مرکزی بیان  ۲۲ ستمبر       ۲ ۲۰۲ء  :تقویٰ ایک نہایت ضروری چیز ہے                  !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

03:14) بیان کے آغاز میں جناب سید ثروت صاحب نے شیخ الحدیث ساوتھ افریقہ حضرت مولانا منصور الحق ناصر صاحب دامت برکاتہم کے اشعار پڑھ کر سنائے۔۔

10:39) پھر مفتی انوار صاحب نے آئینہ محبت کتاب سے اشعار پڑھے ۔۔ زبانِ عشق درِراز شریعت کھولتی ہے زبانِ عشق جب کچھ بولتی ہے خرد محو حیرت ہے اس زباں سے بیاں کرتی ہے جو آہ و فغاں سے جو لفظوں سے ہوئے ظاہر معنی وہ کیا پاسکتے نہیں دردِنہانی لغت تعبیر کرتی ہے معانی محبت دل کی کہتی ہے کہانی کہاں پائو گے صدا بازغہ میں نہاں جو غم ہے دل کے حاشیہ میں مگر یہ دولت ملتی ہے کہاں سے بتائوں میں ملے گی یہ جہاں سے یہ ملتی ہے خدا کے عاشقوں سے دعائوں سے اور ان کی صحبتوں وہ شاہ ِدوجہاں جس دل میں آئے مزے دونوں جہاں سے بڑھ کے پائے ارے یارو جو خالق ہو شکر کا جمالِ شمس کا نورِقمر کا نہ لذت پوچھ پھر ذکر ِخدا کی حلاوت نام پاک ِکبریا کی بگوید زیں سبب ایں عشق بے باک چہ نسبت خاک را باعالم پاک یہ دولت دردِاہل دل کی اختر خدا بخشے جسے اس کا مقدر

16:51) پھر مفتی انوار صاحب نے فیضان محبت اشعار کی کتاب سے اور اشعار پڑھے۔۔ مچادے گی وہ باہی میں تباہی نہ کرے اے دوست ہر گز بدنگاہی چٹائی پر ملے گا تختِ شاہی اگر حاصل کرو عشقِ الٰہی غضب سے تو اگر مغلوب ہوگا بکے گی پھر زباں واہی تباہی حسینوں سے اگر ملنا نہ چھوڑا نہیں پہنچے گا دربارِ الٰہی وہی پہنچا ہے دربارِ خدا میں وہی پہنچا ہے دربارِ خدا میں ملی ہے جس کو آہِ سحر گاہی ہوئے ہیں رند کتنے اولیاء بھی ذرا دیکھو تو فیضِ خانقاہی کھلا کیا راز سلطانِ بلخ پر فقیری لی ہے دے کر تاج شاہی غذا اس نفس سرکش کی تو کم کر نہ کھا ہر روز ظالم مرغ و ماہی جو اہلِ دل کی صحبت میں رہے گا وہی پائے گا بس عشقِ الٰہی ملی اخترؔ جسے نسبت خدا کی مٹادی اس نے باہی اور جاہی

25:08) پھر مولانا محمد کریم صاحب نے فیضان محبت اشعار کی کتاب سے اشعار پڑھے ساحل سے لگے گا کبھی میرا بھی سفینہ دیکھیں گے کبھی شوق سے مکہ و مدینہ مؤمن جو فدا نقشِ کفِ پائے نبی ہو ہو زیرِ قدم آج بھی عالم کا خزینہ گر سنتِ نبوی کی کرے پیروی اُمت طوفاں سے نکل جائے گا پھر اس کا سفینہ یہ دولتِ ایمان جو ملی سارے جہاں کو فیضانِ مدینہ ہے یہ فیضانِ مدینہ جو قلب پریشاں تھا سدا رنج و الم سے فیضانِ نبوت سے ملا اُس کو سکینہ جو دردِ محبت کا ودیعت تھا ازل سے مؤمن پہ ہوا کشف وہ مدفون خزینہ اے ختمِ رُسل! کتنے بشر آپ کے صدقے ہر شر سے ہوئے پاک ہوئے مثلِ نگینہ خالی تھا جو انوارِ محبت کی رمق سے اِک آگ کا دریا سا لگے ہے وہی سینہ صدقے میں ترے ہوگیا وہ رہبرِ اُمت جو کفر کی ظلمت سے تھا اک عبدِ کمینہ اے صل علیٰ آپ کا فیضانِ رسالت جو مثل حجر تھا وہ ہوا رشکِ نگینہ جو ڈوبنے والا تھا ضلالت کے بھنور میں اب رہبرِ اُمت ہے وہ گمراہ سفینہ جو کفر کی ظلمات سے تھا ننگِ خلائق ہے نورِ ولایت سے منوّر وہی سینہ اخترؔ کی زباں اور شرفِ نعتِ محمدا اللہ کا احسان ہے بے خون و پسینہ

32:43) پھر مصطفی بھائی نے حضر ت تائب صاحب کے اشعار پڑھ کر سنائے۔۔

46:39) اشعار کے بعد کچھ دیر حضرت عارف باللہ حضرت اقدس فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم نے بیان فرمایا۔۔ عاشقوں کی قوم۔۔

47:29) مجھے کچھ خبر نہیں تھی ترا درد کیا ہے یا رب؟ ترے عاشقوں سے سیکھا ترے سنگِ در پہ مرنا اور کسی اہلِ دل کی صحبت جو ملی کسی کو اخترؔ اسے گیا ہے جینا اسے آگیا ہے مرنا اور پوچھے نہ کوئی اُف دلِ برباد کا عالَم جیسے کہ جہنم میں ہو جلاّد کا عالَم واللہ کہوں کیا دلِ آباد کا عالَم جنت کی بھی جنت ہے تری یاد کا عالَم

48:44) صبر سے صدیقیت کی سرحد ملتی ہے حضرت بابا بایزید بساطمی رحمہ اللہ کا واقعہ کہ بدکار عورت نے راکھ پھینک دی۔۔

50:29) پھر کچھ دیر حضرت مولانا آصف صاحب باٹلی والے جو شیخ العرب والعجم حضرت والا مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ کے محبوب خلیفہ ہیں اُن کا بیان ہوا۔۔۔

01:08:35) پھر حضرت مولانا ایوب سورتی صاحب دامت برکاتہم کا بیان ہوا۔۔۔

01:42:30) آخر میں دعا۔۔

دورانیہ 1:41:34

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries