مجلس ۱۸ مارچ ۲ ۲۰۲ءعشاء : اصل شبِ براء ت کیا ہے ؟ | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں 02:08) حسبِ معمول مظاہر حق جدید سے تعلیم ہوئی۔۔۔ 02:09) تصویر سے متعلق اعلان کے یہ کتنا بڑا گناہ ہے۔۔۔حضرت والا رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ جو اپنے پر رحم نہیں کرتا پھر اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرتے ۔۔۔ 08:48) حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمہ اللہ کے خط کا ذکر جو حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کو لکھاتھا۔۔۔فرمایا کہ بڑے تو چلے گئے لیکن چھوٹے اُن کے راستے پر نہیں ہیں۔۔۔ 10:36) تصویر کھینچوانے سے متعلق فرمایا کہ اس میں اتنی ریّا چھپی ہوئی ہیکہ سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔۔ 13:02) دارالعلوم کراچی کے ایک فتویٰ کا ذکر جس میں عورت کا وعظ کہنے والے کو دیکھنے سے متعلق سوال کیاگیا تھا ۔۔۔۔ 14:50) حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کھٹک والا کام بھی چھوڑ دینا چاہیے۔۔۔ 15:21) ہم خود اپنی اولاد کو تباہ کرتے ہیں اُن کے ہاتھ میں موبائل دیے ہوئے ہیں ۔۔۔ 17:56) یہ ایسی مبارک رات ہیکہ ایک مرتبہ سچی توبہ کرلیں۔۔۔ 18:33) جوماں باپ اپنے بچوں کو موبائل دیتے ہیں یاد رکھو ایک دن رونا پڑے گا۔۔۔ 19:36) فرعون کا جو ورثہ ہے مال اس کی فکر لگی ہوئی ہے اور انبیاء علیہ السلام کے ورثے کی فکر نہیں ۔۔۔ 20:20) میری نظر میں چرس ہیروہن بھنگ چھوڑنا آسان ہے لیکن سمارٹ فون چھوڑنا مشکل ہے۔۔۔ 21:04) حضرت والا رحمہ اللہ کے حالات پڑھیں بچپن سے ہی کیسے اللہ والے تھے حضرت والا رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کا جو پہلا شعر پڑھا وہ یہ ہے۔۔ دردِ فرقت سے مرا دل اس قدر بے تاب ہے۔۔۔جیسے تپتی ریت میں ایک ماہی بے آب ہے۔۔۔ 22:58) اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں شبِ برات عطا کی بس اللہ سے معافی مانگ لیں اور گناہوں کو چھوڑ دیں۔۔۔ 24:27) ایک بوڑھے صاحب کا ذکر جو آج غرفہ آئےتھے سب کچھ اولاد نے لےلیا دوائی کے بھی پیسے نہیں تھے۔۔۔ 25:29) توبہ کی چار شرائط ہیں۔۔۔ 27:52) اللہ معاف کرے آج ماں باپ کا کیا حشر بنایا ہوا ہے اُلڈ ہاوس میں جمع کیا ہوا ہے۔۔۔ 28:39) یہ اتنی بابرکت رات ہے کہ اس میں سب کی بخشش ہوجائے گی لیکن ماں باپ کو ستانے والے کی بخشش نہیں ہوگی،کینہ رکھنے والے کی بخشش نہیں ہوگی اور شرک کرنے والے کی بخشش نہیں ہوگی۔۔۔ 31:15) شبِ برات کے دن قبرستان جانا دیّے اور اگربتیاں جلانا اللہ معاف کرے مُردوں کو ان چیزوں کی کیا ضرورت ہے۔۔۔؟ 33:25) حضرت مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ اس رات گناہ کرنے سے بہتر ہیکہ سوجائیں۔۔۔ 34:08) سب سے آخر میں جو مسلمان جہنم سے نکلے گا اس کا واقعہ۔۔۔ 42:38) مولانا محمد کریم صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔۔ تجھے مشکل ہے کیا غم کو میرے زیر و زبر کرنا ہماری شامِ غم کو فضل سے رشکِ سحر کرنا تری قدرت کا یہ ادنیٰ کرشمہ ہوگا اے مالک کہ ہم سے دُور اُفتادوں کو پھر نزدیک تر کرنا ترے دستِ کرم کی کیمیا تاثیر کیا کہیے کسی ذرّے کو تیرا دم میں خورشید و قمر کرنا جو تیری راہ میں روباہ خصلت سے ہیں پسماندہ تجھے مشکل نہیں ایسوں کو رشکِ شیرنر کرنا یہی ہے راستہ اپنے گناہوں کی تلافی کا تری سرکار میں بندوں کا ہر دم چشم تر کرنا تجھے مشکل نہیں مسکیں کو سلطانِ جہاں کر دے کرم سے اپنے اخترؔ کو ترا شمس و قمر کرنا 53:27) فرمایا کہ بعض لوگوں کی عادت ایسی ہیکہ بیان میں بھی ہیں تو پھر بھی موبائل استعمال کررہے ہیں۔۔۔ 55:56) شبِ برات کا حلوہ۔۔۔ 57:48) حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کا واقعہ۔۔۔ 01:02:57) اللہ کے عاشقوں کی ہر رات شبِ برات ہوتی ہے۔۔۔ 01:03:59) ہم اپنا ماضی بھول گئے ۔۔۔ 01:05:08) بدنظری کرنا آنکھوں کا زنا ہے۔۔۔ 01:09:49) لا الٰہ ہے مقدم کلمۂ توحید میں۔۔۔غیرِ حق جب جائے ہے تب دل میں حق آجائے ہے۔۔۔سکینے کا نور کس دل میں آئےگا۔۔۔؟ 01:10:49) چین سکون اطمینان اللہ تعالیٰ کی یاد میں ہے۔۔۔ 01:13:17) جب آپ ﷺ کی محبت دل میں ہوگی تو پھر آپﷺ کی ہر ہر ادا مبارک کی نقل کرنے کی کوشش کرے گا۔۔۔ 01:14:29) جس نے برائی کی ابتدا کی جب تک یہ برائی ہوگی اس کو بھی گناہ ملےگا اور اگر نیکی کی بنیاد رکھی تو جب تک نیکی ہوتی رہے گی اس کو ثواب ملتا رہے گا۔۔۔ 01:15:34) حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کا واقعہ مکمل کیا۔۔۔ 01:20:28) ماں باپ کی ڈانٹ ہمارے لیے دُعا ہے۔۔۔ 01:21:48) اصلاح کتنی ضروری ہے ۔۔۔ 01:22:13) اس رات میں اللہ سے رحمت مانگنی ہے فضل مانگنا ہے رزّق مانگنا ہے ۔۔۔ 01:23:35) جن ماں باپ کی وجہ سے ہماراوجود ہے آج اُن کو ہم کیسے بھلا دیں۔۔۔ 01:24:15) اس رات میں پٹاخے اور حلوے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔۔۔ 01:25:55) ایک مٹھ داڑھی رکھنا واجب ہے اگر آپﷺ نے پوچھ لیا کہ میری سنت میں کیاکمی تھی تو اس وقت کیا جواب دیں گے۔۔۔ 01:29:56) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین آپ ﷺ کی کیسی اطاعت کرتے تھے کچھ واقعات۔۔۔ 01:32:52) عباداتِ شبِ براء ت:غزوہ طائف سے واپسی میں آپ ﷺنے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم فرمایا، وہ اذان دینے لگے،ایک سولہ سال کا لڑکا جس کا نام ابو محذورہ تھا،اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کی نقل اتارنے لگا،اس لڑکے کی آواز بہت اچھی تھی۔آپ eنے سنا تو اسے بلوایا،ابو محذورہ کو آپ کے سامنے کھڑا کر دیا گیا،انہیں اندیشہ ہوا کہ اس حرکت پر قتل کیا جائوں گا۔آپeنےفرمایا کیسے اذان دے رہے تھے، ذرا سنائو!انہوں نے اذان دینی شروع کی،اللہ اکبر تو بلند آواز سے چار بار کہہ دیا کیونکہ اللہ کی بڑائی کے تو کفار بھی قائل تھے لیکن اذان میں شہادت کے کلمات کو آہستہ آواز سے کہا کہ کہیں میرے قبیلے والے نہ سن لیں۔آپ ﷺنے نہایت شفقت سے ان کے سر اور سینہ پر ہاتھ پھیرااور فرمایا بلند آواز سے کہو۔آپeکا دست ِمبارک پھیرنا تھا کہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہو گئےاور بلند آواز سے یہ کلمات پھر دہرائے۔صحابہ کا عشق دیکھئے کہ رسول اللہ ﷺنے جو سر پر ایک بار ہاتھ رکھ دیا تو انہوں نے عمر بھر سر کے بال نہیں منڈوائےکہ یہ وہ بال ہیں جن پر میرے محبوبeکاہاتھ پھر گیا،یہ تھی ان حضرات کی محبت کہ جن بالوں پر آپeکا ایک بار ہاتھ مبارک پھر گیا عمر بھر اُن بالوں کی حفاظت کی۔ 01:35:27) تین مواقع پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔(۱)اللہ کے فرمانبرداروں کے دل میں،اللہ والوں کے دل میں اچھی اچھی باتیں، اچھے اچھے ارادے ڈالتے ہیں، جیسے دل چاہتا ہے کہ تہجد پڑھ لیں، اشراق پڑھ لیں تو یہ ارادے کون ڈالتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ڈالتے ہیں بواسطہ ملائکہ کے،جس کا نام ہے الہامِ عزائم ِرشد، ہدایت کے ارادے دل میں ڈالتے ہیں۔(۲) نزول ِحوادث کے وقت سکینہ اور سہارا دیتے ہیں تاکہ بندہ زیادہ گھبرانے نہ پائے۔(۳) مرتے وقت خوشخبری دیں گے کہ آپ کو جنت کی بشارت ہو،یہ بشارت ان کو نظر آجاتی ہے، جنت کی بشارت مرنے سے پہلے دنیا ہی میں مل جاتی ہے۔ بعض اوقات نیک لوگوں کو انتقال کے وقت دیکھا گیا کہ ان کے آس پاس خوشبو ہوجاتی ہے حالانکہ وہاں عطر لگا ہوانہیں تھا۔ ﴿وَاَ بْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ﴾ (سورۃ حٰمۗالسجدۃ:آیۃ ۳۰) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے ان پیارے بندوں کو اس جنت کی بشارت ہےجس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ 01:37:42) مزاح ِنبوت ﷺ:ایک صحابی کو رسول اللہ ﷺنے مدینہ کے بازار میں پیچھے سے آکر اسی طرح سےدبالیا،اس کا قصہ یہ ہوا کہ حضور ﷺکے ایک صحابی حضرت زاہر بن حَرام(یا حِزام) اشجعی tجودنیاوی لحاظ سے شکل کےخوب صورت نہ تھے لیکنکَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحِبُّہٗ حضور ﷺان سے محبت فرماتے تھے،مضافات ِمدینہ میں رہتے تھے اور وہاں سے سبزی وغیرہ لاکر مدینہ میں بیچتے تھے۔آپ ﷺکو بھی ہدیہ کرتے تھے اورحضور ﷺبھی انہیں مدینہ کی چیزیں ہدیہ فرماتے تھے۔ایک دن مدینہ منورہ کی منڈی میں سودا بیچ رہے تھے کہ سید الانبیاء ﷺنےچپکے سے پیٹھ کی طرف سے ان کو دبالیا اور ان کی آنکھوں پر اپنے دونوں دست ِمبارک رکھ دئے کہ پہچاننے نہ پائیں لیکن یہ سمجھ گئےکہ یہ میرے نبی ہیں لہٰذا پیٹھ کو حضور ﷺکے سینے سے رگڑ نے لگے تَبَرُّکًا وَّ اِسْتِلْذَاذًا محبت میں آکر برکت کے لئے اور لطف کےلئے۔تو آپﷺبھی سمجھ گئے کہ یہ سمجھ گیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پیٹھ کیوں رگڑ رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ آپ کے سینہ ٔ مبارک سے لپٹنے کا ایسا موقع پھر کہاں ملے گا؟ (( فَجَعَلَ النَّبِیُّ ﷺ یَقُوْلُ مَنْ یَّشْتَرِیْ ھٰذَا الْعَبْدَ فَقَالَ الرَّجُلُ یَا رَسُوْلَ اللہِ اِذًا وَّاللہِ تَجِدُنِیْ کَاسِدًا فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ لٰکِنَّ عِنْدَ اللہِ لَسْتَ بِکَاسِدٍ اَوْ قَالَ اَنْتَ عِنْدَ اللہِ غَالٍ)) (شمائل الترمذی:(ایچ ایم سعید)؛ص۱۶)۔(البدایۃ و النہایۃ:باب مزاحہ علیہ السلام؛ ج ۶ ص ۵۳) اس کے بعد سرور ِعالم ﷺنے فرمایا اس غلام کو کون خریدتا ہے؟ انہوں نے کہا حضور میں تو بالکل غریب ہوں، میری شکل بھی خرا ب ہے، مجھے کون خریدے گا؟میں آپ کا غلام تو ہوں مگر کھوٹا ہوں، آپﷺنے فرمایا مگر تو اللہ کے یہاں بہت قیمتی ہے۔ آج کل پیری اس کا نام سمجھ لیاہے کہ منہ پھلائے آنکھیں لال کئے بیٹھے رہو، دوستوں سے ہنسو بولو مت،اگر کوئی پیر ہنس لے، کچھ دوستوں سے چھیڑ چھاڑمذاق کرلے تو کہتے ہیں ارے یہ کیسا پیر ہے؟ یہ تو ہنستا بولتا ہے۔یہ نعوذ باللہ نبوت کے ساتھ اعتراض ہے،آپ ﷺسے ہنسنابھی ثابت ہے۔ ایک مرتبہ سرور ِعالم ﷺہنس پڑے تو حضراتِ شیخین یعنی حضرت صدیق ِاکبر اور حضرت عمر فاروقwنے فوراً دعا دی، امتی ہو کر نبی کو دعا دی: ((اَضْحَکَ اللّٰہُ سِنَّکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ )) (صحیح البخاری : (قدیمی) ؛ باب التبسم و الضحک ؛ ج ۲ ص ۸۹۹) اے اللہ کے رسول! خدا آپ کو ہمیشہ ہنستا رکھے۔ دیکھا آپ نے! امتی بھی نبی کو دعا دیتا ہے، کیا بیٹا باپ کو دعا نہیں دے سکتا؟ بلکہ نبی نے اپنے امتی سے خود دعا کے لئے بھی کہا ہے، اس لئے بڑوں کو بھی اپنےبیٹوں سے، شاگردوں سے، دوستوں سے دعا کے لئے کہنا چاہیے۔ حضرت عمرtنے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ! میں عمرہ کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا اجازت ہے یَا اُخَیَّ ، جیسے اردو میںکہتے ہیں اے بھیّا: (( اِسْتَاْذَنْتُ النَّبِیَّ ﷺ فِی الْعُمْرَۃِ فَاَذِ نَ لِیْ وَ قَالَ اَشْرِکْنَا یَا اُخَیَّ فِیْ دُعَاۗئِکَ وَلَاتَنْسَنَا فَقَالَ کَلِمَۃً مَّا یَسُرُّنِیْ اَنَّ لِیْ بِھَا الدُّنْیَا۔ رواہ ابوداوٗد والترمذی)) (مشکٰوۃ المصابیح : ( قدیمی) ؛کتاب الدعوات ؛ ص ۱۹۵) لیکن اے میرے چھوٹے بھائی! اپنی دعاؤں میں مجھے شریک رکھنا ، اے عمر! مجھ کو اپنی دعاؤں میں بھولنا مت ۔ حضرت عمرtفرماتے ہیں کہ مجھے دنیا میں ایسی خوشی کبھی نصیب نہیںہوئی جیسی خوشی سرور ِکائنات ﷺکے ان کلمات سے ہوئی۔اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ پیر کو بھی چاہیے، شیخ اور عالم کو بھی چاہیے کہ اپنے دوستوں سے دعا کی گذارش کرتا رہے، یہ بھی سنت ہے، اسلام میںاپنے کو بڑا سمجھنا ہے ہی نہیں اور اپنی اولاد بھی اگر نیک ہے تو ان سے بھی کہیں کہ بیٹا!میرے لئے دعا کرنا، کیونکہ ایک مسلمان کی دعا دوسرے مسلمان کے حق میں جلد قبول ہوتی ہے۔ ایک کی دعا دوسرے کے حق میں جلد کیوں قبول ہوتی ہے؟ مثنوی مولانا روم hآپ نے پڑھی ہوگی، معارف ِمثنوی کے نام سے میں نے اس کی شرح لکھی ہے۔ اس میں ایک واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبرحضرت موسیٰuسے فرمایا کہ اے موسیٰ! ایسی زبان سے مجھ سے دعا مانگو جس نے کبھی کوئی قصور نہ کیا ہو، کوئی خطا نہ کی ہو۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ! ایسی زبان کہاں سے لاؤں جس سے کبھی کوئی خطا نہ ہوئی ہو، بے خطا زبان کہاں ملے گی؟ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی کہ اے موسیٰ! دوسروں سے دعا کرائو، جو بندہ دوسرے سے دعا کرائے تو وہ اپنی زبان سے تو گنہگار ہے لیکن دوسرا جو اس کے لئے دعا کرے گا وہ زبان اس کے حق میں گنہگار نہیں،یہ ہے راز سرور ِعالم ﷺکی اس حدیث کا کہ: (( اِنَّ اَسْرَعَ الدُّعَاۗ ءِ اِجَابَۃً دَعْوَۃُ غَائِبٍ لِّغَائِبٍ)) (سنن ابی داوٗد :(اسلامی کتب خانہ) ؛باب الدعاء بظہر الغیب ؛ج ۱ ص ۲۲۵) وہ دعا بہت جلد قبول ہوتی ہےجب کوئی بھائی اپنے بھائی کے لئے دعا کرتا ہے،یہ ہے وہ راز جو اللہ والےایک دوسرے سے کہتے رہتے ہیں کہ میرے لئے دعا کرنا، یہ بے اصل تھوڑی ہے، اس کے ثبوت و دلائل موجود ہیں۔ اَضْحَکَ اللّٰہُ سِنَّکَکی تشریح تو حضرات ِشیخین سیدنا صدیق ِاکبر اورسیدنا عمر فاروق wنے حضورﷺکے ہنسنے پریہ دعا دی کہ اَضْحَکَ اللّٰہُ سِنَّکَ اے اللہ کے رسول ﷺ! خدا آپ کو ہنستا ہی رکھے۔محدثین نے اس کی شرح کی ہے،یہاں ڈاکٹر حضرات بھی بیٹھے ہیں،ان سے میں پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کے پاس ایک شخص آئے اور مسلسل ہنستارہے، مان لیجیے اس کو بھی کسی نے ایسی ہی دعا دے دی کہ خدا تمہیں ہنستا ہی رکھے اور وہ ہر وقت،دو گھنٹہ مسلسل ہنس رہا ہے۔ آپ بتائیے! آپ اس کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے؟یہی ناکہ اس کو دماغ کے ڈاکٹر کے پاس لے جائو، اس کے دماغ کے بارے میں کچھ شبہ ہونے لگے گا یا نہیں؟ لہٰذا محدثین نے اس دعا کی شرح کی تاکہ ہماری سمجھ میں آجائے۔ اس حدیث کو سمجھنے کے لئے محدثین کے اقوال تلاش کرنے پڑتے ہیں، بڑی کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ اَضْحَکَ اللّٰہُ سِنَّکَ کے معنی ہیں: ((اَیْ اَدَامَ اللّٰہُ فَرَحَکَ)) ( مرقاۃ المفاتیح : (رشیدیہ) ؛ باب مناقب عمر رضی اللّٰہ عنہ ؛ ج ۱۱ ص ۱۸۱ ) اللہ آپ کی فرحت اور خوشی کو ہمیشہ باقی رکھے، اللہ آپ کی فرحت ہمیشہ قائم رکھے یعنی آپ کو کبھی کوئی غم نہ پہنچے۔ اب اس حدیث کے صدقہ میں، صحابہ کرام کے صدقہ میں،اورسرور ِعالم ﷺکو جو دعا دی گئی اس کے صدقہ میں اختر بھی یہ دعا کرتا ہے اَدَامَ اللّٰہُ فَرَحَنَا، ہماری خوشیوں کو اللہ ہمیشہ قائم رکھے، نہ دنیا میں غم آئے نہ آخرت میں غم آئے۔ 01:47:39) دُعا۔۔۔ |