مجلس ۲۸       جنوری ۲ ۲۰۲ءعصر  :غم، پریشانی  اور بلاؤں میں پوشیدہ حکمت        !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:11) جمعہ کے دن جس کا انتقال ہوتا ہے اُس کی مغفرت ہوجاتی ہے۔۔۔

01:12) الہامات ربّانی سے متعلق حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور نے فرمایا کہ ایسے ملفوظات ہیں کہ میں نے کبھی نہیں پڑھے۔۔۔انشاء اللہ اب روزانہ عصر کے بعد الہامات ربّانی سے ملفوظا ت پڑھ کرسنائےجائیں گے۔۔۔

03:07) رشاد فرمایا کہ دنیا میں جو حوادث و واقعات ہورہے ہیں،یہ محض اتفاقی امور نہیں ہوتے بلکہ حق تعالیٰ کے ارادے اور مرضی کے تحت واقع ہوتے ہیں لیکن آج کل لوگ کہتے ہیں، اگر کوئی اچھائی اور نعمت مل گئی مثلاً تجارت میں توقع سے زیادہ نفع ہوگیا یا کسی ملازم پیشہ کی تنخواہ میں غیر متوقع اضافہ ہوگیا وغیرہ، تو کہتے ہیں کہ حسن ِاتفاق سے ایسا ہوگیا،اور اگر کوئی بُرائی پہنچ گئی مثلا ًسڑک کے کسی موڑ پر ٹیکسی سے تصادم ہوگیا یا اچانک کوئی بیماری آگئی یا اور کسی مصیبت میں مبتلا ہوگئے تو کہتے ہیں کہ صاحب! سوءِ اتفاق سے یہ حادثہ پیش آگیا۔ غرض نعمت مل گئی تو حسن ِاتفاق اور مصیبت آگئی تو سوءِ اتفاق سے منسوب کر دیتے ہیں اور خدا کو بھول گئے کہ عالَم میں جو کچھ ہو رہا ہے،اس کے ارادے اور مرضی اور ربوبیت کے تحت ہورہا ہے۔

04:55) حضرت والا رحمہ اللہ نے حضرت میر صاحب رحمہ اللہ سے فرمایا تھا کہ میر صاحب تیرے اور میرے تذکرے مشہور ہو کر رہیں گے۔۔۔حضرت میر صاحب رحمہ اللہ کا تذکرہ کہ کس طرح حضرت والا رحمہ اللہ سے جوڑے اور پھر کس طرح حضرت والا رحمہ اللہ پر آخری سانس تک جان فدا کردی۔۔۔۔الہامات ربّانی کے جو ملفوظات ہیں یہ حضرت میر صاحب رحمہ اللہ نے اپنے رجسٹروں میں لکھے تھے پھر اُن کو جمع کیا گیا ۔۔۔حضرت والا رحمہ اللہ کی جتنی کتابیں ہیں وہ سب حضرت میر صاحب رحمہ اللہ نے یا تو ریکارڈ کی یا پھر لکھی۔۔۔

11:49) ابھی دورانِ مجلس ایک جنازہ پڑھا اس پر فرمایا کہ حضرت والا رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو جنازہ بھی جاتا ہے وہ کندھوں پر جاتا ہے ۔۔۔۔فرمایا کہ دوزندگیاں نہیں کہ ایک میں اللہ کی نافرمانی کریں اور دوسری میں اللہ تعالیٰ کو راضی کریں ۔۔۔

13:49) حضرت میر صاحب رحمہ اللہ کا تذکرہ۔۔۔

15:11) جہاں رہو اپنے بزرگوں کے نقش ِقدم پر رہو ذرّہ برابر بھی اِدھر اُدھر نہ ہٹو۔۔۔

17:45) شخصیت پرستی کیا ہے؟آج جو بزرگوں کے طریقے پر چلے اُس کو شخصیت پرستی کہتے ہیں ۔۔۔حضرت مولانا عبدالعزیز دواجو رحمہ اللہ حضرت والا رحمہ اللہ سے فرماتے تھے کہ حضرت تبلیغ نام ہے لگانے کا اور لگائے گا وہ جس کو خود لگی ہوئی ہو۔۔۔۔

19:48) اے لوگو! کوئی مصیبت نہ دنیا میں آتی ہے نہ خاص تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ( یعنی لوح ِمحفوظ میں) لکھی ہےقبل اس کے کہ ہم ان جانوں کو پیدا کریں۔(بیان القرآن)معلوم ہوا کہ ہم کو جو مصیبت بھی پہنچتی ہے زمین میں یا ہماری جانوں میں، وہ محض امرِ اتفاقی نہیں ہے،ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے جو بغیر کسی ارادے کے خود بخود واقع ہو گیا ہو بلکہ یہ جو کچھ عالَم میں رونما ہونے والا تھا،اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی لوح ِمحفوظ میں لکھ دیا ہے، اور یہ نہ سمجھ لینا کہ یہ اللہ کے لئے کوئی مشکل کام ہے اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ اللہ کے لئے یہ بالکل آسان ہے۔ اور اے انسانو!یہ تقدیر جو ہم لکھ چکے ہیں،کیوں ہم اس کی اطلاع تم کو دے رہے ہیں لِكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ تاکہ جو چیز تم سے فوت ہوجائے تو تم زیادہ غمگین نہ ہو جائو کہ غم سے چارپائی پر ہی لیٹ جائو،ہم نے تمہیں غم سے مغلوب ہوجانے کے لئے پیدا نہیں کیا ہے، اپنی یاد کے لئے پیدا کیا ہے، اور ہم اپنے بندوں کو اتنا غم نہیں دیتے جس کو وہ برداشت نہ کر سکیں،ہم تمہاری وسعت،برداشت سے زیادہ غم نہیںدیتے ہیں، غم تو ہم تم کو تھوڑا سا دیتے ہیں،تم اس کو بے صبری سے اور ہمارا سہارا چھوڑ دینے سے بڑھا لیتے ہو۔ غرض ایک وجہ تو اس تقدیر کی اطلاع سے یہ ہے کہ جب کوئی نقصان ہوجائے تو غم تم پر آسان ہوجائے کیونکہ جب یہ سوچو گے کہ جو مقدر تھا وہی ہوا تو غم بھی ہلکا ہوجائے گا،اور اس رضا بالقضا سے تم ہمارے مقرب ہوجائو گے،اور صبر پر ہماری معیت ِخاصہ تمہیں حاصل ہو گی۔ اور دوسری وجہ اس اطلاع ِتقدیر کی یہ ہے کہ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىكُمْ اگر کوئی نعمت تم کو ملے تو تکبر نہ کرو اور یہ سمجھو کہ یہ نعمت ہمارا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ محض عطائے حق ہے، جو ہمارے لئے ہماری پیدائش سے قبل ہی مقدر کی جا چکی تھی۔

21:37) دوسری جگہ فرماتے ہیںقُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا(سورۃ التوبۃ:آیۃ ۵۱)اے محمدﷺ!آپ فرمادیجئے کہ ہمیں کوئی مصیبت نہیں پہنچتی ( چاہے وہ مصیبت غیر اختیاری ہو یا اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی ہو لَنْ يُّصِيْبَنَآ میں سب داخل ہے) مگر وہ پہلے ہی اللہ نے ہمارے لئے لکھ دی تھی۔ لنا میں جولام ہے، عربی قواعد کے مطابق انتفاع کے لئے آتا ہے (اللام للانتفاع) تو یہ معنی ہوئے کہ جو مصیبت اور نقصان یا تکلیف دنیا میں آتی ہے وہ ہمارے فائدے کے لئے ہی ہوتی ہے، اس میں ہمارا نفع ہوتا ہے،یہ نہ سمجھ لینا کہ اس مصیبت میں ہمارا کوئی ضرر ہے، اللہ کو ہم سے دشمنی نہیں ہے، ضرر تو دشمن پہنچاتا ہے، کہیں دوست بھی ضرر پہنچایا کرتا ہے؟ اور اللہ تو ہمارا دوست ہے۔آگے فرماتے ہیں ھُوَ مَوْلٰنَا وہ ہمارا مولیٰ ہے۔ مولیٰ ولی سے مشتق ہے، دوست کہیں دشمنی کیا کرتا ہے؟ اس ربوبیت میں تربیت کا ہر انداز ہماری ولایت اور دوستی کو لئے ہوئے ہے، ہر مصیبت میں ہماری دوستی چھپی ہوئی ہے۔كَتَبَ اللّٰهُ لَنَاکے بعد هُوَ مَوْلٰنَا فرما کر یہ بتا دیا کہ تمہاری تقدیر کی اس کتابت میں ہماری ولایت شامل ہے، ہم نے دوستی اور ولایت کے پیش ِنظر تمہاری تقدیر لکھی ہے۔پس جب تمہاری تقدیر ہماری دوستی کے تحت ہے توپھر جو مصیبت یا نقصان ہوتا ہے اس میں تمہارا فائدہ ہی ہوگا، ضرر نہیں ہو سکتا۔ غرض عالَم میں جو واقعات پیش آرہے ہیں، عرش سے ان کی کمان ہورہی ہے، یہ واقعات تو نظر آرہے ہیں لیکن جن کی نگرانی اور کمان کے تحت ہو رہے ہیں، وہ ذات نظر نہیں آتی۔ جس طرح آپریشن روم سے کمانڈر انچیف کمان کرتا ہوتا ہے اور جنگ میدان میں لڑی جاتی ہے، جنگ تو نظر آتی ہے لیکن آپریشن روم نظر نہیں آتا۔ بے وقوف لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ فوجیں خود بخود نقل و حرکت کر رہی ہیں حالانکہ وہ کمانڈر کے ارادے اور کمان کے تحت ہوتی ہیں۔

23:45) حضرت والا رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ بلائیں تیر اور فلک کماں ہے چلانے والا شہنشہاں ہے۔۔۔اسی کے زیر قدم اماں ہے بس اور کوئی مفر نہیں ہے اور فرمایا کہ جب بھی مصائب تکلیفں ہوں بس اللہ کو یاد کر لیا کرو۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries