رہا تھا۔۔۔ 37:30) جو لوگ بے چین ہیں اُن کو نصیحت۔۔۔ 39:22) فرمایا شرم نہیں آتی بیوی کی اللہ تعالی نے شفارشیں کی ہیں اور ہملوگ ظلم کرتے ہیں پھر کہاں سے چین سکون ملے گا۔۔۔ 40:54) ایسے پاگلوں کی طرح ہم نقل کرتے ہیں کہ جیسے سارے چہیتے ہمارے لندن اور امریکہ میں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مدینے شریف والے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔۔۔ 42:17) کبھی ظلم نہ کرنا اور نہ کسی مظلوم کی آہ لینا۔۔۔ 44:19) سو قتل کے مجرم کو اللہ نے معاف کیا ہے۔۔۔ 44:44) حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی ٹرین کا ٹکٹ لینے گیا وہاں لڑکی ہے وہاں ٹوپی کو صحیح کیا بال صحیح کیے کپڑوں کو سیٹ کیا اس میں اتنی خرابیاں ہیں کہ اشرف علی کا قلم اس کو اپنے دائرہ تحریر میں نہیں لاسکتا۔۔۔ 49:16) ائیر ہوسٹس سے اگر اخلاق سے بات نہ کرو تو کہتے ہیں کہ یہ کہیں گی کہ یہ لوگ بہت بد اخلاق ہوتے ہیں تو فرمایا کہ ہمیں ان کی خوشی نہیں چاہیے ہمیں اللہ تعالی کی خوشی چاہیے۔۔۔ 53:16) حضرت مفتی نعیم صاحب دامت برکاتہم نے ایک دعا کی تعلیم دی تھی اور فضائل بتائےتھے حضرت شیخ نے وہ پڑھ کر سنائے۔۔۔ یا رب لک الحمد کما ینبغی لجلال وجھک عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے نے یوں کہا: «يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك» ”اے میرے رب! میں تیری ایسی تعریف کرتا ہوں جو تیری ذات کے جلال اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہے“، تو یہ کلمہ ان دونوں فرشتوں (یعنی کراما ً کاتبین) پر مشکل ہوا، اور وہ نہیں سمجھ سکے کہ اس کلمے کو کس طرح لکھیں، آخر وہ دونوں آسمان کی طرف چڑھے اور عرض کیا: اے ہمارے رب! تیرے بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے جسے ہم نہیں جانتے کیسے لکھیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے کیا کہا؟ حالانکہ اس کے بندے نے جو کہا اسے وہ خوب جانتا ہے، ان فرشتوں نے عرض کیا: تیرے بندے نے یہ کلمہ کہا ہے «يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك» تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس کلمہ کو (ان ہی لفظوں کے ساتھ نامہ اعمال میں) اسی طرح لکھ دو جس طرح میرے بندے نے کہا: یہاں تک کہ جب میرا بندہ مجھ سے ملے گا تو میں اس وقت اس کو اس کا بدلہ دوں گا۔ 55:39) آج کل یہ چلا ہے کہ بچت۔۔۔ایک بہت اہم مسئلہ اس کو ضرور سنیں ۔۔ 58:46) حرام مال اور کھانے سے بہت بچیں۔۔ 01:01:08) بیٹیوں کو پڑھنے کے لیے باہر ملک بھیجنا کتنی بے شرمی کی بات ہے۔۔ 01:03:01) ایک حرام کا لقمہ چالیس دن کی اخلاص والی عبادت کو ختم کردیتا ہے ایک گھانس والے بابا کا واقعہ.. 01:03:51) جو اللہ کو خوش کرے گا وہ اپنے چھوٹے کی دعائیں لے گا۔۔ 01:05:19) ماسیوں پر ظلم کرنا اُن کا خیال نہ رکھنا خواتین کو نصیحت۔۔ 01:11:03) گھانس والے بابا کا واقعہ مکمل فرمایا۔۔۔ 01:14:01) جذب اللہ تعالی جس کو بھی اپنا بنانا چاہتے ہیں اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں کالے گورے امیر غریب مسلمان کافر کسی کی قید نہیں۔۔۔من یشاء کی قید ہے کہ جس کو بھی چاہتےہیں۔۔ 01:15:45) حضرت جگر مرادآبادی کی توبہ و بیعت کا واقعہ:۔ پینے کو تو بے حساب پی لی اب ہے روز حساب کا دھڑکا بہت شراب پیتے تھے حضرت خواجہ مجذوب صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی۔۔ عنی اب دل دھڑک رہا ہے کہ قیامت کے دن اللہ کو کیا جواب دوں گا کہ ظالم میں نے شراب کو حرام کیا تھا اور اس قدر پیتا تھا۔ تجھے شرم بھی نہ آئی کہ مجھے قیامت کے دن پیش ہونا ہے۔ پس فوراً خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمۃ اللہ علیہ سے مشورہ لیا کہ خواجہ صاحب آپ کیسے اللہ والے ہوگئے؟ کس کی صحبت نے آپ کو ایسا متبعِ سنت بنادیا؟ آپ تو ڈپٹی کلکٹر ہیں۔ ڈپٹی کلکٹر اور گول ٹوپی اور لمبا کرتا اور عربی پاجامہ اور ہاتھ میں تسبیح۔ میں نے تو دنیا میں کہیں ایسا ڈپٹی کلکٹر نہیں دیکھا۔ آپ کی ٹرکس نے نکالی؟ اے مسٹر! فرمایا کہ تھانہ بھون میں حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ٹر نکال دی۔ مسٹر کی ٹر کو مس کردیا۔ تو کہا کہ کیا مجھ جیسا شرابی بھی تھانہ بھون جاسکتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ میں تو وہاں بھی پیوں گا کیوںکہ اس کے بغیر میرا گزارا نہیں۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھانہ بھون پہنچے اور کہا کہ جگرؔ صاحب اپنی اصلاح کے لیے آنا چاہتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ میں خانقاہ میں بھی پیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہنسے اور فرمایا کہ جگرؔ صاحب سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اشرف علی ان کو اپنے مکان میں ٹھہرائے گا۔ خانقاہ تو ایک قومی ادارہ ہے اس میں تو ہم اجازت دینے سے مجبور ہیں لیکن ان کو میں اپنا مہمان بنائوں گا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان میں جب کافر کو بھی مہمان بناتے تھے، تو اشرف علی ایک گنہگار مسلمان کو کیوں مہمان نہ بنائے گا جو اپنے علاج اور اصلاح کے لیے آرہا ہے۔ جگرؔ صاحب نے جب یہ سنا تو رونے لگے اور کہا کہ آہ! ہم تو سمجھتے تھے کہ اللہ والے گنہگاروں سے نفرت کرتے ہوں گے لیکن آج پتا چلا کہ ان کا قلب کتنا وسیع ہوتا ہے؟ بس تھانہ بھون پہنچ گئے اور عرض کیا کہ حضرت اپنے ہاتھ پر توبہ کرادیجئے اور چار باتوں کے لیے دُعا کردیجئے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ میں شراب چھوڑدوں، پرانی عادت ہے۔۔ مگر اللہ تعالیٰ کے کرم سے اب چھوڑنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے تو بڑے سے بڑا گناہ، پرانے سے پرانا گناہ آدمی چھوڑدیتا ہے اور اگر گناہ نہیں چھوڑ رہا ہے تو سمجھ لو کہ اسے ابھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جذب نہیں ہے۔ ور دوسری درخواست دُعا یہ کی کہ مجھ کو حج نصیب ہوجائے۔ تیسری درخواست کی کہ میں ڈاڑھی رکھ لوں اور چوتھی درخواست کی کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے دُعا فرمائی۔ جگرؔ صاحب تھانہ بھون سے واپس آئے تو شراب چھوڑدی، توبہ کرلی، شراب چھوڑنے سے بیمار ہوگئے۔ قومی امانت تھی، زبردست شاعر تھا۔ ڈاکٹروں کے بورڈ نے معاینہ کیا اور کہا کہ جگرؔ صاحب آپ کی موت سے ہم لوگ بے کیف ہوجائیں گے۔ آپ قوم کی امانت ہیں لہٰذا تھوڑی سی پی لیا کیجئے تاکہ آپ زندہ تو رہیں۔ جگرؔ صاحب نے کہاکہ اگر میں تھوڑی تھوڑی پیتا رہوں گا تو کب تک جیتا رہوں گا؟ ڈاکٹروں نے کہا کہ پانچ دس سال اور چل جائیں گے؟ فرمایا کہ دس سال کے بعد اگر میں شراب پیتے ہوئے اس گناہِ کبیرہ کی حالت میں مروںگا تو اللہ کے غضب اور قہر کے سائے میں مروں گا اور اگر ابھی مرتا ہوں جیسا کہ آپ لوگ مجھے ڈرارہے ہیں کہ نہ پینے سے مرجائوگے وت میں اس موت کو پیار کرتا ہوں۔ ایسی موت کو عزیز رکھتا ہوں کیوں کہ اگر جگر کو شراب چھوڑنے سے موت آئی تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں جائوں گا کیوں کہ یہ موت خدا کی راہ میں ہوگی کہ میرے بندے نے ایک گناہ چھوڑدیا۔ اس غم میں یہ مرا ہے۔ میری نافرمانی چھوڑنے کے غم میں اسے موت آئی ہے، میرے قہروغضب کے اعمال چھوڑنے میں میرے بندہ نے جان دی ہے، یہ شہادت کی موت ہے۔ لہٰذا جگرؔ صاحب نے پھر شراب نہیں پی اور بالکل اچھے ہوگئے۔ جب بندہ گناہ چھوڑنے کی ہمت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی مدد فرماتے ہیں۔ غرض جگرؔ صاحب نے ڈاڑھی رکھ لی۔ اللہ والوں کی صحبت سے بڑے بڑے فاسق ولی اللہ ہوجاتے ہیں۔ 01:23:12) جگر صاحب نے حضرت تھانوی رحمہ اللہ سے چار دعا کی درخواست کی۔۔ دیکھئے! جگرؔ جیسے شرابی کو ایک اللہ والے کی دُعا لگ رہی ہے شراب چھوڑ دی جگرؔ صاحب نے دوسری دُعا کرائی تھی سنت کے مطابق داڑھی رکھنے کی۔ پھر داڑھی رکھ لی اور حج کر آئے۔چاروں دعائیں قبول ہوئیں۔۔ 01:24:38) بمبئی آکر آئینہ دیکھا تو داڑھی سنت کے مطابق بڑھی ہوئی نظر آئی۔ اس وقت جگرؔ صاحب نے جو شعر کہا ہے۔۔جگر صاحب نے آئینہ میں جب اپنی ڈاڑھی دیکھی تو یہ شعر کہا:۔ چلو دیکھ آئیں تماشا جگر کا سنا ہے وہ کافر مسلمان ہوگا دورانیہ 1:24:17 |