مجلس  یکم جون     ۲ ۲۰۲ءفجر    :سایہ صحبتِ شیخ کامل      ! 

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:55) بیانات میں اپنے محسن کا نام لینا اور اپنے استاد کا نام لینا۔۔

04:14) بدگمانی کا چشمہ۔۔۔

06:15) دریا گاو کی مثال۔۔

11:27) ایک اللہ والے کا واقعہ جنہوں نے ایک وزیر دہریہ جس کو کیسا سبق سکھایا۔۔

16:39) بدگمانی کا مرض بڑا ہی خطرناک ہے۔۔

17:05) شیخ کی صحبت کا سایہ تمھاری تنہائی کے ذکرسے افضل ہے کیونکہ شیطان نے بھی اکیلے بڑی عبادت کی تھی،آسمان پر کوئی خالی جگہ نہ تھی جہاں ظالم نے سجدہ نہ کیا ہو لیکن مردود ہونے سے نہ بچ سکا کیونکہ عبادت سے فنائیت کے بجائے اس کے اندر تکبّر پیدا ہوگیا اور شیخ کا سایہ تکبّر سے حفاظت کا ذریعہ ہے اور تکبّر سے حفاظت مردودیت سے حفاظت کی ضمانت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تکبّر سخت نا پسند ہے۔ابلیس تکبّر ہی کی وجہ سے مردود ہوا۔

18:11) صدیق جس کا قال اور حال ایک ہو جسکا ظاہر باطن سے متاثر نہ ہو صدیق وہ ہے جو دونوں جہاں اللہ پر فدا کردے۔

22:53) تکبر کیا ہے؟

25:40) شیخ کا سایہ تکبّر سے حفاظت کا ذریعہ ہے اور تکبّر سے حفاظت مردودیت سے حفاظت کی ضمانت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تکبّر سخت نا پسند ہے۔ابلیس تکبّر ہی کی وجہ سے مردود ہوا۔اسی لئے جب صحبت شیخ نصیب ہو تو اس وقت تنہائی میں بیٹھ کر ذکر نہ کرواس سے بہتر ہے کہ تم شیخ کے پاس بیٹھے رہو کیونکہ ذکر سے کبھی نشہ آئے گااور تم اپنے کو با یزید بسطامی اور بابا فریدالدین عطار سمجھنے لگو گے،تکبّر آجائے گا۔شیخ کا سایہ تمہیں مقامِ فنا پر رکھے گا اور اللہ کو مقام ِ فناپسند ہے۔

26:15) ناز تقویٰ سے تو اچھا ہے نیاز رندی جاہ زاہد سے تو اچھی مری رسوائی ہے دوسرے مصرع میں مولانا فرماتے ہیں کہ سینکڑوں طبق سے ایک قناعت بہتر ہے۔ دیکھئے کیسی مثال دی کہ اگر تمہارے پاس سینکڑوں قسم کی بریانیاں سینکڑوں قسم کی پلیٹوں میں رکھی ہوں لیکن اگر قناعت نہیں ہے تو تم ہائے ہائے کرتے رہوگے اس لئے ان سینکڑوں طبق کے مقابلہ میں ایک قناعت اگر تمہارے پاس ہے تو وہ کافی ہے۔ مراد یہ ہے کہ کثرت عبادت کے ناز سے بہتر ہے کہ شیخ کی صحبت سے تمہارے اندر ایک شکستگی آجائے جو ہزار عبادت سے افضل ہے۔

27:36) پیر باشد نرد بانِ آسماں تیر پراں از کہ گردد از کماں مولانا رومی فرماتے ہیں کہ پیر آسمان کی سیڑھی ہے،کیا تیر بغیر کمان کے اڑ سکتا ہے؟تیر چاہے دس لاکھ روپے کا ہو چاہے سونے چاندی اور جواہرات کا ہو زمین ہی پر پڑا رہے گا جب تک کمان میں نہیں آئے گا۔شیخ کمان ہوتا ہے۔اگر شیخ سے تعلق نہیں ہے توتم علم و فضل کے باوجود زمین ہی پر دھرے رہو گے،کبھی اللہ تک نہیں پہنچ سکتے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اصلاح کی ضرورت نہیں بس آٹھ سال مدرسہ میں پڑھ لینا کافی ہے۔علم سے سب اصلاح ہوجاتی ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو کیا مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی،مولانا قاسم نانوتوی،مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہم کے پاس علم کم تھا جو ان حضرات نے ایک غیر عالم کی غلامی اختیا ر کی۔بس حب جاہ مانع ہے۔علم کا پندار کسی کو اپنا بڑا نہیں بنانے دیتا لیکن آہ ایسے لوگوں کو اللہ کی محبت کی ہوا بھی نہیں لگتی اور اپنے پندار خود پرستی سے ہمیشہ مثل تیر بے کمان زمین ہی پر پڑے رہتے ہیں۔

30:43) جب تم نے پیر بنالیا تو اب نازک دل نہ رہو کہ ذرا سا پیر نے ڈانٹ دیا تو دل میں کینہ پیدا ہوگیا اور کیچڑ کی طرح زمین پر نہ پڑے رہو بلکہ اللہ کی راہ میں سرگرم رہو۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries