مجلس  ۲۱ ۔ اکتوبر      ۲ ۲۰۲ءعشاء  :محبوب الٰہی بنانے والی دعا !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

04:05) تکبر کیا ہے؟

04:16) اکڑ جھکنے نہیں دیتی ۔۔

06:10) اللہ تعالی کا ایک نام ہے صمد اور صمد کا مطلب کہ جو ہر چیز سے بے نیاز ہے۔۔

06:49) حق بات نہ ماننا۔۔تکبر۔۔۔

06:56) ریا کے بارے میں شرک خفی کس طرح داخل ہوجائے گا۔۔

09:17) بادشاہ عبدالرحمن کے بیٹے کا واقعہ جو جہاد پر گئے تھے واقعہ۔۔۔

11:50) شیخ سفر پر ہے تو ایک بار بھی نہیں پوچھا نہ میسجز شیخ مصروف ہے تو اور ساتھی جو ساتھ ہوتے ہیں اُن سے رابطہ کیا اور یہاں تو ہر وقت کہتے ہیں کہ میری جان حاضر ہے یہ صرف دعوی ہے۔۔

17:07) ڈاکٹر کی ہر بات مانتے ہیں لیکن ایمان بچانے کے لیے آپ شیخ کی بات کیوں نہیں مانتے۔۔۔

21:02) بڑی موچھ پر وعید۔۔

22:34) اسبال ازار پر وعید۔

24:48) اصلی بزرگ کون ہے؟

24:56) ڈاڑھی کیسی ہونی چاہیے؟

32:26) غیبت اور ان گناہوں سے بچنا ہے تو تکبر کا علاج کرالیں۔۔

33:28) حسبِ معمول تعلیم۔۔

42:25) محبوبِ الٰہی بنانے والی دُعا تو متطھرین باب تفعل سے نازل ہونے کا یہ علم عظیم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا لیکن اس میں ایک علمِ عظیم اور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ توابین اور متطھرین کو محبوب رکھتے ہیں تو آپ کی رحمت متقاضی ہوئی کہ وضو کے آخر میں یہ دُعا اپنی اُمت کو سکھادی؛ {اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین} دیکھئے جو اسلوب نزول قرآن پاک کا ہے اسی اسلوب پر یہ دُعا سکھائی گئی اور قرآن پاک میں جو دو لفظ توابین اور متطھرین نازل ہوئے وہ اس دُعا میں آگئے۔

اس وقت قرآن پاک کی آیت اور ایک حدیث کا ربط پیش کررہا ہوں اور یہ بھی اللہ کا انعام ہے ورنہ قرآن پاک کی آیت کہیں ہے اور حدیث پاک کہیں ہے۔ اگر اللہ کا کرم نہ ہو تو ذہن اس طرف نہیں جاسکتا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان عظیم ہے، شفقت اور رحمت کا اُمت پر نزول ہے کہ وضو کے آخر میں یہ دُعا سکھادی کہ تم اب اپنے ربّ کے پاس کھڑے ہونے والے ہو اے میری اُمت کے لوگو! نماز میں جب تم اپنے مولیٰ کے سامنے کھڑے ہو تو یہ دُعا پڑھ کر حاضری دو تاکہ حالتِ محبوبیت میں تمہاری پیشی ہو اور میری اُمت کا کوئی فرد اس دُعا کی بدولت اس دُعا کی برکت سے محروم نہ رہے، نہ توابیت سے محروم رہے نہ متطہریت سے محروم رہے۔ دونوں نعمتوں سے مالامال ہوجائے۔

49:29) اسی لیے مُتَطَہِّرِینْ بابِ تَفَعلُّ سے نازل کیا۔ اگرچہ یہ جملہ خبریہ ہے کہ جو گناہوں کو چھو ڑنے میں تکلیف اُٹھاتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کو محبوب بنا لیتا ہے لیکن اس میں جملہ انشائیہ ہے کہ اگر تم اﷲ کا محبوب بننا چاہتے ہو تو گناہوں کو چھوڑنے کی تکلیف برداشت کرو۔ اس جملہ خبریہ میں یہ انشائیہ ہے ورنہ بابِ تفعُّل کے بجائے کوئی دوسرا صیغہ بھی نازل کر سکتے تھے۔یُحِبُّ الطَّاھِرِیْنَ فرما دیتے کہ میں پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہوں لیکن نہیں تَطَہُّر بابِتَفَعلُّ سے نازل کیا اور بابِ تفعل میں تکلف کی خاصیت ہے۔ اﷲ اکبر! کیا عظیم الشان کلام ہے جو اﷲ کا کلام ہونے کی دلیل ہے کیو نکہ وہ اپنے بندوں کی طبیعت کو جانتے ہیں اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ بھلا وہ نہ جانے جس نے پیدا کیا۔ وہ جا نتے تھے

کہ گناہوں سے بچنے میں بندوں کو تکلیف ہوگی اس لیے تُطَھُّر بابِتَفَعلُّ سے نازل کیا کہ پرانے پاپ چھوڑنے کو دل نہیں چاہتالیکن مُتَطَہِّرِیْن وہ بندے ہیں جو اﷲ کو راضی کرنے کے لیے گناہ کو چھوڑ کر دل کا خون کر لیتے ہیں اگرچہ گناہوں کی ان کو چاٹ پڑی ہو ئی ہے، بدمعاشیوں کی عادت پڑی ہوئی ہے لیکن پرانی سے پرانی عادت کو چھو ڑنے کے لیے مشقتیں اٹھا تے ہیں تکالیف برداشت کرتے ہیں۔ جس کو گناہوں کیعادت پڑجاتی ہے اس سے پو چھو کہ گناہ چھوڑنے میں کتنی تکلیف ہوتی ہے، دل کے ٹکڑ ے ہو جاتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ دل کیا چیز ہے،بندہ ہے کیونکہ بندے کا ہر جز بندہ ہے جب ہم اﷲ کے غلام ہیں تو ہمارا ہر جز اﷲ کا غلام ہے پھر دل اﷲ کی غلامی سے کیسے نکل سکتا ہے لہٰذا دل کو بہ تکلف زبردستی اﷲ کی فرماں بر داری پر مجبور کرتے ہیں۔ لہٰذا بابِ تفعل نازل کر کے اﷲ تعالیٰ بہ تکلف گناہوں سے بچنے کی تکلیف اُٹھانے والوں کی تعریف فرما رہے ہیں ۔

(احقر مر تب عرض کر تا ہے کہ حضرت والا کے خلیفہ مولانا یو نس پٹیل صاحب جو افریقہ سے آئے تھے اس تقریرکے وقت موجو د تھے، انہوں نے عرض کیا کہ متطہرین باب تفعل سے نازل ہونے کا یہ راز نہ انہوں نے کسی عالم سے سنا نہ کسی کتاب میں پڑھا ۔) 53:47) دوسرا نکتہ اس میں یہ ہے کہ وضو کے بعد کی جو مسنون دعا ہے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَہِّرِیْنَکہ اے اﷲ! مجھے تو بہ کرنے والوں میں بنا دیجئے اور گناہوں کی نجاست سے پاک رہنے کی تکلیف اُٹھانے والوں اور گناہوں سے بچنے اور گناہوں کو چھوڑنے کی تکلیف برداشت کرنے والوں میں مجھے بنا دیجئے ۔ یہی طہارتِ حقیقیہ ہے۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ فرما تے ہیںکہ طہارت کی حقیقت ہے طَہَارَۃُ الْاَسْرَارِ مِنْ دَنَسِ الْاَغْیَارِ یعنی غیر اﷲ کے میل کچیل سے دل کا پا ک ہوجانا۔ جب کسی حسین یا حسینہ، نمکین یا نمکینہ، دمکین یا دمکینہ، رنگین یا رنگینہ، معشوق یا معشوقہ کی محبت سے دل پاک ہوجائے تو سمجھ لو طہار تِ با طنی حاصل ہو گئی ۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ وضو کے بعد جو یہ دعا تعلیم فرمائی گئی اس میں یہ حکمت ہے کہ بندہ اﷲ تعالیٰ سے درخواست کر رہا ہے کہ اے اﷲ!وضو کر کے میں نے جسم تو دھو لیا، ظاہری طہار ت تو حاصل کرلی یہی میرے اختیار میں تھا لیکن دل تک میرا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا آپ اپنی قدرتِ قاہرہ سے میرے دل کو پاک کر دیجئے یعنی گناہوں کے ذوق، گناہوں کے شوق، گناہوں کے طوق یعنی طوقِ لعنت سے مجھے پاک کردیجئے۔ اور ایک نکتہ یہ ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم کی رحمت نے جب دیکھا کہ اﷲ تعالیٰ تَوَّابِیْنَ کو اور مُتَطَہِّرِیْنَ کو محبوب رکھتے ہیں تو اُمت کو یہ دعا سکھا دی کہ اے اﷲ! مجھے تو بہ کرنے والوں میں اور بہ تکلف گناہوں کو چھوڑنے کی تکلیف اُٹھانے والوں میں اور غیر اﷲ کی محبت سے دل کو پاک کرنے کی مشقت جھیلنے والوں میں بنا دیجئے تا کہ اس دعا کی برکت سے امت کو مذکورہ طہارتِ باطنی کی تو فیق ہو جائے اور اُمت محبوب ہو جائے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries