مجلس۳۰  جولائی      ۲ ۲۰۲ءفجر  :مسلمانوں کا اصل مذہب تو تعلق مع الحق ہے !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

03:12) حضرت والا رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ یہ میرا تجربہ ہیکہ اس وقت اسلاف کی ہر بات میں کھوج نکالنا اور اعتراض کرنے کا مرض پیدا ہوگیا ہے۔۔

03:13) حضرت ڈاکٹر قرار صاحب رحمہ اللہ کی کچھ باتیں۔۔۔

04:33) حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایاکہ پہلے مقصد کاتعین کرلو پھر اگرا یک قدم بھی چلو گے تو منزل تک پہنچ جاؤ گے۔۔۔

05:22) حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اِرشاد فرمایاکہ مسلمانوں کا اصل مذ ہب تو تعلق مع الحق ہے۔۔۔

08:08) بے ادب کبھی علم کو نہیں پا سکتا۔۔۔

08:57) حضرت مفتی جمیل احمد تھانوی رحمہ اللہ کے مقالے سے حضرت تھانوی رحمہ للہ کے ملفوظات فرمایاکہ بعض حضرات ناواقفیت کی وجہ سے کرامات کا انکار کرتے ہیں۔۔۔

11:44) فرمایا کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی اصل کرامات تو وہ حضرات ہیں جو خود مجسمہ کرامات ہیں۔۔۔

19:52) مجالس ابرار: ارشاد فرمایا کہ تقابل تفاضل سے ہوتا ہے پس اپنے کام اور خدمات کا تعارف تو ہو تفاضل نہ ہو اور اپنا کام اگر ۲۰ درجے پر ہے تو ۱۸ ہی درجہ بیان کرے تاکہ دیکھنے والے زیادہ پائیں کم نہ پائیں اور اہل مال کو آگے نہ کریں ۔اہل دین کو آگے کریں کام میں تعجیل نہ کریں حق تعالیٰ پر نظر رکھیں ۔قرآن پاک کی تعلیم پر خاص نظر رکھیں اس سے مالی معاملات میں بڑی برکت ہوتی ہے ۔

22:01) ارشاد فرمایا کہ سلطان ہارون رشید رحمہ اللہ کے یہاں ایک گورنر کی شکایت کی گئی گورنر کو طلب کیا گیا اسی مجلس میں سلطان کو چھینک آئی سب نے کہا یرحمک اللہ اس گورنر نے جواب نہ دیا سلطان نے دریافت کیا آپ نے یرحمک اللہ نہ کہا گورنر نے کہا آپ نے الحمداللہ نہ کہا جب خلیفہ نے الحمداللہ نہ کہا تو ہمارے اوہر یرحمک اللہ کہنا واجب نہیں سلطان ہارون رشید نے اس کو واپس کر دیا اور کہا جو شخص خلیفہ کی رعایت نہیں کر سکتا وہ دوسروں کی کیا رعایت کرے گا ان پر الزام تھا کہ دوسروں کی بہت رعایت کرتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا کہ خلیفہ ہارون رشید سے لوگوں نے کہا کہ آپ تو بڑے عیش کے ساتھ فاخرانہ لباس میں زندگی گذارتے ہیں ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو بہت سادگی سے رہتے تھے خلیفہ نے فرمایا کہ آپ لوگ بھی تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح نہیں رہتے آپ لوگ ان کی طرح ہو جاویں تو میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح ہو جائوں گا ۔یہی حال ہے آج کل علماء اور عوام کا ہے خود تو خوب عیش کریں اور علماء کے بارے میں وہی تصور ہے ۔

23:35) ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور حضور ﷺ اور شیخ کے ساتھ محبت عقلیہ اختیاریہ کافی ہے اگر شیخ کی محبت طبعی نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں البتہ محبت طبعی بھی ہو جاوے تو اعمال اور اصلاح اخلاق اور تکمیل سلوک میں بڑی آسانی ہو جاتی ہے لیکن اگر محبت طبعی ہو اور اطاعت نہ ہو تو محبت طبعی مفید نہیں ،محبت عقلی اختیاری کے ساتھ اطاعت ہو تو نجات کے لئے کافی ہے حدیث میں جو ارشاد ہے کہ تم میں سے کوئی مومن کامل نہ ہو گا حتیٰ کہ میں اس کی جان سے اور اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں یہاں بھی محبت عقلی مراد ہے ۔

28:30) حضرت والا رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ میں علم کو ثانوی درجہ میں رکھتا ہوں پہلے درجے میں عمل کورکھتا ہوں۔۔۔

29:59) ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی دوکاندار بورڈ لگا دے کہ یہاں ایک دام ہے اور سختی سے اس پر عمل کرے اور ایک پیسہ کی بھی رعایت نہ کرے تو اس کی سب لوگ تعریف کرتے ہیں کہ بڑا بااصول ہے اس کوکوئی متشددنہیں کہتا اور دین کے اصول پر عمل کرنے والوں کو تشدد اور سختی کا الزام لگایا جاتاہے ۔

33:06) ارشاد فرمایا کہ ایک صاحب نے کسی تقریب میں شرکت کے بعد اظہار افسوس کیا کہ ناحق گیا وہاں تو گانا باجا تھا ریکارڈنگ تھی میں نے کہا اگر وہاں مکھی کی چٹنی کھلائی جاتی تو آپ نہ کھاتے اور اٹھ کر چلے آتے طبعی کراہت پر عمل جس طرح کیا جاتا ہے شریعت کےاحکام میں اسی طرح ہمت کرنی چاہئیے منکر شرعی کیامنکر حسی سے کم ہے ۔یہ تو زیادہ مضر ہے اللہ تعالیٰ سے تعالیٰ سےتعلق کی کمی ہے ورنہ معمولی گناہ کی بھی ہمت نہ ہوتی۔ بردلِ سالک ہزاراں غم بود گر ز باغِ دل خلالے کم بود سالک کے دل پر ہزاروں غم ٹوٹ پڑتا ہے جب اس کے دل کے باغ میں کسی کوتاہی کے سبب قرب حق میں کمی محسوس ہوتی ہے ۔

 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries