اتوار مجلس۱۷       جولائی      ۲ ۲۰۲ء    :عاشق مولیٰ کی خطاء پر عشق مولیٰ کی عطا   ! 

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

12:22) بیان کے آغاز میں مفتی انوار صاحب نے اشعار پڑھے۔۔

14:21) بیان کا آغاز ہوا۔۔۔

15:06) توبہ چار شرطوں کے ساتھ کرنی ہے۔۔

15:41) ہمارے اخلاق کیسے ہیں بہو سے کیسے اخلاق ہیں،ساس سسر سے کیسے اخلاق ہیں بیوی سے کیسے اخلاق ہیں۔۔

16:14) اپنے آپ کو جھانکنا ہے ہم دوسرے کے عیب دیکھتے ہیں۔۔

18:09) غالب نے تو اپنے شعر سے لوگوں کو مایوس کردیا اُس نے کیا شعر کہا تھا کعبہ کس منہ سے جائو گے غالبؔ شرم تم کو مگر نہیں آتی اگر اس شعر پر عمل کرتے تو آج اہلِ ایمان کعبہ سے محروم ہوجاتے لہٰذا یہ شعر واجب الاصلاح تھا۔حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب ے فرمایا کہ اخترمیاں! میں نے اس شعر کی اصلاح کردی ورنہ غالب کا یہ شعر اللہ کی رحمت سے نااُمید کرکے کعبہ سے محروم کردیتا۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت سنادیجئے، کیا اصلاح فرمائی۔ فرمایا کہ یہ اصلاح کردی ؎ میں اسی منہ سے کعبہ جائوں گا شرم کو خاک میں ملائوں گا ان کو رو رو کے میں منائوں گا اپنی بگڑی کو یوں بنائوں گا

20:22) بیٹھے گا چین سے اگر کام کے کیا رہیں گے پر گو نہ نکل سکے مگر پنجرے میں پھڑ پھڑائے جا یعنی صدا لگائے جا اگر گناہوں سے آزادی نہیں ملتی تو پھڑ پھڑا ئے جاؤ ،اللہ میاں کو بے قرار ی تو دکھاؤ کہ اُن کو رحم آجائے

22:39) ایک جعلی پیر۔۔

23:22) صرف بیان سے اللہ نہیں ملتے بیان پر عمل اور پھر اللہ کی رحمت۔۔

26:35) سورج کی شعائیں جس سے مٹی چمک رہی ہے لیکن یہ بھی ذاتی روشنی نہیں ہے سورج کی روشنی اللہ کی بھیک ہے مٹی جسطرح سورج کی روشنی کی وجہ سے چمک رہی ہے اسی طرح اللہ تعالی جس سے دین کا کام لے رہے ہیں اور چمکارہے ہیں تو یہ اس کا کمال نہیں یہ اللہ تعالی کا کرم ہے اللہ تعالی کی رضا شامل ہے کہ اللہ تعالی آپ کو چمکارہے ہیں۔۔

31:37) ایک نوجوان کا واقعہ جس نے گناہوں کے جنگل کو آگ لگادی۔۔۔

34:50) بہت غم ہوتا ہے کہ چھ مہینے ہوئے سب وعدے ہوئے کہ شرعی پردہ سب کچھ مانا اب چھ مہینے بعد کہہ رہے ہیں کہ طلاق دو اور ماں بجائے سمجھانے کے کہہ رہی ہے ہماری بیٹی کو فارغ کرو۔۔

40:04) عجب کی حقیقت۔۔

40:29) تعریف ہو تو اکڑنا مت یہ تیرا کمال نہیں سب اللہ تعالی کی عطاء ہے۔۔

40:56) آسمان کی تین نعمت۔۔

42:00) ہماری زبان ایک نہیں رشتے داری نہیں کتنے لوگ یہاں آئے ہوئے ہیں ہمارا کوئی لین دین نہیں ہم لوگ سب کیوں جمع ہیں تو حدیث پاک ہے کہ جو اللہ کے لیے ملتے ہیں اللہ کے لیے جمع ہوتے ہیں تو اللہ تعالی عرش کے سایہ میں اُس کو جگہ دیں گے۔۔

48:07) شرعی پردہ نہیں کرتے،داڑھی نہیں رکھتے اور اللہ کا عاشق بھی بننا ہے ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ داڑی بھی نہ رکھیں اور اللہ والا بھی بن جائیں۔۔۔فگ

51:31) صحت کی کتنی فکر کرتی ہیں دوائی میں ایکسپاری ڈیٹ کا کیسا خیال رکھتے ہیں بس اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ اللہ تعالی کس بات سے خوش ہیں اور کس سے نہیں۔۔

52:26) عاشق مولی کی خطاء پر عشق مولی کی عطاء۔۔

55:33) بچے کی تربیت کا ایک عجیب واقعہ۔۔

59:12) نظربازی آنکھوں کا زنا ہے۔۔

01:00:40) دیور بھابی کے لیے موت ہے۔۔

01:01:54) سود پر ایک واقعہ کہ سود لے لیا تو کیسا وبال ہے کہ فیکٹری مالک اور اب نوکر بن کر کام کررہے ہیں۔۔اللہ تعالی سے اعلانِ جنگ کوئی معمولی بات نہیں۔۔

01:07:09) عشق کی بیماری جو اللہ کے عشق کی ہے وہ اللہ کے پیاروں کو ہوتی ہے۔۔

01:08:28) (ولوطًا آتيناه حكمًا وعلمًا ونجيناه من القرية التي كانت تعمل الخبائث یہ گندا کام کرتے تھے بستی کو اللہ تعالی نے الٹ دیا پھر پتھروں کی بارش ۔۔

01:13:43) ہم اللہ سے دور ہیں اس لیے چین سکون نہیں ہے۔۔

01:14:22) شیخ العرب والعجم حضرت والا رحمہ اللہ کا ملفوظ بیان ہوا۔۔ فرمایا کہ عاشقوں کو یہ عشق کی بیماری مبارک ہو کہ جس کی بدولت وہ ہر وقت حق تعالیٰ کے در پر پڑے رہتے ہیں ورنہ کسی دفتر میں ملازم ہوتے۔ ممکن ہے غیرِ عاشق جو خیانت ِصدر و خیانت ِعین سے اگر چہ محفوظ ہوں لیکن ان کو وہ حضوری نصیب نہیں ہوتی جو باوجود اپنی ضعف و ناکارگی کے عاشقوں کو ہوتی ہے۔ ممکن ہے یہ بھی صدور ِ خائن کبھی ہوجاتے لیکن ان کی توبہ اور گریہ و زاری کا مقام بھی بہت بلند ہوتا ہے کہ غیرِ عاشق کا وہاں گذر بھی نہیں ہوسکتا۔

اسی وجہ سے حق تعالیٰ کی صفت ِحلم و غُفران و ستاری کا جتنا بڑا عارف،ایک عاشق ہوتا ہے روئے زمین پر اس وقت کوئی دوسرا نہیں ہوتا، کیونکہ اگر کوئی شخص ایک لاکھ خطائیں کرتا ہے اور کوئی کریم اس کی سب خطائوں کو معاف کر دیتا ہے تو اس کریم کے حلم و غُفران و کرم و ستاریت کا جتنا عرفان و ادراک اس خطاکار کو ہوگا، اس شخص کو نہیں ہوسکتا جس سے کبھی خطا نہیںہوتی بلکہ وہ تو ان صفات کی معرفت کو تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اگرچہ آج یہ عاشقین مغلوب ہو رہے ہوں لیکن مرنے سے پہلے پہلے ان کی تطہیر کر دی جائے گی، اور ایک تطہیر تو توبہ و آنسو ہیں ہی، جو یہ خطائوں پر رولیتے ہیںتو تطہیر یوں بھی ہوجاتی ہے۔

01:23:08) مخلوق کی محتاجگی سے بچنے کا ایک وظیفہ۔۔ ’’یا ذاالجلال‘‘ معنی اللہ سارے عالم سے بے نیاز ہے، اسے پڑھنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ اپنے علاوہ آپ کو کسی مخلوق کا محتاج نہیں ہونےدے گا۔ اور ’’والاکرام‘‘ کی تفسیر ہے جس کی بخشش عام ہو کیونکہ استغناء میں خطرہ تھا کہ بندوں کو یہ وسوسہ آسکتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ بے نیاز ہیں تو شاید ہمارا خیال نہ کریں گے۔ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ فلاں صاحب بڑے بے نیاز ہیں، بہت مستغنی مزاج ہیں، کسی کا کام نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ نے بندوں کے اس اشکال کو دور کردیا کہ میں صاحب الاستغناء المطلق تو ہوں مگر تمہارےدکھ درد سے مستغنی نہیں ہوں، میں صاحب الفیض العام بھی ہوں، میرا فیض عام ہے۔اس نام کی برکت سے اﷲ ہم کو آپ کو اتنا دے گا کہ ہم دوسروں کو بھی دیں گے۔ اور اگر اس کو پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک کر اپنے چہرے پر مَل لیجیے تو آپ کے چہرے پر ایک عظمت، ایک عزت اور ایک جلال رہے گا، دوسرا آپ کو ستا نہیں سکے گا، کسی کی ہمت نہیں ہوگی کہ آپ سے آنکھ ملائے، اللہ آپ کے چہرے پر اپنی جلالت ِشان ڈال دے گا۔ترمذی شریف کی روایت ہے : ((اَلِظُّوْا بِیَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ)) حضورﷺ کا حکم ہے کہ اے میری اُمت کے لوگو!یا ذاالجلال والاکرام پڑھا کرو۔ یہ نبیu کا بتایا ہوا وظیفہ ہے۔ کیوں جناب! کیا نبی کا وظیفہ پیروں کے وظیفہ سے اعلیٰ نہیں ہوتا؟

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries