مرکزی بیان  ۲۷       جنوری ۲ ۲۰۲ء :شیخ سے جتنی محبت ہو گی اتنا ہی فیض ملے گا       !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

05:50) مصطفیٰ بھائی نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعارپڑھے۔۔۔ میر رہتا تھا جو نگینے میں دیکھو بیٹھا ہے کس سفینے میں زندگی گر فدا ہے مالک پر کیا حلاوت ہے اس کے جینے میں بے بیانی بھی ہے بیاں اس کا دردِ نسبت ہے جس کے سینے میں ہے خفا جس سے پالنے والا کوئی جینا ہے اس کے جینے میں دوستو سب کرم ہے مالک کا خوبیاں کیا ہیں اس کمینے میں راہ سنت پہ جو چلے اخترؔ ہے عجم اس کا پھر مدینے میں

09:54) اس کے بعد مفتی انوار صاحب سے حضرت شیخ نے اشعار پڑھنے کا فرمایا آئینہ محبت سے اشعار پڑھے۔۔۔

16:02) بعض لوگ صرف بیان سننے آتے ہیں اور بعض لوگ اعتراض کرنے آتے ہیں اور بعض لوگ بیان میں جان بوجھ کر کیڑے نکالنے آتے ہیں۔۔

16:41) لیکن اللہ والوں کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی اللہ والوں کو بس یہ طلب ہوتی ہے کہ اللہ تعالی خوش ہوجائیں۔۔۔

18:46) گناہ چھوٹتے نہیں ہیں دب جاتے ہیں۔۔۔

29:27) آج ذرہ سا ڈانٹ دو تو فورا غائب کہ میری کیا غلطی تھی اتنا اتنا پرانا تعلق اور ایک منٹ میں مناسبت ختم۔۔۔

30:12) ہمیں تو خوش ہونا چاہیے کہ کوئی روکنے والا ہے بڑے موجود ہیں۔۔۔

30:43) شیخ العرب والعجم حضرت والا مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ نے ایک خلیفہ کو بیان کا فرمایا تو ایک جملہ ایسا بیان ہوگیا حضرت میر صاحب رحمہ اللہ نے فورا تنبیہ فرمائی اور حضرت والا رحمہ اللہ بھی موجود تھے حضرت والا نے کچھ نہیں فرمایا حضرت میر صاحب سے کہ آپ نے کیوں ڈانٹا ۔۔کیوں کہ اُس وقت ضروری تھا۔۔۔

32:46) کوئی روکنے والا اور ٹوکنے والا ہو ۔۔۔

33:31) پیرانی صاحبہ کا تذکرہ ۔۔حضرت شیخ نے فرمایا کہ والد صاحب بھی چلے گئے اور والدہ بھی اللہ کے پاس چلی گئیں لیکن اہلیہ موجود ہیں جو نظر رکھتی ہیں اور بتادیتی ہیں کہ یہ جملہ صحیح نہیں لگا۔۔مزاح فرمایا۔۔۔

35:17) ذکر لاالہ کا طریقہ اور کس طرح پڑھنا ہے۔۔۔

36:20) جتنا لاالہ مضبوط ہوگا تو الااللہ ہمارا مضبوط ہوگا غیراللہ دل سے نکلے گا۔۔۔

37:24) پرنالے کی مثال ۔۔۔

38:06) دل گندا ہو تو اللہ تعالی کی محبت نہیں آسکتی۔۔۔

38:24) حسد بہت ہی بری چیز ہے ۔۔۔

38:38) جتنا شیخ سے زیادہ تعلق ہوگا تو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔۔۔

38:53) سفر بنگلہ دیش ۱۹۹۳ کا شیخ العرب والعجم حضرت والا رحمہ اللہ کا ایک مضمون جو بہت ہی عجیب و غریب ہے پڑھ کر حضرت شیخ نے سنایا۔۔۔

40:24) مفتی سلیم صاحب کو حضرت شیخ نے آگے آنے کا فرمایا۔۔۔۔اور فرمایا کہ حضرت والا رحمہ اللہ کے خلیفہ ہیں اور بڑی بڑی کتابیں پڑھا رہے ہیں کتنا اللہ پاک دین کا کام لے رہے ہیں۔۔۔

41:37) شیخ کے وصال کے بعد تین دن کی تعزیت ہے پھر فورا دوسرا شیخ کرنا ہے۔۔۔

41:59) دو وجہ سے لوگ اصلاح نہیں کراتے۔۔۔کون سی دو وجہ۔۔۔

43:17) سفر بنگلہ دیش ۱۹۹۳ کا شیخ العرب والعجم حضرت والا رحمہ اللہ بقیہ مضمون بیان ہوا۔۔۔

43:29) حضورﷺ نے فرمایا کہ مجھے دنیا میں تین چیزیں محبوب ہیں نیک بیوی اور دوسرا خوشبو تیسرا کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اب دیکھیں نماز کو فرمایا بیوی کو نہیں فرمایا نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ ساے عالم میں مجھےبھی تین چیزیں محبوب ہیں۔ اے اﷲکے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم جب آپ کو ایک نظر دیکھتا ہوں تو یہ ایک نظر مجھے سارے عالم سے لذیذ تر ہے۔ والجلوس بین ید یک۔ اور جب آپ کے پاس بیٹھتا ہوں تومجھے سارے عالَم سے زیادہ لذیذ تر ہے کہ میں ایک سیکنڈ آپ کی صحبت میں بیٹھ جائوں۔ تو دو بات ہو گئی۔ تیسری کیا ہے ؟وانفاق مالی علیک۔ اور اپنا مال جب آپ پر خرچ کرتا ہوں تو اتنا مزہ آتا ہے کہ سارے عالم سے زیادہ یہ مجھے عزیز تر ہے۔

48:17) کن کن کو اصلاح کی فکر نہیں ہوتی زیادہ تری قریب والے اور قریبی خدام رات دن رہنے والے محروم رہتےہیں ۔۔

48:54) شیخ اگر تربیت والا نہ ہو تو پھر خادم کو نہیں ڈانٹے گا کہ اگر چلا گیا تو چائے کون بنائے گا مالدار کو کچھ نہ کہے کوئی عصا بردار ہے کوئی جوتا بردار تو پھر اصلاح کس کی ہوگی۔۔۔

49:43) جس شخص کو اللہ کے لیے شیخ سے محبت ہوگی تو وہ شیخ کا صدیق ہوجائے گا۔۔۔

50:54) محبت خود صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے محبت سیکھے ۔۔فرمایا یہ جملہ بہت اہم ہے لکھ لینا چاہیے۔۔۔ ایک ایک وقت میں صحابہ نے کتنی جانیں دے دی۔۔۔اللہ اور حضور ﷺ کی محبت میں۔۔۔ ان کے کوچے سے لے چل جنازہ میرا جان دی میں نے جن کی خوشی کے لیے بے خودی چاہیے بندگی کے لیے واقعی! جب تک اللہ کی محبت میں بے خودی نہیں ہوتی بندگی میں روح نہیں آتی

53:20) شیخ کا دل خوش کرنا بھی عبادت ہے۔۔۔

55:15) غصہ ختم نہیں ہوتا بلکہ دب جاتا ہے۔۔۔

58:03) ارشاد فرمایا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہٗ فرماتے ہیں کُنْتُ اَلْزَمُ بِصُحْبَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت میں ہر وقت چپکا رہتا تھا اور ایک حدیث میں ہے کہ زُرْغِبًّا تَزْدَدْ حُبًّا ناغہ دے کر ملنا محبت کو بڑھاتا ہے فَمَا تَطْبِیْقُ بَیْنَ عَمَلِ الصَّحَابِیِ وَالْحَدِیْثِیعنی صحابی کے قول اور حدیث پاک میں کیا تطبیق ہے، تو اس کی تطبیق مولانا جلال الدین رومی نے بیان کی ہے کہ زُ ْر غِبًّا کا حکم رشتہ داروں کے لیے ہے مثلاً داماد سسرال جائے اور وہیں پڑا رہے، سسرال والے بھی کہیں کہ پتہ نہیں کب جائے گا، غرض یہ عام رشتہ داریوں کا مسئلہ ہے، لیکن جو شخص اﷲ اور رسول پر عاشق ہو یا اپنے شیخ پر عاشق ہو اس کے لیے زُرْغِبًّا کا حکم نہیں ہے ؎ نیست زُرْغِبًّا وظیفہ ماہیاں زاں کہ بے دریا ندارند اُنسِ جاں یعنی اگر مچھلی سے کہو کہ ناغہ دے کر پانی میں جائے تو مچھلی تو مر جائے گی کیونکہ بغیر پانی کے وہ زندہ نہیں رہ سکتی۔

01:01:23) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہٗ کی روحِ مبارک ایسی تھی جیسے کہ مچھلی کو پانی سے تعلق ہوتا ہے اور جملہ حضراتِ صحابہ کو اﷲ اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایسا ہی تعلق تھا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث پاک اور صحابی کے قول میں تطبیق یہ ہے کہ زُرْغِبًّا یعنی ناغہ دے کر ملاقات کرنا اعزاو اقربا اور عام رشتہ داروں کے لیے ہے لیکن کسی پر کسی اﷲ والے کے عشق کی کیفیت غالب ہوجائے مثلاً اپنے شیخ سے ایسی محبت ہوجائے کہ بغیر شیخ کے اس کو چین نہیں آتا تو اس اﷲ والی محبت کے لیے زُرْغِبًّا کا حکم نہیں ہے، وہ روزانہ آئے، ایک دن بھی ناغہ نہ کرے ۔

01:03:12) شیخ کے پاس آنے سے متعلق فرمایا کہ حضرت والارحمہ اللہ نے فرمایا کہ وعظ کا عاشق نہیں بننا کونومع الصادقین میں بیان کا ذکر نہیں ہے۔۔۔ایک بڑے عالم کا تذکرہ جو وقت لگانے آئے تھے لیکن اُن کے شیخ کسی اور جگہ تھے اور وہ بیمار تھے تو حضرت نے اُن عالم صاحب کو اُن کے شیخ کے پاس بھیج دیا کہ جا کر اُن کی خدمت کرو اس وقت دُعا لینے کا وقت ہے پھر وہ دُعائیں دینے لگے۔۔۔

01:05:27) چالیس دن مکمل لگائے یا اگر اس کے ذمہ کوئی حقوقِ واجبہ نہیں ہیں تو شیخ کے در پر رہ پڑے، ہر شخص کے اپنے اپنے حالات ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اﷲ والے کی ذات پر عاشق ہواس کی کسی صفت پر عاشق نہ ہو جیسے بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ آج بیان ہوگا یا نہیں۔ جب معلوم ہوجائے کہ بیان نہیں ہوگا تو گھر بیٹھ گئے۔ معلوم ہوا کہ یہ تقریر کا عاشق ہے مقرر کا عاشق نہیں حالانکہ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے محبت ہو اس کو ایک نظر دیکھنا دنیا ومافیہا سے قیمتی ہے۔ محبت ہو تو ایک نظر کی کیا قیمت ہے یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ سے پوچھو۔

01:08:45) دائم اندر آب کارِ ماہی است مار را با او کجا ہمراہی است ہر وقت پانی میں رہنا مچھلی کا کام ہے، سانپ کو مچھلی کا درجہ حاصل نہیں ہوسکتا ۔۔۔

01:10:55) کانپور میں جواہر لال نہرو کے نام سےنہرو باغ ایک مسلمان کا باغ ہے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمہ اللہ نے کانپور والوں سے پوچھا کہ دوستو! یہ بتاؤ کہ یہ نہرو باغ کس کا ہے؟ کہنے لگے کہ ایک مسلمان کا ہے۔ تو پوچھا کہ مسلمان ہو کر یہ نام کیوں رکھا؟ سب خاموش رہے۔ ایک دن حضرت اس باغ میں سیر و تفریح کے لئے تشریف لے گئے تو باغ کا مالک خود آگیا۔ حضرت نے پوچھا کہ تم نے باغ کا نام نہرو کے نام پر کیوں رکھا؟ اس نے کہا تاکہ مجھ پر ٹیکس کم لگے، ٹیکس بچانے کے لئے ان کا نام رکھ دیا شاید ان کو رحم آجائے اور وہ مجھ پر مہربانی کردیں۔ ابھی حضرت وہیں تھے کہ ایک دن خبر آئی کہ اس نے خودکشی کرلی۔ حضرت نے پوچھا کیوں؟ بتایا کہ پستول سے اپنے آپ کو مارنے سے پہلے ایک پرچہ لکھ کر رکھ دیا تاکہ پولیس کسی کو گرفتار نہ کرے کہ میں خود اپنے پر فائر کررہا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ پر حکومتِ ہند نے بہت زیادہ ٹیکس لگادیا ہے، جس کو میں برداشت نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر یہ شخص اللہ والوں کی صحبت میں ہوتا، اللہ کا نام لیتا تو زمین و آسمان گواہ ہیں کہ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے، زمین و آسمان بنے ہیں، کسی ولی اللہ نے خودکشی نہیں کی کیونکہ اللہ کا سہارا ان کے دل پر ہوتا ہے۔

01:13:29) دیوبند میں جب ہیضہ پھیلا تو مولانا یعقوب صاحب نانوتوی رحمہ اللہ کے گھر میں سات جنازے رکھے ہوئے تھے جس میں ان کے جوان بیٹے کا جنازہ بھی تھا لیکن انہوں نے خودکشی نہیں کی، بقرعید کا دن تھا، ان کے بیٹے پر نزع کا عالم طاری تھا انہوں نے فرمایا کہ جاؤ،اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور عید کی نماز پڑھانے چلے گئے، یہ بھی نہیں کہا کہ میں آج عید کی نماز پڑھانے کے قابل نہیں ہوں، امامت کے قابل نہیں ہوں، آج نماز کوئی اور آدمی پڑھا دے، یہ صبر و ضبط اللہ اپنے عاشقوں کو دیتا ہے۔ قرآنِ پاک کی تفسیر ہے کہ فرشتے اللہ والوں کے دل پراترتے ہیں۔ حکیم الامت مجدد ملت رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اﷲ والوں کے دلوں پر حوادث کے وقت بھی فرشتے اترتے ہیں، جو اللہ کو خوش رکھتے ہیں تو اگر ان کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو ان کے دلوں کو فرشتے سہارا دیتے ہیں، یہی و جہ ہے کہ اللہ والے گھبرا کر کبھی خود کشی نہیں کرتے اور نہ ہی کبھی بدحواس ہوتے ہیں، ان کے آنسو تو نکلتے ہیں لیکن بزبانِ حال یا بزبانِ قال جگر کے استاد اصغر گونڈی hکا ایک شعر بھی پڑھتے ہیں ؎ خوشا حوادثِ پیہم، خوشا یہ اشکِ رواں جو غم کے ساتھ ہو تم بھی تو غم کا کیا غم ہے یہ تو اصغر گونڈوی کا شعر ہے اور اسی مضمون کا میرا بھی ایک شعر ہے ؎ زندگی پُر کیف پائی گرچہ دل پُر غم رہا ان کے غم کے فیض سے میںغم میں بھی بے غم رہا جس کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا غم مل جاتا ہے تو اس بارے میں علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؎ ترے غم کی جو مجھ کو دولت ملے غمِ دو جہاں سے فراغت ملے۔

01:16:45) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ کے بیٹے کے انتقال پر اُن کو آپﷺ نے جو خط لکھا وہ پڑھا۔۔۔

01:19:35) اللہ کا غم معمولی بات نہیں ہے، اللہ کی محبت کے ایک ذرّہ کی قیمت آسمان و زمین بھی ادا نہیں کرسکتے، سورج اور چاند بھی ادا نہیں کرسکتے، بادشاہ بے چارے اس کو کیا جانیں۔ اللہ کی محبت کا درد ملتا ہے نبیوںکو ، اللہ کے اولیاء اور دوستوں کو اور اس کے دوستوں کے ساتھ جو رہتے ہیں ان کو بھی اللہ اپنی محبت کا درد دیتا ہے۔ خانقاہ کا یہ اجتماع اسی لئے ہوتا ہے، اس میں اللہ کے کئی نیک بندے ایسے آتے ہیں جن سے اللہ کی رحمت مل جاتی ہے، ہر آدمی دوسرے کے لئے یہ سوچے، میں آپ لوگوں کے لئے سوچتا ہوں، جیسے حاجی امداد اللہ صاحب رحمہ اللہ ہمارے پردادا پیر،مہاجر مکی ،شیخ العرب والعجم ،فرمایا کرتے تھے کہ جب میرے پاس کوئی اللہ کے لئے آتا ہے،اللہ کی محبت سیکھنے آتا ہے تو میںاس کے قدموں کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔

01:20:53) پرانے غرفہ میں دوستوں میں کچھ گڑ بڑ ہو گئی تھی اس پر حضرت والا رحمہ اللہ کی ایک نصیحت کہ ہر شخص کو یہ سمجھو کہ میں ان کے قدموں کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔۔۔۔

01:21:47) آہ! دنیا والے کیا سمجھتے ہیں کہ پیر صاحب کا دماغ بڑا اونچا ہوگا، تمہیں کیا معلوم کہ وہ اپنے کو کیا سمجھتے ہیں۔ دیکھو! ہمارے پر دادا کی کیسی تعلیم ہے۔ لہٰذا ہر شخص دوسرے کے لئے یہی سمجھے کہ اتنا بڑا مجمع اللہ کے لئے آیا ہے اور ایک ایک شخص کے ساتھ ستر ستر ہزار فرشتے آئے ہیں۔ جب کوئی اللہ کے لئے کسی سے ملنے جاتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ چلتے ہیں۔ اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ گنہگار انسان کی خدمت میں ستر ہزار فرشتے کیوں لگے ہوئے ہیں؟ اس لئے کہ وہ اللہ کے لئے جارہا ہے،اللہ والا سمجھ کر جا رہا ہے۔اورکیا دعا کرتے ہیں؟ يُصَلُّوْنَ عَلَيْهِ اَیْ یَسْتَغْفِرُوْنَ لَہٗ راستے بھر اس کی مغفرت کی دعاکرتےہیں،سترہزار فرشتے کہتے ہیں کہ اے اللہ! اس کے گناہوں کو معاف کردے کیونکہ یہ آپ کے لئے ایک بندہ کو اللہ والا سمجھ کر جارہا ہے۔ اس کے نیک گمان کی برکت سے رحمت ہوجاتی ہے اور جب وہ اس اﷲ والے سےمصافحہ کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے مل کر دوسری دعا یہ دیتے ہیں رَبَّنَااِنَّهٗ وَصَلَ فِيْكَ اَیْ لِاَجْلِکَ اے اللہ! یہ آپ کے لئےمل رہا ہے،آپ کے لئے مصافحہ کررہا ہے، فَصِلْهُ پس اس کو اپنے سے ملالے، اپنا بنالے، اے اللہ! یہ تیرے لئے مصافحہ کررہا ہے، اس کے ہاتھ آپ کے لئےملاقات کررہے ہیں، لہٰذا تو اس کو اپنا وصل، اپنا قرب دے دے، اپنے سے ملا لے۔ یہ حدیث دکھانا میرے ذمہ ہے، اگر کسی صاحب کو شوق ہو تو خانقاہ میںتشریف لائیں، میں یہ حدیث دکھادوں گا، ہر دلیل دکھانا میرے ذمہ ہے۔ اب آپ بتائیں جتنے آدمی آئے ہیں ہر ایک کے ساتھ سترستر ہزار فرشتے آئے ہیں، اسی لئے تجربہ کی بات ہے کہ جو اﷲ والوں کی صحبت میں جاتے ہیں تو کچھ ہی دن کے بعد ان کے حالات بدلنے لگتے ہیں۔ حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تم سے کوئی پوچھے کہ اللہ والوں کے پاس جاکر تم کو کیا ملا تو کیا جواب دو گے؟اس کا جواب خواجہ عزیز الحسن مجذوب حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کے بہت ہی پیارے خلیفہ ،جن سے بڑے بڑے علماء بیعت تھے، حالانکہ وہ عالم نہیں تھے لیکن اللہ نے ان کو کہا ں سے کہاں پہنچا یا، انہوں نے جب یہ مقام پایا تو حکیم الامت کو خطاب کرکے یہ شعر پڑھا؎ تو نے مجھ کو کیا سے کیا شوق فراواں کردیا پہلے جاں پھر جانِ جاں پھرجانِ جاناں کردیا ۔

01:24:22) ایک بزرگ بھیکا شاہ اپنے مرشد شاہ ابو المعالی کے بارے میں فرماتے ہیں؎ کاگا سے ہنس کیو اور کرت نہ لاگی بار بھیکا معالی پہ واریاں دن میں سو سو بار اے میرے پیر ومرشد شاہ ابو المعالی!میں کوّا تھا، گو کھاتا تھا یعنی گناہ کرتا تھا لیکن آپ نے اپنی صحبت کے صدقہ میں ہم کو ہنس بنا دیا، ہنس وہ چڑیا ہے جو موتی چگتی ہے ، گو نہیں کھاتی یعنی میں اب گناہ نہیں کرتا، تو آپ نے ہم کو کاگا سے ہنس بنا دیا اور اس فیض یعنی تبدیلی میں دیر بھی نہیں لگی،اے بھیکا!تیری جان شیخ و مرشد پر دن میں سو سو دفعہ قربان ہو جائے۔

01:26:26) بزرگوں نے لکھا ہے کہ جس کو اپنے مرشد سے جتنی محبت ہوگی اتنا ہی اس کو فیض ملے گا۔ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمہ اللہ اپنی کتاب ضیاء القلوب میں لکھتے ہیں کہ جس کو اپنے پیر سے جتنا زیادہ حسنِ ظن ہوگا، جتنی محبت ہوگی اتنی ہی زیادہ اس پر رحمت برستی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو بھی نصیب کرے اور اختر کو بھی توفیق دے کہ شاہ ابرار الحق صاحب رحمہ اللہ پر اپنی جان فدا کرے اور اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ہمیں ان کو پہچاننے کی عقل دے دے کیونکہ بعض اوقات لوگ اللہ والوں کو نہیں پہچانتے۔

01:27:06) مولانا رومی رحمہ اللہ کی قبر کو اللہ نور سے بھر دے، کیا عمدہ مثال دی، فرماتے ہیں کہ ایک اندھی بڑھیا تھی، ایک بازِ شاہی اس کے ہاتھ آگیا، اس نے جلدی سے قینچی منگائی اور اس کے ناخن کاٹنے لگی کہ ہائے ہائے کیسا یتیم ہے!کسی نے اس کاناخن بھی نہیں کاٹا۔ حالانکہ سارا ہنر تو اس کا ناخن تھا جس سے وہ شکار کرتا تھا ۔ تو مولانا رومی فرماتے ہیں کہ بعض بندوں کی روحیں ،بعض انسانوں کی روحیں مثل اندھی بڑھیا کے ہیں، وہ اللہ والوں کو نہیں پہچانتے، اپنے گمان کے مطابق ان سے بدگمانی کرتے رہتے ہیں۔ اے خدا! ہمیں ا ندھی بڑھیا بننے سے بچااور وہ آنکھیں عطا فرماکہ ہم اللہ والوں کو پہچان لیں، خاص کر میں اپنے شیخ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اےخدا! حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کا جو درجہ آپ کے یہاں ہو وہ ہمارے دلوں پر منکشف کردے، ہم اندھی بڑھیا کی طرح کہیں ان کی ناقدری نہ کرلیں، یہ اللہ والے باز شاہی ہیں، ان کی قدر کی ہمیں توفیق عطا کردے، اگر ہم اس اندھی بڑھیا کی طرح اللہ والوں کو نہیں پہچانیں گے تو ہم ان کی قدر بھی نہیں کریں گے، جب پہچان نہیں ہوگی تو قدر کہاں سے ہوگی؟ایک بچہ،بےوقوف کے پاس ایک لاکھ کا موتی تھا،ایک آدمی نے اسے لڈو دکھایا تو اس نےلڈو لے لیا اورموتی دے دیا۔تو ہم لوگ اللہ والوں کو دنیا کے لڈو کی خاطر چھوڑ دیتے ہیں ، کسی نے دنیا کا لڈو دِکھایا کہ چلو کچھ پارٹ ٹائم کام کرو، کہاں خانقاہ جارہے ہو، کیا ضرورت ہے وہاں جانے کی؟ ذرا سی دنیا ملی اور ہم نے اس لڈو کی وجہ سے موتی چھوڑ دیا۔

01:28:40) ہمارا حال تو ایسا ہے جیسےتین چار سال کے ایک بچہ کو ایک ہزار کا نوٹ دے دو، اس کے بعد اس کو ٹافی دِکھا ؤ اور پوچھو کہ کیا لے گا؟ تو وہ ٹافی لے گا حالانکہ ہزار کے نوٹ کے سامنے ٹافی کی کیا حقیقت ہے۔ بس یہی حال ہمارا ہے کہ شیطان نے ذراہمیں عورتوں کا مزہ، وی سی آر کا مزہ، سینما کا مزہ اور گناہوں کے لڈو کا مزہ دِکھایا تو ہم اللہ کے قرب کے موتی کو بھول جاتے ہیں۔ ارے! کب تک نابالغ رہوگے؟ کب تک نابالغ بچوں کی طرح اللہ کی عظمتوں کو پامال کرتے رہوگے؟ اب بڈھے ہوگئے ہو، بال سفید ہوگئے ، اب تو بالغ بنو،کب تک نا بالغ رہو گے، نابالغ ہی قبروں میں چلے جائو گے۔اللہ کی عظمتوں کو پہچانو۔ ان شاء اللہ، جو آپ کا مقصد ہے،مزہ،تودنیا کے تمام مزوں کی روح آپ کو مل جائے گی، جو اللہ کو راضی کرتا ہے، اللہ بے شمار مزے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔

01:29:28) تو اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ ہی کی یاد سے دلوں کو چین ملتا ہے لیکن جن کو ابھی اللہ کی یاد کی توفیق نہیں ہے تو وہ اس آیت پر ایمان لانے کے لئے اللہ کا ذکر کرنے والوں کے پاس بیٹھ کر دیکھیں ان کو کتنا چین ملتا ہے۔ آپ تجربہ کرنے کے لیے دس دن مالداروں کے پاس رہ لیں، دس دن بادشاہوں کے پاس رہ لیں اور دس دن رومانٹک دنیا والوں کے پاس رہ لیں، پھر دس دن کسی اللہ والے کے پاس رہ لیں، اور دیکھیں کہ چین کس کے پاس ہے؟ تو چین اللہ کے ذکر کی برکت سے ملتا ہے، لیکن ذکر کی توفیق کب ہوتی ہے؟ اللہ والوں کی صحبت سے۔ اللہ والوں کے پاس بیٹھو تو آپ کو اللہ کی یاد کی توفیق مل جائے گی، گناہ چھوڑنے کی توفیق مل جائے گی، بشرطیکہ آپ مخلص ہوں، خانقاہ میں اخلاص سے آئے ہوں، خالی ٹائم پاس کرنے کے لئے نہ آئیں۔ ایک شعر کہتا ہوں، لیکن یہ مت سمجھنا کہ یہ میر صاحب کے بارے میں ہے، میر میرا ایک تکیہ کلام ہے، یہ میر صاحب مراد نہیں ہیں ؎ گل رخوں سے تنگ آکر میر ایک پیر کی ٹانگ دبایا کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب بتوں نے ستایا تب خانقاہ کی یاد آئے بلکہ آپ اللہ کے لئے آئیے اور اللہ والا بننے کے لئے فکر کیجئے، ان شاء اللہ تعالیٰ چند دن میں حالات بدل جائیں گے، اختر کچھ نہیں ہے ، لیکن میری اللہ والوں کی غلامی سے آپ انکار نہیں کرسکتے، اتنا تو دنیا جانتی ہے، سارے علمائے پاکستان جانتے ہیں کہ اختر نے شاہ عبدالغنی صاحب رحمہ اللہ کی صحبت اٹھائی، مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمہ اللہ کی صحبت اٹھائی اور مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمہ اللہ کی صحبت اٹھائی، اب ان اﷲ والوں کو کہاں تلاش کرو گے؟جب گیہوں نہیں پائو تو بھوسی کو غنیمت سمجھو، جب پانی نہ ملے تو تیمم کرلو، اس سے بھی نماز ہو جائے گی، اب تمہاری عقل کا فیصلہ ہے کہ تم مجھے مٹی کا ڈھیلا سمجھتے ہو یاکیا سمجھتے ہو ، میرا کام یہ ہے کہ میں اپنی طرف سے اپنے کو ڈھیلا ہی سمجھوں گالیکن آپ اپنا کام کیجئے۔ حاجی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر اللہ کے دین کا کوئی خادم اپنے کو تواضع سے کچھ نہ سمجھے اور کہہ دے کہ میں کچھ نہیں ہوں تو تم ایسی بیوقوفی نہ کرنا کہ یہ کہنے لگو کہ ارے! جب یہ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ کچھ نہیں تو ان کے پاس سے بھاگو، یہاں کیا ملے گا۔ ایک مرتبہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دوستو! میں کچھ نہیں ہوں، میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ تو جو یہ کہے میرے پاس کچھ نہیں ہے، سمجھ لو کہ اس کے پاس سب کچھ ہے اور جو یہ کہے کہ میرے پاس سب کچھ ہے تو سمجھ لو کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے، یہ زیرو بٹا زیرو ہے۔

01:33:10) حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے جوں ہی یہ فرمایا کہ خدا کی قسم میں کچھ بھی نہیں ہوں تو دو دیہاتی اُٹھ کر چلےگئے اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے پاس چلے گئے تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو آدمی سیڑھیاں چڑتا رہے تو وہ اپنے آپ کو کیا سمجھے گا یہی سمجھے گا نا کہ ابھی آگے اور سیڑھیاں ہیں۔۔۔

01:35:31) حضرت والا رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو مٹتا نہیں اللہ تعالیٰ اُس کو مٹا دیتے ہیں۔۔۔

01:36:10) فرمایا کہ خلافت اُس کو دینا چاہیے جس کو کچھ بھی کہیں وہ خاموش رہے اور کچھ بھی نہ کہے اور وقت نکال کر شیخ کے پاس آتا رہے۔۔۔

01:38:35) کچھ اعلانات۔۔۔

01:43:32) ایک پتھر کا ذکر کہ انگوٹھی بنا کر اس کی نہیں پہننی چاہیے۔۔۔یہ مشکل کشا پتھر ہے یہ انگوٹھی اس مصیبت سے ہمیں بچائے گی یہ سب غلط باتیں ہیں۔۔

01:46:21) جمعے کے سات اعمال۔۔۔

01:49:41) اذان کا جواب دینا او اذان کی بعد کی دعا کا مسنون طریقہ۔۔۔دعا کا ترجمہ اور تفصیل۔۔۔اذان کے بعد کی دعا پڑھنے والے کے لیے حُسنِ خاتمہ کی بشارت ہے۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries