مجلس ۲۸   دسمبر۱ ۲۰۲ء فجر: اللہ کانام سن کر بھی مزہ آنا چاہیے 

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

02:44) حضرت علامہ سید سلیمان ندویرحمہ اللہ کا واقعہ۔۔ سید سلیمان ندوی رحمۃ اﷲ علیہ اتنا بڑا علامہ، عربی کا ادیب، شرقِ اوسط میں جس کا غلغلہ تھا، اور جو حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا پہلے مذاق اڑایا کرتے تھے کہ پیروں کے پاس کیا ہے، تھانہ بھون میں کیا ہے؟

لیکن جب ایک دفعہ حضرت حکیم الامت کی مجلس میں حاضر ہوگئے اور اس بوریہ نشین کی ایک ہی مجلس میں یہ حال ہوا کہ ستون پکڑ کر رونے لگے، آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا کہ ہمیں تو خواہ مخواہ اپنے اوپر ناز تھا، علم تو اس چٹائی پر بیٹھنے والے کے پاس ہے ، پھر یہ شعر پڑھا پھر نہ پیدا شبۂ باطل ہوا آج ہی پایا مزہ قرآن میں جیسے قرآں آج ہی نازل ہوا چھوڑ کر تدریس و درس و مدرسہ شیخ بھی رندوں میں اب شامل ہوا مدرسہ و درس و تدریس چھوڑنے سے مراد علم کی تحصیل چھوڑنا نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ علم کو محض معلومات حاصل کرنے کے لیے پڑھنا چھوڑ دیا۔ اﷲ کی محبت حاصل ہونے کے بعد علم کا مزہ ہے، علم کا مزہ اس وقت ہے جب آپ معلوم کو معمول بنالیں۔

03:41) کوئی بھی نہیں کہے گا کہ درس و تدریس چھوڑ دیں اشعار سمجھنے کے لیے اللہ والوں کی صحبت ضروری ہے۔۔

05:37) ویڈیو گیم چھوڑیں گے تو پتا چلے گا کہ اللہ کتنے پیارے ہیں۔۔

10:22) پہلے دردِ دل ۔۔یعنی علم دین ضرور حاصل کریں لیکن درددل کو اول نمبر پر رکھیں کہ علم کے ساتھ درد دل ضرور حاصل کرنا ہے۔۔

13:02) موبائل کا ایک اور بڑا عذاب یہ بھی ہے وہ کیا ہے خیانت یہ خیانت کا ذریعہ بھی ہے۔۔۔

13:38) شہرت سے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔

15:29) اﷲ کا نام سن کر بھی دل کو مزہ آنا چاہیے:۔ یہ کون ہے؟ کوئی جاہل تعریف کرتا تو اتنا مزہ نہ آتا، اتنا بڑا علامہّ سید سلیمان ندوی مگر حکیم الامت کی ایک مجلس سے کا یا پلٹ گئی۔ جو اﷲ اﷲ کے ذکر کو کہتے تھے کہ کیا ضرورت ہے اس کی؟ جب حضرت حکیم الامت نے ان کو اﷲ اﷲ بتایا اور انہوں نے اللہ کہا تو حکیم الامت کی صحبت کی برکت سے جب انہیں اﷲ کے نام کا مزہ ملا تو کیا کہتے ہیں۔۔ نام لیتے ہی نشہ سا چھا گیا ذکر میں تاثیرِ دورِ جام ہے

23:05) حضرت شیخ کا پنی ڈانٹ کا تذکرہ جو حضرت میر صاحب رحمہ اللہ نے ڈانٹا تھا۔۔۔

27:25) ڈانٹ پر ایک اور واقعہ کہ اتنا محبت کرنے والا ساتھی بے اصولی پر ڈانٹا تو شیخ سے ہی ناراض ہوگئے آنا بند اور نہ بات نہ ایک فون نہ معافی۔۔لیکن فکر نہیں کرنا چاہیے ..بس جو آتا ہے آنے دو ..جو جاتا ہے جانے دو...ہاں لیکن دعا ہر وقت ہے کہ اس کو اللہ تعالی اس کی مناسبت والی جگہ پر جوڑ دیں۔۔۔

29:07) علامہّ سید سلیمان ندوی تہجد کے مزہ کو بیان کرتے ہیں :۔ وعدہ آنے کا شبِ آخر میں صبح ہی سے انتظارِ شام ہے

30:03) پھرفرمایا کہ جس کی صحبت کو ہم حقیر سمجھتے تھے، جس کا ہم مذاق اُڑاتے تھے اے دنیا والو! آج سید سلیمان ندوی ببانگِ دُہل یہ اعلان کرتا ہے کہ حکیم الامت تھانوی کی قدر کرلو :۔ جی بھر کے دیکھ لو یہ جمالِ جہاں فروز پھر یہ جمالِ نور دِکھایا نہ جائے گا چاہا خدا نے تو تیری محفل کا ہر چراغ جلتا رہے گا یوں ہی بجھایا نہ جائے گا

31:50) حضرت مجذوب رحمہ اللہ کا مبارک تذکرہ۔۔۔

34:24) جس کو جو ملا ہے شیخ کی غلامی ہی سے ملا ہے ورنہ عالم کے علم پر اس کے نفس کے اندھیرے چھا ئے رہتے ہیں، اپنے علم پر عمل کی توفیق نہیں ہوتی اور اگر عمل ہوتا ہے تو اخلاص نہیں ہوتا، علم کی کمیت تو ہوتی ہے کیفیت نہیں ہوتی۔ حضرت قطب العالم مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اخلاص بغیر صحبت اہل اللہ کے مل ہی نہیں سکتا۔ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں کہ غیرصحبت یافتہ عالم کے علم و عمل میں فاصلے ہوں گے۔ علم اس کے لیے شہرت و جاہ اور تن پروری کا ذریعہ ہوتا ہے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries