مجلس۲ نومبر۲۰۲۱ عشاء :اللہ جس حال میں رکھتے ہیں اس میں راضی رہنا چاہیے ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں 01:59) حسبِ معمول کتاب سے تعلیم ہوئی۔۔۔ 03:46) شیخ سے فائدہ کس طرح ہوتا ہے۔۔ 05:24) موسی علیہ السلام کے زمانے میں ایک چرواہے کا ذکر۔۔۔ 05:44) جذب اور مجوب سالک۔۔۔ 07:25) اللہ والوں کی محبت کو مانگنا چاہیے۔۔۔ 08:33) شیخ کی محبت کو بھی اللہ سے مانگنا چاہیے۔۔۔ 08:50) میرے شیخ کو ذرہ بھی میری ذات سے تکدر نہ ہو۔۔۔ 09:45) پیارے پیر و مرشد لسان اختر اختر ثانی زمانہ کے رومی و جامی امیر محبت، قلندر وقت ترجمانِ اکابر شیخ الحدیث، شیخ العلماء، عارف باللہ، حضرت مولانا شاہ عبدالمتین بن حسین صاحب دامت برکاتہم کے بڑے صاحب زادے اور خلیفہ مفتی حسن صاحب سخت بیمار پڑ گئے تھے۔ حتیٰ المقدور ہر ممکن علاج بھی چل رہا تھا۔ اُس وقت وائس میسج میں بیماری کی شدت کی وجہ سے اپنی کچھ ذھنی پریشانی کا ذکر کیا اور حضرت والا دامت برکاتہم سے خصوصی دعاؤں کی درخواست بھی کی تھی۔ اُس وائس میسج کے جواب میں حضرت والا دامت برکاتہم نے مندرجہ ذیل بہت ہی اہم اور آبِ زر سے لکھنے کے قابل قیمتی نصیحت فرمائی ہے۔جس کو حضرت فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم نے عشاء مجلس میں پڑھ کر سنائی۔۔۔ 11:49) ایسا نہیں ہے کہ صبح سے رات تک کسی کو غم نہیں آتا۔۔۔ 13:16) صبر سے متعلق نصیحت ۔۔۔ 14:08) حضرت مولانا شاہ عبدالمتین صاحب دامت برکاتہم نصیحتیں یہاں سے شروع ہوئیں۔۔ اللہ کی طرف سے جو کچھ بندے کے لئے ہوتا ہے اُسی میں خیر مُضمَر ہے، اُسی میں خیر ہونے کا اعتقاد رکھنا چاہئے بیماری کی وجہ سے پریشان ہوجانا تو ٹھیک نہیں ہے۔ اللہ تعالی جس حال میں رکھتے ہیں اُسی حال میں راضی رہنا چاہئے۔ اِسی میں خیر ہے۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ مالک ہے جو چاہے کر تصرف کیا وجہ کسی بھی فکر کی ہے بیٹھا ہوں میں مطمئن کہ یارب حاکم بھی ہے تو حکیم بھی ہے۔ اللہ تعالی حاکم بھی ہے اور حکیم بھی ہے حاکم اور حکیم اِن دونوں ناموں کا مراقبہ اور بار بار دل میں استحضار کرناچاہئے اللہ تعالی حاکم بھی ہے اور حکیم بھی ہے۔ حاکم اور حکیم اِن دونوں ناموں کا مراقبہ کرنا چاہئے۔ دونوں ناموں کا بار بار دل میں استحضار کرناچاہئے۔ کبھی کبھی زبان سے بھی بولنا چاہئے کہ اللہ پاک حاکم بھی ہے اور حکیم بھی ہے۔ حاکم ہے تو حکم کرنے والا ہے، وہ جو چاہے حکم کر سکتا ہے، اس کی خوشی ہے، اس کا اختیار ہے۔ جو حکم ہوگا وہی ہوگا۔ اور حکیم تو حکمت والا ہے یعنی اللہ کی طرف سے جو کچھ بندے کے لئے ہوتا ہے اُسی میں خیر مضمر ہے۔اُسی میں خیر ہونے کا اعتقاد رکھنا چاہئے۔ پہلا تو یہ ہے کہ اللہ تعالی کے اِن دونوں ناموں کا استحضار کرنا ہے۔ حاکم بھی ہے اور حکیم بھی ہے۔ حاکم نام کا حق یہ ہے کہ ہم ہر حکم کے سامنے سر جھکا دے۔ اور اللہ تعالی کا ایک صفتی نام ہے حکیم۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر حال میں یہ دھیان کرنا چاہئے کہ ہر حال میں چاہے وہ ہمارے موافق ہو یا موافق نہ ہو ہر ایک میں منجانب اللہ خیر ہے۔ اِس میں بندے کے لئے خیر ضرور ہے۔ باقی رہا اسباب کے طور پر تو ہمیں جو کرنا ہے وہ ہم کریں گے انشاءاللہ۔ ایک تو یہ بات ہے۔ ٹینشن تو کوئی بندگی نہیں ہے، ٹینشن کرتے رہنا اور دل میں پریشانی کو جگہ دینا نہ کوئی طریقۂ سنت ہے اور نہ کوئی طریقۂ بندگی ہے، ٹینشن کرنے سے دنیا و آخرت میں کسی کا نہ کوئی فائدہ ہے دوسری بات یہ ہے کہ ٹینشن کرنے اور پریشانی اٹھانے سے اللہ تعالی کے اُس مبارک نام کے مقتضٰی کے اوپر قائم رہنا تو نہیں ہوتا ہے۔ ٹینشن کرکے کیا فائدہ ہے! ٹینشن تو کوئی بندگی نہیں ہے۔ ٹینشن کرتے رہنا اور دل میں پریشانی کو جگہ دینا یہ نہ کوئی طریقۂ سنت ہے اور نہ کوئی طریقۂ بندگی ہے۔ مزید یہ کہ ٹینشن کرنے میں دنیا و آخرت کا فائدہ کیا ہے؟ تمہارا نہ اپنا کوئی فائدہ ہے، اور نہ جن لوگوں کے لئے ٹینشن فل کر رہے ہو ان کے لئے کچھ اس میں فائدہ ہے۔ فائدہ تو اس میں کسی کا نہیں ہے۔ اس میں نہ تمہارا کوئی فائدہ ہے اور نہ ان کا کوئی فائدہ ہے۔بلکہ اس میں تمہارا نقصان ہے جسمانی نقصان ہے، ذہنی نقصان ہے، دینی نقصان ہے۔ قصداً ٹینشن نہیں لانا چاہئے، نہ رکھنا چاہئے۔ بار بار اس بارے میں فکر بھی نہ کرنا۔ جو بھی حالت درپیش ہے اس میں جو علاج وغیرہ ہمارے بس میں ہے اسے کرنا ہے، اور اللہ تعالیٰ پر ہمیں توکل کرنا ہے اور دعا کرتے رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حاکم اور حکیم نام کا مراقبہ کرنا، دل میں استحضار رکھنا چاہئے۔ توکل کا مطلب یہ ہے کہ مناسب اسباب جو اختیار کرنا چاہئے اسے اختیار کرنا اور ایک یہ ہے کہ رب العالمین پر توکل کرنا۔ توکل کا مطلب یہ ہے کہ مناسب اسباب جو اختیار کرنا چاہئے اسے اختیار کرنا، اور اس سلسلے میں کرنے کا جو کام ہے وہ کرنا ہے، اور اس کا نتیجہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاتھ پر سپرد کردینا، اور اُس حال پر راضی رہنا، یعنی عقیدہ کے طور پر عقلی اعتبار سے اس حال پر راضی رہنا، خوش رہنا، دل سے ناراض نہ ہونا، بچہ اگر بیمار پڑتا ہے تو اپنے والدین سے کہتا ہے، بندہ اگر مصیبت میں پڑیگا تو اپنے اللہ سے کہیگا، مصیبت میں کثرت سے دعا کرتے رہنا چاہئے اللہ تعالی سے کثرت سے دعا کرتے رہنا، بچہ اگر بیمار پڑتا ہے تو اپنے والدین سے کہتا ہے تو بندہ اگر مصیبت میں پڑیگا تو اللہ سے کہیگا، اپنے رب سے کہیگا، پالنے والا سے کہیگا۔ بس کثرت سے دعا کرتے رہنا ہے۔ دنیا تو دنیا ہی ہے، دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے، قید خانہ تو کوئی آرام گاہ نہیں ہے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام بھی بیمار پڑے ہیں، طرح طرح کے تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے انہیں بھی۔ دنیا تو دنیا ہی ہے، یہ تو جنت نہیں ہے۔ الدُّنيا سجنُ المؤمنِ وجنَّةُ الْكافرِ دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے۔ قید خانہ تو کوئی آرام گاہ نہیں ہے۔ کافر کیلئے یہ بہشت ہے۔ بہشت تو آرام کی جگہ ہے۔ اس حدیث سے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا میں سب کافر آرام میں رہیں گے۔ آرام و راحت کے طرح طرح کے اسباب سے خوش رہیں گے۔ اور یہی دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے۔ بہر حال سجن کی مختلف تفسیر و تشریح ہے۔ دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے۔ اگر کوئی پریشان کن حالت سامنے آئے تو مومن اللہ کی تعریف کرتا ہے اور صبر کرتا ہے حدیث شریف میں ہے عَجَباً لأمْرِ الْمُؤْمِنِ مومن کے حالات پر بڑا تعجب ہوتا ہے کہ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذلِكَ لأِحَدٍ إِلاَّ للْمُؤْمِن: إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْراً لَهُ، (رواه مسلم.) اچھی حالات پیش آئے تو اللہ کا شکر گزاری رہتی ہے اور یہ اس کیلئے خیر ہی خیر ثابت ہوتا ہے۔ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خيْراً لَهُ. اگر کوئی پریشان کن حالت سامنے آئے تو اللہ کی تعریف کرتا ہے اور صبر کرتا ہے۔ اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی رہنا اور شکوہ و شکایت نہ کرنا چاہئے، نہ دل سے، نہ زبان سے، اس کا نام ہے صبر صبر کیا چیز ہے۔ صبر کا مطلب ہے کہ روتا نہیں، ایک دم ہی چپ چاپ رہتا ہے، یہ مقصود نہیں ہے۔ مقصود ہے اللہ کی مرضی اور فیصلہ کے اوپر راضی رہنا۔ اِس کا نام ہے رضا بالقضا۔ یعنی رضا بقضائے باری تعالیٰ۔ اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی رہنا اور شکوہ و شکایت نہ کرنا۔ نہ دل سے، نہ زبان سے۔ اس کا نام ہے صبر۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ صبر کرنے والوں پر اللہ تعالی کو راضی رہتا ہے، خوش رہتا ہے، حق تعالیٰ اسے اپنا قرب عظیم اور نور عظیم عطا کرتا ہے۔ صبر بگزیدند و صدیقیں شدند صبر کرنے والے بندے صبر کرتے رہے ہیں اور صبر پر قائم و دائم رہنے کی برکت سے وہ صدقین کے مرتبے پر فائز ہو گئے ہیں۔ حضرت شاہ ہردوئی رح نے فرمایا ہے کہ ہم جس حالت میں بھی ہیں اس سے بھی اور زیادہ خطرناک حالت ہو سکتی تھی اُس کے مقابلے میں یہ چھوٹی سی مصیبت دیکر اللہ تعالی نے حفاظت فرمائی ہے بظاہر ہماری کچھ پریشانیاں ہیں، تکالیف ہیں، لیکن بہت سے بندگان خدا جسمانی طور پر بھی اس سے کہیں زیادہ خطرناک سے خطرناک مصیبت میں ہیں۔ ان کے اعتبار سے تو اللہ تعالی نے ہمیں ہزاروں اچھی حالت میں رکھا ہے۔ حضرت شاہ ہردوئی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب مصائب آتی ہیں تو اس وقت یہ خیال کرنا کہ ہم جس حالت میں بھی ہیں اس سے بھی اور زیادہ خطرناک حالت ہو سکتی تھی اس کے مقابلے میں یہ چھوٹی سی مصیبت دیکر اللہ تعالی نے حفاظت فرمائی ہے۔ چھوٹی سی مصیبت میں مبتلا کرکے بڑی مصیبت، بڑی آفات سے حفاظت فرمائی ہے۔ حضرت شاہ ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ گوہرڈَنگا مدرسہ سے ڈھاکہ واپسی کے موقع پر فیری کے انتظار میں تھے، پدما ندی کے ساحل پے ایک مجمع کے سامنے مذکورہ یہ عظیم نصیحت فرمائی تھی، بس اسی طرح ہمیں چلنا ہوگا، کرنا ہوگا۔ کرنے کا جو کام ہے وہ ہمیں کرنا ہے۔ بندے کا کام بندگی میں رہنا اور ہر حال میں فرائض بندگی کا استحضار رکھنا کسان اپنی کھیت میں دھان، گیہوں کی کاشت کرتے ہیں، مزدور لوگ فیکٹریوں میں کپڑے بنتے ہیں، کام میں مصروف رہتے ہیں، وافر مقدار میں طرح طرح کے پروڈکٹ تیار کر کے پیش کرتے ہیں، رکشہ والا پوری جفاکشی اور محنت سے سے، اپنے دونوں ہاتھوں اور پیروں کی پوری طاقت سے رکشہ چلاتا ہے، غرض جہاں پر جس کا جو کام ہے وہ اسے سر انجام دیتا ہے۔ بندے کا کام بندگی میں رہنا۔ ہر حال میں فرائض بندگی کا استحضار رکھنا، خیال رکھنا چاہئے۔ اس کے مطابق چلنا چاہئے۔ اگر بے اختیار دل کا رخ دوسری طرف ہو جائے عقلی طور پر خود کو ایمانی حالت کی طرف لے آنا چاہئے۔ ایمان کا ایمانی تقاضا، اللہ کے ساتھ تعلق کا جو مقتضیٰ ہے اس کے مطابق خود کو تیار کرنا اور اس پر قائم رکھنا چاہئے۔ یہ فریضہ ہے۔۔ 18:54) توکل کی حقیقت۔۔۔ 20:48) دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے۔۔۔کیسے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے تو کیسے جنت ہے۔۔ 21:59) صبر کا مطلب۔۔۔اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا اور شکوہ شکایت نہ کرنا ۔۔ 28:46) مصیبت کے موقع پر ذیل کی چار دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہئے اور ایک کام یہ ہے کہ کثرت سے لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ یا لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ پڑھنا۔ حدیث پاک میں ہے کہ لاحول و لا قوۃ الا باللہ 70 ستر مصیبتوں کا حل ہے۔ ان میں سب سے جو چھوٹی ہے وہ ہے اَلھَمُّ پریشانی۔ پریشانی کا علاج ہے کثرت سے لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ پڑھتے رہنا۔ بار بار لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ پڑھتے رہنا۔ اللہ تعالی کی نصرت کے علاوہ کوئی راہ نہیں ہے۔ لاحول عن معصیت اللّٰہ و لا قوۃ علی طاعت اللّٰہ الا باللہ۔ ایک حدیث پاک میں ہی یہ تشریح آئی ہے۔ بہرحال کثرت سے لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ پڑھتے رہنا چاہئے۔ اور ایک عمل ہے یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ کثرت سے پڑھتے رہنا۔ اور کبھی کبھی حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ پڑھنا۔اللہ تعالی ہمارے لئے کافی ہے۔ وکیل کا معنی کارساز ہے جو کام بنانے والا ہے، کسی کام کو پائے تکمیل تک پہنچانے والا۔ وقفے وقفے سے اس کو بھی پڑھنا چاہئے۔ تینوں اوراد وقفے وقفے سے پڑھتے رہنا۔ 29:20) 1. لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ۔ 2 یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ 3. حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ 4. اور کبھی لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ پڑھنا۔ حضرت یونس علیہ السلام مصیبت کے وقت اس دعا کو پڑھتے رہے ہیں۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں اس بات کو ذکر کر کے فرمایا ہے کہ وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ اس میں ہے فِي الظُّلُمَاتِ ۔ اندھیرا ہی اندھیرا ہے، دریا میں رات کا وقت ہے مچھلی کی پیٹ میں ہیں، اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ ایسی حالت میں انہوں نے اللہ کو پکارا ہے کہ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ وہ ہمیں پکارتے رہے تو میں نے ان کو ان کے پریشانی اور مشقت کی حالت سے نجات دے دی۔ آخیر میں یہ بھی فرمایا ہے کہ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ ایمان والوں کو میں اسی طرح نجات دیتا رہوں گا، وہ اس طرح پکارتے رہیں گے تو ہم انہیں نجات دیتے رہیں گے۔ اس لئے کثرت سے لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ پڑھتے رہنا چاہئے۔ گھر میں بھی ان باتوں کو سنا دینا۔ اللہ تعالی ہمیں قبول فرمالیں۔ اللہ تعالی کو راضی کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اعمال رضا اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ 31:21) حضرت تھانوی رح نے فرمایا ہے کہ اخلاص سے بھی اعلیٰ مقام ہے رضا بالقضاء حضرت شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کو حکیم الامت حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ میاں عبدالغنی! اخلاص سے بڑھ کر بھی کوئی اعلیٰ مقام ہے؟ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے گزارش کی تھی کہ حضرت ! آپ فرما دیجئے۔ حضرت نے فرمایا کہ میاں! اخلاص سے بھی اعلیٰ مقام ہے۔ وہ ہے رضا بالقضاء۔ رضا بالقضاء یہ اخلاص سے بھی اونچا مقام ہے۔ ہر حال میں اللہ تعالی پر راضی رہنا خوش رہنا۔ 32:54) جو کرنے کا کام ہے، جو فریضہ ہے وہ کرنا چاہئے، بیمار ہے تو علاج کرانا چاہئے ہاں یہ الگ بات ہے کہ جو کرنے کا کام ہے، جو فریضہ ہے وہ کرنا چاہئے۔ بیمار ہے تو اس کا علاج کرانا چاہئے۔ جس کو جس مسئلہ کا سامنا ہے اس کا وہ حل کرنے کی کوشش کرے۔ جس کے ہاتھ پیر ٹوٹ گئے ہیں اس کیلئے جو علاج کی ضرورت ہے اسے وہ کرنا چاہئے۔ 33:16) اسباب اختیار کرنا سنت ہے، ترک اسباب سنت نہیں ہے،ترک اسباب تو ایک طرح کی جرأت ہے اگر فقر ہے، غربت ہے تو اسے دور کرنے کے لئے جو اسباب ہیں حدِّ جواز تک اسے اپنانا چاہئے۔ اسباب اختیار کرنا چاہئے۔ ترک اسباب سنت نہیں ہے۔ بلکہ اختیارِ اسباب سنت طریقہ ہے۔ یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ اسباب مؤثر حقیقی نہیں ہے۔ لیکن اسباب کا اختیار کرنا سنت انبیاء ہے۔ بہت سے لوگ اس بارے میں غلطی میں ہے اور وہ ترک اسباب کرتے ہیں۔ یہ بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ ترک اسباب تو ایک طرح کی جرأت اور لاپرواہی ہے۔ بے پرواہ ہوجانا ہے۔ 39:27) حضرت حاجی صاحب رح نے فرمایا ہےکہ اللہ تعالی اس طرح کراہنا سننا، دیکھنا چاہتا ہے، میری عاجزی و انکساری اور کمزوری دیکھنا چاہتا ہے، تو میں یہاں پر بہادری کیوں کر دکھاؤں حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ بیماری کی حالت میں بہت کراہتے رہتے تھے۔ کسی نے پوچھا ہے کہ حضرت! آپ اس طرح کر کراہتے رہتے ہیں؟ حالانکہ آپ کو تو ہم لوگ بہت اونچے پائے کے بزرگ سمجھتے ہیں! کسی بڑے آدمی نے یہ بات ان سے کہی ہے۔ جواب میں انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی اس طرح کراہنا سننا چاہتاہے، دیکھنا چاہتا ہے۔ میری عاجزی و انکساری اور کمزوری دیکھنا چاہتا ہے۔ تو میں یہاں پر بہادری کیوں کر دکھاؤں۔ 40:38) حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ معمولی سی بیماری پر بھی دوا استعمال کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ سنت ہے اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ معمولی سی بیماری پر بھی علاج کراتے تھے، دوا استعمال کرتے تھے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ تو بہت بڑے آدمی تھے، عالم دین کے حساب سے تو بہت اعلی مقام پر فائز تھے، ساتھ ساتھ اللہ کی محبت معرفت اور ولایت کی راہ میں بھی بہت اونچے مقام پر فائز تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا ہے کہ حضرت! ذراسا بیمار پڑنے پر بھی آپ دوا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے جواب میں حضرت نے فرمایا کہ بھائی! یہ تو سنت ہے۔ 43:15) اسباب اختیار کرنے کے بعد نتیجہ برآمد ہونے کے لئے اسباب کے مالک مسبِّبِ حقیقی پر تفویص کرنا چاہئے ترکِ اسباب سنت نہیں ہے۔ اسباب اختیار کرنے کے بعد نتیجہ برآمد ہونے کے لئے اسباب کے مالک مسبب حقیقی پر تفویص کرنا چاہئے کہ اے اللہ آپ اس پر ثمرہ مرتب فرما دیجئے۔ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوکر اور محتاج ہوکر رہنا چاہئے۔ اسباب اختیار کرنے کے بعد اچھا نتیجہ حاصل ہونے کے لئے اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر رہنا چاہئے۔ 48:46) بندہ کی پوری زندگی عجیب نظام کے تحت مربوط ہے کہ وہ ہر لمحہ عبدیت اور عبادت میں گزار پائے بندگی کا یہ طریقہ کتنا عجیب ہے کہ پوری زندگی ایسے مربوط نظام کے تحت ہے کہ بندہ ہر لمحہ عبدیت اور عبادت میں گزار پائے۔ بہت ہی عجیب معاملہ ہے۔ بندہ کا کام ہے حالِ بندگی، عملِ بندگی اور کیفِ بندگی میں رہنا قَلباً و قَالَباً اس لفظ کو قَالِباً لام کے زیر کے ساتھ اورقَالَباً لام کے زبر کے ساتھ پڑھنا دونوں صحیح ہے۔ قلبی طور پر مراقبہ قلب ہے۔ قَلباً و قَالَباً کیفیت قلبی اور اپنے جسمانی اعمال دونوں اعتبار سے خود کو بندگی میں رکھنا چاہئے۔ بندہ کا کام ہے حال بندگی، عمل بندگی اور کیف بندگی میں رہنا۔ 51:05) اللہ تعالی جس وقت جس حال میں رکھتا ہے وہی حال اکمل ہے، وہی سب سے کامل حال ہے حضرت ڈاکٹر عبدالحئی رحمۃ اللہ علیہ یہ شعر کثرت سے پڑھا کرتے تھے کہ بے کیفی میں بھی ہم نے تو ایک کیف مسلسل دیکھا ہے۔ تمام مشکلات اور پریشانیوں میں بھی ہر وقت میں تو عجیب ایک کیفیت دیکھی ہے۔ جس حال میں بھی وہ رکھتےہیں، اس حال کو اکمل دیکھاہے۔ اللہ تعالی جس وقت جس حال میں رکھتا ہے وہی حال اکمل ہے، وہی سب سے کامل حال ہے۔ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی رحمۃ اللہ علیہ یہ شعر کثرت سے پڑھا کرتے تھے، بار بار پڑھا کرتے تھے، کہتے رہتے تھے۔ اللہ تعالی ہم سب کو توفیقات سے نوازیں اور قبول فرمائیں۔ 52:58) مواعظِ اختر روزہ اور ترکِ معصیت۔۔۔ غیبت کے زنا سے اشد ہونے کی وجہ:۔ حضورﷺفرماتے ہیں اَلْغِیْبَۃُ اَشَدُّ مِنَ الزِّنَا کہ غیبت کا گناہ زنا سے اشد ہے،صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے پوچھا زنا سے کیوں اشد ہے؟: فرمایا کہ زناکار اپنے زنا سے اگر معافی مانگ لے تو معافی ہوجائے گی، جس کے ساتھ زنا کیا ہے، اس سے معافی مانگنا ضروری نہیں ہے۔ زنا کو اللہ نے اپنا حق رکھا ہے،یہ حق العباد نہیں ہے لیکن غیبت حق العباد ہے۔ جس کی غیبت کی ہے جب تک اس سے معافی نہیں مانگے گا، یہ گناہ معاف نہیں ہوگا بشرطیکہ جس کی غیبت کی ہے، اس کو اطلاع ہوجائے، جب تک اس کو اطلاع نہیں ہوئی، اس وقت تک اس سے معافی مانگنا ضروری نہیں۔ مثلاً ایک آدمی نے یہاں بیٹھ کر لاہور والے کی غیبت کی اور اس کو خبر نہیں ہے۔ پھر اس کو خط لکھنا یا لاہور جاکر معافی مانگنا یہ بالکل عبث ہے، بیکار ہے بلکہ ناجائز ہے کیونکہ خواہ مخواہ آبیل مجھے مار والی بات ہے۔ وہ سوچے گا کہ یار تم کیسے آدمی ہو کہ غیبت کرتے ہو! 56:24) دیکھنے میں ایسے پیارے دوست بنے ہوئے ہو۔لہٰذا جس کو اطلاع نہ ہوئی ہو، اس سےمعافی مت مانگو، نہ خط سےنہ وہاں جاکر۔ بس جس مجلس میں غیبت کی ہو وہاں کہہ دو کہ مجھ سے نالائقی ہوگئی، وہ مجھ سے بہتر ہیں،افسوس ان کی خوبیوں پر میری نظر نہیں گئی۔ جیسے مکھی زخم پر ہی بیٹھتی ہے، سارا جسم اچھا ہے، اس کو نظرانداز کرتی ہے اور صرف گندی جگہ پر بیٹھتی ہے۔ اسی طرح ہزاروں خوبیوں کو نظرانداز کرکے میں نے ان کے ایک عیب کو دیکھا اور کیا معلوم انہوں نے اس سے بھی توبہ کرلی ہو اور اللہ کا پیار حاصل کرلیا ہو۔نیز تین دفعہ قل ھو اللہ شریف پڑھ کر بخش دو بلکہ صبح وشام کے جو معمولات میں نے بتائے ہیں وہ پڑھ کر روزانہ اللہ تعالیٰ سے کہہ دو کہ میں نے زندگی میں جس کی غیبت کی ہو، ستایا ہو یا مارا ہو، ان سب کا ثواب اے اللہ! ان کو دے دے اور ان کو یہ ثواب دکھاکر قیامت کے دن راضی نامہ کرادینا،ماں باپ کو بھی اس میں شامل کرلو۔ 57:44) حاجی امداد اللہ صاحب رحمہ اللہ کی تحقیق ہےکہ ثواب تقسیم نہیں ہوگا، سب کو برابر ملے گا۔ سورئہ یٰسین شریف پڑھ کر بخشو تو ایک قرآن پاک کا ثواب ہر ایک کو پورا پورا ملے گا چاہے بے شمار آدمیوں کا بخشو ،اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل سے یہ قریب ترہے۔ 01:00:52) قیامت کے دن مفلس کون ہوگا۔۔۔ 01:06:48) آخر میں ماں بہن بہو بیٹیوں کو اہم نصیحت۔۔۔ |