مجلس   ۲۰        مارچ   ۲ ۲۰۲ءفجر   :اللہ والوں کی صحبت کو معمولی مت سمجھیں   !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

02:38) حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے ملفوظات۔۔

03:16) دل کبھی نہیں چاہے گا کہ میں اپنی اصلاح کراوں۔۔

05:34) کیفیت کے بارے میں ملفوظ۔۔۔

07:15) کیفیات سب دنیا ہوتی ہیں نسبت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔۔

07:56) گناہوں کے ساتھ نسبت مع اللہ عطاء ہوہی نہیں سکتی۔۔

12:08) ذکر اور طاعت میں مشغول رہنا ہی اصل مقصود اور اصل نفع ہے۔۔

12:50) شیخ العرب والعجم حضرت والا رحمہ اللہ کا ملفوظ۔۔۔ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا اور یہ بات حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ نے مجھے بتائی کہ میں تمہیں تمہارے پیر کی ایک بات بتاتا ہوں۔ کسی نے حضرت پھولپوری رحمہ اللہ سے پوچھا کہ پارس میں یہ خاصیت کیوں ہے کہ لوہا اس سے چھوتے ہی سونا بن جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ فرمایا: کیوں، کیا مت پوچھو۔ لوہے کو پارس سے لگادو پھر آنکھوں سے دیکھو کہ لوہا سونا بنتا ہے یا نہیں۔ پوچھنا کیا ہے، مشاہدہ کرلو۔

18:10) امانت پر ایک اہم بات۔۔

19:26) پارس پتھر سے جب لوہا ملتا ہے تو فوراً سونا بن جاتا ہے۔ ایک دن پارس پتھر سے لوہے نے پوچھا کہ آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے کہ میں آپ سے ملاقات کروں گا تو سونا بن جاؤں گا تو اس نے کہا آپ کو دلیل کی ضرورت نہیں ہے، بس مجھ سے مل جاؤ اور پھر دیکھو، جب سونا بن جاؤ گے توبلا دلیل سمجھ میں آجائے گا۔

22:16) ہم کو کیسا شیخ چاہیے اس پر ایک جعلی پیر کی حقیقت۔۔۔

22:50) پوچھا کہ پارس میں یہ خاصیت کیوں ہے کہ لوہا اس سے چھوتے ہی سونا بن جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ فرمایا: کیوں، کیا مت پوچھو۔ لوہے کو پارس سے لگادو پھر آنکھوں سے دیکھو کہ لوہا سونا بنتا ہے یا نہیں۔ پوچھنا کیا ہے، مشاہدہ کرلو۔ دیکھو کیسے کیسے شرابی، کبابی صحبت کی برکت سے اللہ والے بن گئے۔ جگر مراد آبادی رحمہ اللہ اللہ والے بن گئے اور جون پور کے ایک شاعر جن کا نام عبدالحفیظ تھا، شراب پیتے تھے۔ یہ سن کر تھانہ بھون گئے کہ وہاں انسان، انسان بنتے ہیں۔ شاید یہ شرابی بھی انسان بن جائے۔ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب نے فرمایا کہ حضرت سے بیعت ہوگئے اور بیعت بھی کیسے ہوئے کہ خانقاہ تھانہ بھون میں چند دن قیام سے داڑھی جو تھوڑی سی بڑھ گئی تھی، وہ بیعت ہونے سے پہلے منڈوالی اور حضرت تھانوی سے درخواست کی کہ حضرت مجھے بیعت کرلیجیے۔ حضرت نے فرمایا کہ جب بیعت ہی ہونا تھا تو اللہ کا نور جو چہرہ پر آگیا تھا اس کو کیوں صاف کیا؟ عرض کیا کہ حضرت آپ حکیم الامت ہیں، میں مریض الامت ہوں۔ مریض کو چاہئے کہ حکیم کے سامنے اپنا سارا مرض پیش کردے تاکہ نسخہ اسی طاقت سے لکھا جائے۔ یہ عمل تو بظاہر صحیح نہیں تھا لیکن چونکہ نیت اچھی تھی اس لیے حضرت نے اس پر گرفت نہیں فرمائی۔ پھر خود ہی عرض کیا کہ اب کبھی داڑھی پر اُسترا نہیں لگائوں گا۔ حضرت نے بیعت فرمالیا۔ یہ جونپور آگئے۔ ایک سال کے بعد حضرت وعظ کے سلسلہ میں جونپور تشریف لے گئے دیکھا کہ ایک بڑے میاں کھڑے ہیں۔ ایک مشت داڑھی رکھے ہوئے۔ فرمایا کہ یہ بڑے میاں کون ہیں۔ عرض کیا گیا کہ یہ وہی بڑے میاں ہیں جو کس حالت میں تھانہ بھون گئے تھے۔ حضرت ان کی داڑھی دیکھ کر خوش ہوگئے۔

24:50) حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ان کا خاتمہ بڑا اچھا ہوا۔ تین دن تک گھر میں روتے رہے۔ اللہ کا خوف طاری ہوگیا۔ کمرے میں ادھر سے ادھر ایک دیوار سے دوسری دیوار تک تڑپ کے جاتے تھے اور روتے تھے۔ اسی طرح رو رو کے جان دے دی اور اس خوف کی حالت میں اللہ کے پاس چلے گئے۔ اور اپنے دیوان میں یہ اشعار بڑھادیے تھے ۔۔۔

26:27) اسی طرح رو رو کے جان دے دی اور اس خوف کی حالت میں اللہ کے پاس چلے گئے۔ اور اپنے دیوان میں یہ اشعار بڑھادیے تھے ؎ مری کھل کر سیہ کاری تو دیکھو اور ان کی شانِ ستّاری تو دیکھو گڑا جاتا ہوں جیتے جی زمیں میں گناہوں کی گراں باری تو دیکھو ہوا بیعت حفیظ اشرف علی سے بایں غفلت یہ ہشیاری تو دیکھو

27:49) واقعی بڑی ہشیاری ہے۔ مبارک وہ بندہ ہے، بہت ہی مبارک بندہ ہے وہ جو اللہ والوں سے تعلق کرلے جو اللہ کے دوستوں سے دوستی کرلے۔ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ یہ ہماروں کا ہمارا ہے، یہ ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔ لہٰذا اس پر بھی فضل فرمادیتے ہیں اور اس کو بھی اپنا بنالیتے ہیں۔ اللہ والوں کی صحبت سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔

29:15) سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’ہُمُ الْجُلَسَائُ لَایَشْقٰی جَلِیْسُہُمْ۔‘‘ (بخاری: ص ۹۴۸، ج۲)

29:50) اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کے پاس بیٹھنے والا شقی نہیں رہ سکتا۔ اس کی شقاوت کو سعادت سے اللہ تعالیٰ بدل دیتے ہیں۔ یہ لمبی حدیث ہے جس کا ایک جز یہ ہے کہ اللہ والوں کی مجلس میں ایک شخص غیرمخلص تھا۔ وہ وہاں اللہ کے لیے نہیں بیٹھا تھا۔ کسی ضرور سے جارہا تھا کہ وہاں بیٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے پوچھا کہ میرے بندے کیا کررہے تھے؟ اللہ تعالیٰ کو تو سب معلوم ہے لیکن اپنے بندوں پر فخر و مباہات فرمانے کے لیے پوچھتے ہیں۔ آخری جز اس لمبی حدیث کا یہ کہ اے فرشتو! گواہ رہنا میں نے ان سب کو بخش دیا۔ فرشتوں نے عرض کیا کہ وہاں ایک بندہ ذکر کے لیے نہیں بیٹھا تھا۔ ’’اَنَّمَا جَائَ لِحَاجَۃٍ‘‘ وہ کسی حاجت سے جارہا تھا۔ دیکھا کہ کچھ اللہ والے لوگ بیٹھے ہیں، وہ بھی بیٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اس کو بھی بخش دیا کیونکہ میں اپنے مقبول بندوں کے پاس بیٹھنے والوں کو محروم نہیں کیا کرتا۔

30:32) ہُمُ الْجُلَسَائُ لَایَشْقٰ جَلِیْسُہُمْ اس کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اِنَّ جَلِیْسَہُمْ یَنْدَرِجُ مَعَہُمْ فِیْ جَمِیْعِ مَایَتَفَضَّلُ اللّٰہُ بِہٖ عَلَیْہِمْ۔‘‘ (فتح الباری: ص ۲۱۳، ج ۱۱) اللہ والوں کے پاس بیٹھنے والوں کو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ مندرج کرلیتا ہے۔ ان تمام انعامات میں جو اللہ والوں کو عطا کیے جاتے ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ آگے مفعول لہٗ بیان ہورہا ہے۔ اِکْرَامًا لَہُمْ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کا اکرام فرماتے ہیں۔

31:42) دیکھئے! جیسے یہاں ڈیرہ غازی خان میں آپ لوگ جو کچھ حضرت والا ہردوئی دامت برکاتہم کو کھلاتے ہیں وہی ہم خادموں کو بھی کھلارہے ہیں کہ نہیں۔ بس جب حِسّی نعمتوں کا یہ حال ہے تو ایسے ہی جنت میں بھی ان شاء اللہ تعالیٰ معاملہ ہوگا۔ جب اولیاء اللہ کی صحبت کا یہ انعام ہے کہ ان کی صحبت کے فیض سے شقاوت سعادت سے تبدیل ہوجاتی ہے اور قلب میں اعمالِ صالحہ کی زبردست ہمت و توفیق عطا ہوجاتی ہے تو صحبتِ نبوّت کے فیضان کا کیا عالم ہوگا؟ حالتِ ایمان میں جس پر نبوت کی گناہ پڑگئی وہ صحابی ہوگیا اور دنیا کا بڑے سے بڑا ولی بھی ایک ادنیٰ صحابی کے رُتبہ کو نہیں پاسکتا۔ چنانچہ صحبت نبوت کے فیضان سے حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ کو فوراً تنبیہ ہوگئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہُوَ ہُرٌّ لِوَجْہِ اللّٰہِ اس غلام کو میں نے اللہ کے لیے آواز کردیا، اس خطا کی تلافی میں۔ معلوم ہوا کہ خطائوں کی تلافی بھی ضروری ہے۔

33:05) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لَوْلَمْ تَفْعَلْ لَلَفَحَتْکَ النَّارُ اَوْ لَمَسَّتْکَ النَّارُ۔‘‘ (مسلم: ۵۱، ج ۲) اگر تُو ایسا نہ کرتا اور غلام پر یہ رحمت نہ دکھاتا تو جہنم کی آگ تجھے جھلسادیتی اور جلا کے خاک کردیتی۔ یہ کون ہیں؟ صحابی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والے ہیں۔ آج کس ظالم کا منہ ہے جو کہے کہ میں اتنا تہجد پڑھتا ہوں، صوفی ہوں، اتنا ذکر و فکر کرتا ہوں،

میرے غصہ پر کوئی پکڑ نہیں ہوگی۔ ذرا سوچئے! یہ بات سوچنے کی ہے یا نہیں کہ اپنی عبادت پر اتنا ناز کہ ہم نے تہجد پڑھی ہے لہٰذا مسلمانوں کو، اور بھائیوں کو اور بہنوں کو اور بیویوں کو جس طرح چاہو ستائو۔ کوئی قانون نہیں۔ دیکھئے! صحبت یافتۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ کے لیے یہ حکم ہورہا ہے کہ اگر تم نے رحمت نہ کی تو یاد رکھو قیامت کے دن دوزخ کی آگ تم کو لپٹ جائے گی۔ اب کس صوفی کا منہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ میرا غصہ میرے لیے کچھ مضر نہیں۔ میری تو اتنی عبادت ہے، اتنا وظیفہ پڑھتا ہوں، میرے غصہ پر کوئی پکڑ نہیں ہوگی۔ حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ سے زیادہ آپ مقبول ہیں۔ صحابی سے گویا بڑھ گیا۔ یہ صوفی جو ایسی باتیں کرتا ہے۔ یہ گویا دعویٰ کررہا ہے کہ صحابی سے نعوذباللہ اس کا درجہ بڑھ گیا۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries