مجلس۲۷      جولائی      ۲ ۲۰۲ء   فجر:اہم ملفوظات حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ  ! 

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

03:48) حضرت والا رحمہ اللہ نے فرمایاکہ شیطان مردود ہوا اور مردود سازی کرتا ہے۔۔۔

03:49) جس سے ہمیں تکلیف پہنچی ہے اس کے لیے تو دُعا کرنی چاہیے۔۔۔

05:06) ایک صاحب کا ذکر جس نے طلباء سے بحث ومباحثہ کیا تھا۔۔۔

07:27) حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایاکہ آپﷺ رحمۃ ُاللعالمین ہیں آپﷺ دُنیا کی بارش کی طرح نہیں ہیں دُنیا کی بارش سے زمین زندہ ہوتی ہے اور آپﷺ سے دل زندہ ہوتے ہیں۔۔۔

10:32) مجالس ابرار:ارشاد فرمایا کہ ہر مدرسہ میں دو کنسٹر ہونا چاہئیے ایک میں گرے ہوئے کاغذکے ٹکڑوں کو جمع کرتا رہے کیونکہ کاغذ الہ علم ہونے سے واجب الاحترام ہے دوسرے کنسٹر میں جمع کرتا رہے ارشاد فرمایا کہ بخل شرعی تو مذموم ہے کہ جائز و ناجائز کی فکر نہ ہو اور واجبات نہ ادا کرتا ہے لیکن بخل لغوی مطلوب ہے اس زمانے میں کچھ مال بھی ہونا مطلوب ہے تاکہ جمعیت قلب رہے البتہ مال سےقلبی لگائو نہ رہے ۔ ارشاد فرمایا کہ حضرت تھانوی ؒ نے ارشاد فرمایا کہ بدنظری کی ظلمت صرف استغفار سے نہیں جاتی جب تک کہ کئی بار بدنظری کے مواقع پر نظر کی حفاظت کامجاہدہ نہ کرے ۔

14:20) ارشاد فرمایاکہ ایک صاحب نے حضرت تھانوی ؒ سے عرض کیا میری نگاہ نامحرم پر اٹھ جاتی ہے فرمایا اگر اس کے باپ اور بھائی ساتھ ہوں کیا اس وقت بھی اٹھ جاوے گی کہا نہیں تو فرمایا توحق تعالیٰ کے خوف سےکیوں نگاہ نیچی نہیں کرتے ۔

15:59) ارشاد فرمایا کہ جب دنیا کے کاموں کا اکیلے نہیں کر پاتے تو دوسروں سے امداد طلب کرتے ہیں آخرت کے معاملہ میں یہی قاعدہ اہل اللہ کی محبت میں بھی حاضری کے لئے سوچ لینا چاہئیے ۔ ارشاد فرمایا کہ حضرت تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ اگر دس جائز خواہش ہوں توچھ پر عمل کرے ۴ پر عمل کیونکہ اگر ہر جائز خواہش کو پورا کرے گا تو ناجائز خواہش پر بھی بریک فیل ہو جاوے گی ۔ ارشاد فرمایا کہ حضرت اقدس تھانوی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں مشائخ کو بھی مشورہ دیتا ہوں کہ اپنے کو مستقل نہ سمجھیں دوسروں مشائخ سے مشورہ لیتے رہا کریں اور اگر بڑے نہ رہیں تو اپنے چھوٹوں ہی سے مشورہ طلب کر لیا کریں ۔ ارشاد فرمایاکہ ایک شخص نے حضرت تھانویؒ کو لکھا کہ میں جیسی حالت چاہتا ہوں ویسی حالت ہماری نہیں ہوتی تحریر فرمایا کہ وہ دن ماتم کا ہوگا جس دن آپ یہ سمجھیں گے کہ آج میری حالت میری مرضی کے مطابق ہوگئی۔

16:38) ارشاد فرمایا کہ کھانے کے وقت کسی ر نج و فکر کی بات نہ کریں اور نہ کسی احادثہ اورغم کی خبر بھی نہ دیں اسی طرح پائخانہ پیشاب اور قے اور کسی ایسی چیز کا ذکر نہ کریں جس کو سن کر طبیعت میں کراہت اور متلی کا رجحان پیدا ہو علماء نے تو کھانے کے وقت سلام تک کو منع کیا ہے کہ اچانک جواب دینے میں کہیں لقمہ ہوا کی نالی میں پھنس کر موت کا سبب نہ ہو جاوے اسی طرح ایسے مسائل اور علوم کا بھی ذکر نہ چھیڑیں جس میں دماغ کو فکر اور مشغولی ہو البتہ سرسری لطیفے اور ہلکے درجے کی خوش مزاجی میں مضائقہ نہیں بلکہ مفید اور معین ہضم ہے ۔

17:41) ارشاد فرمایا کہ پردہ شرعی کا اہتمام نہایت ضروری ہے خواہ کتنا ہی دل صاف اور نظر پاک ہو لیکن شہوت کا کرنٹ آتے دیر نہیں لگتی ۔ ارشاد فرمایا کہ پرانے ڈرائیور سے بھی اکسیڈنٹ ہوتا ہے ذرا چوکا اور گرا پرانے اہل علم اور اہل دین بھی جب اپنے نفس کی نگرانی سے ذرا بے فکر ہوئے جب جاہ اور حب مال میںمبتلا ہو گئے البتہ پیر کامل کا پیر جس کی گردن پر ہوتا ہے وہ محفوظ رہتا ہے جس طرح کار کی بریک پر جب تک ڈرائیور ڈرائیور کا پائوں ہوتا ہےکار تصادم سے محفوظ رہتی ہےاور یہی لوگ حقانی عالم کہلاتے ہیں اگر کسی عالم کے بچپن میں تکبر اور جاہ یا مال کی محبت کی بیماری ہو گئی تو عالم ہونے سے یہ بیماری چلی جاوے گی ہر گز نہیں بلکہ علم اور شہر ت کے بعد اور اضافہ ہو گا تاوقتیکہ کسی اللہ والے روحانی معالج سے اپنے نفس کی اصلاح نہ کرائے ۔اس کی مثال ڈاکٹر کی ہے ایک ڈاکٹر بچپن میں فر ض کر لو اس کے گردے میں پتھری ہے تو کیا ڈاکٹر کی ڈگری سے ایم بی بی ایس ہو جانے سے وہ پتھری نکل جاویگی جب تک کسی ماہر کا علاج نہ کرائے گا یہ بھی ڈاکٹر ہونے کے باوجود بیمار رہے گا پس اسی مثال سے عالم کو سمجھ لیا جاوے ،حضرت حاجی امداد اللہ صاحب عالم نہ تھے مگر علماء نے ان سے اپنے نفس کی اصلاح کرائی کیوں کہ وہ اصلاح کے ماہر تھے جس طرح کوئی عالم قاری نہ ہو تو وہ اس قاری سے نورانی قاعدہ پڑھے گا جو عالم بھی نہ ہوگا ۔اس اصول پر انسان کی چھ قسمیں ہوں گی عالم ۔غیر عالم ۔ ۱۔وہ عالم جس کے اخلاق درست نہیں ہوں ۲۔دوسرا وہ عالم جس کے اخلاق درست ہوں ۳۔تیسرا وہ عالم جس کے اخلاق درست ہوں اور دوسروں کے اخلاق کی اصلاح بھی کر سکتا ہو ۔اسی طرح غیر عالم کی تین قسمیں ہیں ۔ ۱۔عامی جس کے اخلاق درست نہ ہوں ۲۔عامی جس کے اخلاق درست ہو ں ۳۔وہ عامی جس کے اخلاق درست ہوں اور دوسروں کے اخلاق بھی درست کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو پس یہ عامی نمبر ۳ والا اس عالم کے اخلاق کی اصلاح کر سکتا ہے جس کے اندر اخلاقی بیماریاں ہوں ۔

20:53) ارشاد فرمایا کہ تیرہ سو برس کے بعد ایک عالم پیدا ہوتا ہے (مراد حضرت حکیم الامت تھانوی ؒ ہیں )جن کے تین سو وعظ چھپتے ہیں اور ہر روز کے صبح شام کی گفتگو بھی کتابوں میں شائع کی جاتی ہے اگر ایسے عالم کے اصول اور ان کی تصنیف و ارشاد کے اندر کوئی شخص کوئی کمی یا اضافہ کرتا ہے تو سینکڑوں ان کے ماننے والے اس کی تردید کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ایک عالم کے مذاق اور مسلک اور اصول کی حفاظت کی تو یہ شان ہو پھر قیاس کیجئے کہ حضور ﷺ کے ارشاد اور معمولات آپ کے اصول و مذاق کی حفاظت کا کیا عالم ہو گا جب ان کے ادنیٰ غلاموں کا یہ حال ہے ۔حضرت تھانویؒ کی ترجیح الراجح دیکھ کر ایک بڑے عالم نے کہا ان کے حق پرست ہونے کی یہی بڑی دلیل ہے ،کتاب التشرف فی احادیث التصوف میں ہے کہ حضرت تھانوی ؒ نے اپنا ایک بہت پرانا معمولی اس حدیث کو دیکھتے ہی تبدیل فرمالیا بالداخل دھشتفلقوۃ بمرحبا پہلے ہر آنے والے کے ذمے حضرت والا نے یہ اصول رکھا تھا کہ وہ آتے ہی اپنا نام اور کام اور وطن مدت قیام وغیرہ خود ظاہر کردے لیکن اس حدیث سے کہ آنے والے کو خوف دہراس ہوتا ہے پس اس سے کشادہ روی سے ملو تو حضرت والا نے خود دریافت کرنا شروع کرنا شروع کر دیا کیا شان تھی اتباع سنت کی ۔

26:19) ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا اسماعیل شہیدؒ سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے ہوتے ہوئے حضرت سید صاحب ؒ سے رجوع کیا فرمایا کہ ہم نکاح بیوگان کا مضمون مشکوٰۃ شریف سے چھوڑ دیتے تھے جب سید صاحب سے تعلق ہوا تو منبر پر نکاح بیوہ پر تقریر کی ہمت عطا ہوئی ایک مرتبہ حالت وعظ ہی میں کسی نے کہا ایک سوال کرنا چاہتا ہوں فرمایا ٹھہر جاؤسمجھ گئے گھر واپس گئے اور اپنی بیوہ بہن کا کسی بزرگ سے نکاح کر دیا اس کا جواب حضرت تھانوی ؒ نے یہ دیا کہ نفع کا مدار مناسبت پر موقوف ہے نہ کہ کمال پر پس اس سے شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ کے کمال میں کوئی فرق نہیں آتا ۔

27:34) ارشاد فرمایا کہ ہر انسان کے جملہ عضو کو الگ الگ خدمت انجام دے رہے ہیں مگر کوئی انسان اپنے کسی عضو کو حقیر نہیں سمجھتا اور نہ ان کے خدمات کے اندر تفاضل اور تقابل کرتا ہے اور نہ ایک دوسرے کا حریف اور فریق بناتا ہے اسی طرح دین ایک جسم ہے اس کے اجزاء الگ الگ ہیں کوئی تعلیم کے لئے مدرسہ میں لگ گیا کوئی تبلیغ میں لگ گیا ،کوئی تزکیہ کے لئے خانقاہ میں لگ گیا پس دین کے ہر جزکے خادموں کو آپس میں ایک دوسرے کو حقیر سمجھنے کا حق کیسے ہو گا اور آپس میں تفاضل و تقابل اور فریق و حریف بنانا کیسے صحیح ہو گا ۔یہی وجہ ہے مخلصین اولیائے کرام نے ہر دین کے خادم کا اکرام کیا ہے تعاونو ا علی البر کا حکم دیا گیا ہے پس ہر ایک دوسرے کی نصرت کرے جس قدر ممکن ہو ہماری تقریر ہو ہمارا مدرسہ چلے ہماری جماعت آگے بڑھے یہ کیا ہے دین کو آگے رکھئے اپنے کو آگے نہ کیجئے ۔اگر کسی اور کی تقریر سے نفع زیادہ ہو تو یا کسی اور کے مدرسہ سے بھی کام دین کا ہو تو حسد اور جلن کیوں ہو ۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries