مجلس۶۔ اگست       ۲ ۲۰۲ءعشاء : صراطِ مستقیم کیا ہے ؟

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

03:25) شیخ آزمانے کے لیے بھی خانقاہ سے نکال سکتا ہے۔۔۔

03:26) حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دین کا ایک اہم ستون آدابِ معاشرت ہے۔۔۔

09:16) اللہ کے پیارے، علماءِ کرام، مفتیانِ کرام ہمیں دوزخ سے بچنے کا راستہ سکھا رہے ہیں۔۔۔

10:01) مہنگائی سے بچنے کے لیے کبھی دُعا بھی مانگی؟۔۔۔

11:53) مظاہر حق سے تعلیم ہوئی۔۔۔عشرہ مبشرہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے فضائل۔۔۔

14:09) حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے ملفوظات: سالک کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو حاصل کرنے کے لیے چلے۔۔۔

16:20) حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کا تذکرہ۔۔۔

19:29) اِرشاد فرمایاکہ جو اللہ کے راستے میں نیا چلتا ہے اس کو پہلے انوارات دیکھائے جاتے ہیں۔۔۔

20:35) حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایاکہ جس امر میں صوفیاء اور فقہاء کا اختلاف ہو تو اگر وہ ظاہری ہے تو فقہاء کا قول معتبر اور اگر باطنی ہے تو صوفیاء کا قول معتبر۔۔۔

23:11) حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایاکہ نفس بعض اوقات ریا کے بہانے سے ذکر سے روکتا ہے۔۔۔

24:23) اِرشاد فرمایا کہ نفس بعض اوقات اللہ تعالیٰ سے بھی ریا کرتا ہے۔۔۔

25:21) حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے پاس نہ علم ہے اور نہ عمل ہے، ہے تو صرف بس بزرگوں کی دُعائیں ہیں۔۔۔

26:51) اِرشاد فرمایاکہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمہ اللہ تمام مجاہدات کے بعد بھی فرماتے تھے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔۔۔

31:06) (مجالس ابرار)حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب رحمہ اللہ کے ملفوظات۔۔۔

ارشاد فرمایا کہ دنیا میں جب سفر کرتے ہیں تو دو ایک ساتھی بنا لیتے ہیں تو بڑی راحت اور فرحت کےساتھ سفر طے ہوتاہے اور دل کو تقویت بھی رہتی ہے اس طرح آخرت کے لئے صالحین سے تعلقات اور ان کی صحبتوں کی برکت سے آخرت کا سفر (سلوک)راحت سے طے ہوتا ہے اور تقویت رہتی ہے ۔ احقر سے فرمایا کہ ملفوظات کی طباعت میں اگر مضامین کا تکرار ہوجاوے یعنی ایک ہی مضمون بار بار دو تین مرتبہ بھی آجاوے تو کیا مضائقہ ہے نصیحت میں یہ تکرار مطلوب ہوتا ہے دیکھو قرآن پاک باربار مضامین کے تکرار سے معمور ہے کیونکہ موعظت اور نصیحت ہے ۔

ارشاد فرمایا کہ ایک صاحب نے کہا کہ آپ کے ساتھ سامان سفر بہت ہوتا ہے میں نے عرض کیاکہ مگر راحت بھی تو بہت ملتی ہےسامان کی شفقت اور راحت کا توازن کر لیا جاوے ۔

39:28) ارشاد فرمایا کہ اگر ہر روز اشراق نہ پڑھئیے تو جب توفیق ہوجاوے کسی وعظ کے بعد یا اور کسی وقت تو پڑھ لیجئے اگر پلائو روز کھانے کی عادت نہ ہو تو جس دن ملے اسی دن کھا لیجئے ۔

40:07) ارشاد فرمایا کہ بڑے دربار میں بڑی چیز مانگی جاتی ہے سورۂ فاتحہ کے اندر حق تعالیٰ نے صراط مستقیم مانگنے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ صراط مستقیم بڑی چیز ہے اس کا ایک زینہ تو دنیا میں ہے دوسرا زینہ جنت میں ہے پہلے ہی زینہ سے سکون شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ جس ریل میں سوار ہو ا اسی ریل میں ایک بڑے میاں غلطی سے سوار ہو گئے ان کو دوسری ریل میں جانا تھا جب ریل چلنا شروع ہو گئی اور اتر نہ سکے اور ان کو یقین ہو گیا کہ یہ ریل میری منزل کی طرف نہیں جا رہی ہے غلط منزل کے راستے پر لگ جانے سے ان کی بے چینی دیکھ کر مجھے بڑی عبرت ہوئی وہ بیچارے بات تک نہ کرتے تھے ایسے غمزدہ تھے یہی وجہ ہے کہ دنیا دار نافرمان پریشان ہیں اور اہل اللہ سکون سے ہیں ۔

42:42) ارشاد فرمایا کہ تدبیر کرنا ایسا ہے جیسا کہ بجلی کا بٹن دبا دیا مگر دپاور ہائوس ہی سے روشنی آوے گی اسی طرح تدبیر کرکے حق تعالیٰ ہی سے کامیابی کی دعا کی جاوے یہی حقیقت ہے ایاک نعبدو وایاک نستعین ۔ ارشاد فرمایا کہ جس طرح جسم کی تربیت کے لئے کتنی انواع اقسام کی غذائیں ہیں اسی طرح روح کی ترقی و تربیت کے لئے بھی اگر اقسام اور انواع کی عبادتیں ہیں تو کیا اشکال ہے۔ ارشاد فرمایا کہ اگر بجلی فیل ہو جاتی ہے تو لائوڈ اسپیکر نماز میں نہیں لگاتے لیکن شریعت کے حکم سےاس کا لگانا نہیں چھوڑتے ۔حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ مفتی اعظم پاکستان رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ اس مسئلہ میں ضرور مطالعہ کر لینا چاہئیے نماز کا ہو جانا اور بات ہے مگر اس کا استعمال جائز نہیں ۔ارشاد فرمایا کہ حضرت حکیم الامت تھانویؒ کا ایک رسالہ جزاء الاعمال ہے ۱۷ قسم کے نقصانات اس کے اندر گناہوں کے بیان کئے گئے ہیں اس رسالہ کو کثرت سے سننا اور سنا نا چاہئے ۔ حقوق العباد کو بڑی اہمیت ہے حضرت تھانوی ؒ نے آخری وقت یہ وصیت فرمائی تھی ؎ کسی کو اگر میں نے مارا بھی ہو بری بات کہہ کر پکارا بھی ہو وہ آج آن کر مجھ سے لے انتقام قیامت کے دن پہ نہ رکھے یہ کام کہ خجلت برو ز قیامت نہ ہو خدا پاس مجھ کو ندامت نہ ہو

46:43) ارشاد فرمایا کہ نظام سنت کے علاو ہ کسی نظام کو معین اور مفید تو کہا جا سکتا ہے مگر اس کو مقصودیت کا درجہ دینا حد سے تجاوز ہو گا دین کی خدمت کو صرف نوعی نہ بنایا جائے ۔دین کے جس نوع میں جو لگے دوسرے نوع کی توہین نہ کرے جنس پر نظر رکھے مثلاً اہل مدارس کو صرف اپنا ہی مدرسہ سامنے نہ ہو کہ بس ہمارے ہی مدرسہ سےدین پھیلے یہی مدرسہ ترقی کرے بلکہ تمام دینی مدارس کی ترقی کے لئے دل سے دعا گو اور مخلصانہ طور پر بہی خواہ رہے اگر شخص طور پر دین کی خدمت کر رہا ہے تو یہی مقصد نہ ہو کہ صرف ہم سے ہی دین پھیلے اور دوسرو ں سےاگر پھیلے تو کیا اشکال اور کیا فکر ہے ۔یہ تو نفس کا کیدو مکر ہے اور جب جاہ کی بیماری ہے کہ صرف ہم سے دین پھیلے ۔اخلاص کا معیار یہ ہے کہ جس سے بھی دین پھیلے خوش ہو اور اس کے ساتھ تعاون کرے ۔تعاونو اعلی البر کاجب حکم ہے تو جہاں بھی بر (نیکی )ہو وہاں تعاون کرے اور اپنی رفاقت پیش کرے اور ہر خادم دین کو اپنا رفیق سمجھے فریق نہ سمجھے اپنے کو مقدم نہ کرے دین کو مقدم کرے ۔جس سےبھی دین کاکا م احسن طریق پر ہو اس کی اعانت کرے ۔

50:02) ارشاد فرمایا کہ تفاضل ایک نوع میں ہوتا ہے نہ کہ دو نوع میں ۔کوئی اگر سوال کرے کہ آنکھ بہتر ہے یا کان بہتر یا زبان بہتر ہے تو کیا جواب دیا جاوے گا ۔ہر ایک ان میں ضروری ہے ان میں تفاضل کا سوال ہی غلط ہے کیونکہ یہ الگ الگ نوع ہیں البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں آنکھوں میں جو زیادہ دیکھتی ہے وہ افضل ہے اور دونوں کانوں میں سے جو زیادہ سنتا ہے وہ افضل ہے اس مثال سےاب یہ مسئلہ واضح ہو جاتا ہے کہ تعلیم اور تبلیغ اور تزکیہ میں کس کی ضرورت زیادہ ہے۔یہ سوال مناسب نہیں کیونکہ یہ انواع مختلف ہیں انواع مختلفہ میں تفاضل نہیں ہوتا لہٰذا ہر ایک کی ضرورت ہے تعلیم بھی ضروری اور تزکیہ بھی ضروری البتہ تزکیہ نفس کی اہمیت تعلیم اور تبلیغ سے زیادہ ہے یعنی تعلیم اور تبلیغ کی ضرورت کے ساتھ تزکیہ نفس کا اہتمام زیادہ ضروری ہے اس لئے کہ تعلیم اور عمل اور تبلیغ بدون تزکیہ مقبول نہیں جس کا مرکز سچے اللہ والوں کی خانقاہیں ہیں ۔تزکیہ نفس ہی سے اخلاص دل میں پیدا ہوتا ہے اوراخلاص کے بغیر تمام اعمال اور عبادات رائگاں ہوجاتے ہیں

جیسا کہ حدیث ریا میں اس کی تصریح موجود ہے (کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کےدن سب سے پہلے تین آدمیوں کے بارہ میں جہنم کا فیصلہ کیا جائے گا اور جہنم میں سب سے پہلے انہیں پھینک دیا جاوے گا ۔ان میں ایک وہ عالم دین اور عالم قرآن ہے جو عمر بھر قرآن سکھانے میں مشغول رہا دوسرا ایک دولت مند سخی ہو گا جس کو دنیا میں اللہ نے خوب دولت سے نوازا اور وہ اللہ کی دی ہوئی نیکی کے کاموں میں خوب خرچ کرتا تھا تیسرا شخص ایک شہید ہو گا جو جہاد کے میدان میں دشمن کے تلواروں سے شہید ہو گا لیکن ان تینوں آدمیوں نے یہ اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نہیں کئے تھے بلکہ دنیا کی شہر ت اور عزت کے لئے کئے تھے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کےدن جب یہ تینوں قسم کےآدمی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہم دلوں کی نیتوں کا حال جانتے ہیں تم لوگوں نے یہ اچھے اعمال ہماری رضا کے لئے نہیں کئے تھے بلکہ دنیا میں ناموری اور شہرت کے لئے کئے تھے اور یہ چیز تمہیں دنیا میں مل چکی اب تمہارے لئے یہاں کچھ نہیں اس کے بعد ان سب کو انہی اعمال کی وجہ سے گھسیٹ کر جہنم میں پھنکوادیا جائیگا ۔

حدیث میں ہے کہ یہی وہ پہلے جہنمی ہوں گے جن کے کئے سب سے پہلے جہنم کا فیصلہ کیا جائے گا ۔یہ حدیث جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے تھے تو کبھی کبھی مارے خوف کے ان کی چیخیں نکل جاتی تھی اور بے ہو شی کا دورہ پرجاتا تھا اور ایک دفعہ جب یہ حدیث ایک تابعی نے حضرت ابو ہریرہ سے سن کر حضرت معاویہ ؓ سے نقل کی تو حضرت معاویہؓ اتنے روئے کہ لوگوں کو ان کی جان کا خطرہ ہو گیا اور بہت دیر کے بعد ان کی حالت ٹھیک ہوئی اور یہ فرمایا صدددق اللہ رسولہ من کان یرید الحیواۃ الدنیا وزینتھا نوف الیھم الخ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کوئی اپنے اعمال سے دنیا اور دنیا کی زینت چاہے گا اس کو اس کے اعمال کا پورا نتیجہ دنیا میں ہم دیں گے اور اس میں بالکل کمی نہیں کی جائے گی اور ان کے لئے آخرت میں سوائے دوزخ کی آگ کے اور کچھ بھی نہ ہو گا اور جو عمل انہوں نے کئے تھے وہ ضائع جائیں گے اور سارے اعمال بے کار اور لا حاصل ہوں گے ۔جامع )

56:07) دُعا کی پرچیاں۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries