مجلس ۲۹       جنوری ۲ ۲۰۲ءعصر  :مصائب کیوں آتے ہیں !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

00:47) اب روز بعد عصر الہامات ربانی سے پڑھا جارہا ہے جس میں بہت پرانے ملفوظات ہیں۔۔۔شیخ العرب والعجم حضرت والا مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ کے ملفوظات جمع ہیں۔۔

02:11) ایک عالم بہت پریشان تھے غم میں تھے اور جائز غم تھا اُن کو یہی شروع کے الہامات ربانی کے صفحات پڑھنے کا بتلایا رات بارہ بجے اُن کا فون آیا کہ خوب نفع ہوا سار غم ختم ہوگیا۔۔۔

02:25) صبر چار قسم کا ہے۔۔۔

02:39) الہاماتِ ربانی:۔ مصائب کیوں آتے ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ دنیا میں نقصان اور حادثات ہمارے یقین کو بنانے کے لئے آتے ہیں جیسے بچہ کو کوئی کھلونا اتنا پسند آجائے کہ وہ کھیل میں ماں کو بھول گیا تو ماں اس کھلونے ہی کو گم کردیتی ہے، پھر کھلونا نہ پاکر جب بچہ روتا ہے تو ماں کہتی ہے آمیرے لعل! میری گود میں آجا، میری آنکھیں تجھے ترس رہی ہیں۔ ایسے ہی بندہ کسی چیز میں پھنسا رہتا ہے، کسی فانی شے کو جان کا سہارا بنا لیتا ہے، اس کو اللہ میاں ہٹا دیتے ہیں تاکہ بے سہارا ہو کر میری طرف بھاگ آئے۔

05:44) ایک نوجوان سی اے میں فیل ہوگیا تو خودکشی کرلی حرام موت دنیا کے لیے مرگیا۔۔۔

06:49) آج کالج یونیورسٹی میں کیا لکھوایا ہوا ہے کہ رب زدنی علما۔۔شرم بھی نہیں آتی علم وہ ہے جو مولی سے ملادے اصل علم،علمِ دین ہے اور یہ کالج یونیورسٹی میں جو پڑھایا جاتا ہے یہ پیٹ ہے جو کہ منع نہیں ہے پڑھنا منع نہیں ہے لیکن اس کو علم نہیں کہے گیں۔۔اصل علم وہی ہے جو مولی سے ملادے۔۔

08:30) الہاماتِ ربانی:۔ ایسے ہی بندہ کسی چیز میں پھنسا رہتا ہے، کسی فانی شے کو جان کا سہارا بنا لیتا ہے، اس کو اللہ میاں ہٹا دیتے ہیں تاکہ بے سہارا ہو کر میری طرف بھاگ آئے۔لہٰذا اگر کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور یہ مسجد بھاگتا ہے، سجدے میں سر رکھ دیتا ہے،تویہ حادثہ سبب ہوگیا اس کی حضوری کا، تضرع و گریہ و مناجات کا۔ پس اپنے بندوں کو اپنی ذات سے جوڑنے کے لئے یہ حادثات آتے ہیں،جب ہم دنیاوی تعلقات میں پھنس کر اللہ میاں کو بھول جاتے ہیں تو یہ تعلقات چونکہ حجاب ہوگئے تھے، اس لئے حجاب کو ہٹا دیتے ہیں اور خود مل جاتے ہیں۔

10:33) الہاماتِ ربانی:۔ نافرمانی سے آزمائش شدید تر کردی جاتی ہے ۲۳ ؍رمضان المبارک ۱۳۹۳؁ھ مطابق ۲۱ ؍اکتوبر ۱۹۷۳؁ء بروز اتوار بعد عشاء ارشاد فرمایا کہ آج تلاوت کرتے وقت یہ علوم عطا ہوئے کہ یہودیوں کو اللہ تعالیٰ نے یوم السبت (سنیچرکے دن) شکار کرنے کو منع فرمایا تھا لیکن ہفتہ میں چھ دن مچھلیاں نہیں آتی تھیں اور سنیچر کے دن ان مچھلیوں کو حکم ہوجاتا آج سطح دریا پر آجائو تاکہ یہودی دیکھ دیکھ کر للچائیں اور فتنہ میں مبتلا ہوں، اس کے بعد فرماتے ہیں۔۔(سورۃ الاعراف:آیۃ ۱۶۳) ترجمہ: وہ ہفتہ کے بارے میں حد (شرعی) سے نکل رہے تھے جبکہ ان کے ہفتہ کے روز (دریا کی) مچھلیاں ظاہر ہوہوکر ان کے سامنے آتی تھیں اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں،ہم ان کی اس طرح پر (شدید) آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وہ (پہلے سے) بےحکمی کیا کرتے تھے۔(بیان القرآن) تو ان کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے شدید آزمائش میںمبتلا کر دیا،اس سے معلوم ہوا کہ نافرمانی سے آزمائش شدید کردی جاتی ہے۔اس طرح یہودی فتنہ میں مبتلا ہوگئے اور پھر ان پر عذاب نازل ہوا۔

12:27) نوجوانوں کو نصیحت کہ کچھ وقت نکالیں اور دین کو دیں۔۔۔

15:06) الہاماتِ ربانی:۔ اور فرمایا:اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوْۗءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍ،ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو اس بُری بات سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو (حکمِ مذکور میں) زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا۔(بیان القرآن) اس آیت سے معلوم ہوا کہ نجات کے لئے صرف نیک ہوجانا اور اعمال ِصالحہ کرنا ہی کافی نہیں بلکہ نہی عن المنکر بھی ضروری ہے۔

16:55) لالچ بری چیز ہے اور اصلاح کرانے سے لالچ ختم نہیں ہوگی لیکن یہ لالچ دین میں بدل جائے گی ہر وقت پھر نیکی کی لالچ ہوگی۔۔اس کو سمجھیں کنجوسی کی عادت ہے اب اصلاح سے یہ کنجوسی کی عادت ختم نہیں ہوگی پھر گناہ کی کنجوسی میں یہ بدل جائے گی پھر گناہ میں کنجوسی کرے گا یعنی گناہ نہیں کرے گا۔۔

18:24) الہاماتِ ربانی:۔ دیا سلائی سے خیر و شر کے مادّے کی مثال ۷ ؍شوال المکرم ۱۳۹۳؁ھ مطابق ۴ ؍نومبر ۱۹۷۳؁ء بروز اتوار سامعین میں آزاد صاحب، صفدر صاحب،فرقان صاحب، پوسٹ ماسٹر صاحب ٹھٹھہ کے اولاد احمد عثمانی صاحب،منّےمیاں وغیرہ موجود تھے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَا؁﴾ (سورۃ الشمس : آیۃ ۸) کہ اے انسانو! ہم نے تمہارے خمیر میں خیر اور شر کو پیدا کر دیا،اس پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ خیر و شر تو اللہ میاں نے ہمارے اندر رکھ دیا ہے۔۔

19:51) الہاماتِ ربانی:۔ اب اگر ہم عورتوں کو دیکھتے ہیں،سینما دیکھتے ہیں،بُرے کام کرتے ہیں تو ہمارا کیا قصور ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ فسق و فجور اور تقویٰ کا مادّہ تو ہمارے اندر اللہ نے رکھ دیا ہے لیکن تقویٰ یا فجور پر ہمیں مجبور نہیں کیا ہے، جیسے دیا سلا ئی کی ڈبیہ پر مصالحہ لگا ہوتا ہے، اس میں آگ لگنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن ڈبیہ اگر عمر بھر پڑی رہے تو دیاسلائی جل نہیں سکتی لیکن جب یہ مصالحہ دیاسلائی سے رگڑ کھاجاتا ہے تو آگ لگ جاتی ہے۔ اسی طرح ہمارے اندر نفس کی ڈبیہ پر اللہ میاں نے دو قسم کے مصالحے لگادیئے ہیں، ایک تقویٰ و خیر کا اور دوسرا فسق و فجور کا۔ یہ مادّے خود بخود روشن نہیں ہوتے، جب ان پر رگڑ لگائی جاتی ہے، تب جلتے ہیں۔ ان کو روشن کرنے والی تیلیاں الگ الگ ہیں، خیر کے مادّے کو روشن کرنے والی تیلیاں کیا ہیں؟ قرآن ہے، حدیث ہے،اہل اللہ کی صحبت ہے۔ جب ان تیلیوں سے رگڑ لگے گی تو ہمارے اندر جو خیر کا مادّہ الہام کیا گیا ہے، وہ روشن ہوجائے گا،نور پیدا ہوگا،جس سے اشراق پڑھےگا، تہجد پڑھےگا، اللہ کی یاد میں رونا آئے گا یعنی اعمال ِصالحہ پیدا ہونے لگیں گے۔ اگر آپ کسی اللہ والے کی صحبت میں چلے گئے،یا کچھ تلاوت کر لی، کچھ اللہ کی یاد میں رو لئے تو آپ نے اپنے خیر کے مادّے پر رگڑ لگا دی، اب نور پیدا ہوجائے گا، اعمال ِصالحہ کی توفیق ہوگی۔

21:43) الہاماتِ ربانی:۔ اسی طرح نفس پر جو شر و فجور کا مادّہ لگا ہوا ہے، وہ بھی نہیں جل سکتا تھا لیکن جب کسی بُری صحبت کی تیلی سے رگڑ کھا گیا تب آگ پیدا ہوتی ہے۔ یہ مادّہ کچھ مضر نہ ہوتا اگر آپ اس کو رگڑ نہ لگاتے، اس کی آگ بھڑک نہیںسکتی تھی لیکن جب عورت کو دیکھ لیا یا کسی چرسی کی صحبت میں بیٹھ گئے جو نشہ کی، سینما اور شراب کی دعوت دے رہا ہو تو آپ نے خود فجور کے مادّے کو رگڑ لگادی،اب بُرے اعمال کی (گناہ کی) آگ پیدا ہوگی۔ کوئی ڈبیہ اگر جل رہی ہو تو وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ میرے اندر مصالحہ ہی ایسا لگا ہوا ہے کہ میں جلنے پر مجبور ہوں،نہیں،اس سے کہا جائے گا کہ ہر گز مجبور نہیں ہو، مصالحہ خود بخود نہیں جل سکتا تھا لیکن تو نے اپنے اختیار سے رگڑ لگائی ہے، تب یہ مادّہ جلا ہے۔ پس اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ الہامِ فجور و تقویٰ سے ہم فجور و تقویٰ پر مجبور ہیں، گناہ یا نیکیاں دونوں ہم سے خود بخود ہو رہے ہیں بلکہ دونوں فعل (گناہ و ثواب) ہم اپنے اختیار سے کر رہے ہیں۔ اگر ہم نیک صحبتوں سے، نیک اعمال سے خیر کے مادّے پر رگڑ لگاتے تو نور پیدا ہوتا، اور اس مادّے کو ترقی ملتی،اور اگر شر کے مادّے پر رگڑ لگاتے ہیں تو گناہ صادر ہونے لگتے ہیں۔اللہ کی یہ رحمت دیکھو کہ اگر کبھی شر کے مادّے پر رگڑ لگ گئی اور گناہ صادر ہوگیا،پھر بندہ فوراً اپنے تقویٰ کے مادّے کو کام میں لے آیا اور رونا شروع کر دیا، نادم ہوکر توبہ و استغفار کرنے لگا، تو شر کا مادّہ بھی خیر بن جاتا ہے،اللہ تعالیٰ توبہ کی برکت سے سیئات کو حسنات سے تبدیل فرمادیتے ہیں۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries