مجلس ۲۰       جنوری ۲ ۲۰۲ءعشاء  :سالکین کے لئے تباہی کا سامان !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

05:00) اللہ معاف کرے آج محرم رشتے بھی محفوظ نہیں ہیں۔۔۔اللہ والے تو اپنی بیٹیوں اور بہوؤں سے بھی احتیاط کرتے تھے۔۔۔

05:00) حضرت والا رحمہ اللہ کازیادہ مضمون لڑکوں اور لڑکیوں سے احتیاط پر ہوتا تھا اور حضرت والا رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ آنکھ بچاؤ دل بچاؤ اور جسم بچاؤ مولی کو نہ پاؤ تو کہنا اختر کیا کہہ رہاتھا۔۔۔ایک بزرگ کا شعر ہے کہ چوریاں آنکھوں کی اور سینوں کے راز۔۔۔جانتا ہے سب کو تو اے بے نیاز

08:23) حضرت مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب دامت برکاتہم نے زنا کے نقصانات اور لکھے ہیں وہ پڑھ کر سنائے فرمایاکہ زنا کرنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔۔۔زنا کی سخت سزاکوڑے اور سنگساری ہے۔۔۔زنا کے قریب جانا بھی ممنوع ہے۔۔۔

12:31) زنا کہ چھ بڑے نقصانات ہیں تین دُنیا میں اور تین آخرت میں۔۔۔

13:29) احقر محمد اختر عفا اللہ تعالیٰ عنہ عرض کرتا ہے کہ اِس زمانہ میں اہل تقویٰ اور اہل دین اور اہل صلاح اور جملہ سالکین طریق کے لئے تباہی کا سامان فتنہ النساء سے زیادہ فتنہ الامارد ہے اور چونکہ فتنہ امارد میں ظاہری موانع کم ہیں، اس لئے نفس کو شیطان جلد اس فتنہ میں مبتلا کردیتاہے اورنامحرم عورتوں میں اکثر بدنگاہی تک کا مجرم بنا تا ہے اور حکیم الامت ، مجدد الملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں۔ (۱) غیر محرم عورت یا مرد (خوبصورت نوجوان) سے کسی قسم کا علاقہ (تعلق) رکھنا خواہ اس کو دیکھنا یا اس سے دل خوش کرنے کے لئے اس سے باتیں کرنا یا تنہائی میں اس کے پاس بیٹھنا یااس کے دل کو خوش کرنے کیلئے اپنے لباس کوسنوارنا اور کلام کو نرم کرنا۔ میں سچ عرض کرتا ہوں کہ اس تعلق سے جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اورجو مصائب پیش آتے ہیں ان کو میں تحریر کے دائرہ میں نہیں لاسکتا۔ (۲) عشق مجازی عذابِ الہٰی ہے جس طرح دوزخ میںموت اور زندگی کے درمیان انسان پریشان ہوگا ( لایموت فیھا ولایحیٰ) اسی طرح بدنظری کے بعد انسان عشق مجازی میں مبتلا ہو کر تڑپتا رہتا ہے، سکون کی نیند سے بھی محروم ہوجاتا ہے، دنیا اور دین دونوں تباہ ہوں گے اور آخر کار پاگل خانہ میںداخلہ ہو گا۔ پاگل خانہ میں آج کل نوے(۹۰) فیصد عشق مجازی کے مریض ہیں جووی سی آر،سینما، ٹی وی ، ناول پڑھ کر پاگل ہوئے ہیں۔ (۳) بدنظری کے بعد عشق مجازی میں مبتلا ہو کر اگر گناہ کی نوبت آئی تو فاعل اور مفعول دونوںہمیشہ کے لئے ذلیل ہوجاتے ہیں (ایک دوسرے سے نظر کبھی نہ ملاسکیں گے) اور جس طرح شفیق باپ چاہتا ہے کہ میرے بیٹے عزت سے رہیں کسی بدفعلی میں ذلیل نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کی رحمتِ غیر محدود بھی یہی چاہتی ہے کہ میرے بندے کسی ذلیل فعل سے حقیر اور رسوا نہ ہوں اور تقویٰ کے ساتھ رہ کر باعزت زندگی گذاریں اور حلا ل پر اکتفاء کریں اور حرام سے صبر کریں اور جب اہل دُنیا، دنیا کی لذتوں سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں تو میرے خاص بندے میری عبادت اور میرے ذِکر کی لذت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریںاور یہ ٹھنڈک دائمہ ہے، دنیا والوں کی ٹھنڈک ہزاروں بلاؤ سے گھری ہوئی اور فانی ہے۔

18:44) احقر کے دو شعر ہیں ؎ دُشمنوں کو عیشِ آب و گل دیا دوستوں کو اپنا دردِ دل دیا ان کو ساحل پر بھی طغیانی ملی مجھ کو طوفانوں میں بھی ساحل دیا اِسی لئے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ؎ ڈال کر ان پر نگاہِ شوق کو جان آفت میں نہ ڈالی جائے گی حسنِ فانی پر اگر تو جائے گا یہ منقش سانپ سے ڈس کھائے گا مولانا اسعداللہ صاحب محدث مظاہر العلوم سہارن پور خلیفہ حضرت حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ عشق بتاں اسعد کرتے ہو فکر راحت

21:49) حسن فانی پر حضرت مرشد مولانا شاہ ابرارالحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خانقاہ گلش اقبا ل میں یہ شعر سنایا تھا ؎ دورِ نشاط چل بسا گردش جام ہوچکی ساقی گلعذار کی ترکی تمام ہوچکی بدنظری کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بدعا ہے لعن اللّٰہ الناظر والمنظور (مشکوٰۃ،ص: ۲۷۰) اللہ تعالیٰ لعنت فرماتے ہیںبدنظری کرنے والے پر اور جو بدنظری کی دعوت دے یعنی بے پردہ پھرے اس پر بھی۔ اولیاء کی بددعا سے ڈرنے والے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعاسے ڈریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔ چنددن کا حسن جادو کی طرح پاگل کرتا ہے پھر کچھ ہی دن میں چہرہ کا جغرافیہ بدل جاتا ہے اور بڑھاپے میںتو نقشہ ہی عجیب ہوتا ہے۔ احقر کا اسی فناء حسن پر یہ شعر ہے ؎ اِدھر جغرافیہ بدلا اُدھر تاریخ بھی بدلی نہ اُن کی ہسٹری باقی نہ میری ہسٹری باقی

23:06) ایک پرانا شعر یاد آیا ؎ کسی خاکی پہ مت کر خاک اپنی زندگانی کو جوانی کر فدا اس پر کہ جس نے دی جوانی کو اس خطرناک مرض سے کتنے جوانوں کی زندگی تباہ ہوگئی۔ احقر کے اشعار ؎ سنبھل کر رکھ قدم اے دل ! بہار حسنِ فانی میں ہزاروں کشتیوں کا خون ہے بحر جوانی میں وہ جوانانِ چمن اور ان کا ظالم بانکپن دیکھتے ہی دیکھتے سب ہوگئی دشت ودمن

24:53) بدنظری کے بارے میں جو آیت نازل ہوئی کہ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْناور اللہ تعالیٰ تمہاری بدنگاہیوں کے تمام مصنوعات سے باخبر ہے۔ احقر کا شعر ؎ جو کرتا ہے تو چھپ کے اہل جہاں سے کوئی دیکھتا ہے تجھے آسماں سے حق تعالیٰ نے بدنگاہی کے فعل اور عمل کو صنعت سے کیوں تعبیر فرمایا۔ اس میںکیا حکمت ہے؟ بات یہ ہے کہ بدنگاہی کرنے والا دل میں اس معشوق کے لئے اپنی مختلف تمناؤں کی فیچر (تصویر) بناتا ہے ۔

26:29) خیالی پلاؤ میں کبھی بوسہ لیتا ہے، کبھی سینے سے لگاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس و جہ سے مختلف صنعتوں سے باخبر ہونے کو حق تعالیٰ نے اس آیت میں ذِکر فرمایا ہے، چنانچہ علامہ آلوسی سید محمود بغدادی(مفتی بغداد)رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی تفسیر روح المعانی میں اس کی تفسیر چار عنوانات سے ارقام فرماتے ہیں،اَنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(پارہ اٹھارہ، سورۃ النور) ۱۔ باجالۃ النظر: تمہارا نظر گھماگھما کر بدنگاہی کرنے سے اللہ تعالیٰ باخبر ہیں۔ ۲۔ باستعمال سائرالحواس:بدنگاہی کرنے والا تمام حواس خمسہ سے حرام لذت سے لینے کی کوشش کردیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ہر حرکت سے باخبر ہے، یعنی دیکھنے (باصرہ)، سننے( سامعہ) ،چکھنے (ذائقہ) ،چھونے (لامسہ)، سونگھنے( شامہ) ہر قوت کے استعمال کو خدا دیکھ رہا ہے۔ ۳۔ بتحریک الجواح: اوراللہ تعالیٰ بدنظری کرنے والے کے تمام اعضاء کی حرکات سے باخبر ہے، یعنی محبو ب مجازی کو حاصل کرنے کے لئے یہ ہاتھ پاؤ اور جملہ اعضاء جس طرح استعما ل کرتا ہے ،سب خدا دیکھ رہا ہے اور باخبر ہے۔ ۴۔ بمایقصدون بذلک:اور بدنگاہی کرنے والے کا اس بدنگاہی سے جو آخری مقصد ہے یعنی بدفعلی اس سے بھی اللہ باخبر ہے، اس جملہ خبریہ میں جملہ انشائیہ پوشیدہ ہے یعنی سخت پٹائی ہوگی اور سخت سزادی جائے گی، احقر کو تمام زندگی میںبہت کثیر تعداد میںبدنگاہی اور عشق مجازی کے مریض ملے اور سب نے یہی کہا کہ زندگی تلخ، نیند حرام ،بے چینی ، موت کی آرزُو، خودکشی کے خیالات، صحت خراب، دل میں گھبراہٹ، دل ودماغ کمزور، کسی کام میں جی نہیں لگتا ہے۔ میں نے ہمیشہ یہی عرض کیا کہ عشق مجازی اور غیر اللہ کو دل دینے کا یہی عذاب ہے اور یہ شعراحقر اس قسم کے پریشان حالوں کی خدمت میں پیش کیا کرتا ہے ؎ ہتھوڑے دل پہ ہیں مغز دماغ میں کھونٹے بتاؤ عشق مجازی کے مزے کیا لوٹے

29:23) اصلاحِ عشق مجازی کے سلسلے میں احقر کے چند اشعار اور ملاحظہ ہوں ؎ نہیں علاج کوئی ذوقِ حسن بینی کا مگر یہی کہ بچا آنکھ بیٹھ گوشے میں اگر ضرور نکلنا ہو تجھ کو سوئے چمن تو اہتمام حفاظت نظر ہو تو شے میں ان کا چراغ حسن بجھا یہ بھی بجھ گئے بلبل ہے چشم نم گل افسردہ دیکھ کر

30:50) یہ حسین جو آج زمین پر چل پھر رہے ہیں ایک دن قبر میں مٹی ہونے والے ہیں۔ مرنے کے بعد قبر کھول کر دیکھو گے تو صرف مٹی ہی نظر آئے گی۔ اگر اس سے پوچھو کہ اے مٹی! تیرا کون ساحصہ گال تھا اور کون ساحصہ بال تھا اور کون سا حصہ آنکھ تھا ؟تو وہاں صرف مٹی ہی ملے گی، پہچان نہ سکو گے کہ کون سے مٹی آنکھ تھی کون سے ناک تھی۔ کون سی گال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے امتحان کے لئے مٹی پر ڈسٹمپر کر دیا ہے کہ کون اس ڈسٹمپر پر مرتا ہے اور کون حکم پیغمبر پر جان دیتا ہے۔ اگر یہ نقش ونگار اور چمک دمک مٹی پر نہ ہوتی تو پھر امتحان ہی کیا ہوتا ،اس لئے ڈسٹمپر سے دھوکہ نہ کائیے ،بہت سے سالک اس سے دھوکہ کا کر تباہ ہوگئے اور اللہ تعالیٰ تک نہ پہنچ سکے۔میرا شعرہے ؎ میر مارے گئے ڈسٹمپر سے ورنہ مٹی کی حقیقت کیا تھی

33:28) لہذا ایسی فانی چمک دمک سے کیا دل لگانا، فنائیت حسن پر احقر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎ کسی گلفام کو کفنا رہا ہوں جنازہ حسن کا دفنا رہا ہوں لگانا دل کا ان فانی بتوںسے عبث ہے، دل کو یہ سمجھا رہا ہوں شیریں لبی کے ساتھ وہ شیریں دہن بھی تھا آغوشِ موت میں وہی زیر کفن بھی تھا بلکہ مرنے سے پہلے ہی وقت گذرنے کے ساتھ جب چہر ہ سے نمک جھڑ جاتا ہے اور ناک نقشہ کا جغرافیہ بگڑ جاتا ہے اور ؎ کمر جھک کے مثل کمانی ہوئی کوئی نانا ہوا ، کوئی نانی ہوئی ان کے بالوں پہ غالب سفید ی ہوئی کوئی دادا ہو، کوئی دادی ہوئی

34:18) تو عشق کا بھی جنازہ نکل جاتا ہے اور عاشقان مجازی اپنے ہاتھوں سے اپنے عشق کا جنازہ دفن کرکے نہایت حسرت وندامت سے بھاگتے ہیں۔ اس حقیقت پر احقر کے دو اشعار ؎ ان کے چہرہ پہ کھچڑی داڑھی کا ایک دن تم تماشہ دیکھو گے میر اس دن جنازہ اُلفت کا اپنے ہاتھوں سے دفن کردو گے

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries