مجلس۲۴    جون     ۲ ۲۰۲ءفجر   :عاشق مجاز کی زندگی دوزخ کی زندگی  جیسی ہوتی ہے 

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:52) ہمیں دین کو مقدم رکھنا ہے۔۔۔

04:24) بار بار سمجھایا جاتا ہے کہ یہاں جو مقرر ہے جو بات آپ کو بتاتا تو وہ شیخ کی بات بتاتا ہے ..اب آپ کو ایک چیز کا منع کیا جارہا ہے لیکن آپ بات نہیں مان رہے تو یہاں پھر رہنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔۔

05:53) یہ تربیت گاہ ہے۔۔۔

08:53) کل جو فجر میں ملفوظ بیان ہوا تھا اُس کا بقیہ حصہ حسنِ اخلاق کی تعریف ’’مُدَارَاۃُ الْخَلْقِ مَعَ مُرَاعَاۃِ الْحَقِّ‘‘ جب اپنے اپنے گائوں جائو تو بھابھی سے زیادہ بات چیت مت کرو، اپنے بھائی کے ذریعہ ان کی خیریت معلوم کرلو۔ اگر بھابھی کہے کہ یہ کیسا مُلّا ہوگیا ہے، اس کے تو اخلاق بالکل خشک ہوگئے ہیں، ذرا بھی خیال نہیں کرتا، ہم سے زیادہ گپ شپ نہیں کرتا تو کہہ دو کہ اللہ کا حکم یہی ہے، ہماری اس بداخلاقی پر لاکھوں اخلاق قربان ہوجائیں کیونکہ حسنِ اخلاق کی تعریف ہے مُدَارَاۃُ الْخَلْقِ مَعَ مُرَاعَاۃِ الْحَقِّ مشکوٰۃ کی شرح میں مُلّا علی قاری کی عبارت ہے کہ اچھے اخلاق کی تعریف یہ ہے کہ اللہ کے قانون کا احترام رکھتے ہوئے مخلوق کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا۔ بھابھی کا دیور سے ملنے کا کوئی حق نہیں بنتا،اللہ ناراض ہوتا ہے، بس اپنے بھائی سے ملو۔

11:49) ایک مرتبہ مولانا ابرارالحق صاحب کے پاس ایک مقدمہ آیا۔ ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے گیا تو جو حضرت کا مرید تھا اس نے اپنے بھائی کا اپنی اہلیہ سے پردہ کرادیا۔ تو اس پر اس کا بھائی ناراض ہوگیا۔ جب حضرت نے پوچھا کہ تم کیوں ناراض ہوگئے؟ تو اس نے کہا کہ میں بھائی کے پاس گیا تھا اس نے اپنی بیوی کا مجھ سے پردہ کرادیا۔ تو حضرت نے پوچھا کہ تم کس سے ملنے گئے تھے؟ اس نے کہا کہ بھائی سے۔ کہا بھائی ملا تھا یا نہیں؟ کہا ہاں ملا تھا۔ تو پوچھا کہ پھر آپ کو کیا غم ہے؟

12:59) ابھی سات برس کے ہیں اور ان کے پاس غم آگیا تو ان کی اماں نے ایک طمانچہ مارا اور کہا کہ تجھ کو کیا غم ہے؟ پلائو بریانی اُڑا رہا ہے، ڈپٹی کلکٹر کا لڑکا ہے۔ ان کے والد ہردوئی میں چار سال ڈپٹی کلکٹر رہے تھے۔ تو میری خانقاہ میں ایک گجراتی میمن مولوی صاحب بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے میر صاحب کے پاس اپنا منہ لے جاکر ایک خاص انداز میں کہا کہ وہ کیا غم تھا؟ جس انداز سے اس نے کہا مجھے ابھی تک اس سے مزہ آتا ہے،میر صاحب وہ غم نہیں بتا سکے۔

13:13) تو اسبابِ معصیت سے دور رہیں اس لئے اسبابِ معصیت سے دور رہو، کبھی تنہائی میں لڑکوں کو اپنے ساتھ مت رکھو، جس لڑکے کی طرف دیکھو کہ دل مائل ہورہا ہے، اگر ایک اعشاریہ بھی اس کی طرف جھک رہا ہے تو اس سے ہوشیار ہوجائو، اس سے بات چیت نہ کرو۔

13:59) دیکھو! یہ دیوار نوّے ڈگری زاویہ پر کھڑی ہے اگر یہ نواسی (۸۹) ڈگری پر جھک جائے تو انجینئر یہ فیصلہ دے گا کہ اب آپ لوگ یہاں نہ بیٹھیں کیونکہ دیوار گرنے کا خطرہ ہے تو اگر دل کسی حسین کی طرف ایک ڈگری بھی مائل ہونے لگے تو سمجھ لو کہ دل کا اللہ کی طرف جو نوّے ڈگری زاویہ ہے وہ اب خطرہ میں ہے، اگر دل ذرا سا بھی ٹیڑھا ہو تو سمجھ لو خطرہ ہے لہٰذا اس حسین سے دور ہوجائو،سب غم اٹھا لو، یہ مٹی کے کھلونے ہیں، مرنے والی لاشیں ہیں، ان کے لیے اپنے اللہ کو ناراض مت کرو ورنہ پچھتائوگے۔ جس نے بھی دنیا میں کسی حسین سے دل لگایا، واللہ! قسم کھاکر کہتا ہوں وہ شخص عذاب میں مبتلا ہوا اور ساری زندگی ذلت و خواری میں گذری۔

15:03) عاشقِ مجاز کی زندگی دوزخ کی زندگی جیسی ہوتی ہے۔۔ کیم الامت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو نالائق اپنا دل اَمردوں میں، حسینوں میں پھنساتے ہیں ان کی زندگی ایسی ہوتی ہے جیسے دوزخ والوں کی زندگی: ﴿ ثُمَّ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰى عنی جس طرح دوزخیوں کو نہ موت ہے نہ زندگی ہے بلکہ موت و زندگی کے درمیان میں پریشان رہتے ہیں اسی طرح یہ لوگ بھی پاگل رہتے ہیں، چین چھِن جاتا ہے۔ آہ! اسی لیے حکیم الامت نے فرمایا کہ عشقِ مجازی عذابِ الٰہی ہے۔ دوستو! کیا عذابِ الٰہی میں جانے سے چین ملے گا؟ کیا حکیم الامت کے اس قول پر آپ کو اعتبار نہیں کہ عشقِ مجازی عذابِ الٰہی ہے۔

15:43) ہتھوڑے دل پہ ہیں مغزِ دماغ میں کھونٹے بتائو عشق مجازی کے مزے کیا لوٹے انجامِ حسنِ فانی ایک عاشق نے مجھ سے کہا کہ میرا دل ایک حسین میں پھنس گیا ہے، رات بھر نیند نہیں آتی، میں نے آپ کا دیا ہوا تیل سر پر لگایااور تیل لگا کر جب میں نے کھوپڑی پر ہاتھ رکھا تو وہ جل رہی تھی۔ تو میں نے اس سے کہا یہ سر آگ کی طرح رہے گا جب تک جس حسین کے ساتھ تم رہتے ہو اس کو بھگا نہ دو

17:02) جس حسین شکل پر آج تم جان دے رہے ہو جب کچھ دن بعد اس کی شکل کا جغرافیہ بدل گیا یعنی شکل بدل گئی اور سارا حسن ختم ہوگیا ،اب دونوں ایک دوسرے کو اُلّو سمجھتے ہیں، ایک دوسرے سے آنکھیں چراکر بھاگے جارہے ہیں جیسے گدھا شیر سے بھاگتا ہے۔ اس پر بھی میرا ایک شعر ہے؎ اُدھر جغرافیہ بدلا اِدھر تاریخ بھی بدلی نہ ان کی ہسٹری باقی نہ میری مسٹری باقی ان حسینوں پر کیوں مرتے ہو جن کے دانت ٹوٹنے والے ہیں، گال پچکنے والے ہیں، کمر ٹیڑھی ہونے والی ہے اور آنکھوں پر گیارہ نمبر کا چشمہ لگنے والا ہے، ہر لڑکی نانی اماں بننے والی ہے اور ہر لڑکا نانا ابّا بننے والا ہے، تم کہاں جاتے ہو؟

18:00) ذکر۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries