رمضان مجلس ۱۱ اپریل ۲ ۲۰۲ءبعدتراویح :صاحب رُشد یعنی راہ راست پر کون لوگ ہیں ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں 01:12) الحمدللہ تین دن سے اللہ تعالی نے اللہ کے عاشقوں کی نشانیاں پر بیان کرنے کی توفیق دی۔۔ 03:17) گناہ چھوڑنے کا دل نہیں چاہتا لیکن ہمت کرکے چھوڑنا ہے۔۔ 04:35) اللہ والوں کا عمل بھی ہمارے لیے حجت ہے۔۔۔ 06:06) اللہ تعالی کی نعمتیں لینے کی ہر وقت تیا ر ہیں لیکن جب عمل کا وقت آیا تو پیچھے بھاگنا۔۔۔ 09:13) من تواضع لله رفعه اللہ۔۔۔تواضع ہے کیا ؟۔۔۔اللہ والے تواضع والے ہوتے ہیں۔۔۔ 12:41) ومن يتق الله يجعل له مخرجا ويرزقه من حيث لا يحتسب۔۔۔۔تقویٰ کا انعام کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے رزق دیں گے کہ اُس کا گمان بھی نہیں ہوگا۔۔۔۔ 15:14) ہم نے بس اللہ تعالیٰ سے رونا ہے۔۔۔۔حدیث پاک ہیکہ ہر دُعا قبول ہوتی ہے ظہور نہیں ہوتا۔۔۔۔ 17:21) آنسوں پر اللہ تعالیٰ کو پیار آتا ہے۔۔۔۔ 18:01) ایک اللہ والے پر قرضہ ہوگیا پھر کیسے ادا کیا واقعہ۔۔۔ 19:45) تقویٰ کا دوسرا انعام۔۔۔اللہ تعالیٰ اُس کے سارے کام آسان کر دیتے ہیں۔۔۔ 20:18) جو توبہ کثرت سے کرے گا اللہ تعالیٰ اُس کے غم کو دور کرے گا۔۔۔۔ 21:23) کتنے بھی غم ہوں ان سے متعلق حضرت والا رحمہ اللہ کا ایک نسخہ۔۔۔ 24:19) قرضے سے متعلق نصیحت کہ بس دُعا ئیں بڑھا دو ایک آدمی کا واقعہ کے آٹھ مہینے میں اتنا بڑا قرضہ ادا ہوگیا۔۔۔ 25:58) جو شخص قرض دار ہو تو اگر اُس کا قرضہ دینے کا ارادہ ہواورا س کے پاس اتنی استطاعت نہ ہوتو انشاء اللہ اُس کی پکڑ نہیں ہوگی۔۔۔ 27:44) جو قرضہ لیکر واپس نہ کرے اور نہ واپس کرنے کی نیت ہو تو اُس کے لیے وعیدیں ہیں۔۔۔۔ 29:22) ایک شخص کا واقعہ جس نے دُھوکا دیا۔۔۔ 34:51) حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایاکہ یا د رکھو کہ جب زکوۃ واجب ہو جائے تو تاخیر نہ کرو۔۔۔ 36:57) خزائن الحدیث:اَللّٰھُمَّ اَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْ وَ اَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ ترجمہ:اے اﷲ! رُشد وہدایت کو مجھ پر الہام فرماتے رہیےاور میرے نفس کے شر سے مجھے بچالیجیے۔ 39:25) آج میں رُشد کی تعریف بیان کروں گا، ان شاء اﷲ علماء کو وجد آجائے گا۔ رُشد کے چار مفہوم ہیں جو اﷲتعالیٰ نے مجھے عطا فرمائے ہیں، بخاری شریف کی تمام شروحات مثلاً فتح الباری، عمدۃ القاری وغیرہ دیکھ لو پھر اختر کی شرح دیکھو تب معلوم ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ نے اختر کی زبان سے کیا کام لیا ہے۔ اَللّٰھُمَّ اَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْ اے خدا! ہم کو رَاشِدُوْنَ میں داخل فرمائیے یعنی صاحبِ رُشد بنائیے اور صاحبِ رُشد (یعنی راہِ راست پر) کون لوگ ہیں؟ 42:39) اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَہٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّہَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الرّٰشِدُوْنَ (سورۃُ الحجرات: اٰیۃ ۷) اور یہی رَاشِدُوْنَ کی تعریف ہے۔ تو صاحبِ رُشد وہ ہیںجن کے قلب میں ایمان محبوب ہوجائے وَ زَیَّنَہٗ اور مزین ہوجائے یعنی اس کی تحصیل دل میں لذیذ اور مرغوب ہوجائے اور دل کے ذرّے ذرّے میں رچ جائے، راسخ ہوجائے۔ محبوب ہونا اور مزین ہونا یہ دو نعمتیں ہیں۔۔۔ 45:03) نصیحت کیسے کی جائے آپﷺ کا طریقہ کیا ہے۔۔۔؟ایک دیہاتی کا واقعہ جس نے ایک مولانا کو غصے میں بات کرنے کی وجہ سے قرآن پا ک کی بات بتائی۔۔۔۔ 46:48) لڑائی جھگڑے کی ضرورت نہیں ہے اگر کوئی کہے کہ آپ راہِ راست پر نہیں ہیں تو اُ س سے پوچھو کہ راہِ راست کیاہے آپ مجھے بتا دیں۔۔۔۔ 48:15) ایک پروفیسر کا واقعہ جو حضرت والا دامت برکاتہم کے پا س فیکٹری میں آیا تھا اور قرآن پاک کی تفسیر کی تھی جس کا نام قرآن پاک کی تفسیر سائنسی حساب سے تھا اور اس پر سودی بینک کی ایروڈائیز تھیں۔۔۔۔جس کا پیٹ خراب ہوتا ہے وہ قرآن ِ پاک کی تفسیر کرنے بیٹھ جاتا ہے۔۔۔حضرت والا رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب طوفان آتا ہے تو سائنس والوں کی سائنس سیں سیں کرنے لگتی ہے۔۔۔ 52:09) محبوب ہونا اور مزین ہونا یہ دو نعمتیں ہیں حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ یعنی اﷲ تعالیٰ دل میں ایمان کو پیارا بنادے اور اسے مزین کردے یعنی قلب میں مرغوب و لذیذ کردے۔ پس جب ایمان محبوب ہوگیا اور اتنا مرغوب ہوگیا کہ اس کی لذت دل کے ذرّے ذرّے میں داخل ہوگئی تو محبوب کی لذتِ مستزاد کا نام تزئین ہے، مزین ہونا ہے یعنی اسے اتنا مزہ آنے لگے کہکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ کفر سے کراہت پیدا ہوجائے وَ الْفُسُوْقَ گناہِ کبیرہ سے کراہت پیدا ہوجائے وَ الْعِصْیَانَ اور گناہِ صغیرہ سے بھی نفرت ہوجائے، مراد یہ ہے کہ اﷲ کی ہر نافرمانی سے سخت نفرت ہوجائے۔ 53:53) اﷲ تعالیٰ نے حَبَّبَ سے ایمان کی محبوبیت اور تزئین کی نسبت اپنی طرف کی ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ تمہیں تمہاری محنتوں، تقویٰ اور مجاہدات سے یہ مقام ملا بلکہ فرمایا حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ اﷲ نے محبوب کردیا تمہارے دلوں میں ایمان کو وَ زَیَّنَہٗ اور ایمان کی محبوبیت کے ساتھ تم کو لذتِ مستزاد بھی عطا فرمائی ، محبوبیت میں جمالِ مستزاد پیدا کردیا اور اتنی لذتِ مستزاد عطا فرمائی کہ تم کو کفر سے، فسوق سے اور عصیان سے نفرتِ شدیدہ ہوگئی، اُولٰٓئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَیہی لوگ صاحبِ رُشد ہیں یعنی راہِ راست پر ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حدیث اَللّٰھُمَّ اَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْمیں رُشد ہی کی درخواست کی ہے کہ اے اﷲ! آپ اپنی طرف سے ہمارے قلب میں رُشد الہام فرمائیے کیونکہ آپ نے قرآن پاک میں ان نعمتوں یعنی ایمان کی محبوبیت اور اس کی مرغوبیت (لذتِ مستزاد) کی نسبت اپنی طرف کی ہے لہٰذا ہم آپ ہی سے مانگتے ہیں کہ آپ آسمان سے زمین والوں کے قلب پر یہ نعمتیں الہام فرمائیے، اے عرش والے فرش والوں کو نہ بھولیے، ہماری نالائقیوں کی وجہ سے ہم کو اس نعمت رُشد سے محروم نہ فرمائیے، ہمارے قلب میں ایمان کو محبوب فرمادیجیے اور لذتِ مستزاد عطا فرما کر مزین بھی فرمائیے اور کفر، فسوق اور عصیان سے کراہت عطافرمائیے۔ مفسرین نے فسوق کی تفسیر گناہِ کبیرہ سے اور عصیان کی تفسیر گناہِ صغیرہ سے کی ہے یعنی کوئی لمحہ آپ کی نافرمانی میں نہ گذرے۔ اے اﷲ! ہمیں اپنے اولیاء کا اتنا بڑا مقام عطا فرمادیجیے تاکہ ہم راشدون بن جائیں۔ 56:46) تو اس دعا اَللّٰھُمَّ اَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْمیں اتنی نعمتوں کی درخواست شامل ہے۔ اور اَلْہِمْنِیْ امر ہے اور امر بنتا ہے مضارع سے، جس میں تجدد استمراری کی شان ہے یعنی ایک ہی مرتبہ ہم کو یہ مرتبہ دے کر وہیں نہ ٹھہرائے رکھیے، بار بار ترقی دیتے رہیے، ہر آن ہم کو اپنی نئی شان عطا فرماتے رہیے۔ قرآنِ پاک میں ہے: كُلَّ يَوْمٍ ہُوَفِيْ شَاْنٍ (سورۃ الرحمٰن: اٰیۃ ۲۹) اس آیت کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں یوم کے معنی دن نہیں ہیں اَیْ فِیْ کُلِّ وَقْتٍ مِّنَ الْاَوْقَاتِ وَ فِیْ کُلِّ لَحْظَۃٍ مِّنَ اللَّحْظَاتِ وَ فِیْ کُلِّ لَمْحَۃٍ مِّنَ اللَّمْحَاتِ اَنْتَ فِیْ شَأنٍ اے خدا! ہر لمحہ تیری نئی شان ہے۔ اسی لیے اﷲ والوں پر ہر وقت اﷲ کی نئی شان متجلّی رہتی ہے۔ اُدھر ہر لمحہ اگر ادائے خواجگی کی نئی شان ہوتی ہے تو اِدھر ادائے بندگی کی بھی نئی شان ہوتی ہے۔ یہ ایک جز کی شرح ہوگئی۔ اب اس شرح کے بعد آپ علماء حضرات بخاری شریف کی شرح فتح الباری اور عمدۃ القاری کو دیکھئے پھر آپ کو قدر ہوگی کہ اس غلامِ ابن حجر اور غلامِ بدر الدین عینی اختر کو اس فرش پر وہ عرش والا مولیٰ کیا دے رہا ہے۔ ان محدثین کرام سے اختر کو کوئی نسبت نہیں، ان کا غلام کہلانے کے بھی قابل نہیں لیکن اﷲ چاہے تو کبھی ذرّے کو بھی آفتاب کرتا ہے۔ 59:48) قرآن پا ک حدیث پا ک کی باتیں برحق ہیں لیکن گناہوں کی وجہ سے ہمیں سمجھ نہیں آتیں۔۔۔ 01:00:41) آگے ہے وَاَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ، اَعِذْنِیْ امر ہے اور سب اہل علم جانتے ہیں کہ امر مضارع سے بنتا ہے یعنی اے خدا! کوئی لمحہ ایسا نہ ہو کہ آپ مجھے میرے نفس کے شر کے حوالہ کردیں، اے اﷲ! رُشد کا ہر لمحہ اختر محتاج ہے اور آپ کی حفاظت از شرورِ نفس کا بھی محتاج ہے اور دنیا کے سب بندے محتاج ہیں۔ 01:03:25) تو اَللّٰھُمَّ اَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْمیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں دعا کا یہ مضمون سکھادیا کہ رُشد مانگو، راشدون کو جو کچھ ملتا ہے وہ مانگو یعنی ایمان کی محبوبیت، اس کی تزئین اور کفر اور گناہوں سے کراہت بھی مانگو مگر آگے فرمایا وَاَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْکہ نفس کے شر سے پناہ بھی مانگو کیونکہ بعض لوگوں کو ہدایت تو ہوگئی، کفر اور گناہوں سے کراہت بھی ہوگئی مگر کبھی نفس غالب آگیا اور گناہ کرادیا اگرچہ نفس کی لذتِ حرام کی پرانی عادت کی وجہ سے خوفزدہ اور دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ گناہ کیا حالانکہ ذکر کی اور اہل اﷲ کی صحبت کی برکت سے اس کے دل میں خطرہ کا الارم بج رہا ہے کہ یہ کیا کررہا ہے نالائق! خبیث! یہ تو کیا کررہا ہے، اﷲ والوں سے تعلق بھی رکھتا ہے اور اﷲ اﷲ بھی کرتا ہے مگر جب نفس غالب ہوگیا تو دھڑکتے ہوئے خوفزدہ قلب کے ساتھ بھی گناہ میں ملوث ہوگیا مگر ذکر کی برکت سے ایسے لوگوں کو گناہ کا پورا مزہ نہیں ملتا۔ ذکر کا ایک انعام حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ بھی بتایا کہ ذکر کرنے والوں کو گناہ کا پورا مزہ نہیں آتا۔ فرماتے ہیں کہ اﷲ کو یاد کرنے والوں سے بھی گناہ ہوسکتا ہے اور غافل لوگوں سے بھی گناہ ہوتا ہے مگر ذاکر کے گناہ میں اور غافل کے گناہ میںکیا فرق ہے؟ تو فرماتے ہیں کہ جو لوگ ذکر سے غافل ہیں جب وہ گناہ کرتے ہیں تو گناہ کی لذت میں بھرپور ڈوب جاتے ہیں اور اگر اﷲ اﷲ کرنے والوں سے کبھی گناہ ہوگا تو خوفِ خدا کے استحضار کی وجہ سے دھڑکتے ہوئے قلب سے انہیں گناہ کا پورا مزہ نہیں آئے گا جس سے اُنہیں توفیق توبہ جلد ہوتی ہے کیونکہ جسے گناہ کا پورا مزہ آجاتا ہے پھر اس کے لیے توبہ کرنی مشکل ہوجاتی ہے جیسے دَلدل میں پورا ڈوب جائے تو نکلنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ اسی لیے حکیم الامت نے فرمایا کہ اہل ذکر سے اگر گناہ ہوگا تو توبہ کی جلد توفیق ہوجائے گی اور اہل غفلت سے جب گناہ ہوگا تو اس کو توبہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔ تو مجددِ زمانہ نے ذاکرین اور غافلین کے گناہ کا فرق بتادیا۔ تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اَللّٰھُمَّ اَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْکے بعد ہمیں اَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ سکھایا تاکہ تم اﷲ کی پناہ مانگو نفس کے شر سے۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے نفس کے شر سے بچنے کے لیے اِلَّامَا رَحِمَ رَبِّیْ فرمایا کہ جس پر میری رحمت کا سایہ ہوگا وہی گناہ سے بچ سکتا ہے۔ گناہوں سے بچنے کے لیے تمہاری ذاتی طاقت کچھ کام نہ دے گی، کتنے ہی ہاتھ پیر مارو جب تک مالک کی رحمت نہیں ہوگی ترکِ معصیت کی توفیق نہیں ہوگی۔ اسی لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا سکھا دی کہ اَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ اے اﷲ! نفس کے شر سے ہم کو بچائیے تاکہ ہم آپ کے سایۂ رحمت میں رہیں۔ ایک دعا سکھادی، اب دوسری دعا سکھاتا ہوں: اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ وَ لَا تُشْقِنِیْ بِمَعْصِیَتِکَ اے اﷲ! ہم پر وہ رحمت نازل فرمائیے جس سے ہم گناہ چھوڑ دیں تو معلوم ہوا کہ جو گناہ چھوڑ دیتا ہے وہ اﷲتعالیٰ کی رحمت کے سائے میں آجاتا ہے، لعنت کے سائے سے نکل کر سایۂ رحمت خداوندی میں آگیا، یہ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ کا ترجمہ ہے کہ اے اﷲ! اپنی رحمت کے سائے میں ہم کو رکھئے اور گناہ کی لعنت کے سائے سے بچائیے۔ معلوم ہوا کہ جس کو خدا گناہ چھوڑنے کی توفیق دے وہ اﷲ کی رحمت پاگیا اور جو گناہ نہیں چھوڑتا تو چاہے لاکھ بڑی بلڈنگ میں رہتا ہو، مرسڈیز کار میں بیٹھا ہو، پاپڑ سموسے اُڑاتا ہو، اسے اﷲ کی رحمت حاصل نہیں ہے اور جوگناہ چھوڑ دے وہ چٹائی پر، بورئیے پر، تالاب کے کنارے، جنگلوں میں ہر جگہ اﷲ کی رحمت کے سائے میں ہے اور مرسڈیز اور بڑی بڑی بلڈنگ والے سے افضل ہے کیونکہ وہ گناہ کرکے اﷲ کو ناراض کررہا ہے اور یہ اﷲ کو یاد کرکے اﷲ کی رحمت کے سائے میں ہے۔ 01:07:24) دُعا کی پرچیاں۔۔۔ |